خدمت خلق کا کام صرف ہماری معاشرتی ذمہ داری نہیں بلکہ ہماری دینی ذمہ داری بھی ہے،اسلام کا حکم ہے کہ تم خدمت خلق کے کام کرو
شکریہ ادا کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے ، اسلام کا ہمیں یہ حکم ہے کہ جو لوگوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہو سکتا
بانی اسلام ﷺ نے بتایاہے کہ ملک کی محبت ایمان کا حصہ ہے،محبت تو یہ تقاضا کرتی ہے کہ جس سے محبت کی جائے اس کیلئے پھر قربانی بھی کی جائے
مسجد کا مقصد یہ ہے کہ جہاں تم ایک خدا کی عبادت کرتے ہو، وہاں اس کی مخلوق کے حق بھی ادا کرنے کی کوشش کرو، اگر مخلوق کے حق ادا نہیں ہو رہے تو پھر عبادتیں بے فائدہ ہیں
جب مسجد بنتی ہے تواس کے ساتھ ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ ہم نے دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کی بھی حفاظت کرنی ہے، پس یہ سوچ ایک حقیقی مسلمان کی ہونی چاہئے
آجکل صلح کی بہت زیادہ ضرورت ہے ، امن کی بہت زیادہ ضرورت ہے، جنگوں سے بچنے کی ضرورت ہےآج کل دنیا میں جو جنگیں چل رہی ہیں وہ بڑے خوفناک نتائج پیدا کر سکتی ہیں ،حکومت کے نمائندگان بھی یہاں بیٹھے ہیں ان کو بھی مَیں کہتا ہوں کہ اس طرف توجہ کریں کہ امن اور سلامتی کی فضا دنیا میں قائم کریں تاکہ دنیا عالمگیر جنگ سے بچ سکے
مسجد نور (Frankenthal)کی افتتاحی تقریب سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز خطاب
ضحضور کو دیکھتے ہی مَیںنے ایک نور دیکھا جو حضور کے وجود سے ظاہر ہو رہاتھا (ایک غیر جماعت بزنس مینKenan Yilmazصاحب)
ض مَیں سمجھتی ہوں خلیفۃ المسیح ہمارے پوپ سے بھی بہتر انسان ہیں
باقی مسلمانوں میں ایسے خلیفہ ہوتے تو ان کے اندر بھی ایک اچھا نظام قائم ہو جاتا (ایک سوشل ورکرMs.Ruth Rosinusصاحب )
ضجاتے ہوئے مَیں نے حضرت صاحب کے چہرے کی طرف دیکھا تو آپ کے چہرے سے نور ہی نور نظر آرہاتھا
اور آپ کو دیکھنے کے بعد میرے اندر خوشی اور مسرت پیدا ہو گئی جس سے ساری تکالیف اور دکھ دُور ہو گئے (ایک مہمان Istimirصاحب )
ضخلیفہ اپنی شخصیت کے اعتبار سے بہت عظیم اور زبردست ہیں ایک رعب ہے جو آپ میں نظر آتا ہے (ایک مہمان Lukas Kalnikصاحب )
ضیہ بات حیرت انگیز ہے کہ خلیفۃ المسیح اس چھوٹے سے شہر میں تشریف لائے، پوپ شاید ایسے چھوٹے شہر میں کبھی نہ آتے ،
سب نے بڑے انہماک سے آپ کا خطاب سنا ، ایک بہت ہی عمدہ شخصیت ہیں اور ایک عجیب پُر کشش شخصیت ہیں (ایک مہمان خاتون )
ضآپ پر ذمہ داری کا بہت بڑا بوجھ ہے آپ ایک بہت ہی معزز شخصیت اور بہت باوقار ہیں،آپ کو دیکھ کر سکون ملتا ہے اور جب بھی آپ کسی ہال میں داخل ہوتے ہیں
تو سارا ہال پر سکون ہو جاتا ہے،جب آپ سے ملتے ہیں تو ہم اپنے اندر سکون محسوس کرتے ہیں، ماحول خوشگوار ہو جاتا ہے(ایک مہمانDr. Mehmet Yelsinصاحبہ)
مسجد نور کی افتتاحی تقریب میں شامل ہونے والے غیر از جماعت مہمانان کرام کے ایمان افروز تاثرات
(مورخہ8؍ ستمبر2023ء بروز جمعۃ المبارک)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صبح 5 بجکر 50 منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
مسجد بیت السبوح، فرینکفرٹ میں نماز جمعہ
آج جمعۃ المبارک کا دن تھا، نماز جمعہ کی ادائیگی کا انتظام بیت السبوح میں ہی کیا گیا تھا۔ محدود جگہ کے پیش نظر انتظامیہ کی طرف سے فرینکفرٹ اور اردگرد کی قریبی جماعتوں کو بیت السبوح آنے کی ہدایت کی گئی تھی۔دوپہر 2 بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تشریف لا کر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔(سیّدناحضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطبہ جمعہ ہفت روزہ اخبار بدر اردو کے 28؍ستمبر 2023ء کے شمارہ میں شائع ہو چکا ہے)
خطبہ جمعہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع کر کے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
فیملی ملاقاتیں
پروگرام کے مطابق6 بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے دفتر تشریف لائے اور ملاقاتیں شروع ہوئیں۔آج شام کے اس سیشن میں40؍فیملیز کے149؍افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ملاقات کرنے والی یہ فیملیز جرمنی کی درج ذیل 18جماعتوں سے آئی تھیں:
Köln
Nürnberg
Hanau
Esslingen
Usingen
Rüsselsheim
Berlin
Jesteburg
Hamburg
Recklinghausen
Dortmund
Marburg
Koblenz
Schönau
Mainz
Eppelheim
Wabern
Raunheim
Ludwigshafen
بعض احباب اور فیملیز بڑے لمبے سفر طے کر کے آئی تھیں۔Jesteburg سے آنے والے 462 کلومیٹر، ہمبرگ سے آنےوالے 500 کلومیٹر اور Berlin سے آنے والے احباب اور فیملز550 کلومیٹر کا طویل سفر طے کرکے پہنچی تھیں۔
علاوہ ازیں آج ملاقات کرنے والوں میں درج ذیل مختلف ممالک سے آنے والے احباب اور فیملیز بھی شامل تھیں۔غانا، بینن، Sao Tome، مالی، آسٹریلیا، قزاقستان، تاجکستان، ابوظہبی، پاکستان، ایران، ملائیشیا، سیرالیون، گیمبیا اور تنزانیہ۔
آج ملاقات کرنے والوں میں سے ہر ایک نے اپنے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔
ملاقات کرنے والے سبھی احباب اور فیملیز نے جہاں اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا وہاں ہر ایک ان بابرکت اور مبارک لمحات سے بے انتہا برکتیں سمیٹتے ہوئے باہر آیا۔ بیماروں نے اپنی صحتیابی کیلئے دعائیں حاصل کیں۔مختلف پریشانیوں، تکلیفوں اور مسائل میں گھرے ہوئے لوگوں نے اپنی تکالیف دُور ہونے کیلئے دعا کی درخواستیں کیں اور تسکین قلب پاکر مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ باہر نکلے۔ طلبا اور طالبات نے اپنی تعلیم اور امتحانات میں کامیابی کے حصول کیلئے اپنے پیارے آقا سے دعائیں حاصل کیں۔ غرض ہر ایک نے اپنے محبوب آقا کی دعائوں سے حصّہ پایا۔ راحت و سکون اور اطمینان قلب حاصل ہوا۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام8 بجکر 40منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں9بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تشریف لا کر نماز مغر ب و عشاء جمع کر کے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضو ر انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
…٭…٭…٭…
(مورخہ 9؍ستمبر2023ء بروز ہفتہ)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صبح 5 بجکر50منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مرکزی دفاتر، اسی طرح مختلف ممالک کی جماعتوں سے موصول ہونے والے خطوط، رپورٹس اور دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی اور ہدایات سے نوازا۔ حضور انور کی مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
فیملی ملاقاتیں
پروگرام کے مطابق 11 بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ آج صبح کے اس سیشن میں 38 فیملیز کے143؍افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔ملاقات کرنے والی یہ فیملیز جرمنی کی مختلف13 جماعتوں سے آئی تھیں اور ان میں سے بعض بڑے لمبے سفر طے کر کے اپنے آقا سے ملاقات کے کیلئے پہنچی تھیں۔
Köln سے آنے والی190کلومیٹر، Stuttgart سے آنے والی220کلومیٹر جب کہ Friedberg سے آنے والی 280کلومیٹر اور میونخ سے آنے والی قریباً 400کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پہنچی تھیں۔
جرمنی کی ان جماعتوں کے علاوہ پاکستان، بینن، مالی اور برکینافاسو سے آئےہوئے احباب اور فیملیز نے بھی اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا۔ ان سبھی فیلیز اور احباب نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائی۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرا م دو پہر 1بجکر30 منٹ تک جاری رہا۔بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
مسجدنور Frankenthalکا افتتاح
آج جماعت Frankenthal میں نئی تعمیر ہونے والی ’’مسجدنور‘‘ کے افتتاح کا پروگرام تھا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ 4 بجکر 15 منٹ پر اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اور دعا کروائی اور بعد ازاں Frankenthalکیلئے روانگی ہوئی۔ بیت السبوح فرنکفرٹ سے اس شہر کا فاصلہ 95کلومیٹر ہے۔ قریباً50منٹ کے سفر کے بعد 5 بجکر 5 منٹ پر جب شہر کی حدود میں داخل ہوئے تو علاقہ کی مقامی پولیس نے قافلہ کوescort کیا۔
