اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-12

مورخہ 2؍ستمبر2023ء بروز ہفتہ (بقیہ رپورٹ)

سیدنا حضرت امیر المومنینخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورہ جرمنی(اگست،ستمبر 2023ء)

اسلام مسلمانوں کو تلوار وں، بموں یا بندوقوں کی نفرت آمیز اور خوفناک طاقت کے ذریعے
اپنے ایمان کو زبردستی پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ انہیں عقل ، دلائل اور پیار کے ذریعے لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کو فتح کرنے کا مطالبہ کرتا ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو ،انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے‘‘
یہ آیت کریمہ اسلام کے بیان کردہ نظام عدل کا اعلیٰ معیار بیان کرتی ہے

مسلمانوں پر ایک خاص ذمہ داری ہے کہ وہ ہر اس شخص کی مدد اور حفاظت کریں جو کسی بھی طرح سے غیر محفوظ ہے یا تکلیف میں ہے

ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کے مقدس افراد کی توہین کرنا قابل نفرت فعل ہے اور اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی جانی چاہئے

اسلام تعلیم دیتا ہے کہ ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کا ہر طرح سے خیال رکھنا بہت ضروری ہے

پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ عورتیں انسانیت کی بقا کیلئے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں 

اسلام وہ مذہب ہے جو تمام مذاہب اور عقائد کے لوگوں کے مابین دوریاں ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ ایک ایسا مذہب ہے جو امن ، محبت اور ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے
تبلیغی مہمانان کرام کے ساتھ خصوصی نشست میں حضور انور ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز خطاب
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا کہ جب تم امام مہدی ؑکو پاؤتو اُسے میرا سلام پہنچاؤ
خواہ تمہیں برف کے تودوں پر سے چل کرجانا پڑے، آپ کو دنیا سے نہیں ڈرنا چاہئے کسی سے نہیں ڈرنا چاہئے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آئندہ زمانہ میں جب مسیح ومہدی آئے گا تو وہ ساری امت کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرےگا،
جو آنے والا تھا وہ تو آچکا،ساری نشانیاں اور پیشگوئیاں پوری ہو گئیں، تمام مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع ہونا چاہئے،ہم یہی کام کر رہے ہیں
حضور انور سے ملاقات کرنے والے غیر از جماعت احباب کو حضور انور ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز کی نصیحت
جب خلیفہ کی تشریف آوری ہوئی تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، خلیفہ کو دیکھ کر فطرتی طور پر میرا خیال عیسائی پوپ کی طرف بھی گیا
مگر خلیفہ اور پوپ میں بہت فرق ہے،مثلاً خلیفہ ہم سب سے قربت رکھنے والا وجود معلوم ہوتے ہیں جبکہ پوپ کو دیکھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا(ماغی صاحبہ، جرمنی)

جماعت کے افراد کا خصوصی شکریہ جو شہد کے چھتے کی طرح شاندار اور منظم انداز میں کام کرتے ہیں ،
درحقیقت یہ جماعت حقیقی اسلام کی نمائندگی کرتی ہے اور جو کچھ قرآن پاک میں محبت اور احترام کی تعلیم بیان کی گئی ہے ، اس کی اصل تصویر ہے (نوال کتان صاحبہ عرب خاتون)

خلیفہ کو دیکھنے سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ وہ ایک عام آدمی ہیں لیکن جب میں نے انہیں دیکھا تو وہ پیار اور شفقت جو میں نے محسوس کی
وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی، جلسہ کے دوسرے ہی دن احمدیت کی صداقت میرے دل میں گھر کر گئی اور میں نے بیعت کرنے کا ارادہ کر لیا (محمد علی صاحب ، سیریا)

خلیفہ کے خطاب نے بہر حال اسلام کے بارہ میں میرے تصور کو بدل دیا ہے اور خلیفہ کی شخصیت ایسی ہے
جو دوسری بڑے نامور شخصیات کی طرح دور معلوم نہیں ہوتی بلکہ بہت قرب کے تعلق والی اور ہمدرد معلوم ہوتی ہے (الیاس شٹائن صاحب،جرمنی)

میری حیرانگی کا آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کیونکہ خلیفہ نے اسلام کی امن پسند تصویر دکھائی ہے
جو یہاں عموماًنظر نہیں آتی، یقیناًاسلام کے بارہ میں میرے نظریہ میں آج بہت بڑا اضافہ ہواہے (گنٹہ مؤواصاحب، جرمنی)

جلسہ کا ماحول اسلامی اور روحانیت سے بھرپور تھا، میری خواہش ہےکہ اللہ تعالیٰ جلد میرا سینہ کھولے اور مَیں جماعت میں شامل ہو جاؤں (عادل بکور صاحب، سیریا)

میں اس اجتماع کو عام جلسوں کی طرح خیال کر رہا تھا لیکن یہاں آکر جب میں نے ہزاروں لوگ اور ان کا آپس میں
ایک دوسرے کا احترام، اور محبت اور مساوات دیکھی تو یقین ہو گیا کہ یہ عام جلسوں کی طرح نہیں ہے (عبد القادر ہلال عبد اللہ غسام صاحب،یمن )

جلسہ سالانہ میں شامل ہونےو الے مہمانوں کےایمان افروز تأثرات
رپورٹ : مکرم عبد الماجد طاہر صاحب ،ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن، یو.کے


مورخہ 2؍ستمبر2023ء بروز ہفتہ (بقیہ رپورٹ)


پروگرام کے مطابق 5 بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزجرمن اور دوسری مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کے ساتھ ایک پروگرام میں شرکت کیلئے کانفرنس ہال میں تشریف لائے۔
اس پروگرام میں شامل ہونے والے مہمانوں کی تعداد880 تھی۔ جرمنی کے مختلف شہروں سے آنے والے مہمانوں کی تعداد 190 تھی۔ جب کہ جرمنی کے علاوہ دوسرے یورپین ممالک البانیا، بوزنیا، میسیڈونیا، بلغاریہ، کوسوو، ہنگری، رومانیہ، لتھوانیا، سربیا،کروشیا،ترکی، چیک ریپبلک، سلواکیہ، پولینڈ وغیرہ کے مہمانوں کی تعداد 140تھی۔
علاوہ رشین ممالک، افریقی ممالک اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے 550 مہمان شامل تھے۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم خواجہ عبد النور صاحب نے کی۔ بعد ازاں اس کا جرمن ترجمہ پیش کیا۔اسکے بعد 5بجکر12 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا۔ اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔

حضور انور کا تبلیغی مہمانان سے خطاب

تشہد و تعوذ کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:تمام معزز مہمانانِ کرام۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ سب سے پہلے، میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ہماری جماعت کے ممبر نہ ہونے کے باوجود ہماری دعوت قبول کی اور جلسہ سالانہ میں شرکت کی۔ اسلام کے بارے میں جاننے میں آپ کی دلچسپی اور اس مذہبی تقریب میں شرکت آپ کے کھلے دل اور رواداری کی عکاس ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج، میں اسلام کے خلاف عام طور پر لگائے جانے والے بعض اہم اعتراضات کا مختصراً ذکر کرنا چاہتا ہوں اور ان کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ مثال کے طور پر، یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اسلامی تعلیمات انتہا پسندانہ ہیں اور مسلمانوں کو ممالک فتح کرنے یا دوسرے مذاہب اور عقائد کو جبراً ختم کرنے اور تشدد کا استعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلمان غیر مسلموں کو حقیر سمجھتے ہیں اور اسلام انسانی اقدار کو ترجیح نہیں دیتا یا معاشرہ کے بعض طبقات کو، خاص طور پر خواتین کو، مساوی حقوق نہیں دیتا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جیسا کہ میں نے کہا، اسلام کے خلاف ایک اہم الزام یہ ہے کہ یہ تلوار سے پھیلایا گیا تھا اور مسلمانوں کو دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو زبر دستی پیغام قبول کرانے کیلئے تشدد کے استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ اس حوالے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن مجید، جو تمام اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہے، اسلام کی تبلیغ کے حوالے سے کیا کہتا ہے۔ چنانچہ سورہ یونس آیت 100میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور اگر تیرا ربّ چاہتا تو جو بھی زمین میں بستے ہیں اکٹھے سب کے سب ایمان لے آتے۔ تو کیا تُو لوگوں کو مجبور کرسکتا ہے۔ حتی کہ وہ ایمان لانے والے ہو جائیں۔‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگراللہ چاہتا تو تمام لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کر سکتا تھا، تاہم اس نے انسانوں کو خود فیصلہ کرنے کی آزادی دی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اللہ نے انسانوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا، تو یہ ممکن نہیں کہ آنحضرت ﷺ یا ان کے سچے پیروکار آزادیٔ عقیدہ کے اصول کی خلاف ورزی کریں۔ یہ ایک آیت ہی ثابت کردیتی ہے کہ اسلام مذہبی معاملات میں زور اور زبردستی کی اجازت نہیں دیتا اور ہر شخص اپنا راستہ خود چننے کیلئے آزاد ہے۔
اسی طرح، قرآن مجید کی سورہ کہف کی آیت 30 میں آتا ہے کہ ’’ اور کہہ دے کہ حق وہی ہے جو تمہارے ربّ کی طرف سے ہو۔ پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے۔‘‘ جہاں یہ آیتِ کریمہ اسلام کو سچا الٰہی مذہب ہونے اور انسانیت کی نجات کا ذریعہ قرار دیتی ہے وہاں یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ہر شخص اپنی تعلیمات کو قبول کرنے یا مسترد کرنے کیلئے آزاد ہے۔ اسلام مسلمانوں کو تلواروں، بموں یا بندوقوں کی نفرت آمیزاور خوفناک طاقت کے ذریعے اپنے ایمان کو زبردستی پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ انہیں عقل، دلائل اور پیار کے ذریعے لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کو فتح کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: سب سے بڑھ کر اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ تمام بنی نوع کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں اور مختلف عقائد ہونے کے باوجود معاشرہ کی بنیادباہمی احترام اور رواداری پر ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ بارہا مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اعلیٰ اخلاقی معیار قائم کریں، حتیٰ کہ روزمرہ کے معمولی کاموں میں بھی اعلیٰ اخلاق ظاہر کریں۔
اسلام یہ نہیں کہتا کہ مسلمان نرم دلی کو صرف اپنے پیاروں یا دیگر مسلمانوں تک محدود کریں۔ اس کے برعکس قرآن مجید مسلمانوں کو ہر ایک کے ساتھ انصاف، خیرسگالی اور شفقت سے پیش آنے کی ہدایت کرتا ہے۔ مثلاً قرآن مجید سورہ مائدہ کی آیت 9 میںسچائی اور دیانت کا ابدی اور شاندار معیار قائم کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’ کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔’ پھر آگے اس آیتِ کریمہ میں فرمان ہے کہ، ‘‘ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ ‘‘
یہ آیتِ کریمہ اسلام کے بیان کردہ نظامِ عدل کا اعلیٰ معیار بیان کرتی ہے کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ برا سلوک بھی کرے یا ظلم کرے، تو پھر بھی یہ ظلم آپ کو ہر گز غیر متناسب بدلہ لینے یا ردِ عمل دکھانے پر مجبور نہ کرے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تاریخ بھری پڑی ہے کہ جنگوں اور تنازعات نے معاشرے کواپنی لپیٹ میں لیے رکھا ہے اور یہ افسوسناک رجحان آج بھی جاری ہے۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ انصاف کے ایسے عظیم معیار بین الاقوامی تعلقات میں یا جنگ سے متاثرہ ملکوں، چاہے ان کی حکومتیں سیکولر ہوں یا مذہبی ہوں، وہاں اپنائے جارہے ہیں؟ اسکا سادہ جواب ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ صرف اسلام ہی ہے جہاں ہم کامل انصاف کے ایسے واضح اور بے مثال اصول پاتے ہیں۔ اور یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ دورِ جدید کی مسلمان حکومتیں بھی اس اسلامی معیار کے مطابق حکومت کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایک اوراعتراض جو بارہا دہرایا جاتا ہے یہ ہے کہ اسلام جنگ وجدل اور خون خرابہ کا مذہب ہے۔ اس سلسلے میں یہ واضح ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی مسلمانوں کو لڑنے یا ہتھیار اٹھانے کی کھلی اجازت نہیں دی ہے۔ جہاں قرآن مجید نے جنگ کی اجازت دی ہے وہ صرف انتہائی حالات میں اور سخت شرائط اور پابندیوں کے ساتھ ہے۔ بلاشبہ، اگر کوئی اسلام کے ابتدائی دور کو غیر جانبدار نظر سے دیکھے تو وہ دیکھے گا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے جو جنگیں لڑی تھیں وہ مکمل طور پر دفاعی نوعیت کی تھیں۔ اپنےآبائی شہر مکہ میں غیر مسلموں کے ہاتھوں ناقابل تصور سفاکی اور مسلسل ظلم و ستم کو صبر و تحمل سے سالہا سال برداشت کرنے کے بعد، پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ اور ان کے ساتھی عرب کے ایک شہر مدینہ ہجرت کر گئے۔ تاہم، ہجرت کے بعد بھی وہ امن سے نہیں رہ سکے کیونکہ مکہ کی فوج نے پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کو مارنے اور اسلام کو یکسر ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کے ارادہ سے ان کا پیچھا کیا۔ ان انتہائی حالات میں، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دفاعی جنگ میں حصہ لینے کی اجازت دی۔ یہ اجازت قرآن مجید کی سورہ حج کی آیات 40 اور41 میں بیان کی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے، ’’ اُن لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا ہے (قتال کی) اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیے گئے۔ اور یقیناً اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (یعنی) وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا ربّ ہے۔ اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع اُن میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بِھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ اور یقیناً اللہ ضرور اُس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بہت طاقتور (اور) کامل غلبہ والا ہے۔‘‘
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ آیات اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کو صرف اسلام کے تحفظ کیلئے لڑنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ قرآن مجید گواہی دیتا ہے کہ مکہ والوں کا اصل مقصد تمام مذاہب کو ختم کرنا اور تمام عبادت گاہوں کو منہدم کرنا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آزادی ضمیر اور عقیدے کی آزادی کے عالمگیر اصول قائم کرنے کیلئے لڑنے کا حکم دیا۔ دراصل، اسلام کی تعلیمات کے مطابق، اگر کبھی بھی دوسرے مذاہب کے پیروکاروں نے مذہبی آزادی کے تحفظ اور بقا کو یقینی بنانے کیلئے مسلمانوں کی مدد طلب کی تو مسلمانوں کو ان کی حمایت کرنی چاہئے۔ اگر یہ اسلام کی حقیقی تعلیمات ہیں، تو آپ کا یہ سوال بجا ہو گا کہ ’حالیہ برسوں میں دہشت گردوں نے اسلام کے نام پر خوفناک حملے کیوں کیے؟‘ اس کا جواب یہ ہے کہ قابلِ نفرت انتہا پسندوں یا جن کے بعض سیاسی مقاصد ہیں، انہوںنے قرآنِ کریم کی بعض آیات سے بالکل غلط نتائج اخذ کیے ہیں تاکہ اپنی شیطانی خواہشات اور مفادات کو پورا کریں۔ تاہم، اگر کوئی شخص ان آیات کے اصل متن کا غیرجانبدارانہ مطالعہ کرتا ہے، تو وہ دیکھے گا کہ اسلام کسی بھی قسم کے ظلم و ستم کی اجازت نہیں دیتا اور قرآن کریم یا اسلامی تعلیمات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ بلاشبہ، تمام آیاتِ قرآنی ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اسلامی معاشرے میں امن و امان قائم رکھنے کیلئے ایک اور اہم اصول قرآن مجید کی سورۃ النحل کی آیت 91میں بیان کیا گیا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے؛ ’ یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقرباءپر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حُکم دیتا ہے اور بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو۔‘
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نہ صرف انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تمام لوگوں کے ساتھ، چاہے ان کا کوئی بھی مذہب ہو، محبت اور شفقت سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ مسلمانوں کو بغیر کسی مفاد کے، دوسروں کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ آیت مسلمانوں کو بغاوت یا ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرنے سے واضح طور پر منع کرتی ہے۔ اس تعلیم کے ہوتے ہوئے، ایک سچے مسلمان کا اپنے ملک یا لوگوں کیلئے خطرہ بن جانے کا کوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔
اگلی ہی آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’اور تم اللہ کے عہد کو پورا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد نہ توڑو جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپر کفیل بنا چکے ہو۔ اللہ یقیناً جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک مسلمان کو کبھی بھی وعدہ خلافی یا عہد شکنی نہیں کرنی چاہئے۔ اپنی قسموں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا ہوگا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اکثر مسلمان مہاجرین کی مغرب سے وفاداری اور اعتماد کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تاہم جرمنی میں یا کہیں بھی، مسلمان بطور شہری اپنے ممالک کے ساتھ وفاداری اور خلوص کا عہد کرتے ہیں اور قانون کی پابندی کا حلف اٹھاتے ہیں۔ یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اس عہد کو نبھائیں، اپنے وطن کی خدمت کریں اور اسکی ترقی کیلئے کوشش کریں۔ آنحضرتﷺ کی ایک مشہور حدیث ہے کہ ’’ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ اس تعلیم کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ سچے مسلمان وفادار شہری نہ ہوں اور معاشرے میں انتشار کے بیج بونے والے ہوں۔ بلکہ اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنے وطن کیلئے ہر ممکن قربانی دینے کیلئے ہمیشہ تیار رہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس سے بہتر انٹیگریشن کیا ہو گی کہ مسلمان تارکین وطن جو کسی دوسرے ملک میں پیدا ہوئے، آج وہ اپنے اپنائے ہوئے نئے ملک کا خلوصِ دل سے حصہ ہیں اور اس کی خوشحالی کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔ نیز وہ ریاست کے خلاف کسی بھی قسم کی بغاوت کو مسترد کرنے اور تمام غیر قانونی سرگرمیوں سے گریز کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اسلامی تعلیمات ایسی ہیں کہ مسلمان غیر مسلم ممالک میں انٹیگریٹ کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر مذہبی عقائد کی وجہ سے کوئی مسلمان شراب پینے سے پرہیز کرتا ہے، نائٹ کلبوں میں نہیں جاتا، شائستہ لباس پہنتا ہے یا ان چیزوں کا انکار کرتا ہے جو اسکے اخلاقی اقدار کے خلاف ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ انٹیگریٹ کرنے میں ناکام ہیں۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ انٹیگریشن کا تقاضا ہے کہ ایک تارکِ وطن ہمیشہ اپنے اختیار کردہ ملک کی بہتری کیلئے کوشاں رہے، اس کیلئے ہر ممکن قربانی دینے کیلئے تیار رہے اور ایمانداری سے اپنے لوگوں کی خدمت کرنے کی کوشش کرے۔ اس طرح کی انٹیگریشن اس بات کو یقینی بنائے گی کہ معاشرے کا تنوع کسی قسم کے تصادم پر منتج نہیں ہوگا بلکہ یہ معاشرے کو تقویت دینے کا ذریعہ بنے گا اور اس کے شہریوں کے مابین مضبوط اتحاد قائم ہوگا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اسلام میں معاشرے کی خدمت کرنے کے حوالے سے مسلمانوں پر ایک خاص ذمہ داری ہے کہ وہ ہر اس شخص کی مدد اور حفاظت کریں جو کسی بھی طرح سے غیر محفوظ ہے یا تکلیف میں ہے۔ مثال کے طور پر، قرآن کریم کی سورہ الذاریات، آیت 20میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، ’’اور ان کے اموال میں سوال کرنے والوں اور بے سوال ضرورت مندوں کیلئے ایک حق تھا۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایک سچے مسلمان کی علامت یہ ہے کہ وہ خدا کی تمام مخلوق کی دیکھ بھال کرے اور ضرورت مندوں کی مدد کرے خواہ وہ ان کی مدد طلب کریں یا نہ کریں۔ مسلمانوں کو کسی سے مدد کی درخواست کا انتظار نہیں کرنا چاہئے بلکہ معاشرے میں ان لوگوں کی نشاندہی کرنی چاہئے جو پریشانی میں ہیں اور ان کی مدد کریں تاکہ وہ اپنی مشکلات یا مصائب سے نکل سکیں۔ یہاں قرآن کریم کہتا ہے کہ کچھ جاندار بول نہیں سکتے یا اپنی ضرورت کا اظہار نہیں کر سکتے، تو اس میں جانور بھی شامل ہیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام جانوروں کو پالنے یا ان سے محبت کرنے سے روکتا ہے لیکن یہ آیتِ کریمہ مسلمانوں کو ان جانوروں کی اچھی دیکھ بھال کرنے کی تلقین کرتی ہے جو ان کے زیرِ نگرانی ہوں۔ اسی طرح یہ آیت وائلڈلائف (جنگلی حیات) کے تحفظ اور ماحولیات کی حفاظت کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اسی طرح، قرآن مجید کی سورہ البلد کی آیت 14 سے 17 میں، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو معاشرے کے سب سے کمزور طبقہ کی حمایت کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور مسلمانوں کو تلقین کرتا ہے کہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلائیں اور غریبوں کی مدد کریں۔ مسلمانوں کو ان لوگوں کی بھی مدد کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے جو تنہا ہیں اور ان کے پاس خاندان یا دوست احباب نہیں ہیں، جو ان کی مدد کرسکیں۔ اس کے علاوہ، یہ آیات مسلمانوں کو ان لاچار لوگوں کیلئے آزادی اور انصاف تلاش کرنے کا حکم دیتی ہیں جو غیر انسانی طور پر غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ یتیموں سے محبت سے پیش آئیں اور ان کے حقوق کا تحفظ کریں اور جو بھی محروم افراد ہیں، ان کی تسلی کے اسباب کریں۔ قرآنِ کریم کی ان روشن آیات میں تمام انسانیت کیلئے پیغام ہے کہ وہ معاشرے کے سب سے کمزور طبقہ کے حقوق ادا کریں اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد کریں۔ در حقیقت، یہ آیاتِ کریمہ مسلمانوں کو دنیا سے ہر طرح کی غلامی، غربت اور محرومی کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی ہدایت کرتی ہیں۔ دراصل، قرآن ِ کریم ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ روحانی ترقی کا ایک بنیادی ذریعہ خدمتِ انسانیت ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: قرآنِ کریم میں حقوق العباد کی ادائیگی کی اہمیت پر روشنی ڈالنے والی اور بہت سی آیات ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت 149میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہر شخص مختلف ہے اور اس کا اپنا مطمحِ نظر اور ذاتی عزائم ہیں۔ تاہم، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسلمانوں کا بنیادی مقصد نیکوکاری میں ترقی کرنا ہونا چاہئے اور بنی نوع انسان سے محبت اور حسنِ سلوک نیکوکاری کی بنیادی شرط ہے۔
پھر قرآنِ کریم کی سورۃ النساء کی آیت 37میں اللہ تعالیٰ نے دوسروں سے محبت کا اظہار کرنے کی اہمیت کو دوبارہ بیان فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر، فرماتا ہے کہ لوگوں کو اپنے والدین کے ساتھ شفقت اور صبر سے پیش آنا چاہئے۔ یہ آیت رشتہ داروں، دوست احباب، غریبوں اور یتیموں کے حقوق کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔ پھر اس آیت ِ کریمہ میں پڑوسیوں کے حقوق کی بھی وضاحت کی گئی ہے اور اسلام کے مطابق پڑوسی کی تعریف بہت وسیع ہے۔ گھر کے اردگرد چالیس گھروں تک رہنے والے افراد پڑوسی ہیں۔ پھر پڑوسی کی تعریف میں سفر میں شریک ساتھی، کام کی جگہ پر دیگر کام کرنے والے اور ماتحت بھی شامل ہیں۔ اگر ہر شخص اپنے آس پاس کے40 گھروں اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں اور ماتحتوں کے حقوق پورے کرے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرہ مکمل طور پر ہم آہنگ اور پرامن ہو جائے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: قرآن مجید کی سورۃ الحجرات کی آیت 12 میں معاشرے میں امن قائم کرنے کا ایک اور اہم اصول بیان کیا گیا ہے کہ دوسری اقوام کی تذلیل یا تحقیر کرنا بالکل غلط ہے۔ دوسروں کی توہین کرنے سے یقینی طور پر نفرت پیدا ہوگی اور معاشرے کے امن کو نقصان پہنچے گا۔ حال ہی میں سویڈن میں بعض افراد نے قرآن مجید کی کاپیاں جلا ئیں اور اس ناپسندیدہ فعل کو سوشل میڈیا پر فخر سے پیش کیا۔ اسی طرح، کئی سال سے آنحضرتﷺ کے انتہائی توہین آمیز کارٹون شائع ہورہے ہیں۔ ایسے وحشیانہ اعمال کے خلاف ہمارا مؤقف صرف ان واقعات تک محدود نہیں جن میں اسلام یا مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، بلکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کے مقدس افراد کی توہین کرنا قابل نفرت فعل ہے اور اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی جانی چاہئے۔ ایسے اعمال بلا وجہ معصوم لوگوں کو اشتعال دلاتے اور انہیں تکلیف دیتے ہیں اور شدید غصے اور بغض کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ ایسے اعمال معاشرے میں امن اور یکجہتی کو کمزور کرنے کا باعث ہیں۔اسلام تعلیم دیتا ہے کہ ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کا ہرطرح سے خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اپنی گزارشات ختم کرنے سے قبل میں اسلام میں خواتین کے حقوق کے حوالہ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ جب خواتین کے حقوق کی بات ہوتی ہے تو یقینی طور پر اسلام کی تعلیمات کو غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے خواتین کے حقوق سے انکار کرنے کی بجائے خواتین کے حقوق قائم کیے ہیں اور یہ حقوق ان ممالک میں حقوق کی فراہمی سے صدیوں قبل قائم کیے، جو اب ترقی یافتہ سمجھے جاتے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایک ایسے دور میں جب خواتین کے حقوق کو قابلِ غور بھی نہیں سمجھا جاتا تھا، قرآنِ کریم اور پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے خواتین اور لڑکیوں کے بے شمار حقوق ہمیشہ کیلئے قائم فرما دیے، جن میں تعلیم، طلاق اور وراثت کا حق شامل ہے۔ ایک موقع پر آنحضرتﷺ نے عورت کوپسلی سے تشبیہ دی کہ وہ اس طرح نازک ہیں اور ان سے نرمی اور شفقت سے پیش آنا چاہئے۔ اگر کوئی اس فرمان کا غور سے تجزیہ کرے تو وہ سمجھ جائے گا کہ اسلام میں عورت کو کتنا اعلیٰ مقام دیا گیا ہے۔ پسلی انسان کے اہم اعضاء کی حفاظت کیلئے ہوتی ہے اور عورتوں کو اس سےتشبیہ دیتے ہوئے پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ عورتیں انسانیت کی بقا کیلئے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آنحضرت ﷺ کی ایک مشہور حدیث ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ خواتین کو یہ منفرد اور بلند مقام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ ماں معاشرے کی اگلی نسل کی پرورش میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے اور اپنی اولاد کی خاطر بے پناہ قربانیاں دیتی ہے۔ اگر ایک عورت اپنے بچوں کے فرائض پوری طرح ادا کرتی ہے تو وہ بچے با اخلاق اور صالح افراد بن کر معاشرے میں مثبت کردار ادا کریں گے۔ اس طرح ماں اپنی اولاد کیلئے اس دنیا میں ترقی اور کامیابی کا ذریعہ ہے اور انہیں ایسی راہ پر چلاتی ہے، جو آخرت میں جنت میں لے جانے والا راستہ ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: قرآن کریم کی سورۃ النساء کی آیت20 میں عورتوں کے گھریلو حقوق قائم کیے گئے ہیں۔ یہ آیتِ کریمہ خاص طور پر مسلمان مردوں کو اپنی بیویوں سے پیار سے پیش آنے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کی ہدایت کرتی ہے۔ یہ آیت اعلان کرتی ہے کہ عورتیں آزاد افراد ہیں اور کسی بھی مرد کے قبضے میں نہیں دی جاسکتیں۔ مالی معاملات کے حوالے سے، جو کچھ عورت کماتی ہے وہ اس کی اپنی کمائی ہے اور شوہر اس سے حصہ نہیں مانگ سکتا۔ طلاق کے حوالہ سے اسلام تعلیم دیتا ہے کہ ازدواجی زندگی میں جو کچھ بھی شوہروں نے انہیں دیا، وہ اپنے پاس رکھنے میں آزاد ہیں۔ آج کے دور میں، جب کوئی علیحدگی ہوتی ہےتو اکثر طویل اور تلخ تنازعات ہوتے ہیں کیونکہ مرد اپنی بیویوں کو جو کچھ دے چکے ہوتے ہیں، واپس لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔
قرآن کریم میں سورہ نحل کی آیت 73 میں عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی پھر سے تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مردوں کو اپنی بیویوں سے شفقت سے پیش آنا چاہئے اور ان کی عزت کرنی چاہئے جنہوں نے ان کی اولاد کو جنم دیا ہے۔ پھر سورہ بقرہ کی آیت 188 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیوی اپنے شوہر کیلئے لباس ہے اور شوہر اپنی بیوی کیلئے لباس ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں کا درجہ برابر ہے اور وہ ایک دوسرے کیلئے تحفظ کا ذریعہ ہیں۔ انہیں اپنے ساتھی کیلئے دکھ یا غم کا ذریعہ بننے کی بجائے ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہئے اور اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہئے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس مختصر وقت میں، میں نے اسلام کے قائم کردہ خواتین کے حقوق میں سے صرف چند کا ذکر کیا ہے۔ یہ کہنا کافی ہے کہ یہ اعتراض کہ اسلام خواتین کے حقوق سلب کرتا ہے،بالکل بےبنیاد اور حقائق کے منافی ہے۔ درحقیقت اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ خواتین کے حقوق کا اسلامی تصور دراصل انقلابی تھا اور جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، اسلام پر بہت سے اعتراض کیے گئے ہیں، لیکن یہ سب بے بنیاد ہیں۔ یقیناًیہ غلط ہے کہ اسلام کو تشدد یا انتہا پسندی کے مذہب کے طور پر پیش کیا جائے یا یہ دعویٰ کیا جائے کہ اسلام کی اخلاقی اقدار کسی بھی طرح سے کمتر ہیں۔ یہ کہنا بالکل ناانصافی ہے کہ اسلام معاشرے میں بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام وہ مذہب ہے جو تمام مذاہب اور عقائد کے لوگوں کے مابین دوریاں ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا مذہب ہے جو امن، محبت اور ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔ دراصل لفظ ’اسلام‘ کا لفظی مطلب ہی امن ہے۔ اگر کوئی مسلمان دوسروں کے حقوق پورے نہیں کرتا تو اس میں اسلام یا اسکی تعلیمات کا کوئی قصور نہیں، بلکہ یہ ان کی اپنی ناکامی ہے۔ ایسے لوگ اپنے عقیدے کی تعلیمات کے خلاف ورزی کرنے والے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ان الفاظ کے ساتھ، میں امید کرتا ہوں کہ اسلام کے بارے میں آپ کے ذہنوں میں اگر کوئی خدشات تھے تو ان کا مناسب جواب مل گیاہوگا۔ لیکن اگر آپ میں سے کسی کو مزید وضاحت کی ضرورت ہو تو آپ ہمارے مربیان یا یہاں کے جماعتی مشن سے بات کرسکتے ہیں۔
آخر پر میں دعا کرتا ہوں کہ تمام بنی نوع انسان اپنے خالق کو پہچان لیں اور تمام انسان آپس میں مذہبی عقائد سے قطع نظر امن اور باہمی احترام کی روح کے ساتھ رہیں۔ آمین۔ میں اس موقع پر آپ سب کا ایک بار پھر یہاں ہمارے ساتھ شامل ہونے کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہت شکریہ۔
حضور انور کا یہ خطاب 5بجکر 45 منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی اور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
پروگرام کے مطابق 7 بجکر 50 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اورTurkeyسے آئے ہوئے ایک پرنٹنگ کمپنی کے مالک Mr. Ihsan Acarنے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف پایا۔ حال ہی میں ترکی سے جماعت نے جو قرآن کریم شائع کروایا ہے وہ انہی کے پریس سے شائع ہوا ہے۔

