اب ایک ہی ہاتھ ہے جو مسلمانوں کو اکٹھا کر سکتا ہے، وہ آنحضرت ﷺ کے غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہاتھ ہے
ایک جگہ اکٹھے ہوں گے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیچھے چلیں گے تو وحدت پیدا ہوگی ورنہ بکھر جائیں گے
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اِسی لئے آئے تھے کہ امت مسلمہ کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کریں ،
اس بارہ میں آپؑکوالہام بھی ہوا تھا کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کروعَلٰی دِیْنٍ وَاحِدٍ
مسلمان اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ تعلیم دیں اور اپنے علم کو عملی جامہ پہنائیں کیونکہ یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے وہ امت کی موجودہ حالت کو بدل سکتے ہیں
مَیں اِس ملاقات کی منتظر تھی اور دیوانہ وار جذباتی تھی ،مَیں نے ملاقات کے دوران اُس طاقت اور توانائی کو محسوس کیا
جو حضور انور کی ذات سے حاصل ہوتی ہےیعنی ایک ہی وقت میں امن اور سلامتی (قرغیزستان سےYulia Gubanovaصاحبہ)
جلسہ سالانہ میں شامل ہوکر ایک بار پھرمجھے یقین ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی جماعت کی تائید کررہاہے،
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی امامت میں جب میں نے نماز پڑھی تو ایسا محسوس کیا کہ جیسے اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہاہے (قرغیزستان سے Ilyas Vahidovصاحب)
جلسہ میرے لئے بے حد اِنسپائرنگ تھا اور بہت پوزیٹواینرجی دے گیا ،جلسہ گاہ میں حضورکے ساتھ نمازوں میں
مجھے اپنے آنسوں پر اختیار نہیں رہا، بیعت کی تقریب بھی نہایت جذباتی تھی (البانیہ سے Xhaferr Kuciصاحب)
جلسہ بہت عظیم الشان تھا، یہاں مَیں نے اسلام دیکھا ، دوسرے مسلمانوں سے آپ کے پاس واضح فرق خلافت ہے
اور اس کی وجہ سے آپ کے پاس اتحاد بھی ہے (البانیہ سےProf Dr. Rexhep Shkurtiصاحب)
جلسہ میں پہلی دفعہ آیا ہوں جلسہ بہت اچھا آرگنائز تھا،مسلمانوں کیلئے ایک نمونہ ہے ، مسلمان امت اس کو مثال کے طور پر لیں (کوسوو سے آنے والے ایک مہمان)
جلسہ کے تین دن میری زندگی کے غیر معمولی دن تھے ، اسلامی عقائد پر روشنی ڈالنے والے خلیفہ کے خطابات نہایت ہی عمدہ تھے،
ان دنوں نے میرے دل پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں (کوسوو سے Burim Bruchaiصاحب)
جلسہ کے دنوں ، مَیں نے جو لیکچر ز سنے اور باتیں سیکھیں وہ میری یادداشت میں ہمیشہ نقش رہیں گی، مَیں اور میرے ساتھیوں نے
جو غیر معمولی اور محبت سے بھری ہوئی مہمان نوازی کا تجربہ کیا وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ رہے گی (کوسوو سے آفیشل ڈائریکٹر آف ایجوکیشن میونسپلٹی آف دیکان)
جلسہ نے مجھ پر ایک گہرانقش چھوڑا اور مَیں اتحاد ، امن اور بھائی چارہ کے اس جذبے سے بہت متاثر ہو اہوں جو اس اجتماع کےہر پہلو پر چھایا ہوا تھا،
خلیفہ وقت کی تقریر میرے لئے حیرت انگیز اور ایمان افروز تھی (کوسوو کے شہر Elezhanکے میئرMehmet Ballazhiصاحب)
میرے لئے خاص بات وہ ایمان افروز اور دل دہلادینے والی تقریریں تھیں جواسلام کے خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے کیں
خلیفہ کے امن ، اتحاد اور ہمدردی کے پیغامات نے ہمارے دلوں اور دماغوں پر ایک گہرا اثر چھوڑا ہے
حضور کی حکمت اور قیادت کا خود مشاہدہ کرنا میرے لئے ایک اعزاز تھا (کوسوو کے شہر Elezhanمیونسپلٹی کے ایجوکیشن ڈائریکٹر Hisni Luriصاحب)
رپورٹ : مکرم عبد الماجد طاہر صاحب ،ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن، یو.کے
مورخہ4؍ستمبر 2023ء بروز سوموار
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صبح 5 بجکر 50 منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔ حضور انور کی مختلف دفتری امور کی ادائیگی میں مصروفیت رہی۔آج پروگرام کے مطابق مختلف ممالک سے آنے والے وفود کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات تھی۔
قزاقستان، قرغیزستان اور ازبکستان سے آنے والے وفود کی ملاقات
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 10 بجکر 35 منٹ پر مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لائے جہاں قزاقستان، قرغیزستان اور ازبکستان سے آنے والے وفود کی اجتماعی ملاقات تھی۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ کا جلسہ کیسا گزرا، کچھ سیکھا، کیا دیکھا ؟ اس پر قزاقستان کے ایک دوست نے عرض کیا کہ یہ میرا چوتھا جلسہ سالانہ ہے۔ میں جلسہ قادیان پر بھی گیا ہوں اورجلسہ یوکے میں بھی شامل ہوا ہوں۔ خدا تعالیٰ نے اب مجھے یہاں موقع دیا ہے۔ میں جلسہ کے انتظامات سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ اتنے بڑے وسیع پیمانہ پر انتظامات ہوئے تھے۔ تین دن بہت جلدی گزر گئے۔ ہمیں جو لطف آرہا تھا۔ اب و ہ جلدی ختم ہو جائے گا۔
قرغیزستان سے آنے والے ایک مہمان نے عرض کیا کہ یہ میرا پہلا جلسہ سالانہ تھا جس میں شامل ہوا ہوں۔ جب میں نے حضور انور کے پیچھے نماز ادا کی تو مجھے بہت رونا آیا۔ جیسے کسی چیز نے مجھے گھیر لیا ہے۔ ایسی نماز میں نے کبھی نہیں پڑھی۔ موصوف نے اپنے لیے اور شہید کی فیملی کیلئے درخواست دعا کی۔