آج کا یہ انتہائی مبارک دن احباب جماعت Frankenthal کیلئے بہت خوشیوں اور سعادتوں سے معمور دن تھا۔ ان کے شہر میں دوسری بار حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کے مبارک قدم پڑے تھے اور یوں ان کے شہر کی سر زمین دوسری بار حضور انور کے مبارک وجود سے فیضیاب ہوئی۔ قبل ازیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 30؍ اگست 2016ء کو یہاں تشریف لا کر اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔
جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گاڑی سے باہر تشریف لائے تو احباب جماعت نے انتہائی والہانہ انداز میں اپنے پیارے آقا کو خوش آمدید کہا۔ احباب نعرے بلند کر رہے تھے۔ بچے اور بچیاں گروپس کی صورت میں دعائیہ نظمیں اور خیر مقدمی گیت پیش کر رہی تھیں۔ ہر کوئی اپنا ہاتھ ہلاتے ہوئے خوشی کا اظہار کر ر رہا تھا۔ خواتین شرف زیارت سے فیضیاب ہو رہی تھیں۔ حضور انور نے اپنا ہاتھ بلند کر کے سب کو السلام علیکم کہا۔
اس موقع پر صدر جماعت Frankenthal فراز احمد کامران صاحب، ریجنل امیر طارق سہیل صاحب، ریجنل مربی مصور شمس صاحب اور مقامی مربی سلمان اختر صاحب نے حضور انور کو خوش آمدید کہا۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد کی بیرونی دیوار میں نصب تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی۔
اسکے بعد حضور انور مسجد کے مردانہ حصّہ میں تشریف لے آئے اور نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائی۔ جسکے ساتھ ہی اس مسجد کا باقاعدہ افتتاح عمل میں آیا۔
نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کچھ دیر کیلئے احباب میں رونق افروز رہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی تجنید کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ صدر صاحب جماعت نے بتایا کہ ہماری تجنید337؍ کے قریب ہوچکی ہے۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ نئے لوگ کون کون سے آئے ہیں؟ اس پر ایک دوست نے بتایا کہ وہ سات ماہ قبل شاہ پور سے آئے ہیں۔ ایک نوجوان نے عرض کیا کہ وہ کنری (سندھ) کے پاس محمود آباد سے آئے ہیں۔ یہاں ابھی کیس پاس نہیں ہوا۔ انہوں نے حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ وہ جمال پور سندھ سے آئے ہیں۔
ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ ربوہ سے آیا ہے۔ ساری فیملی آئی ہے اس موقع پر اسکے والد صاحب کھڑے ہوئے اور اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ میں مرزا نصیر احمد کاکا ہوں اور یہ نوجوان میرا بیٹا ہے۔ اس پر حضور انور نے ازراہ شفقت فرمایا ’’کاکا اتنا بوڑھا ہو گیا ہے!‘‘
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز خواتین کے ہال میں تشریف لے آئے جہاں خواتین شرف زیارت سے فیضیاب ہوئیں اور بچیوں نے دعائیہ نظمیں پیش کیں۔ حضور انور نے بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
اسکے بعدحضور انور نے ملٹی پرپز ہال کا معائنہ فرمایا۔ ایک طرف بچے ایک قطار میں کھڑے ہو چکے تھے۔ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت ان تمام بچوں کو بھی چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
بعد ازاں حضور انور نے مسجد کے بیرونی صحن میں اخروٹ کا پودا لگایا۔ علاقہ کے میئر اور اس کے چیف سیکرٹری دونوں نے مل کر بھی ایک پودا لگایا۔
اسکے بعد لوکل مجلس عاملہ کے ممبران اور مسجد کی تعمیر میں وقار عمل کرنے والے احباب نے بھی حضور انور کے ساتھ گروپ فوٹو بنوانے کی سعادت پائی۔
مقامی جماعت نے ایک کیک تیار کیا ہوا تھا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت کیک کے مختلف حصے کیے۔
مسجد نور کی افتتاحی تقریب
’’مسجد نور‘‘ کے افتتاح کے حوالہ سے ایک تقریب کا اہتمام مسجد سے چند کلو میٹر پر واقع ایک ہال میں کیا گیا تھا۔ یہ ہال مختلف فنکشنز اور تقریبات کیلئے استعمال ہوتا ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد سے 6 بجکر 12 منٹ پر روانہ ہو کر 6 بجکر 22 منٹ پر اس ہال میں تشریف لے آئے۔
حضور انور کی آمد سے قبل اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمان اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ آج کی اس تقریب میں125مہمان شامل تھے۔ جن میں ممبر پارلیمنٹ، میئر، مقامی اور صوبائی سیاستدان مختلف حکومتی محکموں سے تعلق رکھنے والے افراد اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو حافظ ثاقب محمود صاحب نے کی اور اس کا جرمن زبان میں ترجمہ سفیر الحق رانا صاحب نے پیش کیا۔اسکے بعد مکرم دائود مجوکہ صاحب نیشنل سیکرٹری امور خارجہ و پریس سیکرٹری نے نیشنل امیر صاحب کی نمائندگی میں تعارفی ایڈریس پیش کیا۔
موصوف نے بتایا کہ اس شہر کی آبادی48 ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور تاریخ میں اس شہر کا پہلی بار ذکر 772ء میں ملتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں یہ شہر90 فیصد تباہ ہوگیا تھا۔بعد میں دوبارہ آباد ہوا۔
جماعت احمدیہ کا آغاز اس شہر میں اس طرح ہوا کہ سال 1984ء میں یہاں پاکستان سےتین احمدی آکر آباد ہوئے، جنہیں پاکستان میں مظالم کی وجہ سے ہجرت کرنا پڑی۔ شروع میں احمدی چھوٹے کمروں میں اپنے پروگراموں کیلئے اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ پھر سال 2000ء میں ایک نماز سینٹر کرائے پر لیا گیا۔
مسجد کی تعمیر کیلئے جماعت کو کافی مراحل سے گزرنا پڑا۔ بالآخر سال2015ء میں تعمیر کی اجازت ملی، 30؍ اگست 2016ء کو حضور انور نے مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ فروری2022ء میں اس مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔
اکثر اوقات مسجد کی تعمیر کی وجہ سے ہمسایوں کی طرف سے مخالفت ہوتی ہے۔ لیکن Frankenthal میں ایسی مخالفت کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ ایک ہمسائے نے بتایا کہ جب اُسے مسجد کی تعمیر کے بارہ میں معلوم ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا گھر فروخت کردے گا لیکن جب جماعت کے احباب سے واسطہ پڑا تو کافی مثبت اثر ہوا اور اُس نے اپنا ارادہ تبدیل کرلیا۔
مسجد کے اس قطعہ زمین کا رقبہ2113 مربع میٹر ہے۔ یہ پلاٹ نومبر2014ء میں خریدا گیا تھا۔ مردوں اور عورتوں کیلئے نماز کے ہالز کے علاوہ ایک ملٹی پرپز ہال بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کا مجموعی رقبہ207 مربع میٹر ہے۔مینارہ کی اونچائی 12 میٹر اور گنبد کا قطر 6میٹر ہے۔ اس مسجد سے ملحقہ ایک مربی ہائوس بھی تعمیر کیا گیا ہے۔
اس کے بعد Alt صاحب جو کہ State Secretaryہیں نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا : میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے آج مسجد کے افتتاح کی تقریب پر مدعو کیا۔ ایک مشہور مصنف نے کہا ہے کہ ’’ہر چیز کے آغاز میں ایک جادُو ہوا کرتاہے۔‘‘ یہ جادو تو آپ کی نئی مسجد میں پچھلے سال سے ہی اثر کر رہا ہے اور ابھی تک محسوس ہوتا ہے۔ آپ نے اس مسجد کی تعمیر کے ذریعہ نہ صرف ایک پُر امن رہن سہن کی اہم بنیاد رکھی ہے بلکہ آپ لوگوں نے ایک اَور قدم آگے بڑھایا اور آج Frankenthal میں پہلی لکڑی کی بنی ہوئی مسجد موجود ہے۔ یہ ایک بہت بڑی ترقی ہے اور یہ بات اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ آپ بطور مذہبی جماعت آئندہ نسلوں کے بارہ میں بھی سوچ و بچار کرتے ہیں۔
اس کے بعد موصوف نے کہا کہ اِدھر کی صوبائی حکومت کیلئے یہ بات یقینی ہے کہ آپ بطور مسلمان ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ اسکا یہ بھی مطلب ہے کہ ہم اسلامی فرقوں کے مسائل کو بھی اسی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں جیسے باقی مذہبی فرقوں کے مسائل ہیں۔ آج ہم یہاں اس لئے آئے ہیں کہ ہم اس مسجد کے افتتاح کو اچھی طرح منائیں۔ اس کیلئے میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں اور جماعت Frakenthal کو اچھے مستقبل کی دعا دیتا ہوں۔