 تاجکستان کے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے شرف ملاقات

بعد ازاں تاجکستان کے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے شرف ملاقات پایا۔ پولینڈ، آسٹریا اور جرمنی وغیرہ سے 30تاجک احباب جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئے تھے۔
ایک خاتون نے عرض کیا کہ حضور انور کا خواتین سے خطاب بہت پسند آیا ہے حضور انور نے جو نصائح فرمائیں بہت اچھی لگیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا اب آپ سب لوگوں کو پیغام مل گیا ہے۔ اب آپ کو پتا لگ گیا ہے تو آپ سوچیں اور غور کریں۔ آنحضرت ﷺ نے تو فرمایا تھا کہ جب تم امام مہدیؑ کو پائو تو اُسے میرا سلام پہنچائو خواہ تمہیں برف کے تودوں پر سے چل کر جانا پڑے۔ آپ کو دنیا سے نہیں ڈرنا چاہئے کسی سے نہیں ڈرنا چاہئے۔
ایک خاتون نے عرض کیا کہ ہم مسلمان ہیں اور کسی سے نہیں ڈرتے اس پر حضور انور نے فرمایا: مسلمان ہیں تو پھر آپ کو آنحضرت ﷺ کے احکامات پر عمل کرنا چاہئے۔ آگے بڑھنا چاہئے ایک جگہ ٹھہر نہیں جانا چاہئے۔
ایک دوست محمد سعید رضائی صاحب نے عرض کیا کہ وہ جلسہ پر پہلی دفعہ آئے ہیں۔ تاجکستان کی آزادی کے بعد ہماری مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: کیا آزادی کے بعد اپنی مرضی سے عبادت کرنے کی اجازت ہے یا حکومت کے تابع کسی ایک فرقے کے پابند ہیں۔ حضور انور نے فرمایا جب حنفی مذہب کے مسلمان زیادہ ہیں تو پھر مذہبی آزادی کیوں نہیں ہے۔ پھر کیا مشکلات ہیں۔ اس پر مہمانوں نے عرض کیا کہ ہمیں سیاسی طور پر مشکلات ہیں۔ ساری طاقت حکومت کے ہاتھ میں ہے اور حکومت ہی ہر چیز کنٹرول کرتی ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کی آزادیاں بحال کرے۔ ہمارے ساتھ بھی پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہ سب اسلامی تعلیم کے خلاف ہے، مذہبی آزادی پر پابندیاں ہیں۔ یہ نہیں ہونی چاہئیں۔ حکومتیں جو دوسری بڑی طاقتوں کے زیر اثر ہیں ان کا پھر یہی کہنا ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر پابندیاں لگائی جائیں۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ حضور کی درازی عمر کیلئے دعا گو ہوں۔ اس وقت تاجکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے سب روس کی مدد سے ہورہا ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا خدا تعالیٰ ان کو آزادی عطا فرمائے۔
ایک مہمان نے عرض کیا کہ خدا کے نزدیک محبوب وہی ہے جو اعلیٰ اخلاق والا ہے۔ ہمیں اعلیٰ اخلاق کی ضرورت ہے۔ جماعت احمدیہ میں اخلاق کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر میں دوسروں سے موازنہ کروں تو جوجماعت کے اخلاق والا رویہ ہے وہ جماعت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا اور دوسروں کیلئے بھی نمونہ ہوگا۔ دوسری طرف جتنے بھی دینی، مذہبی گروہ میں ان کی ترجیحات میں اور چیزیں تو ہیں لیکن اخلاق نہیں ہیں۔
ایک دوست نے سوال کیا کہ دینی گروہوں کے جو آپس کے اختلافات ہیں اس میں جماعت احمدیہ کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا: اس کیلئے تو ہم ساری دنیا میں کوشش کر رہے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھاکہ آئندہ زمانہ میں جب مسیح و مہدی آئے گا تو وہ ساری امت کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرے گا۔ جو آنے والا تھا وہ توآچکا۔ ساری نشانیاں اور پیشگوئیاں پوری ہوگئیں۔ سورہ تکویر میںیہ نشانیاں بیان ہوئی ہیں۔ اسی طرح چاند سورج گرہن کی پیشگوئی بھی پوری ہو گئی۔
آپؑ کو الہام بھی ہوا تھا۔ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو علی دِین وَّاحد۔
تو ہم یہی کام کررہے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع ہونا چاہئے۔ جماعت یہ کام ہر جگہ کر رہی ہے۔لیکن ان باتوں پر وقت لگتا ہے۔ لیکن ان شاء اللہ ہم اس میں کامیاب ہوجائیں گے اور فتنہ وفساد کرنے والوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔
حضور انور نے فرمایا ان شاء اللہ آپ کے ساتھ اور مجلس ہو گی۔ اب اس وقت ایک اور پروگرام میں بھی جانا ہے۔
آخر پر ایک دوست نے درخواست کرکے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوائی۔ اس کے بعد ایک اور دوست تصویر کیلئے آگئے۔بعد ازاں باری باری سب احباب اور فیملیز نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔
تاجکستان سے آنے والے ان احباب میں سے بعض نے اپنے تاثرات کا اظہار بھی کیا۔

تاجکستان سے آنے والے مہمانان کے تاثرات

تاجکستان سے آنے والے وفد میں ایک دوست آرزو کریم صاحب بھی شامل تھے۔ یہ دوست عربی اور تاجک زبان پر بہت مہارت رکھتے ہیں اور جامعۃ الازہر سے تعلیم یافتہ ہیں۔بہت سی عربی کتب کا تاجک زبان میں ترجمہ بھی کرچکے ہیں اور کئی تاجک کتب کے مصنف بھی ہیں۔انہوں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا:
میں نے جلسہ کو بہت غور سے سنا اور لوگوں کو دیکھا اور جماعت احمدیہ کے ان اوصاف کا ذکر کروںگا جو کہ اب دیگر دینی جماعتوں میں ختم ہو رہے ہیں اور وہ احمدیوں کے اعلیٰ اخلاق ہیں۔میں نے بہت سے اسلامی فرقوں پر تحقیق کی ہے۔اگر باقی سب فرقے اس وقت اسلام پر ایک فیصد عمل پیرا ہیں تو یہ جماعت اسلام کی تعلیمات پر 99فیصد عمل پیرا ہے۔ بک سٹالز پر مختلف زبانوں میں لٹریچر آپ کی تبلیغی کا وشوں کا ثبوت ہے۔میں آپ سے رابطہ رکھوں گا اور مزید جماعت کے بارہ میں جاننا چاہتا ہوں۔میں کسی سے ڈرتا نہیں ہوں سوائے ایک خدا کے۔آپ کے خلیفہ سے ملاقات اور بات کرنا میرے لیے بہت اعزاز ہےاور میں حضورکی اس بات سے اتفاق کروںگا کہ اصل کمزوری ہم لوگوں میں ہے اور ہم ہر وقت حکومت اور رجیم کو کوستے رہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ حضور سے پھر ملاقات ہوگی۔میں نے اپنے ساتھ دوستوں کو کہا ہے کہ اگرچہ یہ ایک اسلامی پروگرام ہے لیکن ہم اس سے انتظامی طور پر بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
تاجکستان کے وفد میں شامل ایک غیر از جماعت تاجک دوست ستور صاحب نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہاحضور سے ملاقات میں تاجکستان کے سیاسی مسائل اور دینی پابندیوں پر بہت سیر حاصل بات ہوئی۔ مجھے بہت اچھا لگا کہ حضور کو ساری انسانیت کی بے تحاشا فکر ہے۔
مجھے یہاں آنے سے قبل جماعت احمدیہ کے بارہ میں بہت منفی خبریں دی گئی تھیں۔لیکن مجھے آپ کی جماعت سے بھائی چارہ اور انسانیت کا درس سیکھنے کا موقع ملا ہے۔
ایک تاجک خاتون مزمہ خانم صاحبہ کہتی ہیں:حضور سے ملاقات میں جو نصائح سنیں اس پر عمل کی کوشش کروںگی میں سمجھتی ہوں حضور کی باتیں صرف احمدی ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان عمل کر کے ایک اچھے معاشرے کیلئے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔میں نے حضور کا عورتوں سے خطاب سنا اور مجھے لگا کہ حضور کو ہر طبقہ کی اصلاح کی بہت فکر ہے۔ایک چیز جو میں نے جلسہ میں نوٹ کی کہ عورتیں اپنا ہر کام خود کر رہی تھیں۔ اتنا بڑا پروگرام اور یہ سب انتظام عورتوں کا کر نا بہت ہی قابل ستائش ہے۔
تاجکستان کے مبلغ کہتےہیں:تاجکستان کے وفد میں ایک دوست غنیو صاحب بھی شامل تھے۔ یہ بہت معترض طبیعت کے تھے۔ جلسہ کےپہلے دو دن اعتراضات ہی کرتے رہے۔ ایک اعتراض کرتے جواب سنے بغیر ایک اور سوال کر دیتے۔ان کے اپنے دوستوں نے بھی کہا کہ ہمیں مشاہدہ کرنا چاہئے۔جلسہ کے دوسرے دن وفد کی حضور انور سے ملاقات تھی۔ سب دوستوں نے ماسک پہنے تھے۔حضور انور نے بات کا آغاز ہی غنیو صاحب کی طرف اشارہ کرکے کیا اور کہا آپ کون ہیں ماسک پیچھے کریں اور اپنا تعارف کروائیں۔انہوں نے حضور انور سے کافی تفصیل سے باتیں کیں۔ملاقات کے بعد غنیو صاحب بہت خوش تھے اور بار بار اس بات کا اظہار کرتے کہ میں حضور انور کی توجہ کیلئے شکر گزار ہوں اور حضور کیلئے درازی عمر اور جماعت کیلئے کامیابیوں کا خواہش مند ہوں۔عجیب بات ہے ملاقات کے بعد دو دن تک انہوں نے کوئی بھی اعتراض نہیں کیا۔ یہ سب خدا کے فضل کے بغیر ناممکن ہے۔