موصوف کی باتوں کا اردو ترجمہ مربی سلسلہ قرغیزستان غیاث بیگ صاحب کر رہے تھے۔ موصوف نے جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل غانا سے شاہد کا امتحان پاس کیا تھا۔ حضورانور نے فرمایا کہ اب تم یہاں بھی اردو سیکھو۔ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام پڑھا کرو۔ روزانہ کچھ صفحات پڑھا کرو اور اپنی اردو زبان مزید بہتر کرو۔
ایک دوست الیاس صاحب نے اپنے بیٹے کا نام رکھنے کی درخواست کی۔ اس پر حضور انور نے فرمایا ’’محمود‘‘ نام رکھ لیں۔
ایک قرغز دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کیا کہ دوسری دفعہ جلسہ میں شامل ہوا ہوں۔ میرے جذبات بہت زیادہ ہیں بیان نہیں کر سکتا۔ قرغیزستان جماعت کی طرف سے سلام عرض کرتا ہوں اور دعا کی درخواست کرتا ہوں۔ حضور انور نے فرمایا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
بعد ازاں ملک ازبکستان سے آنے والے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ کی خدمت میں جماعت کی طرف سے سلام عرض کی۔ موصوف نے بتایا کہ اُس نے چھ ماہ قبل بیعت کی تھی۔ اس کے ساتھ بعض اور لوگوں نے بھی ویزا اپلائی کیا تھا لیکن ان کو ابھی تک ویزا نہ مل سکا۔ اس پر حضور انور نے فرمایا۔اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
ایک خاتون نے سوا ل کیا کہ چائنا میں مسلمانوں کے حالات بہت خراب ہیں۔ کیا وہ وہاں ظلم سہتے رہیں گے۔
حضور انور نے فرمایا جہاں کہیں بھی ظلم ہو ہم تو ہر جگہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ فرمایا سب دعا کریں۔ کوششیں کریں، لیڈروں کو بتائیں۔ بحیثیت القوم ڈپلومیسی سے مسائل حل کریں آجکل کے حالات میں یہی اس کا حل ہے۔
حضور انور نے فرمایا: اصحاب کہف کی طرح زندگی گزارو۔پھر اپنے مسائل حل کرو۔ بہرحال دعا سب سے ضروری ہے۔
بعض ممبران نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔
٭ قزاقستان سے آنے والے ایک احمدی دوست علی بیگ صاحب بیان کرتے ہیں: جلسہ میں شامل ہونا بہت اچھا لگا جب بیعت کی تو ایک الگ ہی احساس تھا اور جب حضور انور سے ملاقات ہوئی تو میرے سب احساسات، جذبات اپنے آخری نقطہ کو پہنچ گئے اور میرا جلسہ پر آنے کا مقصد پورا ہو گیا۔ جلسہ میں شمولیت کا اثر اتنا زیادہ ہے کہ میری بیوی اور بچے بھی کہہ رہے تھے کہ تم بدل گئے ہو۔ اگلے سال انشاء اللہ بیوی اور بچوں کے ساتھ جلسہ میں شامل ہونے کا ارادہ ہے۔
٭ قزاقستان سے آنے والے بائیگل آقان صاحب اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں جلسہ سالانہ جرمنی کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ سب کچھ بہترین تھا۔ حضور انور کا اسلام کے ان اصولوں کا بیان جو جدید مسائل، مظلوموں کے مسائل پر مشتمل ہیں اپنے حسن انتخاب اور فصاحت معنوی سے حیران کر دینے والا ہے۔ اسی طرح میں تمام شاملین، مقررین اور مترجمین کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ علاوہ ازیں ’’خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلق‘‘ کے عنوان پر کی گئی تقریر نے دل کو چھوتے ہوئے آبدیدہ کر دیا۔
٭ قزاخستان سے آنے والے رفعت توکاموف صاحب اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ جلسہ اعلیٰ سطح پر منعقد ہوا۔تقاریر بہت عمدہ تھیں اور ان میں موجود نورِ احمدیت کے ذریعے ان تمام سوالات کے جوابات مل گئے جو ہمارے موجودہ دور کیلئے موزوں ہیں۔ الغرض خوشیوں کے یہ تین دن جن میں ہم نے اپنے پیارے آقا کی آواز سنی، حضور کی تقاریر ہمارے لیے روح کا مرہم بنیں، اللہ تعالیٰ ہمیں حضور کے تمام ارشادات اور خواہشات کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ سیّدی! جب پیارے آقا نے جماعت کو الوداع کہا، تو حضور کے مبارک چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ دیکھ کر میرے دل میں آرزو پیدا ہوئی کہ آقا کا غلام اس جلسہ میں حاضر ہونے کیلئے سب کچھ قربان کر دے۔
٭ قزاقستان سے یِسبول صاحب اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: جلسہ سالانہ میں شمولیت کے بعد میرے جوجذبات ہیں میں ان کو بیان نہیں کرسکتا، مزید یہ کہ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میرا ایمان بہت مضبوط ہوا ہے۔ حضور انور سے ذاتی ملاقات کے دوران میں صرف رو رہا تھا اور کچھ بھی بول نہیں پایا۔اللہ تعالیٰ اس جلسہ کوہم سب کیلئے بہت بابرکت کرے۔
٭ قزاقستان سے آنے والے ایک احمدی دوست اسلان تیمرخانوف صاحب بیان کرتے ہیں: حضور کے خطابات اور مقررین جلسہ کی تقاریر نے مجھ پر نہایت مفید اثر چھوڑا۔ دل کو چھوتے ہوئے بہت سے مواقع پر غور و فکر کرنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے عزم کر لیا ہے کہ ان شاء اللہ اگلے سال جلسہ سالانہ میں شامل ہو کر حضور کو دیکھ سکوں اور شرفِ مصافحہ حاصل کر سکوں۔
٭ ایک قرغیز احمدی مہمان نے کہا:حضورِانور میں مجھے صرف نور ہی محسوس نہیں ہوتا ہے بلکہ کچھ اور بھی محسوس ہوتا ہے جو میرے لیے قاصر البیان ہے مگر دل ونین دونوں بھر آتے ہیں۔