بعد ازاںProf. Grau صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کیا جو جرمن پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ موصوف نے کہا : میں حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کو اور دیگر مہمانوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے اِس افتتاحی تقریب میں دعوت دی اور مجھے یہ موقع دیا کہ میں آپ کے خلیفہ کے سامنے کچھ اظہارِ خیال کرسکوں۔ میں خوش ہوں کہ آپ Frankenthalمیں ایک مسجد تعمیر کر کے اب اسکا افتتاح کر رہے ہیں اور میں آغاز میں آپ کی طرف سے معلومات مہیا کرنے کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتاہوں کیونکہ اس میں آپ نے خاص طور پر رواداری اور تعلیم کی اہمیت کے بارہ میں بتایا۔
اس کے بعد موصوف نے کہا : اسلام ہماری جرمن ثقافت کا حصہ ہے۔ اسی طرح دوسرے مذاہب بھی جو اپنے دین پر امن کے ساتھ چلتے ہیں۔ آپ کا دعوت نامہ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے کہ ’’ حقیقی مساجد بنائی جاتی ہیں تا کہ مختلف مذاہب اور فرقوں کے لوگوں میں امن قائم ہو۔‘‘ یہ الفاظ آپ کے خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد کے ہیں جو کہ ہر قسم کے مذہبی مواقع پر لاگو ہونے چاہئیں۔ دوسری طرف دہشت گردوں کے وہ حملے ہیں جو آپ کی مساجد پر ہو رہے ہیں۔ دورانِ سال جنوری تا جولائی کے عرصہ میں گیارہ مساجد پر حملے ہوچکے ہیں۔
آپ کی مسجد کا بہت خوبصورت اور روحانی نام ہے یعنی نوراور یہ مسجد لکڑی سے بنی ہے۔ اس طرح ہر لحاظ سے ترقی کی حامل ہے۔ آپ کے مطابق آپ کی یہ مسجد ملاقات اور آپس میں گفتگو کا مقام ہے اور اس طرح جمہوریت کو جگہ دیتی ہے۔ یہ باتیں قابلِ حمایت ہیں اور ہمارے جمہوری معاشرے کے عین مطابق ہیں۔ آپ کی جماعت کا نہ تو سیاست سے اور نہ کسی خاص نسل اور قوم سے تعلق ہے بلکہ یہ عالمی جماعت ہے۔ مجھے خوشی ہوئی یہ سن کر کہ آپ کو کھلے دل سے اس شہر نے جگہ دی اور اُس ہمسائے کا بھی واقعہ میرے دل میں رچ گیا ہے کہ جس نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ وہ کہیں اور منتقل ہوجائے لیکن پھر آپ کے بارہ میں جان کر اس نے اُدھر ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔
آخر پر موصوف نے کہا: میری تمنا ہے کہ آپ کی جماعت آگے بھی فعال ہو کر سماجی اور معاشرتی زندگی میں حصہ لیتی رہے گی اور یہ کہ آپ کی یہ نئی مسجد آپ کی جماعت کو مزید مضبوطی اور تقویت بخشے گی اور آپ اپنے مثبت اہداف کو حاصل کرتے ہوئے ہمارے ملک اور ہمارے علاقے کے معاشرے میں امن پھیلانے والے ہوں گے۔
اس کے بعد Frankenthal شہر کے میئرMartin Hebich صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ مئیر صاحب نے کہا: حقیقی مساجد بنائی جاتی ہیں تا کہ مختلف مذاہب اور فرقوں کے لوگوں میں امن کو فروغ دیا جائے۔ یہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ ہیں۔ ہم خوش ہیں کہ آپ نے اس مقصد کیلئے Frankenthal کا انتخاب کیا ہے۔ مجھے سنگِ بنیاد کی تقریب جو2016ء میں ہوئی اچھی طرح یاد ہے۔ اس وقت سے جماعت Frankenthal نے بڑی محنت سے اس مسجد کی تعمیر کا کام سر انجام دیا۔
اس مسجد کا نام نور رکھا ہے۔ ایک نور جو40 سال پہلے ہی یہاں پر بطور شمع روشن ہونا شروع ہوا تھااور اب بھی اس کی شعاعیں پھیل رہی ہیں۔ 1984ء میں جماعت Frankenthalکے دس افراد تھے۔ تب سے یہ جماعت بڑھتی چلی جا رہی ہے اور آج اسکے افراد کی تعداد تقریباً 340 ہو چکی ہے۔ یہ مسجد وہ مقام ہے جہاں پر آپ اپنی عبادات بجالاتے ہیں۔
پھر موصوف نے کہا: امن کے ساتھ رہنا بقا کیلئے نہایت ضروری ہے۔ جس طرح ہمیں آج دنیا کے حالات سے معلوم ہوتا ہے۔ ان گنت لوگوں کو آج جنگ و جدل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بات قابلِ شرم ہے کہ آج سن 2023ء میں بھی بعض انسان ایسے ہیں جن کو اپنے مذہب کی وجہ سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جماعت احمدیہ کو بھی متعدد بار پاکستان اور دوسرے ممالک میں اس مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس سیاق و سباق میں مَیں ضروری سمجھتا ہوں کہ اویغور کا بھی ذکر کروں جنہیں چین میں مخالفت کا سامنا ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں عیسائیوں کو بھی مخالفت اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ہمیں ان یہودیوں کو بھی نہیں بھولنا چاہئے جنہیں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں جماعت احمدیہ کے ساتھ یک جہت ہو کر اس مخالفت اور ظلم کے خلاف اقدامات اُٹھاتے رہیں۔ یہاں بھی ہم جماعت Frankenthal کے ساتھ سالوں سے امن میں اکٹھے رہ رہے ہیں اور جماعت کا نعرہ بھی یہی ہے کہ محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں۔ آپ اپنے نمونہ کے ساتھ دکھا رہے ہیں کہ کس طرح آپس میں پر امن رہن سہن ممکن ہے۔
اسکے بعد میئر صاحب نے کہا کہ جو کوئی بھی عمارت بناتا ہے،وہ مستقل طور پر رہنا بھی چاہتا ہے۔ یہ قول میں نے سیاست دان Ignatz Bubisکا اِس مسجد کے سنگِ بنیاد پرکوٹ کیا تھا اور میں مشکور ہوں کہ آپ کی جماعت اب 40 سال سے ہمارے شہر کا حصہ ہے۔ گو ہمارا معاشرہ مختلف ثقافتوں،مذاہب اور زبانوں پر مشتمل ہے۔ لیکن پھر بھی ہم بطور مذہبی لوگ ایک ہی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ امن قائم کرنا۔ یہ ایسی تعلیمات ہیں جو ہمیں اسلام، عیسائیت اور یہودیت میں مشترکہ طور پر ملتی ہیں۔ بے شک ہم آج ایک دوسرے کی بات سنتے ہیں اور آپس کے تعلقات قائم ہیں۔ لیکن پھر بھی خاص طور پر آج کل کے حالات کے پیشِ نظر یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ پس ہم سب کی یہ معاشرتی ذمہ داری ہے کہ ہم مل کر نفرت کے خلاف اقدامات اُٹھائیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارا پُر امن رہن سہن مختلف اقوام یا تحفظات کی وجہ سے خراب ہو۔
آخر پر میئر صاحب نے کہا کہ محض بڑے اعمال ہی نہیں بلکہ چھوٹے کاموں کا بھی، جو دل سے کیے جائیں بڑا اثر ہوتا ہے۔ اور یہ تقریب بھی بڑی محبت سے منعقد کی گئی ہے۔ ہم بہت خوش ہیں کہ مسجد نور کا آج افتتاح ہو رہا ہے۔ میں سب کا مشکور ہوں جنہوں نے ہمارا آنا ممکن کیا۔ شکریہ۔
بعد ازاں شرجیل خالد صاحب مربی سلسلہ (شعبہ امورِ خارجیہ، جرمنی ) نے صوبہ رائن لینڈ ویسٹ فالیا (Rheinland Westphalia) کی وزیرِ اعلیٰ ’مالو درائیر‘ (Malu Dreyer) کی طرف سے موصولہ درج ذیل پیغام پڑھ کرسنایا۔
فرانکن تھال میں جماعت احمدیہ کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر میں آپ کو اور تمام جماعت احمدیہ کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
مجھے افسوس ہے کہ دیگر مصروفیات کی بنا پرمیں خود افتتاح کے پروگرام میں شامل نہیں ہو سکتی۔ میری دعا ہے کہ مسجد نور سب لوگوں کیلئے جو یہاں آئیں ایک ایسا مددگار مقام بنے جہاں سے وہ کچھ لے کر جائیں اور یہ مقام مفید ملاقاتوں کا باعث بنے۔
اس مبارک باد کے اظہار کے ساتھ میں جماعت احمدیہ کی ان کوششوں کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتی ہوں جو آپ باہمی تعاون کے فروغ کیلئے کررہے ہیں اور نفرت اور تشدّد کے خلاف کررہے ہیں۔ شجر کاری ہو یا شہر میں ہونے والا روایتی دوڑ کا مقابلہ یا دیگر مواقع ہوں، آپ کی جماعت کے ارکان ان تمام پروگراموں میں فعال ہوتے ہیں۔ اسی طرح سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہزاروں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، ان لوگوں اور تارکین وطن کی امداد کیلئے میں آپ کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔
جماعت احمدیہ جرمنی میں سو سال سے قائم ہے۔ اس جوبلی کے موقع پر بھی میں آپ کو دلی مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ اپنی طرف سے بھی اور اپنی صوبائی حکومت کے ممبران کی طرف سے بھی۔ مسجد کے افتتاح کی کس قدر اہمیت ہے اس کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ حضرت مرزا مسرور احمد بھی اس اہم پروگرام میں بنفس نفیس شامل ہو رہے ہیں۔ یہ تمام فرانکن تھال اور صوبہ رائن لینڈ ویسٹ فیلیا کے شہریوں کیلئے عزّت افزائی کا باعث ہے۔
رائن لینڈ ویسٹ فیلیا کی حکومت کا یہ مطمح نظر ہے کہ تمام مسلمان مرد و خواتین معاشرے میں یکساں شراکت کو فروغ دیں۔ دس سال سے اسلام راؤنڈ ٹیبل ایک ایسا فورم ہے جہاں جماعت احمدیہ کے ممبران بھی اپنا نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں۔ ہم کئی سالوں سے اس امر کیلئے کوشاں ہیں کہ مسلمان جماعتوں سے تعلق و رابطہ کو آئینی اقدار کی بنیاد پر اور مذہبی جماعتوں کے قانون کی رُو سے ایک قانونی بنیادفراہم کی جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ جماعت احمدیہ وہ مسلمان جماعت ہے جن کے ساتھ ہم اس ضمن میں مذاکرات کر رہے ہیں۔ آپ مذہب کی بنیاد پر اچھے باہمی تعلقات کے قیام کیلئے کوشاں ہیں اور یہ ممکن بنا رہے ہیں کہ ہم عصرِ حاضر کے ہمہ گیر بحرانوں اور تغیّرات کا بہترین طریق سے مقابلہ کر نے کے قابل ہو جائیں۔
