اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-23

مورخہ5؍ ستمبر2023ء بروز منگل

سیدنا حضرت امیر المومنینخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورہ جرمنی(اگست،ستمبر 2023ء)

فلاحی کام جو ہیں یہ ہمارا امتیازہیں اور فلاحی کام کرنا ہماری دینی تعلیم کا حصہ ہے
فلاحی کام کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں تعلیم دی ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم بندوں کے حقوق ادا نہیں کررہے تو تمہاری عبادت تمہارے پر الٹا کرماری جائیں گی

قرآن کریم میں لکھا ہے کہ یہ مختلف قبائل اور رنگ ونسل ،یہ تو تمہاری پہچان ہیں ،اصل میں تم ایک ہو، انسان ہو،
اس لئے ایک انسان ہو نے کے ناطے اپنی اہمیت کو سمجھو،جب ہم اپنی اہمیت کو سمجھ لیں گے تو بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے
بہت سارے مسائل ہم نے خود پیدا کئے ہوئے ہیں جس سے دنیا میں فساد پیدا ہورہاہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے پیدا کرنے والے کو بھول رہے ہیں 

اسلام ملکی قانون کی پابندی کی بڑی تلقین کرتا ہے
اسلام نے ہمیں حکم دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے بعد اپنی حکومت کے حکم کی بھی تعمیل کرو کیونکہ انہوںنے تمہیں مذہبی آزادی دی ہوئی ہے

ملک کی محبت تمہارے ایمان کا حصہ ہے

ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تعلیم کی اہمیت کی طرف
اس قدر توجہ دلائی ہے کہ فرمایا ہے کہ ایک انسان کو پنگھوڑے سے لے کر قبر تک تعلیم حاصل کرتے رہنا چاہئے

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی لڑکیوں کو اچھی تعلیم دو
جس کی تین لڑکیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تربیت کرے اور انہیں اچھی تعلیم دے ایسا شخص پھر جنت میں جائے گا

مَیں امید کرتا ہوں کہ اب اس مسجد کے بننے کے بعد احمدی اپنے رویوں کو ، اپنے اخلاق کو ، اپنی تعلیم کو مزید نکھار کر دُنیا کے سامنے پیش کریں گے

خطاب سیّدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبرموقع افتتاحی تقریب مسجد ناصر Waiblingenجرمنی

ہم ہمیشہ اس کیلئے تیار رہتے ہیں کہ ہم مذاہب کے درمیان اور مختلف کلچرز کے درمیان اور سوسائٹی کے درمیان ایک رابطے کاپُل بحال کریں

اگر ہم نے اپنے خالق کو نہیں پہچانا اور اگر ہم نے اس کے حقوق قائم نہیں کئے
اور اگر ہم نے حقوق العباد پر توجہ نہیں کی تو پھر آئندہ کی زندگی نہایت ہی تاریک معلوم ہوتی ہے

ریجنل ٹیلیویژن Regio TVکے نمائندہ Daniel Finkصاحب کا حضور انور سے انٹرویو
رپورٹ : مکرم عبد الماجد طاہر صاحب ،ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن، یو.کے