٭ قرغیزستان سے Bakhmatov Zamirbek Kachievichصاحب تحریر کرتے ہیں: میرے نزدیک جلسہ سالانہ جرمنی بہت اعلیٰ سطح پر منعقد ہوا۔ میں دوسری مرتبہ جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوا۔ میں ایک دفعہ جلسہ سالانہ لندن میں بھی شامل ہوچکا ہوں۔ میں جب بھی جلسہ سالانہ میں آتا ہوں تو مجھے نئی چیزیں اور نئی باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کوئی وجہ ہے کہ جلسہ سالانہ ختم ہونے کے بعد اپنی جگہ یعنی اپنے گھر جانے کو دل نہیں کرتا۔ جلسہ سالانہ کے دوران مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میں جنت میں چل رہا ہوں۔ اِمسال میں اپنے تمام اہلِ خانہ کے ساتھ جلسہ سالانہ میں شرکت کرتا لیکن حالات کے باعث میں صرف اپنے بڑے بیٹے کو ساتھ لایا ہوں۔ میرے بیٹے کو بھی سب کچھ پسند آیا ہے۔
اِسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں کہ ایسی ملاقات میسر آئی جس طرح کی ملاقات کا مجھے ایک طویل عرصہ سے انتظار تھا۔ حضور کو دیکھنا ہمارے لیے نہایت خوش قسمتی کی بات ہے۔ جلسہ سالانہ بہت اعلیٰ سطح پر منعقد ہوا۔ آپ سے ملاقات بھی بہت اچھی رہی۔ اس پر میں اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر گزار ہوں۔
٭ قرغیزستان سے کاچِیو آئیدر بیگ (Kachiev Aiderbek)صاحب تحریر کرتے ہیں کہ جلسہ کے دوران میں نے اپنے مذہب اور جماعت کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ مجھے میرے بہت سے سوالات کے جوابات مل گئے۔میں اپنی زندگی میں پہلی دفعہ جلسہ سالانہ میں شامل ہوا ہوں۔ اور پہلی دفعہ ہی بیرون ملک نکلا ہوں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اتنے لوگوں کا ہجوم ہوگا۔ جلسہ کے دوران میں نے وہاں ہونے والی تمام باتیں سنیں۔ اور مجھے بہت دلچسپ لگیں۔ سب کچھ بہت بہترین تھا۔
٭قرغیزستان سے کِشتَوبائیف سلامت (Kishtobaev Salamat) صاحب تحریر کرتے ہیںکہ آج 4؍ستمبر کو ہم نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی۔ ملاقات بہت پسندیدہ اور عمدہ رہی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ جیسے ہی ہال میں داخل ہوئے میں اُن کے چہرے پر نور دیکھ کر بہت جذباتی کیفیت میں آگیا۔ حضور انور وقت کی کمی کے باوجود ہمارے تمام سوالات کے جوابات دیتے رہے۔ میری دو چھوٹی بیٹیوں کو تحائف سے بھی نوازا۔ ایسا موقع نصیب ہونے پر ہم اللہ تعالیٰ کا ہزارہا شکر ادا کرتے ہیں۔
٭ قرغیزستان سے یولیا گبانَووَہ (Yulia Gubanova) صاحبہ تحریر کرتی ہیں: آج 4؍ستمبر 2023ء کو جلسہ سالانہ کے بعد حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے وہ ملاقات ہوئی جس کا طویل عرصہ سے انتظار تھا۔ اور میں اپنے دلی تاثرات بتانا چاہتی ہوں۔ میں واقعۃً اِس ملاقات کی منتظر تھی اور دیوانہ وار جذباتی تھی۔ کیونکہ حضور صرف جماعت احمدیہ مسلمہ کے سربراہ ہی نہیں بلکہ ایک ایسی ہستی ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے خود منتخب کیا ہے۔ اور لوگوں کی قیادت اُن کے سپرد کی ہے۔ اور ملاقات کے دوران اُس طاقت اور توانائی کو محسوس کیا جو حضورِ انور کی ذات سے حاصل ہوتی ہے۔ یعنی ایک ہی وقت میں امن اور سلامتی۔ جذبات کا مرکب اور رونے کی شدید خواہش۔ بلاشبہ ایسے پاکیزہ انسان کی صحبت میں رہنے سے آپ کی روح لازماً کوشش کرتی ہے کہ کچھ حد تک اُس جیسا بن جائے۔ یہ وہ ماحول ہے جس میں ہمیشہ رہنے کو دل چاہتا ہے۔ اور یہ ناقابل یقین خوشی ایک ایسے راہنما کی قیادت میں ہے جس سے آپ کوئی بھی سوال پوچھ سکتے ہیں او ر آسمان و زمین کے خالق کے مذہب کی بنیاد پر واضح جواب حاصل کر سکتے ہیں۔ میں اپنے امام سے ملنے، اُن کے پیچھے نماز پڑھنے اور ہم خیال لوگوں کی جماعت میں شامل ہونے پر اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ادا کرتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حضور پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ اور اُنہیں اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازے۔ ملاقات ناقابلِ فراموش تھی۔
٭ قرغیزستان سے جلال الدین صاحب تحریر کرتے ہیں: مجھے پہلی دفعہ کسی جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے۔ اسی طرح حضور انور کی امامت میں نماز پڑھنے کی توفیق مل رہی ہے۔ حضور انور کی امامت میں نماز پڑھتے ہوئے ایسی روحانی لذت نصیب ہوئی کہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اتنی تعداد میں لوگ ہوں گے۔ میں اللہ تعالیٰ کا بے حد شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اس جلسہ میں شامل ہونے کی توفیق دی۔ اِسی طرح میں ایمان و تقویٰ میں مضبوطی محسوس کر رہا ہوں۔ الحمدللہ
٭ قرغیزستان سے الیاس وَحِیدَوف(Ilyas Vahidov) صاحب تحریر کرتے ہیں: خاکسار قرغیزستان سے جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوا۔ جلسہ سالانہ میں شامل ہو کر ایک بار پھر مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی جماعت کی تائید کر رہا ہے۔ جلسہ سالانہ میں سب سے زیادہ جس چیز نے میری روح پر اثر کیا وہ یہ تھا کہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی امامت میں جب میں نے نماز پڑھی تو ایسا محسوس کیا کہ جیسے اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔
٭قرغیزستان سے وَحِیدَوف اَشیر علی (Vakhidov Ashirali) صاحب تحریر کرتے ہیں:خاکسار دس سال قبل جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوا تھا۔اور اُس وقت تین مساجد کے افتتاح میں شامل ہونے کی توفیق ملی تھی۔ اس کیلئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ پھر اس سال جلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت کرنے کی توفیق دی ہے۔ گذشتہ دس سالوں میں جماعت احمدیہ جرمنی کی ترقیات دیکھ کر مجھے یہ معلوم ہوا کہ اس راز کے پیچھے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعائیں اور آپ کا بابرکت وجود ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی تائید جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے۔ان دس سالوں کے فرق میں یہ بھی نظر آرہا ہے کہ یہ جماعت وہی جماعت ہے جس کی رسول اللہ ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی۔ اور وہ پیشگوئیاں جماعت احمدیہ پر پوری ہو رہی ہیں۔ اور یہ سب ترقیات حضورِ انور کی دعاؤں اور خلافت کی برکت سے ہو رہی ہیں۔ حضورِ انور کا خطاب سن کر میں نے اپنی کمیوں کو محسوس کیا۔ ایمان میں اضافہ اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کےلیے مزید اشتیاق اور جذبہ پیدا ہوا۔
البانیہ سے آنے والے وفد کی ملاقات
بعد ازاں 11 بجکر 58 منٹ پر ملک البانیہ (Albania) سے آنے والے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کا شرف پایا۔ البانیہ سے 20؍ افراد پر مشتمل وفد جلسہ میں شامل ہوا تھا۔
حضور انور کے دریافت فرمانے پر عرض کیا گیا کہ پانچ افراد ایسے ہیں جو پہلی مرتبہ آئے ہیں۔ حضور انور نے ان سے دریافت فرمایا کہ آپ کو جلسہ کیسا لگا۔ سبھی نے اس بات کا اظہار کیا کہ جلسہ بہت شاندار تھا اور بڑا منظم تھا۔
یونیورسٹی کے ایک پروفیسر صاحب نے عرض کیا کہ وہ اس وقت یونیورسٹی میں پڑھا بھی رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ریسرچ بھی کر رہے ہیں۔ حضور انور کے استفسار پر کہ کس قسم کی ریسرچ کر رہے ہیں۔ موصوف نے بتایا کہ خصوصاً بچوں کی بیماریوں سے متعلق ریسرچ ہے اور حالت حمل کے دوران بھی بچوں میں جو بیماریاں آجاتی ہیں یہ بھی میری ریسرچ میں شامل ہے۔
ایک احمدی دوست نے عرض کیا کہ ہماری روحانی حالت کم ہوتی جارہی تھی۔ گذشتہ سالوں میں جلسہ نہیں ہوا۔ جلسہ پر آکر بہت خوشی ہوتی ہے۔ یہاں سے ہم سارے سال کیلئے اپنی بیٹری چارج کر کے جاتے ہیں۔ ہمیں حضور کیلئے بےحساب پیار ہے۔ میں اپنے جذبات بیان نہیں کرسکتا۔
ایک مہمان نے سوال کیا کہ نماز کے دوران مختلف خیالات ذہن میں آجاتے ہیں تو اس پر حضور انور نے فرمایا: اَعُوْذُ بِاللّٰہِ پڑھا کرو اورلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ پڑھا کرو پھر دعا کی طرف توجہ کرو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ نماز میں بار بار خیال آتا ہے نماز گرتی ہے تو دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف اپنی توجہ کرو۔ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ، اَعُوْذُ بِاللّٰہِ پڑھا کرو۔
حضور انور نے فرمایا: یہ ایک مسلسل مجاہدہ اور کوشش ہے۔ ایک وقت میں آکر ٹھیک ہوجاتا ہے۔
نائب صدر جماعت البانیہ نے عرض کیا کہ وہ جلسہ میں کئی دفعہ آئے ہیں۔ حضور انور نے عہدیداران کے بارہ میں خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ حضور انور نے فرمایا میں نے کل ہی اپنے خطاب میں بتا دیا تھا کہ حقیقی اسلام کی تعلیم کا اپنا نمونہ پیش کرو۔آپ کا یہ عملی نمونہ خاموش تبلیغ ہے۔ حضور انور نے فرمایا عہدیداران والا خطبہ آپ کیلئے بھی ہے۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ ہم نے زیتون کے 220 درخت مسجد کے احاطے میں لگائے ہوئے ہیں، ہم خود اپنا تیل لے کر آئے ہیں۔ موصوف نے حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ ہم نے خود جا کر اپنے سامنے یہ تیل نکلوایا ہے۔
٭ ایک البانین احمدی گَزیم مُژاچی (Gezim Muzhaqi)نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: یہ جلسہ انہیں غیر معمولی طور پر عظیم الشان لگا۔ انتظامات بہت اعلیٰ تھے۔ اور اشکبار آنکھوں سے کہا کہ کورونا کے سالوں کے گیپ کی وجہ سے ہماری روح کی ضرورت ہوگئی تھی۔ جلسہ کی وجہ سے اور حضور سے ملاقات کی وجہ سے ایک سال تک گویا روح چارج ہوگئی ہے۔
٭ البانیہ سے آنے والے ایک مہمان جعفر کُوچی (Xhaferr Kuci) صاحب جنہوں نے اِکنامکس میں ماسٹر کیا ہے اور 2020ء میں چار سال کی تحقیق کے بعد بیعت کی تھی، انہوں نے بتایا: جلسہ ان کیلئے بے حد inspiringتھا اور بہت positive energy دے گیا۔ جلسہ گاہ میں حضور کے ساتھ نمازوں میں مجھے اپنے آنسوں پر اختیار نہیں رہا۔ میں نے پہلی بار حضور کو دیکھا۔ اسی طرح بیعت کی تقریب بھی نہایت جذباتی تھی۔ ملاقات میں حضور کو دیکھتے ہوئے محسوس ہو رہا تھا کہ حضور مجھے ایک تحفظ کا احساس دے رہے ہیں اور مجھے یقین ہوتا جارہا تھا کہ یہی وہ شخص ہے جو میرا عزیز اور میرا مُطاع ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ حضور ایک شفیق باپ ہیں جو احباب جماعت سے بے حد پیار کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک بات جو مجھے اچھی نہیں لگی وہ یہ کہ جلسہ میں کئی بار بعض لوگ تقریر کے اختتام سے قبل ہی اُٹھ کر چلے جایا کرتے تھے۔