میں جماعت فرانکن تھال اور تمام احمدیہ مسلم جماعت جرمنی کیلئے روشن مستقبل اور تمام ممبرز کیلئے اچھی صحت، خوشی اور فلاح کی خواہشمند ہوں۔
خطاب حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ
بعدازاں پروگرام کے مطابق حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حاضرین سے سات بجے خطاب فرمایا۔
تشہد و تعوذ کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:تمام معزز مہمانان، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! آج یہاں جو مختلف اظہار رائے کرنے والے تشریف لائے، ان میں سب سے پہلے داؤد مجوکہ صاحب ہیں، یہ ہمارے نیشنل امیر صاحب کے نمائندہ کے طور پر آج یہاں آئے ہیں۔ ہمارے یہاں کے امیر عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب مقامی جرمن ہیں، ان کی آج طبیعت ٹھیک نہیں تھی، اس لیے آج نہیں آ سکے۔ بہرحال آج ان کی نمائندگی میں کچھ اظہار خیال کیا۔ فرینکن تھال کی تاریخ کے بارہ میں بھی بتایا۔ خدمت خلق کے کام کے بارہ میں بھی بات ہوئی۔ خدمت خلق کا کام جو ہے یہ صرف ہماری معاشرتی ذمہ داری نہیں بلکہ ہماری دینی ذمہ داری بھی ہے۔ اسلام کا حکم ہے کہ تم خدمت خلق کے کام کرو، محروموں، مسکینوں، مزدوروں، ضرورت مندوں کی خدمت کرو۔ شہر کے لوگوں کی خدمت کرو۔ اگر تم یہ کروگے تو پھر تمہاری عبادت کا معیار بھی ایسا ہو گا جو تمہارے رب کو پسند ہو گا اور خدا تمہاری ایسی عبادتوں کو قبول کرے گا۔ قرآن کریم میں یہ ذکر ہےکہ اگر تم لوگوں کے حق ادا کرنے والے نہیں، ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنے والے نہیں، یتیموں کا خیال رکھنے والے نہیں، ہر قسم کی نیکی کی باتیں جس سے لوگوں کو فائدہ ہوسرانجام دینے والے نہیں تو پھر تمہاری عبادتیں بھی قبول نہیں ہوںگی تمہیں واپس کر دی جائیں گی۔ پس یہ ہماری تعلیم ہے۔ پس یہ تعلیم ہو اور دوسروں کو سمجھ آ جائے تو پھر ہو نہیں سکتا کہ ایسے شخص یا جماعت کی کوئی مخالفت کرنے والا ہو۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جیسا کہ داؤد صاحب نے ذکر کیا لگتا ہے کہ اس شہر کے لوگوں میں فطرتاً سعادت ہےکہ یہاں کے شہری بلاوجہ کی مخالفت کرنے والے نہیں ہیں۔ اگر کسی کے دل میں ایسا کوئی خیال آیا بھی تو بجائے اسکے وہ کہے کہ میں مخالفت کروں گا اور کورٹ میں مقدمہ لے کر جاؤں گا، جیسا کہ بعض جگہ پر ہمارے ساتھ ہوا کہ شہری مخالفت کی بنا پر مقدمات کورٹ میں لے کر گئے اور کورٹ میں پھر ہمارے حق میں فیصلے بھی ہوئے، اس ہمسایہ نے یہ کہا کہ میں نے سوچا تھا کہ میں یہاں سے گھر چھوڑ کر کہیں اور چلا جاؤں۔ بہرحال یہ شہر کے لوگوں کی جو سوچ ہے میں اس کیلئے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور کونسل کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے اس میں مددکی اور میئر صاحب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:یہ شکریہ ادا کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔ پس اسلام کا ہمیں یہ حکم ہے کہ جو لوگوں کا شکرگزار نہیں ہوتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکرگزار نہیں ہو سکتا۔ پس جب ہم شکریہ ادا کرتے ہیں تو یہ صرف رسمی شکریہ نہیں بلکہ اس لیے شکریہ ادا کرتے ہیں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں۔ یہی ایک حقیقی مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس طریق پر اپنا رویہ رکھے اور زندگی گزارے جس سے وہ اپنے پیدا کرنے والے کو بھی راضی کرنے والاہو۔ ہمسایوں کے حق کا اس حد تک ذکر ہے، کئی جگہ میں بیان کر چکا ہوں، آپ کو بھی میں بتا دوں۔ بانی اسلام حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم پر ہمسایوں کے اس قدر حقوق ہیں، جنہیں اگر تم ادا نہیں کرو گے تو گناہ گار ہوگے۔ صحابہؓ نے یہ اظہار کیا کہ آپ ﷺ نے ہمیں ہمسایوں کے حقوق کی اس قدر تلقین کی کہ ہمیں خیال آیا کہ ہمسائے ہمارے وراثت میں بھی حقدار نہ بن جائیں۔ قرآن کریم بھی یہی تعلیم دیتا ہےکہ تم اپنے ہمسایوں کا خیال رکھو، پھر ہمسایوں کی بڑی وسیع تعریف کی کہ تمہارے گھروں کے ساتھ رہنے والے تمہارے ہمسائے ہیں، تمہارے ساتھ سفر کرنے والے تمہارے ہمسائے ہیں، تمہارے ساتھ کام کرنے والے تمہارے ہمسائے ہیں، تمہارے ماتحت بھی اسی کیٹیگری میں آتے ہیں، اس لیے ان سب سے ایسا سلوک کرو جو ان کا حق ہے۔ گھروں میں بھی صرف ساتھ والا گھر ہمسایہ نہیں بلکہ چالیس گھروں تک تمہارے ہمسائے ہیں۔ جب اتنی وسعت ہمسائے کو دے دی جائے تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ فتنہ فساد پیدا ہو سکے۔ پس ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ جہاں بھی وہ جائے اس گہرائی میں جا کر اپنے ہمسائے کا حق ادا کرے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: منسٹری آف ہیلتھ کے سٹیٹ سیکرٹری آئے۔ انہوں نے بھی بڑی اچھی باتیں کی، میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جو باتیں انہوں نے بتائیں تو اصل اسلام تو یہ ہی ہے کہ ملک کیلئے ملک کے شہری کو پورا تعاون کرنا چاہئے اور ملک کی خاطر ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ ہمیں تو بانیٔ اسلام ﷺ نے یہ بتایا کہ ملک کی محبت تو ایمان کا حصہ ہے۔ پس ایمان کے لحاظ سے بھی یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے وطن سے محبت کریں۔ جب ملک سے محبت ہو گی تو پھر انسان اس کی خاطر ہر قربانی کیلئے بھی تیار ہوگا۔ اس لیے یہ ہو نہیں سکتا کہ جب مسلمان یہاں آئیں اور آباد ہوں اور وہ حقیقی مسلمان ہوں، یہاں آباد ہوں اور پھر اس ملک کا حصہ بن جائیں، اس ملک سے فائدہ اٹھانے والے ہوں، وہ صرف فائدہ اٹھاتے جائیں اور اس کی خاطر قربانی کرنے والے نہ ہوں۔ ایسا نہیں ہو سکتا، محبت تو یہ تقاضا کرتی ہے کہ جس سے محبت کی جائے اس کیلئے پھر قربانی بھی کی جائے اور یہ قربانی ہے جو ہمیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اس ملک کے قانون کی پابندی بھی کریں۔ ہر لحاظ سے ملکی قانون کی پابندی کریں اور ملک میں امن، محبت اور آشتی کی فضاقائم کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے ہمسایوں کے بھی حق ادا کریں اور اپنے قانون کے بھی حق ادا کریں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اسی طرح ممبر آف پارلیمنٹ نے امن کی بات کی۔ امن یقیناً اس زمانہ کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ ہم حکومت کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے ہمیں اجازت دی اور اجازت یقیناً یہ بات سوچ کر دی گئی ہو گی کہ ہم امن پسند اور امن کو پھیلانے والے لوگ ہیں۔ مسجد میں آنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ جہاں تم ایک خدا کی عبادت کرتے ہو، وہاں اس کی مخلوق کے حق بھی ادا کرنے کی کوشش کرو۔ جیسا کہ میں نے شروع میں ذکر کیا ہے کہ اگر مخلوق کے حق ادا نہیں ہو رہے تو پھر عبادتیں بے فائدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ مجھے تمہاری ایسی عبادتوں کی کوئی قدر نہیں،پس جب یہ سوچ ہو گی تو پھر ایسے شخص اور جماعت سے صلح، امن اور آشتی کا پیغام ہی ملے گا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مسجد کا نام مسجد نور رکھا گیا ہے۔ ممبر آف پارلیمنٹ نے بھی اس کا ذکر کیا۔ قرآن کریم بھی یہ کہتا ہےکہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے۔ دوسرا حکم ہمیں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات ہیں، وہ بھی ایک انسان کو جس کا مذہب سے تعلق ہے، اپنانی چاہئیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ کی صفت نور ہے تو پھر ہر سچے احمدی مسلمان کو اس نور کو آگے دنیا میں پھیلانا ہے اور وہ نور یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی عبادت کا حق ادا کیا جائے اور ا س کی تعلیم کے مطابق عمل کرتے ہوئے دنیا کو بتایا جائے کہ حقیقی اسلامی تعلیم کیا ہے اور مذہب کیا ہے۔ مذہب رنجشوں، چپقلشوں اور لڑائیوں کی تعلیم نہیں دیتا۔ مذہب تو امن، صلح، پیار، محبت اور آشتی کی تعلیم دیتا ہے۔ پس جب یہ سوچ ہو جائے تو پھر اس سوچ کے ساتھ سوائے امن کے اور کچھ نظر آ ہی نہیں سکتا۔ پس یہ ہے وہ سوچ اور اصول جس پر ہم چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ ہے وہ تعلیم جس پر ہم عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: لارڈ میئر صاحب نے بھی امن اور مسجد کے حوالہ سے بات کی۔ میں پہلے بھی یہ بات بتاتا رہتا ہوں اور آج پھر اس بات کا اعادہ کر دوں کہ مسجد میں آنے والا، حقیقی مسلمان جو اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والا ہے، کیوں امن سے رہتا ہے۔ کیوں ہر مذہب کی عزت کرتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ہم یہ ماننے والے ہیں کہ ہر مذہب سچا ہے۔ ہر مذہب کا بانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا۔ ہر مذہب پیار و محبت کی تعلیم پھیلانے کیلئے آیا۔ پھر اسلام میں جہاں مذہبی جنگوں کی اجازت دی گئی تو اس لیے اور قرآن کریم میں اس بارہ میں بہت واضح لکھا ہوا ہے کہ ایک لمبے عرصہ کی پرسیکیوشن کے بعد جب بانی اسلام حضرت محمد ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تو کافروں اور بت پرستوں نے وہاں بھی ان کا پیچھا کیا۔ اس وقت قرآن کریم میں یہ حکم نازل ہواکہ ان کا جواب اس طرح ہی دو جو ان کا طریقہ ہے، اگر یہ جنگ کرتے ہیں تو پھر تم بھی جنگ کرو اور یہ کیوں کرو پھر اس کی وضاحت دی کہ اگر اب ان ہاتھوں کو نہ روکا تو پھر کوئی مذہب دنیا میں باقی نہیں رہے گا۔ نہ کوئی چرچ باقی رہے گا، نہ کوئی synagogue باقی رہے گا، نہ کوئی ٹمپل باقی رہے گا، نہ کوئی مسجد باقی رہے گی۔ پس جب مسجد بنتی ہے تو اسکے ساتھ ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ ہم نے دوسرے مذاہب کی عمارتوں کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ ان کی عبادت گاہوں کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ پس یہ سوچ ایک حقیقی مسلمان کی ہونی چاہئے۔ اگر یہ نہیں تو پھر اس میں اسلام کی حقیقی تعلیم کا اظہار نہیں ہے۔ لارڈ میئر صاحب نے دوبارہ مسجد نور کے حوالہ سے توجہ دلائی ہے۔ اس لحاظ سےمیں اپنے احمدیوں کو بھی کہوں گا اور اس بات کا آپ کے سامنے بھی اظہار کر دوں کہ اس نام کی لاج رکھیں اور اس مسجد سے اس نور کو اس علاقہ میں پھیلانے کی کوشش کریں۔ اسلام کی امن اور صلح کی جو تعلیم ہے وہ دنیا کو بتائیں اور اس پر دنیا کو قائم کرنے کی کوشش کریں۔ آجکل اس زمانہ میں صلح کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ امن کی بہت زیادہ ضرورت ہے، جنگوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ہم بڑی تیزی سے جنگ کی طرف جا رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں بہت سوچنا چاہئے اور اس سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ ہم معاشرہ میں ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے ہوں اور ہر قسم کے ظلم اور تشدّد سے پاک ہوں۔ قرآن کریم تو ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں انصاف سے دُور نہ کرے۔ انصاف قائم کرو یہی تقویٰ ہے۔ پس جب ہم اس تعلیم پر عمل کریںگے تو پھر اس سے امن کی تعلیم پھیلے گی۔ اس سے معاشرہ میں وہ نور پھیلے گا جو امن اور سلامتی دینے والا ہو گا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں جہاں ہم مسجدیں بناتے ہیں وہاں بلا امتیاز ہر مذہب اور قوم کے لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔ وہاں اسکول بھی کھولے، ہسپتال بھی کھولے، ماڈل ولیجز بھی بنائے تا کہ بنیادی سہولیات مہیا کریں۔ پینے کا پانی بھی میسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح ہم خدمت کرتے ہیں تا کہ دنیا میں ایسا معاشرہ قائم ہو جہاں کے لوگوں کو سہولتیں میسّر آئیں۔ جب دنیا میں سہولتیں میسر آ جائیں، ایک دوسرے کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو جائے تو پھر سوچ بدل جاتی ہے۔ پھر لڑائی اور جھگڑے کی طرف سوچ نہیں جاتی بلکہ امن اور محبت اور پیار کی طرف سوچ جاتی ہے۔ اس لیے ہم یہ کام کرتے ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں، ہم یہ سوچ رکھتے ہیں کہ حقیقی نور کا اظہار تب ہی ہو سکتا ہے، جب ہم اس روشنی کو لوگوں کے دلوں میں بغیر کسی لالچ کے پہنچانے والے ہوں۔ مقصد تو یہ ہے کہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت قائم ہو اور وہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانیں۔ یہ بہت بڑا مقصد ہے جس کیلئے ہم کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ نہیں کہ اس کیلئے ہمیں کوئی لالچ ہے۔ ہم نے کوئی ذاتی مفاد حاصل کرنا ہے، نہیں۔ مقصد تو صرف یہ کہ بندہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے لگے اور جب وہ پیدا کرنے والے کو پہچاننے لگے گا تو پھر وہ دنیاوی آسائشیں، دنیاوی چاہتیں، دنیاوی خواہشات ہیں، ان پر عمل کرنے یا ان کی خواہش کرنے کی زیادہ کوشش نہیں کرے گا بلکہ وہ یہ چاہے گا کہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچان کر، اسکی باتوں پر عمل کر کے اور اسکو جان کر، اسکا پیار حاصل کرنے کی کوشش کروں تاکہ اس مرنے کے بعد کی زندگی میں بھی میرا انجام اچھا ہو۔ جماعت احمدیہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی ہر جگہ کوشش کرتی ہے۔ میئر صاحب نے یہ دعا کی کہ یہ شہر جو ہے یہ امن کا شہر بن جائے، ہر شہری یہاں امن سے رہے۔ میری بھی یہ دعا ہے کہ نہ صرف یہ شہر امن سے رہنے والا ہو بلکہ یہ ملک بھی ایسی جگہ بن جائے جہاں ہر شہری امن سے رہنے والا ہو، بلکہ یہ دنیا بھی ایسی جگہ بن جائے جہاں امن ہو۔ آج کل دنیا میں جو جنگیں چل رہی ہیں، وہ بڑے خوفناک نتائج پیدا کر سکتی ہیں۔ اگر یہ پھیلتی گئیں، جس کا امکان بڑا واضح ہےتو پھر خوفناک نتائج پیدا ہونگے اور پھر جو ہتھیار ہمارے پاس ہیں جو جنگوں میں استعمال ہو سکتے ہیں جو ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو اپاہج کر دیں گے۔ معذور بچے پیدا ہوںگے۔ کروڑوں لوگ اس دنیا سے چلے جائیں گے۔ پس اس لحاظ سے بھی ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم آپس میں چھوٹے پیمانے پر بھی اور بڑے پیمانے پر بھی امن، پیار اور سلامتی سے رہنے کی کوشش کریں اور اپنی حکومتوں کو بھی اس طرف توجہ دلائیں۔ حکومت کے نمائندگان بھی یہاں بیٹھے ہیں، ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ اس طرف توجہ کریں کہ امن اور سلامتی کی فضا دنیا میں قائم کریں تا کہ دنیا عالمگیر جنگ سے بچ سکے تاکہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کیلئے ایک ایسا ورثہ چھوڑ کر جائیں جو مفلوج لوگوں کی صورت میں نہ ہو، جو تباہ شدہ اکانومی کی شکل میں نہ ہو، جو شہروں کی ویرانگی کی صورت میں نہ ہو۔ بلکہ خوشی کا ماحول ہواور وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہےجب ہم اس مقصد کو بھی سمجھیں جو ہمارا پیدا ہونے کا مقصد ہے اور وہ یہی ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی دے اور میں احمدیوں سے بھی کہتا ہوں جو یہاں رہنے والے ہیں کہ پہلے سے بڑھ کر اس پیغام کو اس شہر میں پھیلائیں اور اس ملک میں بھی پھیلائیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اسی طرح میں وزیر اعلیٰ صاحبہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے پیغام بھیجااور نیک جذبات کا اظہار کیا۔ جس محبت سے انہوں نے ہمارے بارہ میں باتیں کی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو اس کی جزا دے۔ شکریہ۔ السلام علیکم
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب 7 بجکر 23 منٹ تک جاری رہا۔ اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔دعا کے بعد تمام مہمانوں کی خدمت میں کھانا پیش کیاگیا۔
بعدازاں پروگرام کے مطابق 8 بجے یہاں سے واپس بیت السبوح کیلئے روانگی ہوئی۔ قریباً ایک گھنٹہ کے سفر کے بعد نو بجے حضورانورا یدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیت السبوح میں تشریف آوری ہوئی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز مغر ب و عشاء جمع کرکے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