مورخہ5؍ ستمبر2023ء بروز منگل


حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صبح5 بجکر 50 منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کی مختلف دفتری امور کی ادائیگی میں مصروفیت رہی۔
آج پروگرام کے مطابقWaiblingenشہر میں نئی تعمیر ہونے والی’ مسجد ناصر ‘کے افتتاح کیلئے روانگی تھی۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ صبح 11بجے اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے۔ اس موقع پر مکرم ڈاکٹر مسعودالحسن نوری صاحب نے جو پاکستان سے جلسہ سالانہ جرمنی میں شرکت کیلئے آئے ہوئے تھے حضور انور کی خدمت میں سلام عرض کیا اور حضور انور نے ازراہ شفقت ان سے گفتگو فرمائی۔ اس موقع پر امریکہ سے آنے والے مبلغ ظہیر احمد باجوہ صاحب نے بھی حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں سلام عرض کرنے کی سعادت پائی۔بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کروائی اور یہاں سے روانگی ہوئی۔
بیت السبوح فرنکفرٹ سے Waiblingen شہر کا فاصلہ 212 کلومیٹر ہے۔ قریباً سوا دو گھنٹے کے سفر کے بعد شہر میں داخل ہونے سے قبل راستہ میں ہوٹلLe Villageمیں کچھ دیر کیلئے رکے بعد ازاں یہاں سے روانہ ہوکر 2 بجکر 5 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ’مسجد ناصر‘ تشریف آوری ہوئی۔
جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گاڑی سے باہر تشریف لائے تو مقامی جماعت کے احباب مرد و خواتین اور بچوں نے اپنے پیارے آقا کا بڑا والہانہ اور پرجوش استقبال کیا۔
آج ان کیلئے بے انتہا خوشیوں، مسرتوں اور برکتوں کے حصول کا دن تھا۔ ان کی سر زمین پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مبارک قدم پہلی مرتبہ پڑے تھے۔ آج ان کیلئے عید کا دن تھا۔ ہر کوئی خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا۔ ہر ایک کا دل اپنی خوش نصیبی پر جذبات تشکر سے بھرا ہوا تھا۔
مرد احباب نعرے بلند کر رہے تھے۔ خواتین شرف زیارت سے فیضیاب ہو رہی تھیں اور بچے اور بچیاں مختلف گروپس کی صورت میں خیر مقدمی، دعائیہ نظمیں پیش کر رہی تھیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا۔ اس موقع پر لوکل صدر جماعت پرویز احمد صاحب، ریجنل امیر بشارت احمد گل صاحب اور مربی سلسلہ Waiblingen شارق افتخار صاحب نے حضور انور کو خوش آمدید کہا۔
اس موقع پر شہر کے میئرBendikt Paulowitschاور ضلعی ناظم Rems- Murr-Kries، ڈاکٹر Peter Zaarصاحب بھی حضور انور کو خوش آمدید کہنے کیلئے موجود تھے۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کی بیرونی دیوار میں نصب تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی۔
اسکے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کے بالائی مردانہ ہال میں تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائی جس کے ساتھ اس مسجد کا باقاعدہ افتتاح عمل میں آیا۔
نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کچھ دیر کیلئے احباب میں رونق افروز رہے۔
حضور انور نے یہاں جماعت کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا جس پر صدر صاحب جماعت نے عرض کیا کہ اس وقت تجنید 396 ہے۔ یہ بڑھ رہی ہے اور چار سونو سے اوپر چلی جائے گی۔
بعد ازاں حضور انور نے دریافت فرمایا کہ یہاں اس جماعت میں کتنے نئے لوگ آئے ہیں۔ اس پر ایک دوست نے عرض کیا کہ وہ کچھ عرصہ قبل لاہور سے آئے ہیں۔ ایک طفل نے بتایا کہ تین ماہ قبل و ہ اپنی فیملی کے ساتھ یہاں پہنچا ہے اس کے والد صاحب یہاں پہلے سے موجود تھے۔
ایک نوجوان نے عرض کیا کہ وہ شیخو پورہ سے آیا ہے اس پر حضور انور نے فرمایا : وہاں تو مسجدوں کے مینارے گرائے جا رہے ہیں۔ وہاں وہ گراتے ہیں تو یہاں دس بن جاتے ہیں۔ آپ یہاں مسجدیں بنائیں، مینارے بنائیں۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ وہ کچھ عرصہ قبل کراچی سے آئے ہیں۔
ایک صاحب نے عرض کیا کہ وہ ربوہ سے آئے ہیں اور ’اشفاق کریانہ سٹور‘والے ہیں۔ اس پر حضور انور نے ازراہ شفقت عرض کیا کہ یہاں آکر بوڑھے ہوگئے ہیں۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کچھ دیر کیلئے مسجد کی بالائی منزل کے ٹیرس (Terrace) پر تشریف لے گئے۔ یہاں بھی نماز کیلئے صفیں بچھائی گئی تھیں۔ حضور انور نے فرمایا : موسم اچھا ہو تو یہاں بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کی نچلی منزل پر تشریف لے آئے۔ جہاں خواتین حضور انور کی آمد کی منتظر تھیں خواتین شرف زیارت سے فیضیاب ہوئیں۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ہال سے باہر کار پارک کے ایک حصہ میں تشریف لے آئے جہاں بڑی تعداد میں بچوں والی خواتین جمع تھیں اور بچیاں ترانے پیش کر رہی تھیں۔ حضور انور نے ازراہ شفقت بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
اس موقع پر ایک خاتون منزہ سلیم صاحبہ نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ سال2008ء میں حضور انور کی خدمت میں اس علاقہ میں مسجد کے حوالے سے دعا کیلئے خط لکھا تھا۔ جس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا تھا: ’’اللہ کرےاس علاقہ میں بھی ہماری مسجد ہو۔ آمین‘‘
اسکے بعد ہماری کوششیں جاری رہیں اور اب یہاں حضور انور کی دعائوں سے ہماری مسجد بن گئی ہے۔ ایک لجنہ ممبر نے درخواست کی کہ حضور ہم لجنہ ممبرز کو بھی چاکلیٹ دیں۔ اس پر ازراہ شفقت اس موقع پر موجود تمام لجنہ ممبرز کو بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
ایک طرف بچے ایک لائن میں کھڑے تھے حضور انور نے ازراہ شفقت بچوں کو بھی چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کے بیرونی احاطہ میں بادام کا پودا لگایا اور علاقہ کے میئر نے بھی ایک پودا لگایا۔