٭ البانیہ سے آنے والے ایک مہمان بُیار رامائے (Dr. Bujar Ramaj) صاحب نے بتایا: جلسہ کے انتظامات نئی جگہ ہونے کے باوجود نہایت اعلیٰ تھے جیسے کسی scenography میں سب کچھ ترتیب سے رکھاجاتا ہے۔ Screen کی مدد سے جو ڈاکومنٹری اور دیگر چیزیں دکھائی گئیں ان سے بہت فائدہ ہوا۔ الغرض نئے حالات میں بھی انتظامات اعلیٰ تھے۔ تقاریر بہت عمدہ تھیں۔ حضور کا اختتامی خطاب بشمول پچھلے کیے گئے خطابات کے ہمیں ایک راہنما ماڈل معاشرہ تشکیل دینے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
٭ البانیہ سے ایک مہمان Silvi صاحب بہت سالوں کے بعد دوسری بار جلسہ پر آئے تھے۔ موصوف نے کہا: یہ میرے لیے اپنی زندگی کے بہترین لمحات تھے۔ جلسہ کے انتظامات نہایت اعلیٰ تھے۔ جلسہ کے قریب رہائش ہونے کی وجہ سے حضور کے ساتھ فجر اور مغرب وعشاء کی نمازیں بھی پڑھنے کی پہلی بار توفیق ملی۔ کھانا بہت اچھا تھااور صفائی کا معیار بھی بہت بہتر تھا۔
٭ البانیہ کے ایک مہمان رجیپ شکُورتی(Prof. Dr. Rexhep Shkurti)تھے جو Tirana University میں Faculty of Natural Sciences میں پروفیسر ہیں اپنی اہلیہ کے ساتھ آئے تھے۔موصوف نےکہا: جلسہ بہت عظیم الشان تھا۔ میں دس سال سے روزہ رکھتا ہوں اور اسلام کے دوسرے احکام کی بھی، اگر چہ سارے نہیں، پابندی کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہاں میں نے اسلام دیکھا ہے۔ دوسرے مسلمانوں سے آپ کے پاس واضح فرق خلافت ہے اور اس کی وجہ سے آپ کے پاس اتحاد بھی ہے۔
٭ عمر جیرجی (Imer Gjergji) صاحب البانین احمدی ہیں۔ موصوف نے بتایا: جلسہ روح کی غذا تھا۔ ہوٹل قریب ہونے کی وجہ سے حضور کے ساتھ ظہر و عصر کے علاوہ مغرب و عشاء کی نمازیں بھی پڑھنےکا موقع ملتا رہا۔ جلسے کے انتظامات نہایت عمدہ تھے۔ تاہم جلسہ کا نقشہ اور کچھ سائن بورڈز جرمن کے علاوہ اگر انگریزی میں بھی ہوتے تو اچھا ہوتا۔
٭ البانیہ سے ایک مہمان خاتون ایر مِیرا علی باشی (Ermira Alibashi) جو کہ نرس ہیں کہتی ہیں: اس سے پہلے بھی جلسہ پر آئی تھی۔ اس بار اسی روحانی تڑپ کی وجہ سے دوبارہ جلسہ پر آئی ہوں۔ اس بار پہلی دفعہ میں نے نماز پڑھی ہے۔ میرے ساتھ قدسیہ صاحبہ حضور کی آواز کو سنتے ہوئے نماز پڑھ رہی تھی اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر نقل کرتی جارہی تھی۔ پہلی بار میرے روح کا ہر ذرہ گویا حرکت میں آیا۔ سجدے میں رو رو کر دعائیں کر رہی تھی اور ایسا لگ ر ہا تھا کہ میری ساری نفرتیں پگھلتی جارہی تھیں۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے ایمان میں مضبوطی عطاکرے۔ حضور سے ملاقات کے دوران مجھے ہمیشہ ایسا لگتا ہے کہ میں اپنے والد محترم کو دیکھ رہی ہوں۔
٭ البانیہ سے آنے والی ایک مہمان خاتون دریتے شکورتی (Drite Shkurti) صاحبہ High School Teacher ہیں۔ موصوفہ نے کہا: جلسہ کے انتظامات نہایت اعلیٰ تھے۔ میں سکول میں ٹیچر ہوتے ہوئے جانتی ہوں کہ آج کل کے بچے کتنے ایگریسو ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں پر بچے بھی اتنے سلجھے ہوئے تھے کہ اپنی ڈیوٹیوں میں مگن تھے۔ یہ میرے لیے بہت حیران کن تھا۔ تجسس مجھے جلسہ کے دوران عام کھانے کے ہال کی طرف لے گیا جو بازار سے پہلے تھا۔ وہاں پر بھی میں نے دیکھا کہ ہزاروں مرد کھانا کھارہے تھے لیکن کوئی جھگڑا، چھینا جھپٹی وغیرہ بالکل نہیں دیکھی۔ ایسا لگتا تھا جیسا کہ سب شہد کی مکھیاں ہیںجو صرف کام کرنا جانتی ہیں۔ لوگ ہر کام کیلئے تیار تھے اور اخلاق اتنے اعلیٰ کہ تھوڑا بھی دھکا لگتا تو فوراً احتیاط سے sorry کہتے۔
کوسوووسے آنے والے وفد کی ملاقات
پروگرام کے مطابق اسکے بعد ملک کوسووو سے آنے والے وفد کے ممبران نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔ Kosovo سے 36؍ افراد پر مشتمل وفد جلسہ میں شامل ہوا تھا۔
ایک مہمان نے عرض کیا کہ میں اس جلسہ میں پہلی دفعہ آیا ہوں جلسہ بہت اچھا آرگنائز تھا۔ مسلمانوں کیلئے ایک نمونہ ہے۔ مسلمان امت اس کو مثال کے طور پر لیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا اسی لیے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام آئے تھے کہ امت مسلمہ کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کریں۔ اس بارہ میں آپؑ کو الہام بھی ہوا تھا کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو علی دینٍ واحدٍ
پس اب ایک ہی ہاتھ ہے جو مسلمانوں کو اکٹھا کر سکتا ہے۔ وہ آنحضرت ﷺ کے غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہاتھ ہے۔ ایک جگہ اکٹھے ہوں گے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیچھے چلیں گے تو وحدت پیدا ہوگی ورنہ بکھر جائیں گے۔
Kosovo سے آنے والے ایک جرنلسٹ نے عرض کیا کہ پچاس ہزار لوگ جمع تھے۔ ایک بھی مسئلہ نہ ہوا۔ یہ حیران کن بات تھی۔ اس پر حضور انور نے فرمایا واپس جاکر جلسے کے حالات پر ایک مضمون لکھیں۔ احتیاط سے حکمت کے ساتھ تاکہ سارا تعارف ہوجائے۔ ا س پر موصوف نے کہا کہ میں ضرور پیغام پہنچائوں گا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مخالفت ہوتی ہے لیکن مخالفت میں ترقی ہوتی ہے۔ان شاءاللہ ٹھیک ہوجائے گا۔ آپ محدود طور پر اپنے حلقے میں پیغام پہنچاسکتے ہیں۔