مسجدنور کی افتتاحی تقریب میں شامل مہمانوں کے تاثرات
آج کی اس تقریب میں شامل ہونے والے بہت سے مہمان اپنے جذبات اور تاثرات کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکے۔ یہاں بعض مہمانوں کے تاثرات پیش کیے جاتے ہیں۔
٭ایک مہمان کاتھرین بِلیٹْس کے (Kathrin Blitzke) صاحبہ جن کا تعلق Grüne پارٹی سےہے وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں:حضور کا خطاب بہت اچھا تھا۔ حضور نے نہایت ضروری باتیں بیان کیں جو کہ دیگر مذہبی پیشواؤں سے کم سننے کو ملتی ہیں۔
٭ گیرٹس مان (Gerstmann) صاحب جو مسجد کے ہمسائے ہیں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں : حضور کی شخصیت نہایت پیاری اور خاموش طبع دکھائی دیتی ہے نیز حضور کا پیغام بھی پُر امن اور بہت پیارا تھا۔
٭ بنیامین شروڈر ( Benjamin Schröder) صاحب جو پیشہ کے لحاظ سے ایک مؤرخ ہیں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں : آپ کے خلیفہ نے بہت اعلیٰ انداز میں خطاب فرمایا۔ موجودہ سیاسی حالات کو بھی پیش نظر رکھا۔ ایک مؤرخ ہمیشہ اس زعم میں رہتا ہے کہ اس نے بہت کچھ دیکھ لیاہے، بہت سی باتوں سے آشناہے۔ لیکن آپ کے خلیفہ نے مجھے اس کا الٹ ثابت کر دیا ہے۔ میں نے آج بہت کچھ سیکھا ہے۔ آپ کی دعوت کا بہت شکریہ۔
٭پیٹر(Peter) صاحب CDU پارٹی کے سیاست دان ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات نے مجھ پر ایک مثبت اثر چھوڑا ہے۔ یہاں آنے سے پہلے میں بہت سے تحفظات کا شکار تھا لیکن حضور کے خطاب کے انداز سے بہت متاثر ہوں۔ مجھے اچھا لگا کہ حضور نے ممکنہ تیسری جنگ عظیم کا ذکر فرمایا کیونکہ میرے نزدیک بھی یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ بات بھی اچھی اور ضروری لگی کہ حضور نے مذہبی معاملات کے ساتھ ساتھ دنیوی معاملات کا ذکر بھی فرمایاہے۔
٭وِنفریڈ کونِگ (Winfried König) صاحب ریڈ کروس (DRK) سے آئے ہوئے تھے۔ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: مجھ پر اس بات نے گہرا اثر چھوڑا ہے کہ جماعت احمدیہ کم تعداد ہونے کے باوجود پورے جرمنی میں کس قدر کامیاب جماعت ہے۔ خواہ مساجد کی تعمیر ہو یا فلاحی کام ہوں، جماعت احمدیہ پیش پیش ہے۔
٭Professor Doc. Michael Rauch صاحبHof University میں ماسٹر پروگرام انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ہیں۔ کام کے سلسلہ میں بنگلہ دیش بھی جاتے رہتے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں: حضور کا پیغام مجھے نہایت درست اور ضروری لگا۔ ہمسایوں کے حقوق کے حوالے سے بیان کردہ تعلیمات نیز اپنے وطن سے محبت کرنے کی تعلیمات کے متعلق جو خلیفہ نے بیان کیا، ان باتوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔ آپ لوگوں کا ایمان بنگالی مسلمانوں کی نسبت بہت پختہ ہے۔
٭کینان یلماس (Kenan Yilmaz) صاحب ایک Businessman ہیں، وہ کہتے ہیں: حضور کو دیکھتے ہی میں نے ایک نور دیکھا جو حضورکے وجود سے ظاہر ہو رہا تھا۔
٭پیٹرس صاحبہ ( Peters)جو ایک سیاست دان کی اہلیہ ہیں کہتی ہیں: مجھے بہت اچھا لگا کہ حضور نے کس قدر پیارے انداز میں اور وضاحت سے بات کی۔ حضور کی شخصیت نے اور سارے احمدیوں نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔
٭ پیٹرا چشٹولسلے (Petra Stoelzle) صاحبہ جنکا تعلق Bernd-Jung-Stiftung سے ہے، اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں: حضور کا خطاب سننے کے بعد مجھے اس بات نے حیران کر دیا کہ اسلام اور قرآن وہی تعلیمات پیش کرتا ہے جو کہ بائبل بھی پیش کرتی ہے۔
٭ ایلن صاحبہ (Ellen) کا تعلق Grüne پارٹی سے ہے۔ وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں : اگر میں حضور کے پیغام کا مختصر خلاصہ نکالوں تو وہ ایک لفظ میں محبت ہو گا۔حضور کے ساتھ ملاقات کر کے بہت خوشی ہوئی اور یہ میرے لیے ایک نہایت ہی خاص لمحہ تھا۔
٭ رالف زِیب ( Ralf Zeeb) صاحب جن کا تعلق Protestant Church سے ہے وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : خلیفۃ المسیح ایک پُر سکون اور با رعب انسان ہیں۔ امام جماعت احمدیہ نے اس بات پر زور دیا کہ جماعت کا یہ فرض ہے کہ Societyکو کچھ دینا ہے اور یہ نقطہ ایمان کا حصہ ہے اور قرآن میں بھی اس کا ذکرموجود ہے۔ یہ ایک ایسی نئی چیز تھی جسے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ اوراحمدی جس ملک کے رہائشی ہوں اس ملک کا شکر گزار بننا یہ بھی صرف ایک عام بات نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کا ایک حصہ ہے۔
٭ڈاکٹر گابری ایلے سیٹ ہان ( Dr Gabriele Ziethan) صاحبہ کا جماعت کے ساتھ دیرینہ تعلق ہے۔ موصوفہ نے جلسہ سالانہ پر بھی شمولیت اختیار کی اور تینوں دن جلسہ سالانہ پر ہی گزارے۔ ان کی خواہش تھی کہ آپ باجماعت تہجد کی نماز ادا کریں اس وجہ سے آپ ہوٹل میں بھی نہیں گئیں۔وہ بھی اس تقریب میں شامل تھیں۔ کہتی ہیں: جلسہ سالانہ کے دوران جو امن اور سکون وہاں محسوس کیا، بعد میں اس کی بہت کمی محسوس ہوتی رہی لیکن اس تقریب میں شامل ہوکر دوبارہ وہی امن و سکون ملا ہے۔
حضورانور کی شخصیت سے بہت متاثر تھیں اور انہوں نے حضور انور کی خدمت میں ایک تحفہ بھی پیش کیا۔ حضور انور کے خطاب کے متعلق کہنے لگیں کہ خلیفۃ المسیح نے اپنے خطاب میں اسلام کے جو بھی اوصاف بیان فرمائے ہیں وہ یقیناً جماعت احمدیہ میں موجود ہیں۔
٭مسٹر اور مسز یےکل(Mr & Mrs Jekel) کا تعلق University of Mannheim سے ہے۔ ان کے خاوند پہلی بار کسی جماعتی تقریب میں شامل ہوئے۔وہ بیان کرتے ہیں: یہ خلیفہ وقت کی خوبی ہے کہ انہوں نے دوسرے خطاب کرنے والوں کو اتنا وقت دیا۔ حضور انور کے الفاظ دل میں گھر کر گئے۔ اب یوکے جا کر حضور انور سے ملاقات بھی کریں گے۔
٭ ایک اور مہمان، بیرنڈ فلڈمت (Bernd Feldmeth) بیان کرتے ہیں: مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ایک ایسی اسلامی تنظیم سے ملنے کی توفیق ملی جو کہ ہر لحاظ سے امن پسند اور تشدد کے خلاف ہے۔ ہمسایوں کے حقوق کے متعلق خلیفۃ المسیح نے جو تعلیم بیان فرمائی وہ مجھے بہت پسند آئی۔ احمدیت دوسرے مسلکوں سے جدا ہے اور یہ ایک بہت خوش کن بات ہے۔آپ لوگ بہت اچھے ہیں۔ آپ کے پاس امن ہے، آپ دنیا کی بہتری کیلئے بہت کچھ کرتے ہیں۔حضور کی باتوں سے اس چیز کا احساس ہوا کہ ہم اکیلے دنیا کے امن کیلئے کوشش نہیں کر رہے، اور میرے خیال میں اہلِ جرمنی کیلئے یہ بہت اچھا پیغام ہے جو لوگوں کیلئے پُر امید اور مدد کرنے والا ہے۔جب آپ دوسروں کو اچھے کام کرتے دیکھتے ہیں تو پھر آپ خود بھی ا چھائی کی طرف آتے ہیں۔ شاید آپ لوگ بھی اسی طرح لوگوں کو اپنی طرف قائل کر سکتے ہیں۔
٭ایک مہمان ولف (Wolf) صاحب کہتے ہیں کہ Darmstadtمیں ہر کوئی جماعت احمدیہ کو جانتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہر کوئی محبت کرتا ہے۔ بہت حیرانی کی بات تھی کہ Parkingسے لے کر بیٹھنے اور کھانا کھانے تک ہر ایک کارکن بہت خوش اخلاقی سے پیش آیا اور اپنی مدد پیش کرتا رہا۔ میں اپنے کام کے سلسلہ میں بہت سے پروگراموں میں شامل ہوتارہتاہوں لیکن ایسے احساس کرنے والے اور مدد کرنے والے کارکن کہیں اَور نہیں دیکھے۔
٭ویردے مان(Wirdemann) صاحب لوکل شہر کے پولیس ہیڈ ہیں، وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: جماعت کے ساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ میں حضور کے وجود سے بہت متاثر ہوا ہوں، آپ کا خطاب بہت سے موضوعات پر تھا اور آپ نے دوسرے مقررین کی تقریر پر نوٹس بھی لیے تھے۔ مجھے آپ کی شان داخل ہوتے ہی محسوس ہونے لگ گئی۔
٭ یِیتوا رک ( Yitvarek) صاحبہ کہتی ہیں کہ خلیفۃالمسیح کے الفاظ اس دور کے عین مطابق تھے اور مجھے بہت حیرت ہوئی کہ آپ کے ماننے والے آپ سے کتنی محبت اور آپ کی کتنی عزت کرتے ہیں۔ اتنی عزت جرمن اپنے چانسلر کی بھی نہیں کرتے جتنی آپ کے ممبرانِ جماعت اپنے خلیفہ کیلئے کرتے ہیں۔ حضرت صاحب امن اور محبت پر خطاب کر رہے تھے اور یہ باتیں بہت ضروری ہیں۔
