اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-30

مورخہ 7،6،5؍ ستمبر2023ء 

سیدنا حضرت امیر المومنینخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورہ جرمنی(اگست،ستمبر 2023ء)

خلیفہ کے خطاب میں سے سب سے ضروری بات مجھے یہ لگی ہے کہ خلیفہ نے بہت زور اس بات پر دیا کہ امن کو قائم کرنے کیلئے ہم سب کو جد و جہد کرنی چاہئے

مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کس طرح سے بیان کروں کہ خلیفہ کا اثر مجھ پر کتنا اچھا اور گہرا ہوا ہے (ایک عرب غیر احمدی خاتون آلسّارھسّانی صاحبہ)

خلیفہ کا خطاب بہت اچھا تھا کیونکہ آپ کا خطاب ضرورتِ زمانہ کے مطابق تھا

اور ان مسائل کے بارہ میں تھا جو آج ہمیں درپیش ہیں اور آپ کے خطاب میں ان کا حل بھی موجود ہے (ایک مہمان اَیروِن وِیلنڈ صاحب)

خلیفہ میں ایک خاص اور قوی کشش ہے اور آپ کو دیکھ کرفوراً یہ احساس ہوجاتا ہے کہ آپ ایک بہت خاص شخصیت ہیں ،

گو مَیں آپ کی جماعت کا حصہ نہیں ہوں مگر خلیفہ سے ملنا میرے لئے بھی باعث فخر ہے (ایک مہمان ڈاکٹر پیٹر زَار صاحب نائب ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریٹر)

خلیفہ نے عورتوں کے حقوق کے بارہ میںجو تعلیم بیان فرمائی ہے اس سے مَیں حیران ہو گیا ہوں

کیونکہ جو تصور مجھے اس بارہ میں پہلے تھا یہ اس سے بالکل الٹ تھا (ایک مہمان گلاؤس یورگِنس صاحب)

خلیفہ ایک ایسی شخصیت محسوس ہوتے ہیں جو زمانہ کی ضرورت کی پہچان اور انسانوں کی اصل ضرورت کی گہری سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ، مَیں سمجھتا ہوں کہ

خلیفہ جیسی شخصیات کیلئے یہ ممکن ہے کہ وہ لوگوں ، مذاہب اور قوموں کے درمیان تعلقات کو قائم کریں اور دنیا کو بہتر کریں  (ایک مہمان بین ڈکٹ پاؤلووِچ صاحب مقام میئر)

مَیں سمجھتا ہوں کہ خلیفہ اس ملک کیلئے بھی اور سب دُنیا کیلئے بھی زمین کو ایسے ہموار کررہے ہیں

 تا کہ ہر قسم کے لوگ آپس میں امن کے ساتھ رہ سکیں (ایک مہمان ونزک صاحب نمائندہ چرچ)

خلیفہ سے ایک بہت خاص کیفیت ظاہر ہوتی ہے اور مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا ہے، آپ کے خطاب کے تمام الفاظ میرے دل میں نقش ہو گئے (ایک مہمان خاتون)

خلیفہ کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا ہوں ، مَیں خلیفہ کی اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ

ہم سب جنگوں جیسی آفات کے خود ذمہ دار ہیں ، خلیفہ کا خطاب پُر معارف اور پُر حکمت تھا (ایک غیر از جماعت مہمان )

آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہے کہ آپ کا ایک امام ہے جو آپ کو بھٹکنے سے محفوظ رکھتا ہے اور آپ کی ہر ہفتے راہنمائی فرماتا ہے (ایک مہمان اُووے صاحب )

آپ کے امام کے خطاب نے میرے بہت سے سوالات حل کر دیے ہیں ، خدا بہتر جانتا ہے کہ

انہوںنے اتنے کم الفاظ میں اپنا مؤقف کس طرح پیش کرلیا، ممکن ہے کہ یہ مقدس لوگوں کا ایک خاص وصف ہو (ایک مہمان بنٹل من فریڈ صاحب )

مسجد ناصر Waiblingen جرمنی کی افتتاحی تقریب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا بصیرت افروز خطاب سننے کے بعد غیر از جماعت مہمانان کرام کے ایمان افروز تأثرات

 

مورخہ5؍ ستمبر2023ء بروزمنگل(بقیہ حصہ)