مختلف ممالک سے آنے والے عرب احباب کی حضور انور سے ملاقات

مختلف ممالک سے آنے والے عرب احباب کا انتظام ایک علیحدہ ہال میں کیا گیا تھا۔ ان کی تعداد 409 تھی۔
پروگرام کے مطابق 8:30 بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس ہال میں تشریف لے آئے اور ملاقات کا پروگرام شروع ہوا۔
حضور انور نے فرمایا کہ جو پہلی دفعہ آئے ہیں وہ ہاتھ کھڑا کریں۔ اس پر نئے آنے والوں نے اپنے ہاتھ کھڑے کیے تو حضور انور نے ان کومخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے یہاں جلسہ میں کوئی غیر اسلامی چیز نہیں دیکھی۔ کچھ توقف کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ خاموشی ہے تو اس کا مطلب ہے نہیں دیکھی یا پھر بتانا نہیں چاہتے۔
حضور انور نے فرمایا خدا تعالیٰ آپ کو استقامت عطا فرمائے آگے بڑھنے والے اور ترقی کرنے والے ہوں۔ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام جس غرض کیلئے آئے وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا قیام تھا۔ آپؑنے اس کی طرف توجہ دلائی۔ آپ سب بھی اس طرف توجہ کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے ہوں اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ خدا آ پ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اس کے بعد ایک خاتون نے عرض کیا کہ میں نے حضور انور کی خدمت میں ایک خط بھیجا تھا۔ میری بیٹی کی شادی ایک سیرین لڑکے سے ہو رہی ہے۔ میرے پاس انگو ٹھیاں ہیں حضور انور تبرک کردیں۔ حضور انور نے ازراہ شفقت یہ انگوٹھیاں اپنے دست مبارک میں لے کر تبرّ ک فرمائیں۔
ایک دوست نے سوال کیا کہ جب حضور خاموش دعا کرواتے ہیں تو اس میں کیا پڑھتے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ سورہ فاتحہ اور درود شریف پڑھتا ہوں اس کے بعد موقع کے لحاظ سے دعائیں کرتا ہوں۔
بعد ازاں ایک دوست نے عرض کی کہ اپنے بھائی کیلئے دعا کی درخواست کرتا ہوں وہ اس وقت ترکی میں ہے۔ اس کے دو بیٹے ہیں ان کے نام حضور انور نے رکھے تھے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
سیریا سے تعلق رکھنے والے ایک نومبائع نے عرض کیا کہ میں نیا احمدی ہوں۔ دعا کی درخواست کرتا ہوں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: تعلق باللہ پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ اپنا دینی علم بڑھائو خدا تعالیٰ آپ کو ایمان اور روحانیت میں بڑھاتا چلا جائے۔
ایک خاتون نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی قصیدہ کے اشعار پڑھنا چاہتی ہوں۔اس پر حضور انور نے فرمایا دو شعر پڑھ دو۔ چنانچہ موصوفہ نے دو شعر پڑھ کر سنائے۔
الجزائر سے تین مرد اور چار خواتین پر مشتمل وفد آیا تھا۔ ایک خاتون نے جماعت الجزائر کیلئے دعا کی درخواست کی کہ خدا تعالیٰ ہمیں تقویٰ میں بڑھائے۔ وہاں ہمیں شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ میں خود تین دفعہ مقدمات کی وجہ سے عدالت جا چکی ہوں۔ میں سکول میں پڑھاتی تھی۔ مجھے وہاں سے نکال دیا گیا۔ خدا تعالیٰ نے مجھے ایک دوسری ملازمت دے دی ہے۔ میرا خاوند اور بیٹی احمدی ہیں۔ بیٹا احمدی نہیں ہے۔ اس کیلئے دعا کریں۔اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور ہدایت عطا فرمائے۔
کینیڈا سے آنے والے ایک عرب دوست نے عرض کیا کہ میں ۳۰ سال سے احمدی ہوں اور کیلگری میں رہتا ہوں۔ میں یہاں صرف حضور کی زیارت کیلئے آیا ہوں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ سیریا سے ہوں اور دو سال قبل بیعت کی تھی۔ دعا کریں کہ حضور کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے سکوں۔اس پر حضور انور نے فرمایا۔نیکی اور تقویٰ میں آگے بڑھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ایمان و یقین میں بڑھائے۔
ملاقات کا یہ پروگرام8 بجکر55 منٹ تک جاری رہا۔ مختلف عرب ممالک سے آنے والے ان احباب میں سے بعض نے اپنے تاثرات کا اظہا رکیا۔

جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے بعض عرب احباب کے تاثرات

محمد علی صاحب جن کا تعلق سیریا سے ہے، اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں: احمدیت کا تعارف میرے ایک دوست کے ذریعے ہوا۔ میرا دوست مجھے جلسہ پر ساتھ لے آیا۔ میرا ارادہ تھا کہ دن گذار کر شام کو واپس گھر چلا جاؤں گا۔ گھر قریب ہی ہے۔ اور یہ جگہ آرام دہ نہیں ہے۔ لیکن جب میں نے ماحول اور تنظیم کو دیکھا۔ ہر شخص مسکراتا ہوا ایک دوسرے سے مل رہا ہے گویا کہ ہر کوئی ایک دوسرے کو جانتا ہے۔ یہ ماحول میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ تو میں نے اپنا ارادہ بدل لیا اور تین دن تک بخوشی جلسہ میں زمین پر سوتا رہا۔
خلیفہ کو دیکھنے سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ وہ ایک عام آدمی ہیں لیکن جب میں نے انہیں دیکھا تو وہ پیار اور شفقت جو میں نے محسوس کی وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ جلسہ کے دوسرے ہی دن احمدیت کی صداقت میرے دل میں گھر کر گئی۔ اور میں نے بیعت کرنے کا ارادہ کر لیا۔ الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی۔
میں احمدیوں کے نظام کی پابندی، نظم و نسق کا خیال رکھنا اور عدم انتشار سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ اور میں نے دیکھا کہ ہر کوئی اپنے فرائض کو جانتا ہے، چاہے منتظمین ہوں یا مہمان۔
عبد القادر ہلال عبد اللہ غسام جن کا تعلق يمن سے ہے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: میں نے چند ماہ قبل بیعت کی ہے اور میں پہلی بار جلسہ میں شامل ہوا ہوں۔ جلسہ میں حقیقی طور پر محبت، اخوت، تعاون کی روح، تالیف قلوب، برکت اور ترتیب و تنظیم نظر آئی۔کہتے ہیں کہ میں اس اجتماع کو عام جلسوں کی طرح خیال کر رہا تھا۔ لیکن یہاں آکر جب میں نے ہزاروں لوگ اور ان کا آپس میں ایک دوسرے کا احترام، اور محبت اور مساوات دیکھی تو یقین ہو گیا کہ یہ عام جلسوں کی طرح نہیں ہے۔
حضور کی موجودگی کی وجہ سے ماحول بہت روحانی تھا۔ ہر دل خوش اور مطمئن دکھائی دیا۔ تمام حاضرین میں آپس میں مساوات کی روح اور کسی سے کوئی نفرت نہیں دیکھی۔ جب امیر المومنین کا چہرہ مبارک دیکھا تو دل خوشی اور مسرت سے بھر گیا۔ اللہ تعالیٰ ہم کو خلیفہ کا حقیقی سلطان نصیر بنائے۔
عرب وفد کی ایک خاتون نوال کتان صاحبہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں:مجھے خلیفہ سے پہلی بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔الحمد للہ رب العالمین۔ جماعت کے افراد کا خصوصی شکریہ جو شہد کے چھتے کی طرح شاندار اور منظم انداز میں کام کرتے ہیں۔میں نے امیر المومنین کے وژن میں اعلیٰ روحانیت کا ادراک محسوس کیا۔ اور اس میں خدا تعالیٰ کے صالح انبیاء کی بصیرت کو محسوس کیا، آپ حقیقی اسلام کے اعلیٰ ترین آئیڈیل ہیں۔میری خوش قسمتی تھی کہ یہ دعوت مجھ تک پہنچی، اور مجھے جماعت کے عقائد، کتابوں اور اس کی تعلیمات کے بارے میں آگاہی حاصل ہوئی۔ درحقیقت یہ جماعت حقیقی اسلام کی نمائندگی کرتی ہے اور جو کچھ قرآن پاک میں محبت اور احترام کی تعلیم بیان کی گئی ہے۔ اس کی اصل تصویر ہے۔
عبد الرحمٰن اسماعيل صاحب جن کا تعلق عرب وفد سے تھا کہتے ہیں:جلسہ سالانہ میں میں پہلی بار شریک ہوا ہوں۔ دنیا بھر میں کوئی ایسا گروہ نہیں ہے جو ایسا کام کرتا ہو، حاضرین پوری دنیا سے شامل ہوئے۔ لیکن کسی قسم کا کوئی لڑائی جھگڑا نہیں دیکھا بلکہ اس کے برعکس آپس میں پیار، محبت اور بھائی چارہ کی اعلیٰ مثالیں دیکھنے کو ملیں۔
جلسہ میں شامل ہونے والوں کی بڑی تعداد کی توقع کی جارہی تھی۔ لیکن میرے خیال میں توقع سے بھی بڑھ کر تعدا د تھی اور اس سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ خلیفہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور قربت ہے۔
جب امیر المومنین عرب مہمانوں کی مجلس میں آئے تو میں نے سب کے چہروں پر خوشی اور سکون دیکھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے انہیں روحانیت میں بڑھایا ہے۔ آپ نے حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے۔ہر جواب کے بعد شاملین کے چہروں پر سکون اور اطمینان محسوس کیا۔
ايک سيرين عرب مکرم محمد العکش صاحب اپنے خیالات کے اظہار میں بیان کرتے ہیں:میرا یہ پہلا جلسہ تھا۔ میں نے اس ملاقات میں وہ سب کچھ پایا جس کا میں نے خواب دیکھا تھا۔ میں نے ایک ناقابل بیان راحت محسوس کی۔ مجھے لگا جیسے میرے سینے سے روشنی نکل رہی ہے۔ میں جانتا تھا کہ جماعت بہت منظم ہے۔لیکن جو کچھ میں نے دیکھا وہ میرے تصور سے بڑ ھ کر ہے۔ ایسا روحانی ماحول میں نے زندگی میں نہیں دیکھا۔ ہر کام منظم انداز سے ہو رہا تھا اور ہر چھوٹا بڑا اپنے کام میں مگن اور ہشاش بشاش نظر آتا تھا۔
ایک سیرین مہمان عادل بکور صاحب لکھتے ہیں: میں پہلی بار جماعت احمدیہ کے جلسہ میں شریک ہوا۔ جلسہ بہت اچھا تھا۔ اور نظام بہترین تھا۔ جلسہ کا ماحول مکمل طور پر اسلامی اور روحانیت سے بھرپور تھا۔ خیر وبرکت سے کوئی چیز خالی نہیں تھی۔ تمام احمدی اور مہمان ہمارے ساتھ بہت اچھے اور مہمان نوازتھے۔ کھانا وغیرہ ہر وقت میسر تھا۔ جلسہ کے متعلق میں کوئی بھی منفی بات نہیں کر سکتا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر بہترین تھی۔ میری ذاتی خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد میرا سینہ کھولے گا اور میں جماعت میں شامل ہو جاؤں گا۔ میں ہمیشہ آپ سے ہر سال ملنے اور حاضر ہونے کی امید کرتا ہوں۔
مکرم عبد اللہ عزت عقیلی صاحب کا تعلق مصرسے ہے اور آجکل فرانس میں فزکس میں ماسٹرز کررہے ہیں۔ وہ جلسہ جرمنی کے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:چونکہ فزکس میں ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اس لیے ہر چیز میں شک کرنا میری طبیعت کا بھی حصہ بن گیا۔ گو میں نے بیعت تو بہت عرصہ پہلے کی تھی اور جماعت وخلافت کے ساتھ تعلق بھی تھا لیکن آہستہ آہستہ دیگر امور کے علاوہ جماعت کے بارہ میں بھی شکوک پیدا ہو گئے اور میں جماعت سے دور ہو نے لگا۔ امسال جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونے کیلئےحاضر ہوا تو رجسٹریشن میں کچھ تاخیر ہو گئی اور میں جلسہ گاہ اس وقت پہنچا جب حضور انور جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ جلسہ گاہ میں داخل ہوتے ہی خطبہ کے جو الفاظ میرے کانوں میں پڑے وہ یہ تھے کہ’’اگر انسان ہر بات پر بدظنی کرنے لگے تو شاید ایک دم بھی دنیا میں نہ گزارسکے۔ وہ پانی نہ پی سکے کہ شاید اس میں زہر ملا دیا ہو۔ بازار کی چیزیں نہ کھا سکے کہ ان میں ہلاک کرنے والی کوئی شئے ہو۔ پھر کس طرح وہ رہ سکتا ہے۔‘‘یہ الفاظ سنتے ہی میں اندر سے ہل کر رہ گیا۔ ایسے لگا کہ جیسے میرا اس وقت جلسہ گاہ میں آنا خدائی تقدیر تھا کیونکہ پہلا جملہ ہی میری مرض کا علاج تھا اور جیسے مجھے ہی مخاطب کر کے کہا جارہا تھا۔یہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کا میرے دل پر گہرا اثر ہوا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے شکوک اور بدظنیاں ختم ہو گئیں۔ الحمد للہ کہ خدا تعالیٰ نے جلسہ سالانہ میں شرکت کی بدولت مجھے شکوک و بدظنیوں سے نجات عطا فرمائی۔
محمد طاہر ندیم صاحب (عربی ڈیسک یوکے) جو شعبہ ترجمانی کے تحت جلسہ جرمنی میں موجودتھے۔ ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں: جلسہ کے تیسرے روز ہم ایم ٹی اے العربیہ کے ایک لائیو پروگرام میں شرکت کیلئےمحمد شریف عودہ صاحب کے ساتھ انتظار کررہے تھے کہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میرا نام مہدی بُسطی ہے اور میں رُشدی بُسطی صاحب کا بیٹا ہوں جنہوں نے مولانا جلال الدین شمس صاحب کے ذریعہ حیفا میں 1928ء میں بیعت کی تھی۔
ہم یہ سن کر بہت خوش بھی ہوئے اور حیران بھی کہ اتنے لمبے عرصہ تک یہ کہاں رہےہیں۔ ان سے بات کر کے معلوم ہوا کہ گو ان کے والد صاحب حیفا کے اوائل احمدیوں میں سے تھے اور نہایت مخلص اور فعال احمدی تھے۔وہ حیفا سے دمشق منتقل ہو گئے اور ان کی وفات کے بعد ہماری ساری فیملی کا احمدیوں سے رابطہ منقطع ہو گیا۔لیکن ہم میں احمدی افکار اور جماعت سے ایک طرح کا تعلق ہمیشہ زندہ رہا۔ دمشق کے حالات خراب ہوئے تو تقریباً سات سال قبل میں جرمنی آگیا اورسٹٹ گارٹ کے علاقے میں رہائش اختیار کی۔ چند روز قبل فیس بک پر میرے ایک دوست نے جلسہ سالانہ جرمنی کا اعلان پوسٹ کیا تو میں نے رابطہ کر کے اس میں شامل ہونے کی درخواست کی۔اور پھر آج جلسہ میں حاضر ہو گیا۔ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ جماعت اس قدر ترقی کر چکی ہوگی او راتنے وسیع پیمانے پر جلسہ منعقد کررہی ہو گی۔ اور میری ملاقات حیفا کے کسی احمدی (یعنی محمد شریف عودہ صاحب) سے بھی ہو جائے گی۔
ان کی باتیں سن کر شریف عودہ صاحب نے انہیں لائیو پروگرام میں بٹھا لیا اور پھر انہوں نے وہاں یہ ساری باتیں اور اپنے مرحوم والد اور اپنے بارہ میں مزید امور بیان کیے جن کو سن کر ناظرین بہت محظوظ ہوئے اور بہت ایمان افروز تبصرے موصول ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے والد صاحب کا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ خطوط کے ذریعہ مضبوط رابطہ تھا۔ اور انہوں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطوط سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔
والد صاحب کی چار بیٹیاں تھیں۔ انہوں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اولاد نرینہ کیلئےدعا کی درخواست کی تو حضور کا جواب موصول ہوا کہ میں نے دعا کی ہے اور اگر آپ کابیٹا پیدا ہو تو اس کا نام ہادی رکھنا۔ چنانچہ حضور کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور میری چار بہنوں کے بعد بڑا بھائی پیدا ہوا۔
اسکے کچھ عرصہ بعد میرے والد صاحب نے دوبارہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک اور نرینہ اولاد ہونے کیلئےدعا کا خط لکھا تو حضور کا جو اب موصول ہوا کہ میں نے دعا کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ تمہارے ہاں ایک اور بیٹا پیدا ہو گا اور میں نے اس کا نام مہدی رکھا ہے۔
میرے والد صاحب نے یہ بات اپنے حلقہ احباب میں بتائی تو سب نے اعتراض کیا کہ کیا تمہارے خلیفہ کو غیب کا علم ہے جو اتنے وثوق سے یہ کہہ سکتے ہیں؟ وہ توقع کررہے تھے کہ یہ بات درست ثابت نہیں ہو گی اور انہیں جماعت پر مزید اعتراض کا موقع ملے گا۔
لیکن تقریباً ایک سال کے عرصہ میں بالکل ویسے ہوا جیسے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خط میں لکھا تھا اور میرے والدین کے ہاں میری پیدائش ہوئی۔ یہ نشان دیکھ کر اس وقت شاید بیس کے قریب لوگ احمدیت میں شامل ہوئے۔
پھر جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یورپ کے سفر کے دوران دمشق میں قیام فرمایا تو میرے والد صاحب مجھے لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مجھے فرمایا کہ جاؤ خلیفہ وقت کی دست بوسی کرو۔ یوں مجھے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دست مبارک کو بوسہ دینے کا شرف حاصل ہے۔
الحمد للہ کہ مہدی بُسطی صاحب کے ساتھ مجلس بہت اچھی رہی۔ شریف عودہ صاحب نے حیفا میں بعض پرانے احمدیوں کو ان کی تصویر بھیجی تو اکثر نے یہ کہا کہ یہ تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی استجابت دعا کا معجزہ ہیں۔
اسکے بعد مہدی بُسطی صاحب نے بفضلہ تعالیٰ بیعت میں بھی شمولیت اختیار کی۔ تاہم بعض کتب بھی ساتھ لے کر گئے اور دوبارہ سب کچھ پڑھ کر غور کرنے کا عزم کیا ہے۔ اللہ کرے کہ انہیں عمر کے اس حصہ میں دوبارہ جماعت کا فعال رکن بننے کی توفیق مل جائے۔ آمین
سومی محمد امین صاحب کا تعلق الجزائر سے ہے۔ وہ پہلی بار جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے۔ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:مجھے اور میری اہلیہ کو زندگی میں پہلی بارکسی جلسہ میں شامل ہونے اور خلیفۂ وقت کی بالمشافہ زیارت اوران سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جلسہ کے پہلے روز جب میں اپنی اہلیہ کے ساتھ جلسہ گاہ کے ایریا میں داخل ہوا تو ہم دونوں نے مسک کی اسی خوشبو کو محسوس کیا جس کا احساس ہمیں 2018ء میں مکہ مکرمہ میں عمرہ ادا کرتے وقت ہواتھا۔
فاطمۃ الزھراء حشمان صاحبہ جن کا تعلق الجزائر سے ہے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں:ہفتہ کے روز جب حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز لجنہ کے ہال میں داخل ہوئے تو حضور انور کے چہرہ مبارک سے نور کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ مجھے ایسے لگا جیسے آسمان سے ایک خاص روحانی قوت نازل ہو کر پورے ہال میں پھیل گئی ہے۔اور میں اس پر سکون روحانی قوت میں ڈوبتی جارہی ہوں۔
جب خلیفہ وقت خطاب فرمانے کیلئےکھڑے ہوئے تو ایسے لگا کہ کوئی فرشتہ سامنے کھڑا ہے۔ آپ کی عاجزی وانکساری ایک صاف پانی کے چشمہ کی طرح آپ کے پورے وجود سے مترشح ہو رہی تھی۔
حضور انور کی ہال سے واپسی سے قبل میں نے سوچا میں حضور انور کو جی بھر کے دیکھ لوں اور جب میں نے دیکھنا شروع کیا تو محسوس ہوا کہ میرا دل پگھل رہا ہے۔ میرے آنسو بشدت بہنے لگے۔ مجھے لگا کہ جیسے میرے نفس کی بنجر زمین پر موسلا دھار بارش برسنے لگ گئی ہو۔ایسی حالت کا عجیب نظارہ تھا کہ میں محسوس کررہی تھی جیسے وہاں میرے اور خلیفہ وقت کے علاوہ اورکوئی نہیں۔ اور میرا دل حضورانور کی طرف نظر کرنے سے اور آپ کی محبت میں پگھلا جا رہا تھا اور آنسو تھے کہ بہتے جاتے تھے۔
بعد ازاں نو بجے حضور انور نے مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز مغر ب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