٭ہانس شیرر(Hans Scherer)صاحب جو کہ ایک وکیل ہیں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: میرے جماعت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور میں آپ کی قربانیوں پر داد دیتا ہوں۔ حضرت صاحب کا خطاب پُرحکمت تھا اور میں آپ کی رائے کو بہت اچھا سمجھتا ہوں۔ میری بھی یہی رائے ہے کہ اگر ہم آگے اسلحہ بھیجتے رہیں گے تو بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے اور ایک عالمی جنگ کا خدشہ ہے۔ آپ کے خلیفہ دنیا کو تبدیل کرنے والے انسان ہیں جیسے گاندھی یا دلائی لاما کام کرتے ہیں۔ اور آپ کا خطاب دنیا کے لیڈروں کو سنانا چاہئے۔
٭ٹورسٹن سیسکو (Torsten Sziesko) صاحب ایک Businessman ہیں۔ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: خلیفۃ المسیح کا وجود بہت حیران کن ہے۔میں اس بات کو بہت بڑا اعزاز سمجھتا ہوں کہ مجھے آپکا قرب ملا۔ آپ کا وجود بہت متاثر کرنے والا ہے اور میرے لیے ایک inspiration ہے۔
٭ہانس ڈروپ مان (Hans Dropman) صاحب کہتے ہیں : حضرت صاحب کا وجود مجھ پر بہت اثر کرنے والا ہے۔ آپ کا خطاب امن سے پُر تھا اور میں نے یہ سیکھا ہے کہ اسلام کا مطلب امن ہے۔
٭ہانس یرگن وللانڈ ( Hans Jürgen Welland) صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب ایک باعزت اور بارعب انسان ہیں اور آپ کا خطاب بہت اہم ہے۔ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے اور یہ بات میں آج یہاں سے سیکھ کر اپنے گھر لے کر جارہا ہوں۔
٭مس گیبر ( Ms. Geber) صاحبہ ایک پادری خاتون ہیں اوراپنے خیالات کےاظہار میں کہتی ہیں کہ جب خلیفۃ المسیح ہال میں تشریف لائے تو سارا ماحول بدل گیا۔ آپ کے وجود سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک روحانی وجود ہیں۔ آپ کا خطاب بہت دلچسپ تھا اور مجھے یہ بات بہت پسند آئی کہ آپ نے ہمسائے کی تشریح بتائی کہ ہمارے گردو نواح کے40؍ گھر وں کا شمار ہمسایوں میں ہی ہوتاہے۔
٭روتھ روزینوس (Ms. Ruth Rosinus ) صاحبہ جوکہ سوشل ورک کرتی رہی ہیں وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں : میں عیسائی ہوں مگر خلیفۃ المسیح کا وجود مجھے ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا مذہبی لیڈر ہو۔ آپ کے خطاب نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ ہم مل کر دنیا میں امن قائم کر سکتے ہیں۔ آپ ایک بہت پیار کرنے والے اور نرم مزاج انسان معلوم ہوتے ہیں اور میں سمجھتی ہوں خلیفۃ المسیح ہمارے پوپ سے بھی بہتر انسان ہیں۔ باقی مسلمانوں میں ایسے خلیفہ ہوتے تو ان کے اندر بھی ایک اچھا نظام قائم ہوجاتا۔
٭ایک مہمان استیمیر (Istimir) صاحب بیان کرتے ہیں: جاتے ہوئے میں نےحضرت صاحب کے چہرے کی طرف دیکھا تو آپ کے چہرے سے نور ہی نور نظر آرہا تھا اور آپ کو دیکھنے کے بعد میرے اندر خوشی اور مسرّت پیدا ہوگئی جس سے ساری تکالیف اور دکھ دُور ہوگئے۔
٭باربرا میگن (Barbara Migen) صاحبہ جن کا تعلق Grüne پارٹی سے ہے، اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: میں خلیفۃ المسیح کے خطاب سے بہت متاثر ہوئی ہوں اور جو بھی آپ نے فرمایا وہ سچ ہے۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کی جماعت کی مخالفت کیوں ہوتی ہے اور آپ کی مساجد کو کیوں توڑا جاتا ہے؟ جبکہ یہ جماعت امن پسند اور دوسروں کا خیال رکھنے والی ہے۔ایسی جماعت کی مخالفت نہیں ہونی چاہئے۔ اب میں آپ کی مسجد بھی دیکھنا چاہوں گی۔
٭ڈینس (Dennis) صاحب اسٹیٹ سیکرٹری ہیں ،وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اس بات سے بہت متاثر ہوں کہ خلیفہ وقت نے حالات حاضرہ کے متعلق خطاب فرمایا۔ خلیفہ وقت کے وجود سے ظاہر ہو رہا تھا کہ آپ زندگی کے مسائل سے خوب آشنا ہیں اور آپ نے اپنے خطاب کے ذریعہ سے لوگوں کو بھی اس سے مطلع کیا۔
٭بہلول اےمرے بیلیچی (Behlül Emre Bilici)صاحب جو نقشبندی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں خلیفہ وقت کے وجود سے بہت متاثر ہوئے اور خاص طور پر حضور انور کے رعب کا ذکر کیا۔انہوں نے اپنی خواہش کا بھی اظہار کیا کہ وہ خلیفہ وقت کو دیکھیں اور آپ کی اقتدا میں نماز پڑھیں۔
٭ڈنس ماردو (Dennis Mardo) صاحب اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: میں حضور انور کے وجود اور جھلک سے بہت متاثر ہوں۔ حضور انور کے خطاب کی یہ بات کہ حُب الوطنی ایمان کا حصہ ہے بہت پسند آئی۔مجھے تقریب کے دوران اس بات کا بھی احساس ہوگیا تھا کہ روحانی راہنمائی کیوں اتنی ضروری ہے۔
٭ایک مہمان شٹارک ( Stark) صاحب نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضور انور کا خطاب بہت متاثر کن تھا۔ حضور انور نے نہ صرف آج کی تقریب کے مناسب حال خطاب فرمایا بلکہ حالات حاضرہ کے متعلق بھی گفتگو فرمائی۔ آج حضور انور کے خطاب سے اسلام کے متعلق کافی زیادہ نئی معلومات ملیں خاص طور پر قرآنی تعلیمات کے متعلق علم میں بہت اضافہ ہوا۔
٭ایک مہمان نے بیان کیا کہ خلیفۃ المسیح کی شخصیت سے بہت متاثر ہوں۔ خلیفۃ المسیح کی مجلس میں شمولیت باعث عزت تھا۔
٭ایک خاتون مہمان اُرسُلا ہیرتیے (Ursula Hertje) نے کہا: اگر مذہب کو صحیح اہمیت دی جائے تو سب امن میں رہ سکتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے آج ایسا نظر نہیں آتا۔ جو خلیفۃ المسیح نے بیان فرمایا اس کا سیاست سے بالکل کوئی تعلق نہیں ہے۔مجھے یہ بات اچھی لگی کہ خلیفۃ المسیح نے ایمان اور قرآن کے بارہ میں بات کی، جو حقیقت میں بنی نوع انسان کی ہدایت چاہتے ہیں۔ لیکن بعض مسلمان ایسے ہیں جو قرآنی احکامات پر عمل نہیں کرتے۔
خلیفۃ المسیح بہت تعلیم یافتہ اور صاحبِ تجربہ ہیں۔ بہت اچھی شخصیت کے مالک ہیں اور ایک خاص کرشمہ نظر آتا ہےجو کسی ایسے شخص میں ہونا بہت ضروری ہوتا ہے جس نے اپنا دین پھیلانا ہو۔
میں فرانکن تھال کی رہنے والی ہوں اور بہت سے اسلامی فرقوں کو جانتی ہوں۔ کچھ وقت پاکستان میں اور سعودیہ میں گزارا اور بہت فرقوں سے واسطہ پڑا۔ آپ کے بارہ میں research کی اور آپ کی جماعت کی activities کے بارہ میں جانا اور میں آپ کی covidکے دوران کی خدمات کی وجہ سے بہت متاثر ہوئی۔
٭ایک مہمان Juanنامی جو integration کے شعبے میں کام کرتے ہیں نے کہا : خلیفۃ المسیح نے مجھ پر بہت مثبت اثر چھوڑا۔ آپ کا خطاب ایسا تھا گویا آپ ہمیں امن کا پیغام دے رہے ہیں۔ اس خطاب کے اس قدر ممتاز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ تمام مذاہب اور لوگوں کے ساتھ احترام سے پیش آنے کی تلقین فرما رہے ہیں۔ یہ ایک عالمی پیغام ہے جو صرف کسی خاص ملک یا قوم سے تعلق نہیں رکھتا۔ سب کیلئے اہمیت کا حامل ہے۔ آپ نے اپنے خطاب میں پوری انسانیت کو مخاطب فرمایا ہے۔
میں ہدایت اللہ ہیو بش صاحب کو بھی جانتا تھا اور ہمارا اچھا تعلق ہوا کرتا تھا۔ خلیفہ ایک بہت با وقار شخصیت ہیں۔ آپ کا امن کا پیغام ذاتی طور پر میرے لیے بہت اہم تھا۔آپ نے پوری دنیا کو امن کی طرف بلایا اور یہ بات مجھے بہت پسند آئی۔ میرے لیے یہ ایک بہت نایاب موقع تھا اور میں نہیں جانتا کہ مجھے اپنی زندگی میں خلیفہ کو دیکھنے کا دوبارہ موقع ملے گا یا نہیں۔
٭فرانکن تھال کے مئیر مارٹن ہیبِش (Martin Hebisch) صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں خلیفۃ المسیح سے بہت متاثر ہوا۔ آپ کے الفاظ روحانی اور حکمت سے پُر تھے۔ آپ کا پیغام امن اور خدمتِ انسانیت کا ہے۔ مجھے یہ بات اچھی لگی کہ حضور نے اس بات پر زور دیا کہ ہم سب مل کر امن قائم کریں کیونکہ اس وقت امن خطرے میں ہے۔
٭ایک مہمان نےاپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: خطاب بہت متاثر کن تھا۔ اس میں مذہبی گہرائی اور روحانیت تھی۔ ایک چیز جو مجھے خاص طور پر اچھی لگی وہ یہ ہے کہ خلیفہ نے اکٹھا رہنے پر زور دیا۔ مجھے آپ کی جماعت کے بارہ میں علم نہیں تھا لیکن اس خطاب کے ذریعہ آج آپ لوگوں کے بارہ میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
٭ایک مہمان لُوکاس کالنِک (Lukas Kalnik) نے کہا: خلیفہ کا خطاب سننا میرے لیے بہت بڑےاعزاز کی بات ہے۔ میرے نزدیک آپ کا خطاب زبردست تھا۔ میرے لیے خلیفہ سے ملاقات کا یہ پہلا موقع تھا۔ آپ کے خطاب میں سے ایک بات خاص طور پر قابلِ ذکر تھی اور وہ یہ کہ آپ نے بہت باتیں اس بارہ میں کہیں کہ اس دنیا کو کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے اور یہی میرے نزدیک آپ کے خطاب کا مرکزی نکتہ تھا۔ میں نے سیکھا ہے کہ اسلام کی تعلیم پُر امن ہے۔ خلیفہ اپنی شخصیت کے اعتبار سے بہت عظیم اور زبر دست ہیں اور ایک رعب ہے جو آپ میں نظر آتا ہے۔