٭ کوسووو (Kosovo) سے آنے والے ایک مہمان بُورِمْ بُرُوْ چَائی(Mr. Burim Bruchai) صاحب جو کہ تاریخ کے استاد ہیں، بیان کرتے ہیں: جلسہ کے تین دن میری زندگی کے غیر معمولی دن تھے۔ اسلامی عقائدپر روشنی ڈالنے والے خلیفہ کے خطابات نہایت ہی عمدہ تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے خلیفہ کو سلامت رکھے۔ مجھے بے شمار نئے، شاندار افراد سے ملنے کی خوشی ہوئی۔ اجتماعی ماحول واقعی حوصلہ افزا تھا، اور ان دنوں نے میرے دل پرگہرے نقوش چھوڑے ہیں۔مجھے مستقبل میں دوبارہ جلسہ سالانہ میں شرکت کے موقع کی پوری امید ہے کیونکہ اس تقریب نے نہ صرف روحانی رزق فراہم کیا ہے بلکہ ہم خیال افراد کے باہمی روابط استوار کرنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔
ان دنوں میں ہونے والے خلیفہ وقت کے خطابات اور دیگر تقاریر سے جو بھی سیکھاہے وہ اپنے دوستوں کو واپس جا کر ضرور بتاؤں گا۔
٭ Kosovo سے آنے والے مہمان جو آفیشل ڈائریکٹر آف ایجوکیشن، میونسپلٹی آف دیکان ہیں، اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:جلسہ کے دنوں، میں نے جو لیکچرز سنے اور باتیں سیکھیں وہ میری یادداشت میں ہمیشہ نقش رہیں گی۔ میں کوسووو میں اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو اس جلسہ کے حوالہ سے بتانے کیلئے بے چین ہوں۔ خاص طور پر میں خلیفہ وقت کی بیان کردہ خوبصورت تعلیمات پر عمل کروں گا۔ مزید برآں، میں اور میرے ساتھیوں نے جو غیر معمولی اورمحبت سے بھری ہوئی مہمان نوازی کا تجربہ کیا وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ رہے گی۔ اللہ آپ سب کو ڈھیروں خوشیاں عطا فرمائے اور آپ کو اپنی رحمتوں سے نوازے۔
٭ Kosovo سے آنے والے ایک مہمان پریمتم فاضلیو (Mr. Premtim Fazliu) جو سماجی پالیسیوں کے شعبہ کے سربراہ ہیں، اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: دوران جلسہ مجھے دنیا کے کونے کونے سے آنے والے لوگوں سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ جلسہ کے دوران جو ایک بات میں نے محسوس کی وہ حاضرین کے درمیان یکجہتی تھی۔میرے لیے ایک خاص بات اسلام کے متعلق لگائی جانے والی ایک نمائش تھی۔ اس نے اسلامی دنیا کے بھرپور ثقافتی اور فنی ورثے کی عکاسی کی جس نے مجھ پرگہرا اثر چھوڑا ہے۔
عالمی سطح پر ہیومینٹی فرسٹ کی ناقابل یقین اور انتھک کوششوں کا مشاہدہ کرنا واقعی متأثر کن تھا۔ انہوں نے جن متعدد منصوبوں پر عمل درآمد کیا ہے، لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈال رہے ہیں، انسانی ہمدردی کے کاموں کیلئے ان کی لگن کو ظاہر کرتے ہیں۔
٭ Kosovoسے آنے والے ایک مہمان اونی جساری (Mr. Avni Jashari)صاحب جو لپجان میونسپلٹی کے میئر کی کابینہ کے سربراہ ہیں بیان کرتے ہیں:میرے لیے یہ ایک غیر معمولی اور واقعی متأثر کن تجربہ تھا۔ میں نے خلیفہ وقت کے خطابات اور دیگر تقاریر سے دلچسپ اور متأثر کن معلومات کا خزانہ حاصل کیا جو ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔ میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ اس تجربے نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اسی طرح مجھے دوسرے شاندار لوگوں سے ملنے اور ان کے ساتھ خصوصی روابط قائم کرنے کا موقع ملا۔
میرے لیے جلسہ سالانہ علم کی دنیا میں ایک ایسا باغ ہے جو تعاون اور بھائی چارہ کو فروغ دیتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی، یہ ایک ایسا موقع تھا جہاں آپ کی کمیونٹی کے مثالی کام اور مسلسل کوششوں کو دکھایا گیا کہ کس طرح جماعت احمدیہ معاشرے کو فائدہ پہنچانے کی خاطر منصوبے بنا رہی ہے اور اقدامات کر رہی ہے۔
٭ Kosovoسے آنے والے ایک مہمان افریم حسنامیتاج، (Mr. Afrim Hasanametaj) صاحب جو اپنی میونسپلٹی میں ثقافت، یوتھ اور کھیل کےشعبہ کے نگران ہیں، اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: میں اس تقریب کے مقصد کی بہت قدر کرتا ہوں، جو امن اور محبت پر مرکوز ہے۔ ہر چیز ہر پہلو سے بے عیب اور باترتیب تھی۔ اس اجتماع میں اتحاد کی فضا اور بھائی چارے کا جذبہ متأثر کن تھا۔ امن، محبت اور اتحاد کا پیغام پوری تقریب میں گونجتا رہا، جو ہمیں آج ہماری دنیا میں ان اقدار کی اہمیت کی یاد دلاتا ہے۔ تقریب کے دوران پیش کی گئیں تقاریر نے میری سمجھ کو تقویت بخشی۔
٭کوسووو Elezhan کے میئر مسٹر مہمت بلازی صاحب (Mr. Mehmet Ballazhi ) اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:اس غیر معمولی جلسہ نے مجھ پر ایک گہرا نقش چھوڑا اور میں اتحاد، امن اور بھائی چارہ کے اس جذبے سے بہت متأثر ہوا ہوں جو اس اجتماع کے ہر پہلو پر چھایا ہوا تھا۔ تقریب کے دوران تقاریر بہت عمدہ تھیں۔خاص طور پر خلیفہ وقت کی تقریر میرے لیے حیرت انگیز اور ایمان افروز تھی۔ میں اب اسلام کو صحیح معنوں میں سمجھ چکا ہوں۔ مجھے انتظامیہ کی مہمان نوازی کی تعریف بھی کرنی چاہیے۔ پیشہ ورانہ مہارت اور مہمانوں کی حقیقی دیکھ بھال کا معیار انتظامیہ کے عزم اور لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