مہمانوں کے تاثرات


آج کی اس تقریب میں شامل ہونے والے بہت سے مہمان اپنے جذبات اور تاثرات کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکے۔یہاں بعض مہمانوں کے تاثرات پیش کیے جاتے ہیں۔
ایک خاتون مہمان آلِسّار حسّانی (Alissar Hassani) جن کا تعلق عرب ممالک سے ہے نے حضورِ انور کے خطاب کے اختتام پر بے اختیار عربی میں کہا ’تَکلّم عن وصایا الرسولﷺ‘ یعنی خلیفہ نے تمام وہ باتیں بیان فرمائی ہیں جن کی وصیت نبی کریم ﷺ نے فرمائی تھی۔ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خلیفہ کے خطاب سے میں بہت متاثر ہوئی ہوں کیونکہ خلیفہ نے صرف وہی باتیں بیان فرمائی ہیں جو نبی کریمﷺ نے بھی بیان فرمائی تھیں۔ میرے لیے تو ایک ہی اسلام ہے۔ مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے اور آج یہاں احمدیوں کے درمیان مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ مزید لوگ اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آشنا ہوں۔
خلیفہ کے خطاب میں سے سب سے ضروری بات مجھے یہ لگی ہے کہ خلیفہ نے بہت زور اس بات پر دیا کہ امن کو قائم کرنے کیلئے ہم سب کو جد و جہد کرنی چاہئے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کس طرح سے بیان کروں کہ خلیفہ کا اثر مجھ پر کتنا اچھا اور گہرا ہوا ہے۔
ایک مہمان اَیروِن وِیلنڈ (Ervin Wieland) نے کہا کہ اسلام احمدیت سے میرا ذرا بھی تعلق نہیں تھا مگر یہاں آکے مجھے بہت اچھا لگا ہے۔ آج میرا اسلام کے بارہ میں تصور مکمل طور پر بدل گیا ہے۔خلیفہ کا خطاب بہت اچھا تھا کیونکہ آپ کا خطاب ضرورتِ زمانہ کے مطابق تھا اور ان مسائل کے بارہ میں تھا جو آج ہمیں در پیش ہیں اور آپ کے خطاب میں ان کا حل بھی موجود ہے۔ خلیفہ کے خطاب میں سے سب سے اہم چیز مجھے یہ لگی ہے کہ ہم سب کو اکٹھے مل جل کر رہنا چاہئے ۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہے کہ آپ عورتوں کو بھی ہر کام میں شامل کرتے ہیں اور مسجد میں بھی عورتوں کیلئے جگہ ہے کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ آپ عورتوں کو ہر طرح سے خارج رکھتے ہیں۔خلیفہ ایک غیر جانبدارانہ شخصیت ہیں جو سیدھی اور سچی بات کرتے ہیں۔
ایک مہمان ڈاکٹر پِیٹر زَار (Dr. Peter Zaar) جو کہ Vice District Administrator ہیں اور سٹیج پر خطاب بھی کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب مجھے بہت پسند آیا ہے۔خلیفہ میں ایک خاص اور قوی کشش ہے اور آپ کو دیکھ کر فوراً یہ احساس ہو جاتا ہے کہ آپ ایک بہت خاص شخصیت ہیں۔گو میں آپ کی جماعت کا حصہ نہیں ہوں مگر خلیفہ سے ملنا میرے لیے بھی باعث فخر ہے۔خلیفہ تمام لوگوں سے تعلقات کو بہت عمدگی سے قائم رکھنے والے وجود ہیں اور اس بات کا انداز ہ مجھے اس لیے بھی ہوا ہے کہ خلیفہ نے اپنے خطاب میں اپنے سے پہلے مقررین کی باتوں کو اپنے خطاب میں شامل فرمایا ہے۔خلیفہ نے آسان اور عمدہ زبان استعمال فرمائی جس کی وجہ سے آپ کی باتوں کو سمجھنا بھی آسان تھا۔ پہلی دفعہ مجھے مسلمانوں کی مجلس میں ان کی تمام باتوں اور تعلیمات کی سمجھ آئی ہے۔
ایک مہمان کارل بی(Karl B) جو کہ پروٹسٹنٹ پادری ہیں انہوں نے کہاکہ مجھے آج سے پہلے جماعت کا تعارف نہیں تھا مگر آج سے میرا جماعت کے ساتھ تعلق شروع ہوتا ہے۔خلیفہ سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔خلیفہ کا خطاب بھی مجھے بہت پسند آیا ہے کیونکہ اس میں مضامین کی وسعت بہت تھی اور خلیفہ نے اپنے خطاب میں اپنے سے قبل مقررین کی باتوں کو شامل کر کے ان کی بھی عزت افزائی فرمائی۔یہ بات مجھے بہت اچھی لگی ہے۔خلیفہ کا خطاب ہم عیسائیوں کیلئے بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے ذریعہ معاملات کے نئے زاویے کھلتے ہیں۔ حالانکہ میں ایک عیسائی ہوں پھر بھی خلیفہ کے خطاب میں تعظیم محسوس ہوئی۔ مجھے عورتوں کے حقوق والی بات اچھی لگی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اس تعلیم پر عمل بھی کیا جا رہا ہوگا۔
ایک خاتون مہمان پَیتغَا حَیْفنَا (Petra Häffner) جو کہ صوبائی پارلیمنٹ کی ممبر ہیں اور سٹیج پر خطاب بھی کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ سے ملنا ایک بہت ہی خاص تجربہ ہے اور ایسا اعزاز روز نصیب نہیں ہوتا۔ میں اس بات سے حیران ہوئی ہوں کہ آپ کی آمد پہ آپ کی کشش سے ہال بھر گیا تھا۔لیکن اس سے بھی زیادہ میں خلیفہ کے خطاب سے متاثر ہوئی ہوں۔اگر خلیفہ کے خطاب پر صحیح طرح عمل کیا جائے تو دنیا بھر میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