اسکے بعد لوکل مجلس عاملہ کے ممبران نے اور مسجد کی تعمیر میں وقار عمل کے ذریعہ حصہ لینے والے احباب اور خدام نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ مختلف گروپس کی صورت میں تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کچھ دیر کیلئے مربی سلسلہ شارق افتخار صاحب کے گھر تشریف لے گئے۔ موصوف کی رہائش مسجد سے ملحقہ مشن ہائوس میں ہے۔ حضور انور کے استفسار پر مربی صاحب نے بتایا کہ Living Roomکے علاوہ دو بیڈ روم پر مشتمل گھر ہے۔ حضور انور نے ازراہ شفقت گھر کے تمام کمروں اور باتھ روم، کچن وغیرہ کا جائزہ لیا۔
مسجد سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع شہر Kernen کے کمیونٹی ہال میں مسجد ناصر کےافتتاح کے حوالہ سے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد سے 3بجے روانہ ہو کر 3بجکر 10 منٹ پر اس ہال میں تشریف لے آئے۔
حضور انور کی آمد سے قبل اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمان اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔
آج کی اس تقریب میں 112مہمان شامل ہوئے جن میں مقامی سیاستدان، صوبائی سیاستدان، مختلف شہروں کے میئرز، ڈاکٹرز، پولیس، شہری انتظامیہ، سوشل ورکرز، مختلف چرچوں کے نمائندگان اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔
3 بجکر 12 منٹ پر تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم آفاق احمد شیخ صاحب نے کی اور اسکا جرمن زبان میں ترجمہ مکرم آفاق رزاق صاحب نے پیش کیا۔
اس کے بعد مکرم امیر صاحب جرمنی عبد اللہ واگس ہائوزر صاحب نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا۔
آغاز میں امیر صاحب جرمنی نے شہر Waiblingen کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ اس شہر کی آبادی 56 ہزار ہے اور یہ شہر صوبہ Wurttemberg میں واقع ہے۔ اس شہر کی تاریخ نہایت قدیم ہے۔
یہاں جماعت کا آغاز1988ء میں دس افراد سے ہوا۔ آج یہاں جماعت کی تجنید چار سو افراد سے زائد ہے۔
امیر صاحب نے مسجد کی تعمیر کے حوالہ سے رپورٹ پیش کر تے ہوئے بتایا کہ پہلے ہم ایک پلاٹ انڈسٹریل ایریا میں خریدنا چاہتے تھے لیکن اس وقت کے میئر اور شہری انتظامیہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مسجد کو شہر کے سینٹر کے قریب بنایا جائے۔چنانچہ سال 2015ء میں 576 مربع میٹر کا یہ پلاٹ خریدا گیا جو کہ ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے۔مسجد میں عورتوں اور مردوں کیلئے دو علیحدہ علیحدہ ہال ہیں اور ایک ملٹی فنکشنل روم بھی ہے۔ یہ مسجد تین منازل پر مشتمل ہے۔مسجد کے مینار کی اونچائی 13؍ میٹر ہے اور گنبد کا قطر 6؍ میٹر ہے۔ مسجد سے ملحقہ مربی ہائوس بھی تعمیر کیا گیا ہے اور مسجد کے نچلے حصہ میں Underground پارکنگ بھی ہے۔ مسجد میں لفٹ بھی لگائی گئی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر پر 1.5ملین یورو کا خرچ ہوا ہے اور ساری رقم لوکل جماعت نے ہی ادا کی ہے۔
امیر صاحب جرمنی کے ایڈریس کے بعد Siegfried Lorekصاحب جو کہ صوبائی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ سب سے پہلے انہوں نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اور پھر دیگر مہمانوں کو سلام پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسے زمانہ میں سے گزر رہے ہیں جس میں انسانیت کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس بات کا احساس ہمیں جرمنی میں بھی ہو رہا ہے۔ پہلے corona کا مسئلہ تھا، پھر جنگ شروع ہو گئی اور اب inflation وغیرہ کی مشکلات ہیں۔ بہت سے لوگ اس بات کے بارہ میں سوچتے ہیں کہ ان کا مستقبل یا پھر ان کے بچوں کا مستقبل کیسا ہو گا۔ ایسے حالات میں خاص طور پر دین انسان کو تقویت بخشتا ہے۔ اسی لیے مذہبی آزادی ہمارے آئین کا حصہ ہے۔
اسکے بعد انہوں نے کہا کہ آج کے دن مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میں آپ لوگوں کی تقریب میں شامل ہوسکا۔ میں آپ کو صوبائی پریذیڈنٹ Kretchmann کی طرف سےاور صوبائی پارلیمنٹ کی طرف سے بھی مسجد کے افتتاح کے موقع پر مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ مسجد ناصر ایسی جگہ پر واقع ہے جو شہر کے centre میں ہے۔
پھر انہوں نے کہا کہ آپ لوگ خدمت خلق میں بہت active ہیں اور صرف آج کل ہی نہیں بلکہ 1988ء سے ہی یہ بات ملتی ہے۔ ان activities کی وجہ سے آپ لوگ مختلف لوگوں اور کلچرز کے درمیان پیار و محبت کا رشتہ قائم کرتے ہیں۔ آپ لوگ مسجد کے دروازے کھولتے ہیں یا پھر خون کا عطیہ دینے کے پروگرامز منعقد کرتے ہیں۔ پھر آپ لوگ old houses میں جا کر ہمارے بڑی عمر کے لوگوں کیلئے خوشی کا باعث بنتے ہیں اور یا پھر آپ لوگ charity-walk منعقد کرتے ہیں جس کے ذریعہ سے مختلف فلاحی تنظیموں کو مدد پہنچتی ہے۔
آخر پر انہوں نے کہا کہ نئی مسجد بننے سے آپ لوگوں کو اب اکٹھے ہو نے کی ایک جگہ میسر ہو گئی ہے اور یہ مسجد جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے سب لوگوں کیلئے ہے، ہر کوئی اس مسجد میں داخل ہوسکتا ہے۔ پھر انہوں نے حضور انور کے تشریف لانے کا بھی شکریہ ادا کیا۔
بعد ازاں صوبائی ممبر پارلیمنٹ Petra Heffner نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔
سب سے پہلے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو سلام پیش کیا اور پھرتمام حاضر احباب و خواتین کوخوش آمدید کہا۔ پھرموصوفہ نے کہا: میں آپ لوگوں کو مسجد ناصر کے افتتاح کے موقع پر مبارک باد پیش کرنا چاہتی ہوں۔ آپ لوگوں کیلئے یہ مسجد ایک اکٹھے ہونے کی جگہ ہے، ایک امن کی جگہ ہے، ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ لوگ اپنا تبادلہ خیال کرسکیں۔مجھے آج بہت خوشی ہو رہی ہے کہ میں مسلمانوں کے سامنے کچھ خیالات کا اظہار کر رہی ہوں۔ مجھے یہ موقع دینا اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ آپ لوگ سب سے dialogue کیلئے تیار ہیں اور خفیہ طور پر نہیں رہنا چاہتے۔