مہمانوں کے تاثرات

آج کی اس تقریب کے بعد جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جرمن اور دوسرے مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے مہمانوں سے خطاب فرمایا۔اس تقریب میں شامل ہونے والے بہت سے مہمان اپنے جذبات اور تاثرات کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکے۔
ایک جرمن مہمان الیاس شَٹَائن (Ilyas Stein) نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب بہت اچھا تھا اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خلیفہ کے خطاب کا سارا دار و مدار حقیقی امن کا قیام ہے۔مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کہ اسلام کے ایک عظیم مذہبی راہنما کی طرف سے آج کے اس تاریک دور میں امن پر خاص توجہ دی گئی۔مجھےاس بات نے بھی بہت متاثر کیا ہے کہ مسلمانوں کو نہ صرف مسلمانوں کی حفاظت کا حکم ہے بلکہ وسیع طور پر ہر ایک کی بغیر بلا تمیز قوم و مذہب حفاظت کا حکم ہے۔خلیفہ کے خطاب نے بہر حال اسلام کے بارہ میں میرے تصور کو بدل دیا ہے اور خلیفہ کی شخصیت ایسی ہے جو دوسری بڑے نامور شخصیات کی طرح دور معلوم نہیں ہوتی بلکہ بہت قرب کے تعلق والی اور ہمدرد معلوم ہوتی ہے۔
ایک جرمن مہمان گُنتہ مؤوَا (Gunter Moar ) نے کہا کہ میں مذہب اسلام کو critical نظر سے دیکھتا ہوں مگر میں نے پھر بھی خلیفہ کے خطاب کو بہت توجہ سے سنا ہے یہاں تک کہ خلیفہ نے جو حوالے اپنے خطاب میں بیان فرمائے ہیں میں نے ان کو بھی چیک کیا ہے۔ میں تسلیم کرنے پر مجبور ہوں کہ خلیفہ کا خطاب سن کر مجھے بہت حیرانگی ہوئی ہے کہ خلیفہ نے امن اور بھائی چارہ پر اتنا زور دیا ہے۔ بلا شک خلیفہ نے بہت اچھا خطاب فرمایا ہے۔میں یہ بار بار کہنے پر مجبور ہوں کہ میری حیرانگی کا آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کیونکہ خلیفہ نے اسلام کی امن پسند تصویر دکھائی ہے جو یہاں عموماً نظر نہیں آتی۔یقیناً اسلام کے بارہ میں میرے نظریہ میں آج بہت بڑا اضافہ ہوا ہے کیونکہ اس سے پہلے میں اسلام کو امن کا مذہب بھی تصور نہیں کر سکتا تھا اور اسلام کی امن کی تعلیمات کا مجھے علم نہیں تھا۔میں نے آج سب سے پہلے خلیفہ کا لجنہ سے خطاب مردانہ ہال کی سکرین پر دیکھا اور مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ خلیفہ ہیں مگر میں تب ہی بہت متاثر ہوا تھا اور سوچ رہا تھا کہ جماعت کا یہ مقرر ہی اتنا charismatic ہے تو ان کا خلیفہ کتنا عظیم ہوگا۔ پھر جب ابھی مہمانوں سے خطاب کیلئے میں نے دیکھا کے سٹیج پر یہی مقرر تشریف لا رہے ہیں تو یہ جان کر مجھے خوشی ہوئی کہ یہی خلیفہ ہیں۔
ایک مسلمان سپینش مہمان نے کہا:میں سمجھتا ہوں کہ حضور نے اسلام کے موجودہ حالات کے مختلف اہم امور پر اچھی طرح روشنی ڈالی ہے اور بہت اچھا خطاب فرمایا ہے۔ خاص طور پر اسلام میں خواتین کے مقام پر جو آپ نے روشنی ڈالی ہے وہ مجھے بہت اچھی لگی ہے۔ حضور کے خطاب سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کا تعلق نام نہاد مسلمانوں کے غلط اعمال سے نہیں۔ حضور کے بارہ میں میں اپنے جذبات بیان نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے حضور کو آج پہلی بار دیکھا ہے اور اتنی قریب سے دیکھا ہے اور پھر آپ کی اقتدا میں نماز بھی پہلی دفعہ ادا کی ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ ایک پر امن انسان ہیں جو ہمیں واقعۃً امن کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ آپ کی شخصیت نہایت مضبوط ہے جس سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ آپ کی صحبت میں مجھے امن اور حفاظت محسوس ہوتی ہے۔میں اسلام کے بارہ میں کافی confuse رہتا تھا مگر پھر میں نے حضور کے خطابات سننے شروع کیے تو وہ سب confusion دور ہو گئی ہے اور اب میں کبھی بھی آپ کے خطابات سننا نہیں چھوڑوں گا کیونکہ آج مسلمانوں کو در پیش تمام مسائل کا حل حضور کے ارشادات میں ہے۔
ایک جرمن مہمان وِلفَغید کیرنتکے(Wilfred Kerntke) جو کہ ایک Business Consultant ہیں نے کہا:مجھے یہ بات پسند آئی ہے کہ خلیفہ نے لوگوں کو واضح طور پر بتایا ہے کہ ان کے اعمال کیسے ہونے چاہئیں نہ کہ صرف زبانی اعتقاد پر اکتفا ہو۔ میں اس مختصر وقت کے بعد یہ تو نہیں بتا سکتا کہ خلیفہ کا وجود کیسا ہے لیکن بہر حال ایک پاک انسان معلوم ہوتے ہیں۔
ایک Georgianخاتون مہمان نے کہا:میں نے آج خلیفہ کے دونوں خطاب سنے اور دونوں خطاب بہت عمدہ تھے اور بہت گہری حکمتوں سے پر تھے۔ خلیفہ کے خطاب سے مجھے آج یہ بات سمجھ آئی ہے کہ حقیقی integration کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے مذہب، قوم اور انسانیت کی خدمت کرے۔ مجھے لگتا ہے کہ خلیفہ بہت گہری سوچ رکھنے والے اور ہر ایک کو سچے دل سے خوش آمدید کہنے والی شخصیت ہیں۔مجھے خلیفہ کی تلاوت بہت پسند آئی ہے کیونکہ اس میں بہت نرمی اور سکون ہے مگر ساتھ ہی آپ کی تلاوت میں ایک عجیب طاقت بھی ہے۔میں نے ایسی تلاوت پہلے کبھی نہیں سنی۔مجھے جلسہ سالانہ کا ماحول بہت پسند آیا ہے کیونکہ یہاں ہر قسم کی قوم و نسل اور ہر مذہب کے لوگ بڑی محبت اور اتفاق کے ساتھ پر امن اکٹھے ہوئے ہیں جو کہ مجھے اپنے ملک میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ خلیفہ کے لجنہ سے خطاب میں مجھے پہلی دفعہ اسلام کی عورتوں کے مقام کے بارہ میں تعلیم میں اتنی وسعت کا پتا چلا ہے کہ ایسی مسلمان عورتیں بھی گزریں ہیں جنہوں نے جنگوں میں بھی بڑے اہم کردار ادا کیے۔یہ میرے لیے بڑی حیران کن بات تھی۔
ایک جرمن مہمان کیوِن (Kevin) نے کہا:میں تو خلیفہ کے خطاب کو سن کر بس حیران رہ گیا ہوں۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ کیا کہوں لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ہر ایک کو ان سب باتوں پر عمل کرنا چاہئے جو خلیفہ نے بیان فرمائی ہیں۔ خلیفہ نے مسکراہٹ کے بارہ میں جو بات بیان کی وہ بہت ضروری ہے۔ اس کی کمی جرمنی میں بہت زیادہ ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ خلیفہ ایک بہت ہی impressive شخصیت ہیں جن کو اتنا زیادہ تجربہ ہے کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ عورتوں کے مقام کے بارہ میں آپ کے ارشادات سے مکمل طور پر متفق ہوں اور سمجھتا ہوں کہ جو بھی خلیفہ نے بیان کیا ہے وہ سب سچ ہے۔
ایک سپینش نو مبائع عیسیٰ کارَابَلی (Eisa Carabali) نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب بہت اچھا اور ضروری تھا کیونکہ کئی لوگ اسلام کو تشدد اور دوسرے مذاہب کو برا بھلا کہنے والا مذہب سمجھتے ہیں۔میں آپ کے خطاب کو وقت کی مناسبت سے بہت موزوں اور ضروری سمجھتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ خلیفہ کے خطاب جیسے مزید تقاریر کی جائیں تاکہ لوگوں کو اسلام کی اصلی تعلیم کا مزید پتا چلے۔خلیفہ کے خطاب میں سے سب سے اہم باتیں یہ تھیں کہ اسلام تشدد پسند نہیں ہے اور عورتوں کی عزت کو قائم کرتا ہے۔ خلیفہ کا طرز بیان مجھے بہت اچھا لگا کیونکہ آپ نرمی اور سکون سے بولتے ہیں۔ بہر حال یہ بات بہت عیاں تھی کہ خلیفہ ایک حقیقی مسلمان ہیں۔
ایک جرمن مہمان یُولِیان سَلوَار موزِر (Julian Salvar Moser) نے کہا کہ خلیفہ مجھے بہت open اور بہت ہمدرد لگے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے جو بھی فرمایا وہ گہرے تجربہ کی بنیاد پر فرمایا ہے۔ خلیفہ نے یہ جو بات بیان فرمائی کہ انسان جس ملک میں رہے اُس ملک کی خدمت کرے اور اسلام ہمسایوں کی تعریف کو ساتھ والے چالیس گھروں تک وسعت دیتا ہے کیونکہ یونہی حقیقی طور پر ہر ایک کا خیال رکھا جا سکتا ہے۔ عیسائیت نے بھی ہمسایوں کے حقوق کے بارہ میں تعلیمات دی ہیں مگر یہ نہیں بتایا کہ ہمسائیگی میں کون کون شامل ہے اسی وجہ سے صرف ساتھ والے کو ہمسایہ شمار کیا جاتا ہے جبکہ اسلام نے اس سے زیادہ بہتر تعلیم پیش کی ہے۔
ایک افریقن مسلمان مہمان عُمار (Omaar) نے کہامیں حیران ہوں کہ جماعت جلسہ سالانہ جیسا بڑا اور وسیع پروگرام صرف احبابِ جماعت کے چندوں سے کیسے منعقد کر سکتی ہے۔ میں خلیفہ کو دیکھ کر بھی حیران ہوا ہوں کیونکہ آپ کا وجود پر سکون اور پر امن ہے اور آپ کی شخصیت گہرا اثر چھوڑنے والی ہے۔