جب خلیفہ نے خطاب فرمایا تو میرے پاس لکھنے کیلئے صرف اپنی تقریر کا کاغذ تھا تو میں نے اس پر ہی خلیفہ کے خطاب میں سے کچھ فقرے لکھ لیے اب میں سمجھتی ہوں کہ وہ اتنے زبردست ہیں کہ ان کو بڑا کر کے شائع کرنا چاہئے۔ مثلاً آپ نے قرآن کی تعلیم بیان فرمائی کہ یہ رنگ و نسل اور قومیں صرف پہچان کیلئے بنائی گئی ہیں یا وہ حدیث جو خلیفہ نے بیان فرمائی ہے کہ تین بیٹیوں کو اچھی تعلیم دینے والا باپ جنت میں داخل ہوگا۔ میں سمجھتی ہوں کہ ان سب باتوں کی اشاعت اور تبلیغ دنیا بھر میں کی جانی چاہئے اور ہر مذہب کی بنیاد ایسی باتیں ہی ہونی چاہئیں۔مجھے آپ کے خطاب میں سے یہ بات بھی بہت پسند آئی کہ ہم امن صرف تب ہی قائم کر سکیں گے اگر ہم مل کر اس کیلئے کوشش بھی کریں گے۔ ورنہ امن قائم نہیں ہوگا۔
ایک مہمان کرِستِیَان بَیرگ مَن (Christian Bergman) جو کہ ایک سوشل ورکر ہیں، انہوں نے کہا کہ میں خلیفہ کی شخصیت اور خطاب سے بہت متاثر ہوا ہوں۔آپ کا خطاب لمبا نہیں تھا اور آپ نے ہمارے بارہ میں نہیں بلکہ ہم سے خطاب فرمایا ہے۔ خلیفہ بہت open ہیں اور انہوں نے اپنے خطاب میں اپنے سے قبل مقررین اور دیگر مذاہب کی باتوں کو بھی شامل فرمایا ہے۔ اس سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔بحیثیت سوشل ورکر ہونے کے میرے لیے یہ بات بہت حیران کن اور عمدہ بات تھی کہ اسلام نے ہمسائیگی کو چالیس گھرانوں پر وسعت دی ہے۔خلیفہ کو میں ذاتی طور پر نہیں جانتا نہ میں آپ سے پہلے ملا ہوں مگر آپ سے مل کر یہ لگتا ہے کہ آپ ایک ایسی شخصیت ہیں جن سے انسان زندگی کے مختلف امور پر بات کر سکتا ہے اور بہت کچھ سیکھ سکتا ہےاور یہ بہت اچھی بات ہے۔
ایک مہمان جو کہ چرچ کے نمائندہ تھے انہوں نے کہا کہ مجھے یہاں کسی سے بھی تعارف نہ تھا اور میں بس یونہی اس مجلس میں شامل ہوا تھا کہ دیکھتے ہیں یہ کیسی مجلس ہوگی۔ اب میں خلیفہ کے خطاب سے بہت متاثر ہو گیا ہوں اور مجھے آپ کی بیان فرمودہ باتیں بہت پسند آئی ہیں۔مجھے یہ بات خاص طور پر پسند آئی ہے کہ خلیفہ نے بار بار حصول تعلیم پر زور دیا اور عورتوں میں بھی اس کی اہمیت کو واضح فرمایا ہے۔یہ پیغام میں اب عیسائیوں کو بھی دیا کروں گا۔ مجھے یہ بات بھی بہت پسند آئی ہے کہ خلیفہ نے اپنے ماننے والوں کو بھی نصیحت فرمائی ہے کہ آپس میں مل کر رہنا ہے اور ایسے رہنا ہے کہ جرمنی میں مزید یکجہتی پیدا ہو۔بحیثیت چرچ کا نمائندہ میں ان تمام باتوں سے متفق ہوں جو خلیفہ نے اپنے خطاب میں بیان فرمائی ہیں۔
ایک خاتون مہمان کَتیہ میولر (Katja Müller) جو کہ ایک مقامی سیاستدان ہیں، انہوں نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہے کہ مجھے بھی مدعو کیا گیا اور خلیفہ سے ملنے کا اعزاز دیا گیا ہے۔ خلیفہ کے خطاب سے میں بہت متاثر ہوئی ہوں۔ خلیفہ نے جماعت کی جو تعلیمات اپنے خطاب میں بیان فرمائی ہیں میں سمجھتی ہوں ان سب کو ایک نمائش کی شکل میں شائع کرنا چاہئے ۔خلیفہ کے خطاب میں سے مجھے خاص طور پر یہ بات پسند آئی ہے کہ ہم سب کو انفرادی طور پر اور قومی طور پر بھی امن اور سلامتی کے ساتھ اکٹھے رہنا چاہئے ۔ اسی طرح خلیفہ نے جو عورتوں کے حقوق کے بارہ میں بیان فرمایا ہے وہ بھی مجھے بہت اچھا لگا ہے۔
ایک مہمان کَلاؤس یُورگِنس (Klaus Jurgens) نے کہا کہ خلیفہ کے خطاب کا مجھ پر اور میری اہلیہ پر بہت گہرا اثر پڑا ہے کیونکہ خلیفہ کی باتوں میں ایک تازگی محسوس ہوئی ہے۔میں خلیفہ کے طرزِ خطاب سے بھی بہت متاثر ہوا ہوں کیونکہ آپ نے اپنے سے پہلے مقررین کی باتوں کو صرف سنا ہی نہیں بلکہ ان کی باتوں کو اتنے کم وقت میں اپنے خطاب کا بھی حصہ بنا لیا۔اس سے خلیفہ کی متاثرانہ دانائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔مجھے یہ بات بھی پسند آئی ہے کہ خلیفہ نے ضروری اور اہم امور کو صرف بیان نہیں فرمایا بلکہ لوگوں کو ان باتوں پر عمل کرنے کی طرف بھی بلایا ہے۔ خلیفہ نے عورتوں کے حقوق کے بارہ میں جو تعلیم بیان فرمائی ہے اس سے میں حیران ہو گیا ہوں کیونکہ جو تصور مجھے اس بارہ میں پہلے تھا یہ اس سے بالکل الٹ تھا۔خلیفہ کے خطاب میں سےمجھے خاص طور پر یہ بات پسند آئی ہے کہ آپس میں اچھے تعلقات قائم کرنے چاہئیں اور ایک دوسرے سے عزت سے پیش آنا چاہئے۔ یہ امور میرے لیے ذاتی طور پر بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ مجھے یہ بات بھی بہت اچھی لگی ہے کہ خلیفہ نے اس بات کی بھی وضاحت فرمادی کہ یہ سب نیک اخلاق کسی انسان کی ایجاد نہیں بلکہ مذہب کے ذریعہ انسان نے سیکھے ہیں۔