پھر موصوفہ نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ میں جرمنی میں اور صوبہ Baden-Württemberg میں رہتی ہوں۔ ہمارا آئین تمام لوگوں کو، ہر جماعت کو مذہبی آزادی دیتا ہے۔ صرف ایک ہی اس میں شرط ہے اور وہ یہ کہ آئین کی خلاف ورزی نہیں کرنی۔ مذہبی آزادی آج کل بھی تمام ممالک میں میسر نہیں ہے۔میرے نزدیک آپ لوگوں کی جماعت ہمارے علاقہ کا مفید وجود ہے۔ آپ لوگوں کی خدمت خلق کی بھی میں نہایت ممنون ہوں، خواہ وہ نئے سال کے موقع پر صفائی کا کام ہو یا خون کے عطیہ دینے کے منصوبے ہوں وغیرہ۔ معاشرہ کی ایسی خدمات قابل اعزاز اور نہایت اہم ہیں۔ آپ لوگ اس طرح سے ہمارے معاشرے میں ہم آہنگی اور امن پیدا کرنے میں ممد ہیں۔
آخر پر موصوفہ نے کہا کہ جماعت احمدیہ تو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ لوگ ہر کلچر، ہر مذہب اور ہر وطن کے ساتھ کھلے دل سے رہ سکتے ہیں۔ میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ آپ لوگوں نے مجھے سیاستدان کے طور پر بطور مہمان خصوصی مدعو کیا۔ اس لیے میں آپ لوگوں کو بھی ہماری پارلیمنٹ میں آنے کی دعوت دینا چاہتی ہوں۔ شکریہ۔
اس کے بعد Dr.Peter Zaar نے ایڈریس پیش کیا۔انہوں نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اور دیگر مہمانوں کو سلام پیش کرنے کے بعد کہا:سب سے پہلے تو میں آپ کو پارلیمنٹ کی طرف سے آپ لوگوں کی صد سالہ جوبلی کے حوالہ سے مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ساتھ ہی میں آپ لوگوں کو مسجد کے افتتاح کیلئے بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ مجھے ابھی مسجد میں بھی ساتھ جانے کا موقع ملا تھا۔ اب آپ لوگوں کو تقریباً 400؍ افراد کیلئے ایک عبادت گاہ میسر ہے جس میں آپ سب اکٹھے ہوسکیں، عبادت بجا لاسکیں، علم حاصل کرسکیں۔ پرانے سنٹر کی اب ضرورت نہیں رہے گی بلکہ اب آپ لوگوں کو سٹیشن کے قریب ہی ایک مسجد مل گئی جو ایک central جگہ پر واقع ہے۔
اسکے بعد موصوف نے کہا کہ پہلے یہ بھی ذکر ہوا تھا کہ جماعت کے بہت سے ممبران کا تعلق پاکستان سے ہے لیکن اب آپ لوگوںکی دوسری یا تیسری generation ہمارے اس علاقہ میں آباد ہے۔ آپ لوگوں کے پہلے احباب 1970ءکے بعد سے پاکستان سے ہجرت کر کے ادھر آئے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ادھر آباد ہوئے۔ پاکستان میں آپ کی جماعت پر مظالم ہوتے ہیں اور آزادی میسر نہیں۔ اس لیے ہمیں اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ہم لوگ آپ کو جرمنی میں ایک نیا گھر دے سکتے ہیں۔
پھر موصوف نے کہا کہ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ آپ لوگ سب کیلئے اپنے دروازے کھلے رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح آپ لوگوں کی امن پسندی، تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت، مذہبی آزادی، معاشرتی ہم آہنگی اور بڑوں کی عزت کرنا، ایسے اقدار ہیں جو ہمارے علاقہ کیلئے مفید ثابت ہوتے ہیں۔ آپ لوگوں کی خدمت خلق میں فعال خدمات کا کئی بار ذکر ہو چکا ہے، ان کو گنوانے کی اب ضرورت باقی نہیں۔ مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ کئی سالوں کی محنت کے بعد اب آپ لوگوں کی مسجد کا افتتاح آپ لوگوں کے روحانی سربراہ کی موجودگی میں ہوا ہے۔
آخر پر موصوف نے دعوت کا شکریہ ادا کیا اور جماعت کیلئے اپنی نیک تمناؤں کا ذکر کیا۔
اس کے بعد شہر Kern کے میئر Benedikt Paulowitsch نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔انہوں نے سب سے پہلے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اور پھر دیگر مہمانوں کو سلام پیش کیا۔ اسکے بعد میئر صاحب نے کہا: ہمارے لیے بہت خوشی کا دن ہے کہ آپ لوگ ہمارے شہر میں اس community-hall میں یہ خوشی کا موقع منانے کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ لیکن خاص طور پر میں آپ لوگوں کو آپ کی مسجد کے قیام کیلئے مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں صرف آپ لوگوں کی جماعت کو ہی نہیں مبارک باد دینا چاہتا بلکہ یہ مسجد کا افتتاح سب کیلئے ایک خوشی کی خبر لاتا ہے۔ جرمنی بے شک secularہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ گورنمنٹ اور مذہبی جماعتوں کو آپس میں تعاون نہیں کرنا چاہئے بلکہ سوسائٹی میں امن پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ تمام مذاہب کی جماعتیں اور تمام دیگر گروہ اور کونسلز وغیرہ مل کر تعاون کرتے ہوئے کام کریں اور جیسا پہلے مقررین سے سنا ہے کہ آپ لوگ پہلے سے بہت فعال ہیں خواہ وہ ہمارے کمزوروں اور بوڑھوں کی مدد ہو یا پھر ادھر امن پیدا کرنے کی کوششیں۔ آج کل کے زمانہ میں یہ کوئی سہل کام نہیں ہے کہ امن کیلئے کوششیں اور کام کیا جائے۔ آج کل مختلف ممالک اور مختلف مذاہب بھی آپس میں لڑائیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ لیکن ہم سب اگرمل کر امن کی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمارے اندر امن کی ضرورت ہے۔ پھر ہمارے گھروں میں امن کی ضرورت ہو گی اور ہمارے ہمسایوں کے ساتھ امن میں رہنے کی ضرورت ہو گی۔ اس لیے یہ ایک بہت اچھی خبر ہے کہ آپ کی جماعت ادھر فعال ہے اور ہم سب مل کر تعاون کرتے ہوئے امن کیلئے کوششیں کریں۔
آخر پر میئر صاحب نے سب کا شکریہ ادا کیا۔ بعد ازاں 3بجکر 45 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا۔


خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبرموقع افتتاحی تقریب مسجد ناصر Waiblingen جرمنی


تشہد و تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:تمام معزز مہمانان، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اس علاقہ میں مسلمانوں کو ایک مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی، جس میں وہ اکٹھے ہو کر عبادت کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ صرف عبادت کا حق ادا نہیں کرنا بلکہ اور بہت سے کام جو معاشرہ کیلئے، ہمسایوں کیلئے اور اپنی ترقی کیلئے ضروری ہے، ان کے بارہ میں سوچ بچار کرتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں اس علاقہ کے میئر، کونسلرز اور ہمسایوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں بھرپور طریقہ سے مدد فراہم کی۔ مسجد جو ہماری بنی ہے یہ صرف مردوں کیلئے نہیں عورتیں بھی اس سےبہت خوش ہیں۔ ابھی مسجد میں نماز کے بعد میں وہاں عورتوں اور بچوں سے ملنے بھی گیا۔ وہاں ایک خاتون نے مجھے کہا کہ ہم ایک عرصہ سے دعا کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایک گھر دے میں آپ کو دعا کیلئے بھی لکھتی تھی، آج ہم بہت خوش ہیں کہ ہمیں مسجد مل گئی ہے، جس میں اب ہم اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مسجد وہ جگہ ہے جہاں مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہوتے ہیں اور ایسے پروگرام کرتے ہیں جو ان کی تربیت کیلئے بہتر ہوں، جو نہ صرف انہیں دینی تعلیم دینے والے ہوتے ہیں بلکہ دنیاوی تعلیم کی طرف بھی انہیں توجہ دلانے والے ہوتے ہیں۔ انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ملکی قوانین کی آپ نے کس طرح پابندی کرنی ہے، آپ نے اچھا شہری کس طرح بننا ہے،یہ بتایا جاتا ہے کہ ہمسایوں کے ساتھ کیسے اچھا سلوک کرنا ہے۔ یہ ساری باتیں مسجد میں آنے والوں کو عبادت کے ساتھ ساتھ تربیت کے طور پر بتائی جاتی ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: امیر صاحب نے بتایا کہ یہاں جماعت نے فلاحی کام بھی کیے، خدمت خلق کے کام بھی کیے ہیں جسے مقامی لوگوں نے بہت سراہا۔ یہ فلاحی کام اور خدمت خلق کے کام ہی وہ چیز ہیںجس سے اصل انسانیت کی قدروں کا پتا چلتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کا فضل ہے امیر ملک ہے، اتنی ضروریات نہیں ہیں لیکن پھر بھی جہاں ضرورت ہو جماعت احمدیہ فلاحی خدمت کرنے کی پوری کوشش کرتی ہے۔ لیکن جو افریقہ کے غریب ممالک ہیں، تیسری دنیا کے ممالک ہیں، وہاں جماعت احمدیہ جہاں مسجد بناتی ہے، وہاں سکول بھی بناتی ہے، ہسپتال بھی بناتی ہے، ماڈل ولیج بھی بناتی ہے ، پانی کی فراہمی کے سامان بھی کرتی ہے، یتیم خانے بھی بناتی ہے۔ یہ تمام فلاحی کام ہم دنیا میں کر رہے ہیں اور بلا امتیاز مذہب و نسل کر رہے ہیں۔ میں پہلے بھی کئی جگہ بیان کر چکا ہوں یہاں بھی بتا دوں کہ اکثر ہمارے فلاحی کام،اسکول، ہسپتال اورفلاحی ادارے جو ہیں اوران سے دنیا میں فائدہ اٹھانے والے جو سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ہیں صرف احمدی نہیں، بلکہ ستر سے اسی فیصد وہ لوگ ہیں جونہ صرف یہ کہ احمدی نہیں، بلکہ ان میں سے مسلمان بھی نہیں۔ بہت سے عیسائی ہیں، Pagan ہیں اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں جو فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پس یہ فلاحی کام جو ہیں یہ ہمارا امتیاز ہیں، اور فلاحی کام کرنا ہماری دینی تعلیم کا حصہ ہے۔ فلاحی کام کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم بندوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے تو تمہاری نمازیں جو تم مسجد میں آکر ادا کرتے ہو، میری عبادت کیلئے آتے ہو تو وہ تمہارے پر الٹا کر ماری جائیں گی۔ بندوں کے حق ادا کرو پھر میرے پاس آؤ تو میں تمہاری دعائیں بھی قبول کروں گا اور ان کا اجر دوں گا۔ پس یہ وہ تعلیم ہے جس پر ہم عمل کرنے والے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: امیر صاحب نے ذکر کیا کہ لارڈ میئر صاحب نے زمین کے حصول میں اور اسکی تعمیر کے مختلف مراحل میں بڑی مدد کی، میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ ان کا حق بنتا ہے کہ ان کا شکریہ ادا کیا جائے اور اسی طرح ہمسایوں کا بھی شکریہ ادا کیا جائے۔ Integration کے سٹیٹ سیکرٹری صاحب نے بھی یہاں آکر کچھ الفاظ کہے۔ انہوں نے یہ بات کی کہ دنیا میں بڑی مشکلات ہیں، اور مجھے ان کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ ان مشکلات کو دُور کرنے کیلئے مذہب راستہ دکھاتا ہے۔ آج کل لوگ اللہ تعالیٰ سے دُور ہو رہے ہیں، چرچ کو بھی شکوہ ہے، مسجد کو بھی شکوہ ہے، دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی شکوہ ہےکہ مذہب سے دُور ہو رہے ہیں، اپنے پیدا کرنے والے خدا سے دُور ہو رہے ہیں اور اس وجہ سے بہت سارے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ جو دنیا میں بیماریاں ہیں یا جنگیں ہیں یا مسائل ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہیں کہ ہم یہ بات بھول رہے ہیں کہ ہم آدم کی اولاد ہیں اوراس خدا کی مخلوق ہیں جس نے تمام دنیا کو پیدا کیا۔ یہ جو مختلف رنگ کے لوگ ہیں، مختلف مذہب کے لوگ ہیں، مختلف قوموں کے لوگ ہیں،مختلف قبیلوں کے لوگ ہیں یہ تو ایک پہچان کے طور پرہے۔ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ یہ مختلف قبائل اور رنگ و نسل ہے یہ تو تمہاری پہچان کیلئےمختلف چیزیں ہیں، اصل میں تم ایک ہو، انسان ہو، اس پے ایک انسان ہونے کے ناطے اپنی اہمیت کو سمجھو۔ جب ہم اپنی اہمیت کو سمجھ لیں گے تو بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ کووڈ کی بیماری تو ایک وبا ہے، وبائیں آتی ہیں، طوفان بھی آتے ہیں لیکن بہت سارے مسائل ہم نے خود پیدا کیے ہوئے ہیں جس سے دنیا میں فساد پیدا ہورہا ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم اپنے پیدا کرنے والے کو بھول رہے ہیں، ہم مذہب سے دور جا رہے ہیں۔ اگر ہم اس حقیقت کو پہچان لیں اور مذہب کی حقیقی تعلیم کی طرف توجہ دیں تو کوئی مذہب ایسا نہیں، نہ اسلام، نہ عیسائیت، نہ یہودیت، نہ کوئی اور مذہب نہ ہندوازم، کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جو کہتا ہو کہ ایک دوسرے کے حق مارو اور فساد پیدا کرو۔ ہر ایک مذہب کے بانی نے پیارو محبت کی تعلیم دی ہے اور اس تعلیم کو ہمیں اپنانے کی ضرورت ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: بہرحال اسلام نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ تمہارا فرض بنتا ہے کہ بندوں کے حق ادا کریں۔ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ اگر بندوں کے حق ادا نہیں کرو گے، ان کی خدمت نہیں کرو گے، فلاحی کام نہیں کرو گے، ضرورتمندوںکا خیال نہیں رکھو گے، یتیم کا خیال نہیں رکھو گے، مسکین کا خیال نہیں رکھو گے تو پھر تمہاری عبادتیں اور مسجد میں آنا بے فائدہ ہے۔ پس یہ سوچ ہے ہماری اور ہم اس سوچ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اسی طرح صوبائی پارلیمنٹ کی ممبر صاحبہ بھی تشریف لائیں۔ انہوں نے بھی مذہبی آزادی کے حوالہ سے بات کی۔ اس لحاظ سے میں انکا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ملکی قانون کی پاسداری کی انہوں نے بات کی۔ یہ تو بنیادی چیز ہے۔ اسلام ملکی قانون کی پابندی کی بڑی تلقین کرتا ہے۔ اسلام نے ہمیں حکم دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے بعد اپنی حکومت کے حکم کی بھی تعمیل کرو کیونکہ انہوں نے تمہیں مذہبی آزادی دی ہوئی ہے۔ مسجد بنانے کی اجازت دی، تمہیں عبادت کرنے کی اجازت دی۔ اس لیے جہاں مذہبی آزادی ہے وہاں اس ملک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کے قانون کی پہلے سے زیادہ پابندی کرنی چاہئے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اسلام ہمیں یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ ملک کی محبت تمہارے ایمان کا حصہ ہے۔ پس اس لحاظ سے بھی یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ نہ صرف ملکی قانون کی پابندی کریں، بلکہ حکام کی بھی پابندی کریں۔ حکومت کے ساتھ بھی مکمل تعاون کریں۔ یہی چیز ہے جو فساد کو روک سکتی ہے۔ آپس میں محبت اور بھائی چارہ کی فضا قائم کر سکتی ہے۔جو امن قائم کر سکتی ہے۔ اگر یہ نہیں تو پھر کسی طرح بھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اس خاتون نے تعلیم کی بھی بات کی۔ اس لحاظ سے میں یہ بھی بتادوں کہ ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تعلیم کی اہمیت کی طرف اس قدر توجہ دلائی ہے کہ فرمایا کہ ایک انسان کو پنگھوڑے سے لے کرقبر تک تعلیم حاصل کرتے رہنا چاہئے۔ اپنے علم کو بڑھاتے رہنا چاہئے اور یہ علم ہی ہے، یہ تعلیم ہی ہے جو تمہارے دماغ کو روشن کرے گا، تمہارے ذہن کو کھولے گا اور تمہیں اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے کی توفیق دے گا۔ اس سے پھر تم دنیا میں امن قائم کرنے کی طرف توجہ دیتے ہو اور کوشش کرتے ہو۔ لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق بعض اوقا ت شبہات ہوتے ہیں کہ پتا نہیں شاید اسلام عورت کے حق مارتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی لڑکیوں کو اچھی تعلیم دو۔ بلکہ اس قدر تاکید کی کہ فرمایا جس کی تین لڑکیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تربیت کرے اور انہیں اچھی تعلیم دے اور انہیں معاشرہ کا اچھا حصہ بنائے۔ ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کیلئے مواقع فراہم کرے تو ایسا شخص پھر جنت میں جائے گا۔ تو یہ عورت کا مقام ہے جو اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ اس طرح تم تعلیم حاصل کرو اور خاص طور پر عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ دوتا کہ تمہاری اگلی نسلیں بھی سنبھالی جائیں۔ جب ایسا ہو گا تو یقیناً جو اس کی تربیت کرنے والا ہے وہ تو جنت میں جائے گا بلکہ آگے جن بچوں کی اس عورت نے تربیت کی ہو گی، وہ بھی دنیا و آخرت میں اچھا مقام حاصل کرنے والےہوںگے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں ڈسٹرکٹ کے نمائندہ کے الفاظ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان کی اس بات پر کہ انہوں نے ہمیں اس ملک میں جگہ دی، ہمیں مذہبی آزادی دی، اس کیلئے ہم ان کے ممنون ہیں۔ اکثر لوگ جو یہاں پاکستان سےآئے ہیں وہ ایسے حالات میں آئے ہیں کہ جہاں مذہبی آزادی نہیں تھی۔ ان سے مذہبی آزادی چھین لی گئی تھی۔ یہاں آکر جب انہیں مذہبی آزادی ملی تو اس سے بڑھ کر کیا بات ہو سکتی ہے۔ اب وہ اپنے مذہب کے مطابق ایک خدا کی عبادت کر سکتےہیں اور لوگوں کو بتا سکتے ہیں کہ ہم وہ لوگ ہیں جو ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں اور یہ ہماری تعلیم ہے۔ اس شہر کے میئر صاحب نے بھی بہت اعلیٰ خیالات کا اظہار کیا۔ یہ بات بھی انہوں نے کی کہ یہ ایک خواب تھا جو پورا ہو گیا۔ یقیناً یہ جماعت احمدیہ کا خواب تھا جو پورا ہوا۔ جیسا کہ شروع میں میں نے ذکر کیا کہ اس عورت نے مجھےآج ہی کہا کہ ہمارا ایک خواب تھا جو آج پورا ہو گیا۔ آج ہم سب مرد، بچے، عورتیں یہاں عبادت کیلئے حاضر ہوئے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنے باقی دوسرے پروگرام بھی کریںگے۔ بہرحال میئر صاحب نے بھی یہی بات کی ہے کہ مذہبی آزادی بہت ضروری چیز ہے۔ اگر حکومت مذہبی آزادی دیتی ہے تو اسی سے امن پیدا ہو گا اور اسی سے پھر معاشرہ میں بھائی چارہ اور محبت پیدا ہو تی ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پڑوسی کا حق اسلام ہمیں دیتا ہے۔ مسجد بن گئی ہے۔ ہوسکتا ہے بعض پڑوسیوں کو شکوک و شبہات بھی ہو رہے ہوں۔ آج بھی وہاں بہت لوگ اکٹھے تھے، بہت زیادہ نعرے بھی لگ رہے تھے، کچھ لوگ ڈسٹرب بھی ہوئے ہوں گے لیکن پڑوسی کے حق کی بابت اسلام کہتا ہے کہ چالیس گھر تک تمہارے پڑوسی ہیں اور تم نے ان کا حق ادا کرنا ہے۔ ان کا حق ادا کرنے کی نصیحت بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حد تک فرمائی کہ صحابہ ؓ نے گمان کیا کہ شاید پڑوسی ہماری وراثت میں بھی حصہ دار نہ ہو جائیں۔ کہیں یہ حکم نہ آ جائے۔ پڑوسی کی پھر تعریف یہ ہے کہ تمہارےگھر کے ارد گرد رہنے والے چالیس گھروں تک، پھر تمہارے ساتھ سفر کرنے والے تمہارے پڑوسی ہیں، تمہارے ساتھ دفتر میں کام کرنے والے تمہارے پڑوسی ہیں، راستوں میں ملنے والے تمہارے پڑوسی ہیں۔ پس پڑوسیوں کی طرح ان کا حق ادا کرنے کی کوشش کرو۔ اس طرح معاشرہ کے ہر فرد کی طرف توجہ دلا دی کہ اسکا حق اسے اپنا ہمسایہ سمجھ کر ادا کرو۔ اگر ایسا کرو گے تو یہی چیز ہے جس سے معاشرہ میں امن، پیار اور صلح قائم ہو گی۔ یہی چیز جب صحیح طرح قائم ہو جائے تو پھر ملک کی ترقی کا بھی ذریعہ بن جاتی ہے۔ یہ چیز نہ صرف تمہاری بہتری کیلئے ہے بلکہ مجموعی طور پر ملک بھی اس سے ترقی کرتا ہے۔ یہ ہماری سوچ ہے اور اس لحاظ سے ہم ہر جگہ جماعت احمدیہ کے بارہ میں بتاتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں امید کرتا ہوں کہ اب اس مسجد کے بننے کے بعد احمدی اپنے رویوں کو، اپنے اخلاق کو، اپنی تعلیم کو مزید نکھار کر دنیا کے سامنےپیش کریںگے۔ اس معاشرہ، ماحول اور اس شہر کے لوگوں کے سامنے اور ہمسایوں میں تا کہ انہیں پتا لگے کہ حقیقی اسلامی تعلیم امن پیار اور صلح و آشتی کی تعلیم ہے۔ یہی وہ تعلیم ہے جس سے جہاں ہم اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے والے بن سکتے ہیں اس پر عمل کرکے وہاں لوگوں کے حق بھی ادا کرنے والے بن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے سب احمدیوں کو جو یہاں رہتے ہیں اس با ت کی توفیق دےکہ وہ اور آپ لوگ صلح ،امن اور آشتی کا ایک سمبل بن جائیں۔ اس دعا کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں، شکریہ۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب 4 بجکر 2 منٹ پر ختم ہوا۔بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔اسکے بعد مہمانوں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیت میں کھانا کھایا۔