٭ الیزہان میونسپلٹی کے ایجوکیشن ڈائریکٹر حِسنی لوری صاحب (Mr. Hisni Luri) بیان کرتے ہیں: مجھے کامیاب جلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت کے روشن تجربہ کیلئے اپنی گہری تعریف کا اظہار کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے۔ یہ جلسہ واقعی غیر معمولی تھا، اور میرے لیے خاص بات وہ ایمان افروز اور دل دہلا دینے والی تقریریں تھیں جو اسلام کے خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے کی تھیں۔
خلیفہ وقت کے بابرکت الفاظ میرے اور تمام سامعین کے دل کی گہرائیوں تک پہنچے۔ خلیفہ وقت کے امن، اتحاد اور ہمدردی کے پیغامات نے ہمارے دلوں اور دماغوں پرایک گہرا اثرچھوڑا ہے۔ حضور کی حکمت اور قیادت کا خود مشاہدہ کرنا میرے لیے ایک اعزاز تھا۔
حاضرین کے درمیان بھائی چارہ کا جذبہ واقعی قابل قدر تھا۔ میں اس جلسہ پر ہونے والی تقاریر سے حاصل ہونے والے انمول اسباق کو ایلیزہان کی کمیونٹی کے ساتھ بانٹنے کیلئے بے چین ہوں۔
٭ کوسووو کے مبلغ لکھتے ہیں:ایک دوست شیپ ذیقیراجMr. Shaip Zeqiraj کا جلسہ سالانہ جرمنی میں شرکت ان کی استقامت کا ثبوت ہے۔ شیپ صاحب کی شدید خواہش تھی کہ جلسہ میں شامل ہوں تاہم کوسووو میں، جرمنی جانے کیلئے ویزا حاصل کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ ایک رات شیپ صاحب نے خواب میں جرمنی میں ایک عالی شان مسجد دیکھی اور اس کے اندر پیارے حضور کا دیدار بھی کیا۔ خواب روشن اور روحانی طور پر ترقی دینے والا تھا، جس پر شیپ صاحب کے دل میں کوئی شک نہیں تھا۔ انتہائی یقین کے ساتھ، انہوں نے فوری طور پر ویزا کی درخواست کا عمل شروع کیا اور اپنا ٹکٹ بھی خرید لیا۔ویزہ کے حوالہ سے اپنے کچھ رشتہ داروں کے خدشات اور شکوک و شبہات کےباوجود شیپ صاحب اپنے یقین پر قائم رہے کہ وہ جلسہ سالانہ جرمنی میں موجود ہوں گے۔ جیسے ہی ویزا کی درخواست کی آخری تاریخ ختم ہوئی تو پریشانی میں بھی مزید اضافہ ہونے لگا اور خاندان کے لوگ باتیں بھی کرنے لگے کہ ویزہ ملا نہیں اور ٹکٹ کروالی ہے۔ مگر شیپ صاحب ذرہ بھی نہیں ڈگمگائے اور یقین کے ساتھ کہتے کہ وہ ضرور جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوں گے۔ پھر ایک دن خبر ملی کہ ویزا منظور ہو گیا! یہ خبر فتح عظیم سے کم نہیں تھی جس نے ایمان میں مزید تقویت بخشی اور دعاؤں کی طرف رجحان کو مزید بڑھایا۔
Kosovo کے وفد کی یہ ملاقات11 بجکر22 منٹ پر ختم ہوئی۔
بوسنیا سے آنے والے وفد کی ملاقات
بعد ازاں پروگرام کے مطابق 11بجکر25 منٹ پر ملک بوسنیا (Bosnia) سے آنے والے وفد کی حضور انور کے ساتھ ملاقات شروع ہوئی۔ بوسنیا سے 41؍ افراد پر مشتمل وفد جلسہ سالانہ میں شامل ہو اتھا۔
حضور انور نے مہمانوں سے دریافت فرمایا کہ آپ کو جلسہ کیسا لگا ؟ اس پر دوستوں نے عرض کیا کہ جلسہ بہت اچھا تھا۔ ہم سب مطمئن ہیں۔
حضور انور نے فرمایا: جو جلسہ پر پہلے آچکے ہیں ان کو جلسہ میں پہلے سے کوئی بہتری نظر آئی؟
اس پر ایک دوست نے عرض کیا کہ جلسہ ہر سال کی طرح بہت اچھا تھا۔ اس دفعہ نئی جگہ تھی۔ یہاں بھی منظّم تھا۔ ہمیں کوئی کمی نظر نہ آئی۔ یہ دوست بوسنیا میں نیشنل سیکرٹری تبلیغ ہیں۔
بعد ازاں بعض احباب نے اپنی انگوٹھیاں تبرک کروائیں۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ آئندہ ماہ آپریشن ہونا ہے۔ حضور انور نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
ایک خاتون نے عرض کیا کہ میرے لیے اور میری عیال کیلئے دعا کریں چار سال سے ہمارا بچہ نہیں ہوا۔ اس پر حضور انور نے فرمایا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
٭ بوسنیا سے آنے والے تاریخ کے ایک پروفیسر حارث حُو سِچْ ( Haris Husich) صاحب اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:جلسہ پر آنے سے قبل مجھے معلوم ہوا کہ وہاں ہزاروں لوگ ہوں گے اور قابل صد احترام خلیفہ ہم سے خطاب کریں گے، میں قدرے خوفزدہ تھا اور کسی قدر تحفظات رکھتا تھا،ہر چیز کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھا۔ چونکہ احمدیوں کے بارے میں، اس قدر وسیع جلسہ اور ان کی مذہبی رسومات کے بارے میں مجھے تفصیل سے علم نہیں تھا کیونکہ میں بنیادی باتوں میں الجھا ہوا تھا۔اس سے قبل مجھے اس قدر اچھے لوگوں کے درمیان وقت گزارنے کا موقع نہیں ملا، جلسہ میں ہر چیز کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور ہر کوئی اپنے کام پر لگا ہوا تھا۔ یہ عظیم تقریب تنظیم اور خوبصورتی سے منظم تھی۔ خلیفہ کی پہلی تقریر کے بعدمیرا ذہن صاف ہو گیا تھا، میں لوگوں کا پیچھا کرتا تھا، وہ کیسے بولتے تھے اور کیا کہتے تھے، انکا ایک دوسرے سے کیا تعلق تھا،میں یہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا رہا۔ میں نے اپنے مسلمان بھائیوں میں خود کو محفوظ پایا، میں نے محسوس کیا کہ کسی نے مجھے برا نہیں کہا، نہ ہی مجھے حسد یا اجنبیت کی آنکھ سے دیکھا، یا کسی بات پر مجھے تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان تمام باتوں میں جوبات میرے لیے قابل رشک اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے جس کا تجربہ مجھے اپنی زندگی میں اس سے قبل کبھی نہیں ہوا وہ خلیفہ کی زیارت اور قریب سے آپ کی گفتگو تھی۔ مجھے سکون محسوس ہوا جیسے میری پیٹھ سے کوئی بوجھ ہٹ گیا ہو، میں پریشان تھا مگر اب بے فکر ہو گیا ہوں۔ میں مطمئن لوٹ رہا ہوں۔ بلا شبہ، علم سے مالا مال، نئے اور اچھے لوگ ہیں جن سے میں ملا ہوں۔