ایک مہمان بَین ڈِکت پَاؤلو وِچ (Benedikt Paulowitsch) جو کہ مقامی میئر ہیں اور انہوں نے سٹیج پر تقریر کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ کا تشریف لانا میرے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ خلیفہ ایک ایسی شخصیت محسوس ہوتے ہیں جو زمانہ کی ضرورت کی پہچان اور انسانوں کی اصل ضرورت کی گہری سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ خاص طورپر محتاج لوگوں کی۔میں سمجھتا ہوں کہ خلیفہ جیسی شخصیات کیلئے یہ ممکن ہے کہ وہ لوگوں، مذاہب اور قوموں کے درمیان تعلقات کو قائم کریں اور دنیا کو بہتر کریں۔مجھے یہ بات اچھی لگی ہے کہ خلیفہ نے عورتوں کی تعلیم پر بھی بات کی اور اس کی ضرورت کو بھی بیان فرمایا ہے۔یہ صرف مسلمانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ عیسائیوں کیلئے بھی بہت اہم پیغام ہے۔خلیفہ کو جب میں نے دیکھا تو دل میں ایک احترام اور عزت پیدا ہوئی مگر جب آپ سے گفتگو کرنے کا موقع ملا تو پتا چلا کہ آپ خوش دل بھی ہیں اور مزاح بھی پسند کرتے ہیں اور آپ سے گفتگو کا موقع میرے لیے بہت ہی خوبصورت تھا۔ایک طرف خلیفہ روحانیت میں بہت اعلیٰ درجہ پر ہیں مگر دوسری طرف آپ ہمدرد اور خوش اخلاق بھی ہیں۔ اس لیے آپ سے ملنا میرے لیے بہت خاص اور نایاب موقع تھا۔
ایک مہمان وَنزِک (Wanzeck) جو کہ چرچ کے نمائندہ تھے، انہوں نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب بہت دلچسپ تھا اور خلیفہ کے الفاظ سے نئی اور اچھی امید پیدا ہوتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس ملک کیلئے بھی اور سب دنیا کیلئے بھی زمین کو ایسے ہموار کررہے ہیں تاکہ ہر قسم کے لوگ آپس میں امن کے ساتھ رہ سکیں۔اس لیے خلیفہ کا خطاب میرے لیے ایک اچھا پیغام اور good news ہے۔خلیفہ کا خطاب امید کا پیغام اپنے ساتھ لایا ہے۔خلیفہ ایک باوقار شخصیت ہیں۔ آپ کی تشریف آوری پر ہال کا ماحول مکمل طور پر بدل گیا۔مجھے یہ بات اچھی لگی ہے کہ آپ نے تیار شدہ خطاب نہیں پڑھا بلکہ ضرورتِ حال کے مطابق خطاب فرمایا۔
ایک مہمان خاتون نے کہا کہ خلیفہ سے ایک بہت خاص کیفیت ظاہر ہوتی ہے اور مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا ہے۔ آپ کے خطاب کے تمام الفاظ میرے دل میں نقش ہوگئے۔
ایک مہمان مَاؤرِیتسِیُو ترِی غی لِیا (Maurizio Trigilia) نے کہا کہ خلیفہ سے ایک امن اور سکون کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔ آپ ایک بہت open انسان ہیں اور میں آپ کے وجود سے بہت متاثر ہوں۔ آپ کے ذریعہ سے میری اسلام کی جو تصویر ہے کافی بہتر ہوگئی ہے۔
ایک خاتون مہمان نے کہا کہ میں اتفاق سے آج آگئی تھی مگر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ میں آئی ہوں۔ خلیفہ کا وجود نہایت دلچسپ ہے اور مجھے بہت پسند آیا ہے کہ آپ نے ہر شخص کا نام لےکر اس کا شکریہ ادا کیا۔ میں آپ کی جماعت سے ضرور رابطہ میں رہوں گی۔
ایک مہمان نے کہا کہ میں خلیفہ کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں خلیفہ کی اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ ہم سب جنگوں جیسی آفات کے خود ذمہ دار ہیں۔ خلیفہ کا خطاب پُرمعارف اور پر حکمت تھا۔
ایک مہمان اُوْوے (Uwe) نے کہا کہ خلیفہ ہر ہفتے خطبات کے ذریعہ سے نصائح فرماتے ہیں۔ آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہے کہ آپ کا ایک امام ہے جو آپ کو بھٹکنے سے محفوظ رکھتا ہے اور آپ کی ہر ہفتے راہنمائی فرماتا ہے۔ ہم امام نہ ہونے کی وجہ سے منتشر ہیں۔ اس تقریب میں ایک پُر سکون فضا تھی اور تمام کارکنان کے چہروں پر مسکراہٹ تھی اور وہ خوش اسلوبی سے پیش آرہے تھے۔
ایک مہمان نے کہاکہ آپ کے امام کا خطاب جامع تھا۔ آنحضور ﷺ کی بیان کردہ حدیث تین بیٹیوں کی اعلیٰ تعلیم وتربیت کرنے کے متعلق مجھے بہت پسند آئی کیونکہ میری اپنی بھی تین بیٹیاں ہیں۔
ایک مہمان حَنڈِ یَوْ س (Handios) جو کہ پروٹسٹنٹ ہیں، نے کہاکہ مجھے بہت اچھا لگا کہ مسلمانوں کی طرف سے ہی ایک طبقہ نے بعض اسلامی تعلیمات پر روشنی ڈالی۔ یہ مسلمان فرقو ں کیلئے نہایت ضروری ہے کہ وہ ہم جیسوں کو بتائیں کہ اسلام میں شدت پسندی نہیں ہے بلکہ اسلام اچھی اور عظیم تعلیمات پیش کرتا ہے۔
ایک مہمان بَنٹِل مَن فَریڈ (Bantel Manfred) نے کہا کہ خلیفہ کا اندازِ بیان بہت ہی اچھا ہے۔ آپ کے خلیفہ خاموش طبع معلوم ہو تے ہیں۔ آ پ کے امام کے خطاب نے میرے بہت سے سوالات حل کر دیے ہیں۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ انہوں نے اتنے کم الفاظ میں اپنا موقف کس طرح پیش کر لیا۔ ممکن ہے کہ یہ مقدس لوگوں کا ایک خاص وصف ہو۔
ایک خاتون مہمان آئس نِش دَورَوتھی (Eisnish Dorothee)جو کہ ایک پادری ہیں نے کہا کہ آپ کے خلیفہ کا بہت ہی اعلیٰ خطاب تھا۔ مجھے خطاب سن کر بہت لطف آیا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ بہت کم مسلمان ہیں جو اس طرح اپنے دین کو پیش کرتے ہیں۔ میں امید کرتی ہوں کہ پریس نے بھی اس پیغام کو سنا ہو گا تاکہ اسلام کی یہ اعلیٰ تعلیم عام عوام تک بھی پہنچے۔