ریجنل ٹیلیویژن کے نمائندہ کو انٹرویو


بعد ازاں 4 بجکر 40منٹ پر یہاں کے ریجنل ٹیلیویژن Regio TV کے نمائندہ Daniel Fink صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے انٹرویو لیا۔
صحافی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے سوال کیا کہ آپ کواس مسجد کے افتتاح پر کتنا فخر ہے؟
اسکے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ جہاں بھی ہم مسجد بنائیں وہاں ہم فخرمحسوس کر نے کے بجائے عاجزی اختیار کرتے ہیں۔ ہم اپنے قادرخدا کے سامنے سجدے میں گرتے ہیں کیونکہ اس نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا کہ ہم ایک عبادت کی جگہ ایک اور شہر میں قیام میں لائےہیں۔
صحافی نے اس کے بعد پوچھا کہ آپ کے نزدیک مسجد کی اہمیت کیا ہے؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جیسا کہ میں نے اپنے خطاب میں بھی بیان کیا تھا کہ مسجد کے قیام بلکہ مذہب کے دو مقصد ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ ایک ہی قادر و خالق خدا کی عبادت کی جائے یعنی جو حقوق اس خالق خدا کے ہیں انہیں سر انجام دیا جائے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ حقوق العباد بجا لائے جائیں۔ اور اسی مقصد کیلئے مساجد بنائی جاتی ہیں۔
صحافی نے پوچھا کہ آپ اسکے علاوہ دوسرے کلچرز سے رابطہ قائم کرنا چاہتے ہیں یعنی دوسرے کلچرز سے مل کر interreligious ملاقاتیں کرنا چاہتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: بالکل صحیح، یہ بات ضروری ہے۔ اس لیے ہم لوگ ہمیشہ تیار ہوتے ہیں کہ دوسروں سے بات چیت کی جائے، اسی لیے ہم بین المذاہب میٹنگز منعقد کرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ سال قبل ہم نے انٹرنیشنل conference لنڈن میں منعقد کی تھی۔ اسی لیے ہم ہمیشہ اس کیلئے تیار رہتے ہیں کہ ہم مذاہب کے درمیان اور مختلف کلچرز کے درمیان اور سوسائٹی کے درمیان ایک رابطے کا پُل بحال کریں۔ اس طرح سے سب اپنی سوسائٹی میں امن اور محبت اور ہم آہنگی پیدا کرسکتے ہیں اور پھر اسی طرح پوری دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔
صحافی نے پوچھا کہ جیسا آپ نے فرمایا ہے کہ امن نہایت ہی ضروری ہے، تو آپ کی آئندہ کی امیدیں کیا ہیں؟
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں یہ بات اکثر کہتا رہتا ہوں بلکہ ابھی ہی جلسہ سالانہ stuttgart کے خطاب میں بھی میں نے اس بات کا ذکر کیا کہ اگر ہم نے اپنے خالق کو نہیں پہچانا اور اگر ہم نے اس کے حقوق قائم نہیں کیے، اور اگر ہم نے حقوق العباد پر توجہ نہیں کی تو پھر آئندہ کی زندگی نہایت ہی تاریک معلوم ہوتی ہے۔ پھر کوئی بھی امیدیں نہیں رکھنی چاہئیں لیکن اگر دنیا کے حالات آج کل دیکھے جائیں کہ کس طرح سے crises اور conflicts میں مبتلا ہے تو مجھے کوئی خاص امید نہیں۔
بعد ازاں پروگرام کے مطابق 4 بجکر 47 منٹ پر یہاں سے بیت السبوح فرنکفرٹ کیلئے روانگی ہوئی۔ راستہ میں کچھ دیر کیلئے ہوٹل Le Village رکے۔ بعد ازاں سفر جاری رہا۔ قریباً دو گھنٹہ سفر کے بعد8 بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیت السبوح تشریف آوری ہوئی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

نمازجنازہ حاضر وغائب


بعد ازاں 9 بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لا کر دو مرحومین مکرم محمد اصغر صاحب جرمنی اور بشارت علی صاحب ہالینڈ کی نماز جنازہ حاضر اور دو مرحومین مکرمہ آصفہ مشہود صاحبہ اور مکرم احمد نور صاحب کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
مرحوم محمد اصغر آصف صاحب کا تعلق جماعت HANNOVER سے تھا۔3؍ ستمبر2023ء کو بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کا نظام جماعت سے اچھا تعلق تھا۔ باقاعدگی سے چندہ جات ادا کرتے اور جماعتی پروگرام میں شامل ہوتے۔ شعبہ ضیافت میں بڑے شوق اور بھرپور طریق سے مدد کرتے آپ دھیمے مزاج کے مالک اور نہایت خوش خلق انسان تھے۔
مرحوم بشارت علی صاحب آف ہالینڈ مورخہ 31؍ اگست 2023ء کو بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔آپ 1941ء میں کلاس والا ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ دو سال قبل ہالینڈ آئے تھے۔ نہایت شریف النفس، مخلص اور قربانی کرنے والے ایک با اخلاق انسان تھے۔ آپ محمد ارشد صاحب زعیم انصاراللہ جماعت بادسودن کے بڑے بھائی تھے۔
آصفہ مشہود صاحبہ زوجہ مکرم مشہود احمد صاحب (دارالصدر غربی لطیف ربوہ) نے 5؍ جون2023ء کو بعمر 58 سال بقضائے الٰہی وفات پائی۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔مرحومہ نے اپنے خاوند کی وفات کے بعد بڑی ہمت اور حوصلہ سے ہر مشکل کا مقابلہ کیا، سیکرٹری وقف نو، سیکرٹری صنعت و دستکاری، سیکرٹری تحریک جدید اور سیکر ٹری رسالہ مصباح کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔
مکرم احمد نور صاحب ابن مکرم شیر زمان صاحب (واہ کینٹ راولپنڈی) نے 7 ؍جون2023ء کو99 سال کی عمر میں وفات پائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم خوف خدا رکھنے والے نہایت صاف گو انسان تھے۔ 78سال کی عمر میں راہ حق کو قبول کر کے ایثار وقربانی کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ گائوں میں اکیلا احمدی گھرانہ ہونے کے باعث نہایت نامساعد حالات کا سامنا کیا مگر پائے ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی۔ ایک پوتا محمد دانش فاروق صاحب واقف زندگی جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے مرحومین کے ورثاء سے اظہار تعزیت فرمایا۔بعد ازاں حضور انور نے تشریف لا کر نماز مغر ب و عشاء جمع کر کے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے آئے۔

(باقی آئندہ)

…٭…٭…٭…