٭ بوسنیا سے آنے والی ایک خاتون مہمان امینہ مویانویچ (Emina Muyanovich) صاحبہ بیان کرتی ہیں: رضاکاروں کی تنظیم بہت اچھی تھی۔ خواتین کے حصہ میں ترجمہ کے مسئلہ کی وجہ سے ہم بعض پروگراموں کی سماعت نہیں کر سکے کیونکہ خواتین کے حصے میں کوئی ترجمہ نہیں تھا۔ حضور کی تقریر کا ترجمہ میرے لیے ہماری خواتین کی گروپ لیڈر نے کیا۔ یہ بات مجھے بہت پسند آئی کہ ہمیشہ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور اس کے ترجمے سے ہوتا ہے۔
حضور نے نصیحت کی کہ مسلمان اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ تعلیم دیں اور اپنے علم کو عملی جامہ پہنائیں کیونکہ یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے وہ امت کی موجودہ حالت کو بدل سکتے ہیں۔
دوسرے دن ایک بار پھر ترجمے میں مسئلہ ہوا تو خواتین ترجمہ سننے کیلئے مردوں کے حصے میں چلی گئیں۔ اس وقت، ہفتہ کے دن، حضور خواتین کے حصے میں تھے اور خواتین نے اظہار کیا کہ وہ اس کام کیلئے تیار ہیں۔ یہ بات ان کے منظم انداز، اخلاص کی وجہ سے دل سے محسوس کی جا سکتی تھی۔ حضور کا خطاب خواتین کیلئے بہت مفید تھا۔ انہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رہنے والی خواتین کی زندگیوں سے بہت سی مثالوں کا ذکر کیا۔
اتوار کے پروگرام میں حضور نے بنیادی اسلامی اصولوں، دوسروں کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں بات جاری رکھی کہ ہمیں ہر کام میں بہترین ہونا چاہیے، کیونکہ جب ہم اپنی پوری کوشش کریں گے اور انصاف کریں گے، تب ہی ہم ترقی کر سکیں گے۔ اور معاشرے میں امن قائم ہوگا۔
حضور کی تمام باتیں ہر مسلمان کیلئے مشعل راہ ہیں۔ اب خدا کی مدد سے، ہم بوسنیا واپس جائیں گے، نئے مختلف تجربات سے مالا مال ہو کر اس دعا کے ساتھ کہ اللہ ہمیں صحیح راستہ دکھائے۔
٭ بوسنیا سے آنے والے ایک احمدی دوست سالم آلچ (Salem Alich)بیان کرتے ہیں: صحت کی خرابی کے باوجود اس قدر لمبے سفر پر روانہ ہونے کی واحد وجہ خلیفہ وقت سے ملنے کی خواہش اور آپ کی اقتدا میں نماز ادا کر نے کی تڑپ اور کشش تھی تا کہ ان مقبول گھڑیوں میں انسان خدا کے حضور مقبول دعاؤں کی سعادت حاصل کرلے۔ اس سفر سے قبل میرے پاؤں میں سوزش سے شدید درد تھا اور چلا نہیں جا رہا تھا،مگر اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ جب سے اس سفر پر نکلا ہوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے پاؤں میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔
حضور کی ملاقات سے دل نہیں بھرا،کاش ایسا ہوتا کہ یہ ملاقات کبھی ختم نہ ہوتی اور ہم حضور کی شخصیت کا نظارہ کرتے چلے جاتے۔
بوسنیا سے آنے والی ایک خاتون اندیرا حیدر (Indira Haidar) صاحبہ جو ریڈ کراس کی سیکرٹری ہیں، بیان کرتی ہیں: فرینکفرٹ میں خلیفہ سے ملاقات انتہائی پُر مسرت رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ایسے شخص ہیں کہ ہر انسان کیلئے بھلائی چاہتے ہیں اور سب کیلئے اچھا کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ مجھے امام جماعت احمدیہ کو براہ راست سننے کا موقع ملا، انہوں نے اپنا قیمتی وقت ’’ ہم جیسے عام‘‘ لوگوں کیلئے صرف کیا جنہیں وہ اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھتے ہیں، پھر بھی ان کا پرتپاک مسکراہٹ اور برکتوں سے بھرے الفاظ کے ساتھ استقبال کیا۔ جماعت احمدیہ اور ہیومینٹی فرسٹ مختلف دشواریوں کے باوجود ہمارے ملک میں جس اخلاص سے خدمت خلق کے کام کر رہی ہے، یہاں آکر خلیفہ سے ملاقات کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ ان کے رضا کاروں میں بنی نوع انسان کی اس قدر بے لوث خدمت کے جذبہ کا منبع دراصل ان کے خلیفہ کی ذات ہے۔ اصل حقیقت یہی ہے کہ اس سفر کا خلاصہ دراصل خلیفہ کی صحبت میں چند لمحات گزارنے کی سعادت ہے۔
دنیا کے مختلف حصوں سے مختلف انسانوں کو جماعت احمدیہ نے کس قدر وحدت کی لڑی میں پرویا ہوا ہے، میں نے محسوس کیا کہ تمام بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنانے میں اور دنیا کو بہتر بنانے کی خاطر اپنا کردار ادا کرنے کے سلسلہ میں اس تجربے نے مجھے باہمت بننے میں میری سمجھ کو گہرا کر دیا۔ اس موقع نے نہ صرف مجھے مسلمان ہونے پر فخر محسوس کرنے کی تقویت بخشی بلکہ مجھے انسانی ہمدردی کی کوششوں اور بین المذاہب مکالمے کے فروغ میں مزید شامل ہونے کی ترغیب دی۔
٭ ملک مونٹی نیگرو (Montenegro)سے آنے والے ایک مہمان رُوزمیر اُسمانوویچ (Ruzmir Osmanovich) صاحب بیان کرتے ہیں: جلسہ کا پروگرام تعلیمی اور متنوّع تھا۔دنیا بھر سے اپنے پیارے دوستوں سے مل کر خوشی ہوئی۔میں تقریب میں موجود ہم آہنگی اور تمام شرکاء کے بہترین لیکچرز سے بہت خوش ہوا ہوں۔خلیفہ سے ملاقات ناقابل فراموش ہے۔ میں اپنے ساتھ مونٹی نیگرو میں خوبصورت یادیں، علم اور نئی دوستیاں لے کر واپس جا رہا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ نیا علم مجھے مزید پڑھنے، مذہب کے بارے میں جاننے اور معاشرے کا زیادہ ذمہ دار رکن بننے کیلئے متاثر کرے گا۔
(باقی آئندہ)
…٭…٭…٭…