…٭…٭…٭…

مورخہ 6؍ستمبر2023ء بروز بدھ


حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 5بجکر 50 منٹ پر تشریف لا کرنماز فجر پڑھائی۔نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔صبح حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، رپورٹس اور خطوط ملاحظہ فرمائے اور ہدایات سے نوازا اور مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔

فیملی ملاقاتیںاور ملاقات کرنے والے احباب کے ایمان افروز تاثرات

پروگرام کے مطابق سوا 11 بجے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔آج پروگرام کے مطابق41 فیملیز کے139؍ افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ان سبھی فیملیز اور احباب نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضور انور نے ازارہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کوقلم عطا فرمائےاور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
آج ملاقات کرنے والوں میں جرمنی کی دو جماعتوں ’بیت السبوح Nord‘ اور Dietzenbach کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک بینن، بورکینا فاسو، غانا، مالی (Mali)، سینیگال، ترکی، انڈیا، ٹوگو، چاڈ، گیمبیا، آئیوری کوسٹ ،شارجہ اور پاکستان سے آنے والی فیملیز اور احباب شامل تھے۔
ان ملاقات کرنے والوں میں بہت سی فیملیز اور احباب ایسے تھے جو اپنی زندگیوں میں پہلی بار اپنے آقا سے شرف ملاقات پا رہے تھے اور اپنے آقا کے دیدار سے فیضیاب ہو رہے تھے۔
٭ملاقات کرنے والوں میں ایک نوجوان ہود احمد ساحل صاحب بورکینا فاسو سے آئے تھے۔اُن کی یہ پہلی ملاقات تھی ۔یہ بیان کرتے ہیں کہ میرا تو جسم کانپ رہا تھا۔آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔ملاقات کےبعد دل کو بہت تسلّی ہوئی۔حضور انور نے میری پڑھائی کی بابت دریافت فرمایا اور مجھے قلم عطا فرمایا۔
٭سینیگال سے آنے والے مجیب الرحمٰن صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہماری زندگی کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ پاکستان سے ملاقات کیلئے آنے کا تو ہم تصوّر بھی نہیں کر سکتے تھے۔اللہ تعالیٰ ہمیں افریقہ لے گیا اور پھر وہاں سے ملاقات کیلئے آنا ممکن ہوا ہے۔ ہمارے لیے جذبات کا بیان تو ممکن نہیں ہے۔ بہت ہی روحانی ماحول تھا۔میرے اور میری اہلیہ کے پورے خاندان نے حضور انور کی خدمت میں سلام اور دعا کی درخواست بھجوائی تھی اس طرح وہ سب بھی اس ملاقات میں شامل ہوگئے۔
٭بینن سے آنے والے احمد علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ ان کی زندگی کی پہلی ملاقات تھی۔ ہم MTAپر جب حضور انور کو دیکھتے ہیں تو وہ اصل کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔اتنا نور ہے کہ اس کیفیت کا اظہار ممکن نہیں۔حضور انور نے ازراہ شفقت میرے بیٹے کی آمین بھی کروائی۔
٭پاکستان سے آنے والے ایک دوست مظفر احمد چیمہ صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج میری زندگی کی پہلی ملاقات تھی۔ مجھ سے تو بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔نور ہی نور تھا۔چہرہ مبارک دیکھنے کو دل ترستا تھا۔آج حضور کو قریب سے دیکھ کر دل مطمئن ہوگیا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت قلم عطا فرمایا اور شہد تبرک کرکے عنایت فرمایا۔
٭بورکینا فاسو سے آنے والے ایک نوجوان مرزا ایقان احمد طاہر صاحب نے بیان کیا کہ آج کی ملاقات ایک عظیم روحانی تجربہ تھا جو بیان سے باہر ہے۔ اندر جاتے ہی میری کیفیت بدل گئی تھی۔حضور انور نے مجھے ازراہ شفقت قلم عطا فرمایا۔ میں میڈیکل کا طالبعلم ہوں۔حضور انور نے میری راہنمائی فرمائی کہ جس فیلڈ میں زیادہ دلچسپی ہے اس میں سپیشلائزیشن کرلوں۔حضور انور نے مجھے بے شمار دعائوں سے نوازا۔
٭بینن سے آنے والے ایک نوجوان ابرا رالحق صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب جلسہ پر حضور انور کو دیکھا تو بہت خوشی ہوئی۔ مگر زیادہ قریب سے نہیں دیکھ پایا۔ اب آج قریب سے دیکھ کر دل کو بہت سکون ملاہے۔ حضور انور نے میری پڑھائی کی بابت دریافت فرمایا اور مجھے دعائوں سے نوازا۔
٭رضوان کوثر صاحب جو کہ غانا سے آئے تھے بیان کرتے ہیں کہ یہ ان کی اور فیملی کی پہلی ملاقات تھی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے کہنے لگے کہ MTA پر دیکھنے اور اصل میں دیکھنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بہت حسین اور پُر نور چہرہ ہے۔ حضور انور نے ازراہ شفقت انگوٹھیاں تبرک کرکے عنایت فرمائیں۔میں نے ایک جائے نماز بھی تبرک کروا یا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت بیٹی کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا اور بےشمار دعائوں سے نوازا۔
٭عبد السلام صاحب جرمنی کی جماعت گروس گیرائو (Gross Gerau) سے اپنی پوری فیملی کے ساتھ آئے تھے۔ موصوف ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید کے بیٹے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ملاقات کا احوال الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے ایک انسان بہت پیاسا ہو اور وہ اچانک سامنے چشمہ کو دیکھ لے۔ میری ہمشیرہ کی شادی ہے اس کیلئے اور اس کے میاں کیلئے حضور انور نے ازراہ شفقت انگوٹھیاں تبرک کرکے عطا فرمائیں۔ حضور انور نے ازارہ شفقت مجھے بھی اور میری اہلیہ کیلئے بھی انگوٹھیاں تبرک کرکے عطا فرمائیں۔حضور انور نے بہت شفقت فرمائی۔بہت پیار دیا اور اپنا بہت سا قیمتی وقت عنایت فرمایا۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام دوپہر 2 بجے تک جاری رہا۔بعد ازاں حضور انور نے تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