٭ایک مہمان خاتون پیترا شٹولسلے (Petra Stölzle) نےاپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں حضور کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ جب حضور ہال میں داخل ہوئے تو سارے ہال میں سناٹا چھا گیا۔ میں نے آپ کی باتیں بہت غور سے سنیں۔ میں نے پہلی دفعہ کسی مسلمان کا خطاب سنا اور آپ کے الفاظ نے میرے دل کو چُھو لیا ہے۔ خاص طور پر جب آپ نے فرمایا کہ ہم بڑے امن پسند لوگ ہیں۔
٭ایک مہمان خاتون نےاپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: مجھے حضور کا خطاب بہت متاثر کن لگا۔خاص طور پر آپ کا ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک اور روحانیت کے تصوّر کا بیان بہت اچھا تھا۔جنگوں کے بارہ میں آپ کا پیغام مجھے بہت پسند آیا۔ پہلی بار آپ کے ساتھ 2015ء میں ملاقات ہوئی۔ آپ کے خطاب میں سے یہ بات کہ سب کیلئے آزادی ہونی چاہئے مجھے بہت زبردست لگی۔میں سمجھتی ہوں کہ آزادی آپ کے مذہب کا بنیادی خاصہ ہے۔ یہ بات بھی مجھے اچھی لگی کہ امن ایک ایسی چیز ہے جو ہمیں اپنے لیے بھی اور دوسروں کیلئے بھی حاصل کرنا چاہئے۔
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ خلیفۃ المسیح اس چھوٹے سے شہر میں تشریف لائے۔ پَوپ شاید ایسے چھوٹےشہر میں کبھی نہ آتے۔ اس لیے مجھے یہ بات بڑی غیر معمولی لگی کہ خلیفۃ المسیح یہاں تشریف لائے۔ میرے خیال میں آپ ایک بہت بڑے لِیڈر ہیں جو متعدد مشہور شخصیات کو مل چکے ہیں۔ میں بہت خوش ہوں کہ آپ نے ہمارے شہر میں آنے کیلئے وقت نکالا۔ میں پہلی نہیں ہوں جو اس خلیفہ کیلئے باوقار کا لفظ صفت کے طور پر استعمال کر رہی ہوں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جن موضوعات پر آپ نے گفتگو فرمائی اُن کے بارہ میں بات کرنا بڑا ضروری ہے۔ سب نے بڑے انہماک سے آپ کا خطاب سنا۔ ایک بہت ہی عمدہ شخصیت ہیں اور ایک عجیب پُر کشش شخصیت ہیں۔
٭ایک مہمان مانفرَید گرائف(Manfred Gräf) نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: ایک بہت دلچسپ شام تھی۔ ہم بہت سوالات لے کر آئے تھے اور ہمیں ان کے جوابات بھی ملے۔ میں نے خلیفۃ المسیح سے بہت کچھ سیکھا۔ تشدد کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ محبت کو نہ صرف جماعت احمدیہ بلکہ ہر مذہب کو اپنے اندر سمونا چاہئے ۔
خلیفۃ المسیح کی شخصیت بہت حیران کن تھی۔ وہ جو کہتے ہیں کرتے بھی ہیں۔ میں ان کا موازنہ پَوپ فرینسس یا دلائی لاما سے کرنا چاہوں گا۔ مطلب یہ کہ آپ لوگوں کو اکٹھا کرنے میں کافی فکر مند ہیں۔
٭ایک مہمان مسٹر شٹانسل (Stanzel) نے کہا: میں مہمان نوازی پر بہت حیران ہوالیکن اس سے بھی زیادہ خلیفہ کے خطاب سے۔ آپ نے ایک ایسے دور میں خطاب فرمایا جب عمومی طور پر مذہبی باتیں نہیں ہوتیں۔ گویا مذہب کے بارہ میں بات کرنا ممنوع ہے۔ مجھے اچھا لگ رہا ہے کہ اِدھر ایک مذہبی عبادت گاہ بنائی گئی ہے۔ جماعت احمدیہ کا ماٹَو سینکڑوں سال پہلے ہی دوسرے مذاہب کے فرقوں میں بھی شامل کیا جانا چاہئے تھا۔
٭شہر کے میئر نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: مجھے حضور کا خطاب بہت متاثر کن لگا اور مجھے وہ موضوعات جن کے بارہ میں آپ نے گفتگو کی بہت اچھے لگے۔اور یہ کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ میں ایک میئر ہوں اور میرا واسطہ ہر قسم کے لوگوں سے پڑتا رہتا ہے اور اس خطاب میں ہر مسئلہ کا حل ہے۔ میری تمنا ہے کہ کاش میں حضور کے ساتھ تصویر کھنچوا سکوں۔
٭مسجد کے ہمسائے تھورستن باد وِگ (Torsten Badewig) نے کہا: آج مجھے معلوم ہوا ہے کہ اصل اسلام کیا ہے۔ ورنہ تو میڈیا اسلام کو خطرے کے طور پر دکھا رہا ہے۔ آج مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم سب اکٹھے ہیں خواہ کوئی مسلمان ہے یا غیر مسلم۔ مجھے خاص طور ہمسایوں کے بارہ میں خلیفۃ المسیح کی باتیں بہت پسند آئیں۔ یہ بات کہ تمہیں اپنے ہمسائے کی اُسی طرح عزت کرنی چاہئے جس طرح تم اپنی فیملی سے عزت سے پیش آتے ہو۔ جرمن معاشرے میں اکثر اوقات خود غرضی پائی جاتی ہے لیکن اسلام میں معاملہ بالکل اَور ہے اور یہ بات مجھے کافی اچھی لگی۔حضور ایک با رعب اور متاثر کرنے والی شخصیت ہیں جن کی باتیں آپ ہر روز سن سکتے ہیں۔
٭ایک مہمان ڈاکٹر مِشائیل راؤخ (Dr. Michael Rauch) نےاپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ایک بہت اچھی شام تھی۔ اس تقریب میں شامل ہونا میرے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ میں خلیفۃ المسیح کے خطاب کو سراہتا ہوں۔ مجھے جو سب سے ضروری باتیں لگیں وہ یہ کہ آپ نے ہمسایوں کے حقوق کے بارہ میں اور معاشرے میں امن و سلامتی اورایک دوسری کی مدد کرنے کے بارہ میں بات کی۔ مجھے جماعت کے بارہ میں بھی اچھا تاثر ملا۔ محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنی کہی ہوئی باتوں پر خود عمل بھی کرتے ہیں۔ آپ کے اندر ایسے خلیفہ کی موجودگی آپ کیلئے باعثِ فخر ہونی چاہئے۔
٭ایک مہمان آندریاس حیلمان (Andreas Helman) نے کہا: ایک بہت دلچسپ خطاب تھا۔ میں نے خلیفہ کے بارہ میں کافی سنا تھا لیکن پہلی بار دیکھا ہے۔ ایک ایسا شخص ہے جس پرآپ اعتماد کر سکتے ہیں۔ خلیفۃ المسیح کو اپنا پیغام پہنچانے کا بہت زبردست ملکہ ہے۔
٭ایک مہمان خاتون آنتھیے وَیکسلر (Antje Wechsler) نے کہا کہ میں خلیفہ کے بہت قریب بیٹھی تھی۔ آپ نے اپنے سے پہلے آنے والے مقررین کے نکات بڑی گہرائی میں سمجھ کر ان کے مطابق اپنا خطاب فرمایا۔ مجھے یہ بات بڑی حیران کن لگی۔اسکے علاوہ رواداری کا نقطہ بہت اچھا لگا۔میں اس مسجد کے سنگِ بنیاد کی تقریب میں بھی شامل تھی اور اُس وقت کا ماحول بھی مجھے بہت پسند آیا۔ آپ کی باتیں سن کر مجھے محسوس ہوا کہ اسلام کی تعلیمات سخت نہیں ہیں۔ عام طور پر لوگوں میں اسلام کے بارہ میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ لیکن خلیفہ کے خطاب نے سب تحفظات دور کر دیے۔مجھے نہیں پتا تھا کہ اسلام کی تعلیمات اتنی خوبصورت ہیں۔
٭ایک مہمان کارستن زائفرٹ (Carsten Seifert) نے کہا: اب میں آپ کے عقائد کو بالکل اَور نظر سے دیکھتا ہوں۔میرا حضورِ انور کے بارے میں تاثربہت مثبت رہا۔انہوں نے مجھےواقعتاً بہت سی چیزوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔میں عجیب کیفیت میں ہوں۔میں ضرور دوبارہ مسجد آؤں گا۔میں نے محسوس کیا کہ عیسائیت اور اسلام میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ہمیں اسلام کے بارے میں بہت کچھ وضاحت کی ضرورت ہے۔ ہمارے عقائد بہت ملتے جلتے ہیں۔اسلام کے بارے میں بہت کچھ سننے کو ملتا ہے جو بالکل سچ نہیں۔
٭ایک مہمان خاتون آندریا سِلوا (Andrea Silva) نےاپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: حضورِ انور کی شخصیت نے مجھ پر بڑا گہرا اثر چھوڑاہے۔جس سے میں بہت متاثر ہوئی ہوں۔میں حضور کے ایک طرف بیٹھی ہوئی تھی اور جب وہ میرے پاس سے گزرے تو میں نے محسوس کیا کہ ان کی شخصیت بہت با رعب اور محبت کرنے والی ہے۔وہ لوگوں کےحالات سے واقف اور بہت سنجیدہ تھے۔ان کی تقریر نہ صرف ہمارے وقت کیلئے مفید ہے بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے بھی فائدہ مند ہے۔
٭ایک مہمان خاتون لِتھرا شٹُلسے(Litra Stulze)نے کہا: میں حضور کے خطاب سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔ امن کا پیغام مجھے بہت پسند آیا ہے۔آپ کے خطاب میں سب سے نمایاں چیز انسانیت سے محبت تھی۔ اسلام کے بارے میں میڈیا میں بہت سے تحفظات پائے جاتے ہیںلیکن جب میں یہاں آئی تو مجھے بالکل نئی چیزوں کے بارے بتایا گیا۔مجھے یہ بہت پسند آیا۔میں نے خلیفۃ المسیح کو دیکھا اور میں نے ان کے اندر ایک عاجزی محسوس کی۔
٭ایک مہمان ڈاکٹر مہمت ییلسین(Dr. Mehmet Yelsin)نے کہا: حضور سکون کا ایک بہت بڑا احساس ظاہر کرتے ہیں۔آپ پر ذمہ داری کا بہت بڑا بوجھ ہے لیکن پھر بھی آپ ایک بہت ہی معزز شخصیت اور بہت باوقار ہیں۔آپ کو دیکھ کر سکون ملتا ہے اور جب بھی آپ کسی ہال میں داخل ہوتے ہیں تو سارا ہال پر سکون ہو جاتا ہے۔جب آپ سے ملتے ہیں تو ہم اپنے اندر سکون محسوس کرتے ہیں۔ ماحول خوشگوار ہو جاتا ہے۔
مجھے یہ بات اچھی لگی کہ آپ نے اسلام کی خوبیوں کے بارے میں بات کی کہ اسلام امن ہے اور لوگوں کو یاد دلایا کہ ہمیں معاشرے میں کیا کردار ادا کرنا چاہئے۔
…٭…٭…٭…