فیملی ملاقاتیںاور ملاقات کرنے والے احباب کے ایمان افروز تاثرات

پروگرام کے مطابق 6 بجے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔
آج شام کے اس سیشن میں40؍ فیملیز کے133؍ افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ملاقات کرنے والی یہ فیملیز اور احباب جرمنی کی مختلف 28جماعتوں سے آئے تھے۔ ان میں سے بعض بڑے طویل سفر طے کر کے پہنچے تھے۔ جماعت Renningen سے آنے والے 200 کلومیٹر، Trier سے آنے والے201 ؍ کلومیٹر، Stuttgart سے آنے والے215؍ کلومیٹر اور جماعت Bochum سے آنے والے225؍ کلومیٹر کا سفر طے کر کے پہنچے تھے جبکہ Muhlheim سے آنے والے244 کلومیٹر، Herfordسے آنے والے311؍ کلومیٹر اور Dresden سے آنے والے احباب اور فیملیز448؍ کلومیٹر کا لمبا سفر طے کرکے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کیلئے پہنچی تھیں۔
ملاقات کرنے والے ان سبھی احباب اور فیملیز نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کو قلم عطا فرمائےاور چھوٹی عمر کے بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
آج شام کے اس سیشن میں بھی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ سے مل رہے تھے۔
٭گجرات پاکستان سے آنے والے ایک دوست عدنان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور کو دیکھ کر ایمان کی حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ انسان سب کچھ بھول جاتا ہے۔ بس خدا کا وجود نظر آنے لگتا ہے۔ ہمارا گھر جرمنی میں مسجد سے دور تھا۔ میری اہلیہ کی بہت خواہش تھی کہ ہمارا گھر مسجد کے پاس ہو تو حضور انور کی آمد کی برکت سے ہمیں یہاں اپنے گائوں میں مسجد کیلئے جگہ مل گئی ہے۔ الحمد للہ۔ اب ہمیں مسجد کیلئے زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا۔
٭ایک دوست مبارک احمد صاحب جن کا تعلق جماعت آفن باخ سے ہے انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حضور انور کا چہرہ بہت روشن تھا۔ہمیں بہت سکون ملا۔ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ حضور انور کو دیکھ کر ایسا سکون ملا کہ ساری تھکاوٹ دور ہوگئی۔
٭فیصل آباد پاکستان سے آنے والے ایک دوست محمد ہارون صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا۔ ٹی وی میں حضور کو دیکھتے تھے اور سوچتے تھے کہ کاش ہمیں بھی کبھی ملاقات نصیب ہوگی۔ آج ہمیں یہ سعادت نصیب ہوئی ہے۔ فیصل آباد میںمَیں کپڑے کا کاروبار کرتا تھا۔حضور انور نے فرمایا: میں یہاں بھی کپڑے کا کاروبار شروع کروں۔اب ان شاء اللہ یہی کام کروں گا۔
٭ایک نوجوان نعیم احمد صاحب جن کا تعلق ٹھٹھہ جوئیہ ضلع سرگودھا سے ہے بیان کرتے ہیں کہ جذبات پر کنٹرول نہیں تھا۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ہورہا ہے۔جو باتیں کرنی تھیں وہ ہم بھول گئے۔ خلیفہ وقت کا جو وجود ملاقات میں نظر آتا ہے وہ TV دکھا ہی نہیں سکتا۔
٭ایک نوجوان اشعر ساجد صاحب جن کا تعلق پاکستان میں ناصر آباد سے ہے بیان کرتے ہیں کہ میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ دل کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی۔ حضور نے ہم سے بہت ساری باتیں کیں۔حضور نے ہماری بیٹی کو پیار دیا۔
٭محمد قیصر صاحب جو ربوہ سے جرمنی آئے تھے بیان کرتے ہیں کہ یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جو اس کیفیت کو بیان کر سکیں۔ ہم اپنے والدین کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں اس جماعت پر قائم رکھا۔ یقین نہیں آرہا کہ ہماری ملاقات ہوگئی ہےمیرا بڑا بیٹا بولتا نہیں ہے۔ میں نے حضور انور سے دعا کی درخواست کی تو حضور نے فرمایا کہ ’’یہ اب بولے گا‘‘ان شاء اللہ۔ اب ہمیں یقین ہے کہ حضور انور کی دعا سے یہ اب بولنے لگے گا۔ ان شاء اللہ
٭پاکستان سے آنے والے ایک نوجوان محمد دانش طاہر صاحب کی زندگی کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ کہنے لگے کہ میں بہت EXCITEDتھا، بہت نروس تھا۔ حضور انور کا چہرہ دیکھ کر مجھے بہت سکون ملا۔
٭راجہ عتیق احمد صاحب جو ایک سال قبل ربوہ سے جرمنی آئے تھے بیان کرتے ہیں کہ میری حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے آج یہ پہلی ملاقات تھی حضور انور نے بہت پیار دیا اور بہت شفقت فرمائی اور میری اہلیہ کو انگوٹھی تبرک کر کے دی۔ہم بہت خوش قسمت ہیں اور بہت خوش ہیں۔ربوہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک دوست سلیم احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ آج یہ ہماری پہلی ملاقات تھی اور ایک ناقابل یقین تجربہ تھا۔ جب چھوٹے بیٹے نے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو اس نے بتایا کہ مجھے ایسا لگا جیسے چاند زمین پر آگیا ہو۔ حضور انور نے بہت شفقت فرمائی اور ہمیں تحفے عطا فرمائے۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام شام سوا 8 بجے تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور کچھ دیر کیلئے اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
9 بجے حضور انور نے تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

…٭…٭…٭…

مورخہ7؍ ستمبر2023ء بروز جمعرات


حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 5 بجکر 50 منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
صبح حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، رپورٹس اور خطوط ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔ حضور انور کی مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔

تقریب رخصتانہ


پروگرام کے مطابق شام 5 بجکر 50 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد سے ملحقہ ہال میں تشریف لے آئے جہاں عزیزہ عطیۃ القدوس صاحبہ بنت مکرم ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید کی تقریب رخصتانہ تھی۔
ماسٹر عبد القدوس صاحب آف ربوہ، پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں شدید اذیّت اور ٹارچر برداشت کرتے ہوئے 30؍مارچ2012ء کو اپنے خدا کے حضور حاضر ہوگئےتھے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اپنے 6؍اپریل2012ء کے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا:’’اس عزم اور ہمت کے پیکر نے جان دے دی مگر جھوٹی گواہی نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو بھی شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ پس اس عظیم شہیدنے ہمیں جہاں بہت سے سبق دئیے وہاں یہ سبق بھی دیا جو جماعت احمدیہ کے قیام کی بنیادی غرض ہے کہ توحید کے قیام کیلئے اپنی جان کی بھی کچھ پرواہ نہیں کرنی کیونکہ جھوٹ بھی شرک کے برابر ہے اور ہمارے سے شرک نہیں ہو سکتا۔ شہید مرحوم نے اپنے عہدِ بیعت کو بھی نبھایا اور خوب نبھایا۔ شہید مرحوم اگر اذیت کی وجہ سے پولیس کی من پسند سٹیٹمنٹ دے دیتے جیسا کہ وہ بتاتے رہے ہیں تو اس کے نتائج جماعت کیلئے مجموعی طور پر بھی بہت خطرناک ہو سکتے تھے…
پس اے قدوس! ہم تجھے سلام کرتے ہیں کہ تُو نے اپنے آپ کو انتہائی اذیت میں ڈالنا تو گوارا کر لیالیکن جماعت کی عزت پر حرف نہیں آنے دیا۔ تُو نے اپنی جان دے کر جماعت کو ایک بہت بڑے فتنے سے بچا لیا۔ پس ماسٹر عبدالقدوس ایک عام شہیدنہیں ہیں بلکہ شہداء میں بھی ان کا بڑا مقام ہے۔ اس عارضی دنیا سے تو ایک دن سب نے رخصت ہونا ہے، لیکن خوش قسمت ہیں ماسٹر عبدالقدوس صاحب جن کو خدا تعالیٰ نے زندہ کہا ہے۔ اور وہ ایسے رزق کے پانے والے بن گئے ہیں جو دنیاوی رزقوں سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔ جس جماعت اور جس مقصد کی خاطر انہوں نے قربانی دی ہے اُس کے بارے میں حقیقی خوشخبریوں کا پتہ تو انہیں اُس جہان میں جا کر چلا ہو گا۔ لیکن شہید مرحوم ہمیں جو سبق دے گئے ہیں ہمیں اُسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ پس جیسے بھی حالات گزر جائیں اللہ تعالیٰ کا دامن نہ چھوڑنا۔ یہ سبق انہوں نے دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس طرح بیان فرمایا ہے کہ دنیا والے تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اگر اللہ تعالیٰ سے تمہارا مضبوط تعلق ہے۔‘‘
تقریب رخصتانہ کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم ظافر احمد صاحب نے کی۔ اس کے بعد حفاظت احمد نوید صاحب مبلغ گیمبیا نے نظم پیش کی۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔
دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خواتین کے ہال میں تشریف لے گئے۔حضور انور نے ازراہ شفقت بچی کو پیار دیا اور اِس موقع پر فیملی ممبرز نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت بھی پائی۔

فیملی ملاقات اور ملاقات کرنے والوں کےایمان افروز تاثرات

بعد ازاں پروگرام کے مطابق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنے دفتر تشریف لے آئے۔ جہاں فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔
آج شام کے اس سیشن میں38؍ فیملیز کے130؍ افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔
ملاقات کرنے والی یہ فیملیز جرمنی کی جماعتوں

Mainz
Kaiserslautern
Olpe
Babenhausen
Koblenz
Erfurt Montabauer
Florstadt
Russelsheim
Viersen
Rudesheim
Karlsruhe
Wurzburg
Langen
Eich-Worms Friedberg
Speyer
Marburg


کے علاوہ پاکستان اور کینیڈا سے بھی آئی تھیں۔ حضور انور نے ازارہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کو قلم عطا فرمائےاور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
آج شام کے اس سیشن میں بھی ملاقات کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی تھی جو اپنی زندگی میں پہلی بار شرف ملاقات سے فیضیاب ہورہی تھی۔ آج کا دن ان کیلئے انتہائی بابرکت دن تھا۔ ان خوش نصیب لوگوں نے جہاں اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا وہاں ہر ایک ان بابرکت لمحات سے بے انتہا برکتیں سمیٹتے ہوئے باہر آیا۔ بیماروں نے اپنی صحت یابی کیلئے دعائیں حاصل کیں۔ مختلف پریشانیوں، تکلیفوں اور مسائل میں گھرے ہوئے لوگوں نے اپنی تکالیف دور ہونے کیلئے دعا کی درخواستیں کیں اور تسکین قلب پا کر مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ باہر نکلے۔ طلباء اور طالبات نے اپنی تعلیم اور امتحانات میں کامیابی کے حصول کیلئے اپنے آقا سے دعائیں حاصل کیں۔غرض ہر ایک نے اپنے آقا کی دعائوں سے حصّہ پایا۔ اپنی مراد پائی۔راحت و سکون اور اطمینان قلب حاصل ہوا۔
٭ایک بزرگ احمد خان صاحب جن کا تعلق گولیکی ضلع گجرات سے ہے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ میری حضور انور سے پہلی ملاقات تھی۔ آج میں بہت خوش ہوں اور میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش آج پوری ہوگئی ہے۔
٭ایک دوست ثمر سلطان صاحب نے بیان کیا کہ فیملی کے ساتھ یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ میں خوشی میں رات بھر سو نہ سکا۔دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر گیا۔ اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ ہمیں ایک ایسا وجود عطا ہوا ہے جو ہر وقت ہمارے لیے دعائیں کرتاہے۔
٭منڈی بہائوالدین پاکستان سے آنے والے ایک دوست نے بتایا کہ میری عمر ساٹھ سال ہے اور میں اپنی زندگی میں پہلی دفعہ ملاقات کر رہا تھا۔آج میں بہت خوش قسمت انسان ہوں۔مجھے روحانی طور پر نئی زندگی ملی ہے۔ میرا پاکستان سے آنے کا کوئی پروگرام نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ اس سعادت کے حصول کیلئے ہمیں خود یہاں لے آیا ہے۔
٭شاہ محمود سعادت صاحب جن کا تعلق ملک افغانستان سے ہے بیان کرتے ہیں کہ یہ میری زندگی کی حضور انورکے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ حضور انور کو دیکھ کر سب کچھ بھول گیا۔ جو کہنا چاہتا تھا کچھ نہ کہہ سکا۔ حضور کے چہرہ مبارک پر بہت نور تھا۔ حضور نے خود ہی سارے سوالات کیے اور ازراہ شفقت تبرک بھی عنایت فرمایا۔
٭خیر پور سندھ (پاکستان)سے آنے والے ایک دوست انیق احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ فیملی کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے جنت میں آگیا ہوں۔ یہ ملاقات ہمارا ایک خواب تھا۔ آج اللہ تعالیٰ نے ہمارا خواب پورا کر دیا ہے۔
٭وزیر آباد (پاکستان)سے آنے والے ایک دوست نعمان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور انور کو دیکھ کر سب کچھ بھول گیا۔ میں روحانی طور پر زندہ ہوا ہوں۔ میں اس تجربہ کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ میرے جذبات میرا ساتھ نہیں دے رہے۔ حضور انورنے ازراہ شفقت مجھے رومال تبرک عطا فرمایا۔
٭ایک نوجوان دوست وجاہت احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ سارا ماحول ہی روحانی تھا۔ سارا کمرہ ہی نور سے بھرا ہوا تھا۔ بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ حضور نے میرے بیٹے کے سَر پر پیار دیا۔ میرا سارا وجود ہل گیا ہے۔ میرا جسم کانپ رہا ہے۔ میں نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور نے جو توبہ، استغفار پر خطبہ دیا ہے اس سے میری روحانیت میں بہت ترقی ہوئی ہے۔
٭ایک دوست خالد طارق صاحب کی اپنی فیملی کے ساتھ حضور انور کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی۔ خالد طارق صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میں حضور کے پاس تھا تو ایسے لگا جیسے میں جنّت میں ہوں۔اِس دنیا میں نہیں ہوں۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں اس کیفیت کو بیان کرسکوں۔ان کی کیفیت بہت جذباتی تھی اور آنکھوں میں آنسو رواں تھے۔
٭سیالکوٹ سے آنے والے ایک نوجوان مبین احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ میری پہلی ملاقات تھی اس کا ایک علیحدہ ہی اثر تھا سارا ماحول ہی نورانی ہو گیا تھا۔ بہت ساری باتیں جو سوچ کر آیا تھا بھول گیا۔ حضور انور نے بیٹے کے سَر پر پیار دیا۔ حضور انور نے فرمایااپنی فیملی اور دین کو زیادہ وقت دینے کی کوشش کروں۔
٭پریم کوٹ ضلع حافظ آباد سے آنے والے ایک دوست مبشر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں آج بہت خوش ہوں۔ان کی اہلیہ ساتھ تھیں۔اہلیہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں تھے اور ان سے بات کرنی مشکل ہو رہی تھی۔
٭ایک دوست عمران سعید صاحب اسلام آباد پاکستان سے آئے تھے بیان کرتے ہیں کہ میں نے ملاقات کیلئے بہت دعائیں کی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں قبول فرمائیں اور آج ہمیں ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضور انور کا چہرہ مبارک اتنا نورانی ہے کہ اس پر نظر ٹھہرتی ہی نہیں تھی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت رومال تبرک کرکے دیا۔
٭لاہور سے آنے والے ایک دوست حماد احمد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ملاقات کے وقت جذبات الگ سے ہوتے ہیں جن کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں ہے۔ خلیفہ وقت کی ایک نظر آپ کو امر کر سکتی ہے۔ اللہ کرے کہ ہر احمدی حضور انور سے ملاقات کر سکے۔
٭ایک نوجوان اسامہ احمد خان جن کا تعلق سیالکوٹ (پاکستان) سے ہے ڈیڑھ سال قبل جرمنی آئے تھے۔ بیان کرتے ہیں کہ یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ آج میری زندگی کا مقصد پورا ہوگیا۔ میں نے حضور انور کو اتنے قریب سے دیکھ لیا۔ کہنے لگے کہ یہ کیفیت بیان کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ان کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے۔
٭ربوہ سے آنے والے ایک دوست سفیر احمد صاحب کہنے لگے کہ آج میری مراد پوری ہوگئی۔ میری زندگی کا مقصدپورا ہوگیا اب مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔ میرا جماعت سے پیار مزید بڑھ گیا ہے۔ حضور انور کا کمرہ نور سے بھرا ہوا تھا۔ حضور انور کے چہرہ مبارک پر ایسا نور تھا کہ میں نظر اٹھا ہی نہیں سکا۔ جو باتیں کرنی تھیں وہ سب بھول گیا۔
٭سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست زبیر محمود صاحب بیان کرتے ہیں کہ آج ہماری فیملی کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ ہم نے بہت دعائیں کی تھیں۔ بظاہر ملاقات کا کوئی امکان نہ تھا۔ اگرچہ درخواست بہت دیر سے دی تھی لیکن آج ہم نے قبولیت دعا کا عظیم الشان نشان دیکھ لیا ہے۔ میں نے راتوں کو رو رو کر دعائیں کی تھیں کہ بظاہر ملاقات کا تو کوئی چانس نہیں ہے لیکن ہماری ملاقات ہوجائے۔ ان کی اہلیہ کی بھی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور ان سے چلنا بھی مشکل ہورہا تھا۔انہوں نے بتایا کہ میں نے کل رات خواب میں دیکھا کہ جیسے ایک نور کی لہر آئی ہے۔ آج ملاقات سے یہ خواب پوری ہوگئی۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام سوا8 بجے تک جاری رہا۔بعد ازاں 9 بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لا کر نماز مغرب و عشا جمع کرکے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

…٭…٭…٭…