ایک جرمن نومبائع تِم کَرُندَمَن (Tim Krunderman)نے کہا کہ میں نے ایک ہفتہ پہلے جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کی سعادت پائی ہے۔ مجھے حضورِانور کا خطاب بہت اچھا لگا ہے اور آپ کے خطاب سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میرے لیے یہ بات نئی تھی کہ اسلام نے عورتوں کو کتنے وسیع حقوق دیے ہیں اور عورتوں کا مقام اسلام میں کتنا اعلیٰ ہے۔اس سے زیادہ حیران کن بات میرے لیے یہ تھی کہ عورتوں کے یہ حقوق اور مقام اسلام نے بہت عرصہ قبل ہی قائم کر دیے ہوئے تھے۔
حضورانور کا خطاب سن کر مجھے ایک مسلمان ہونے پر بہت فخر اور خوشی محسوس ہورہی تھی۔ حضورِانور کا وجود بہت متاثر کرنے والا قوی اور روحانی وجود ہے۔حضورِانور کی صحبت میں بیٹھنا میرے لیے موجب سکون اور دل کو نرم کرنے والا تجربہ تھا اور عین یہی احساسات اور جذبات میرے دل میں تب بھی اجاگر ہوتے ہیں جب میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی مبارک تصاویر کو دیکھتا ہوں۔
ایک جرمن مہمان مکس (Max) نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب مجھے بہت اعلیٰ اور متاثرکن لگا۔خاص طور پر امن اور عورتوں کے حقوق کی تعلیم مجھے بہت پسند آئی ہے۔ یہ تعلیمات دیگر لوگوں تک پہنچانا بہت ہی ضروری ہے۔
ایک جرمن عیسائی مہمان کَرِستِیان پیشکِن (Christian Peschken) جو کہ ایک کیتھولک ٹی وی کے نمائندہ ہیں۔انہوں نے کہا :خلیفہ کا خطاب بہت متاثرکن تھا اور آپ نے اپنے خطاب کا دائرہ سامعین کی وسعت کے مطابق تشکیل دیا۔میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح خلیفہ نے بنیادی اصول بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ یہ بنیادی اصول بھی خدا نے سکھائے ہیں نہ کہ آج کی United Nations یا کسی اور کے قائم کردہ ہیں۔ اسی طرز پر باقی مذہبی راہنماؤں کو اس وضاحت کے ساتھ اپنے خطاب دینے چاہئیں۔ خلیفہ کا خطاب ایسا تھا کہ اسے محض سن لینا کافی نہیں بلکہ اس پر بہت غور اور فکر کرنا چاہئے کہ آپ کی بیان فرمودہ باتوں سے مراد کیا ہے۔خلیفہ یقیناً ایک عاجزی اختیار کرنے والے انسان ہیں۔ آپ میں ایک خاص کشش ہے جو محسوس کی جاتی ہے۔میں نے اسلام کی حقیقی تعلیم کے بارہ میں بہت تحقیق کی ہے اور اسلام کے بارہ میں میرا تصور بہت اچھا ہے۔ خلیفہ نے اسلام میں عورتوں کے بارہ میں جو تعلیمات بیان فرمائی ہیں وہ بہت دلچسپ ہیں مگر میری خواہش ہے کہ لوگ یہ یاد رکھیں کہ یہ حقوق اور مقام کسی NGO یا UNO نے نہیں قائم کیے بلکہ خدا تعالیٰ نے مذہب کے ذریعہ قائم فرمائے ہیں۔
ایک جرمن عیسائی مہمان اَندرِیاس حَیْرمَن (Andreas Herrmann ) جن کا تعلق protestant چرچ سے ہے۔انہوں نے کہا:خلیفہ وقت کا خطاب اور وجود دونوں بہت متاثر کن ہیں۔ خلیفہ ایک لیڈر ہونے کے باوجود مجھے عاجزی اختیار کرنے والے انسان معلوم ہوتے ہیں۔میں نے نوٹ کیا ہے کہ خلیفہ جو بھی بات بیان فرماتے ہیں اس کا تعلق ہمیشہ قرآن کریم کی تعلیم سے ہوتا ہے۔ میں اس بات کو بہت ضروری اور اچھا سمجھتا ہوں کہ خلیفہ نے اپنے خطاب میں امن اور عورتوں کے حقوق پر بہت زور دیا ہے۔خلیفہ ایک پر سکون انسان معلوم ہوتے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ باوجود اتنی اہم شخصیت ہونے کے خلیفہ کو یہ پسند نہیں کہ ان کی خاطر تالیاں بجائی جائیں۔
ایک جرمن مہمان یَنِک (Yannik) نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب بہت اچھا تھا اور open minded تھا۔ خلیفہ نے اسلام کے بارہ بہت عمدہ معلومات بیان فرمائی ہیں اور مجھے ان تعلیمات سے اس سے پہلے آشنائی نہیں تھی۔ خلیفہ ایک پر حکمت شخصیت معلوم ہوتے ہیں جن کا علم بہت وسیع ہے۔ خلیفہ نے اپنے ارشادات بڑی عمدگی کے ساتھ اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمائے ہیں جس کی وجہ سے اب اسلامی تعلیما ت مجھ پر واضح ہو گئی ہیں اور میں ان کو صحیح طرح سے سمجھ سکتا ہوں۔
ایک مہمان علی بکر (Ali Bakr) جو کہ آسٹریلیا کی Green Muslims پارٹی کے ترجمان ہیں نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب بہت دلچسپ اور متاثر کن تھا کیونکہ آپ نے جو باتیں بیان فرمائی ہیں وہ نہ صرف مسلمانوں کیلئے بلکہ معاشرہ کے ہر طبقہ کے لوگوں کیلئے ضروری ہیں۔ خلیفہ کا یہ فرمانا کہ امن صرف مسلمان ممالک میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے،میرے لیے بہت دلچسپ بات تھی۔ مجھے سب سے زیادہ یہ بات پسند آئی ہے کہ خلیفہ کا طرزِبیان بہت پرحکمت ہے۔ آپ آرام اور تحمل سے خطاب فرماتے ہیں جس سے لوگ متاثر بھی ہوتے ہیں اور یوں آپ کے ارشادا ت پر غور و فکر بھی کر پاتے ہیں۔خلاصۃً یہ کہا جا سکتا ہے کہ خلیفہ ایک بہت اچھے مقرر ہیں۔
ایک جرمن خاتون مہمان کِیغا (Kira) نے کہا کہ حضور کا خطاب بہت متاثرکن تھا اور آپ نے بہت سارے مختلف اور ضروری امور پر خطاب فرمایا ہے۔ حضور کے خطاب میں سے جو چیز میرے لیے سب سے زیادہ دلچسپ تھی وہ عورتوں اور مردوں کے تعلقات کے بارہ میں تعلیم تھی جس سے اسلام احمدیت کے اعلیٰ اخلاق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔مجھے بہت اچھا لگتا ہے کہ حضور اور جماعت امن کے قیام پر بہت زور دیتے ہیں۔ حضور ایک پرسکون شخصیت ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیوں مگر حضور کے الفاظ سیدھا دل کو چھوتے ہیں۔مجھے یہ بات بہت اچھی لگی ہے کہ خلیفہ نے تحمل اور آرام سے اپنا خطاب فرمایا اور مصنوعی طور پر لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش نہیں کی۔
ہنگری کےایک مہمان جو کہ legal advisor ہیں نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب بہت اچھا تھا اورآپ کا پیغام کہ دنیا میں امن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے بہت اہم اور ضروری ہے۔ خلیفہ کی ہمدردی صرف جماعت احمدیہ تک محیط نہیں بلکہ تمام انسانیت کیلئے ہے۔ خلیفہ کی شخصیت الفاظ میں میں بیان نہیں کر سکتا مگر خلیفہ کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا ہے۔آج میرا اسلام کے بارہ میں تصور مکمل طور پر بدل گیا ہے۔آپ کے خلیفہ نہایت ہی ہمدرد اور پر امن لیڈر ہیں۔بد قسمتی یہ ہے کہ ایسے لوگ دنیا میں کم ہیں جبکہ آج ان کی بہت ضرورت ہے۔
ایک جرمن خاتون مہمان ماغی (Marie ) نےمسلمان نہ ہونے کے باجود دلی احترام کے اظہار کی خاطر دوپٹہ پہنا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب نہایت ہی متاثر کن تھا۔ میں عیسائی ہوں اور آج خلیفہ کے خطاب کے دوران مجھے دوبارہ محسوس ہوا ہے کہ ہمارا آپس میں فرق صرف معمولی ہے اور ہم مل جل کر پر امن طریقہ سے رہ سکتے ہیں اور میں بہت متاثر ہوئی ہوں۔دورانِ خطاب میرے دل پہ اتنا اثر ہوا کہ میری آنکھیں نم ہو گئیں۔خلیفہ نے عورتوں کے بارہ میں جو تعلیمات بیان فرمائی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ در اصل اسلام عورتوں کو جو حقوق دیتا ہے وہ وہی ہیں جو خلیفہ نے بیان فرمائے ہیں نہ کہ وہ جو دوسری communities بیان کرتی ہیں اور میں نے خود جلسہ سالانہ پر مشاہدہ کیا ہے کہ ان تعلیمات پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ جب خلیفہ کی تشریف آوری ہوئی تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ خلیفہ کو دیکھ کر فطرتی طور پر میرا خیال عیسائی پوپ کی طرف بھی گیا مگر خلیفہ اور پوپ میں بہت فرق ہے۔ مثلاً خلیفہ ہم سب سے قربت رکھنے والا وجود معلوم ہوتے ہیں جبکہ پوپ کو دیکھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ میں نے اپنی آنکھوں کے ساتھ آج دیکھا ہے کہ خلیفہ کے خطاب اور طرز بیان سے تمام حاضرین بہت متاثر ہوئے ہیں اور خلیفہ کی باتیں سیدھا دل کو چھونے والی تھیں اور میں نے یہاں لوگوں کو روتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
ایک lithuanian خاتون مہمان جو ایک پروفیسر ہیں انہوں نے کہا خلیفہ کا وجود مجھے بہت ہمدرد لگا ہے۔ خلیفہ سے مجھے کالسروئے میں جلسہ سالانہ کے دوران ایک دفعہ delegation ملاقات کے دوران سوال کرنے کا موقع ملا تھا اور میں حیران رہ گئی تھی کہ میرے ایک معمولی سوال پر بھی خلیفہ نے اپنے قیمتی وقت میں سے بہت وقت دیا اور تفصیل سے جواب دیا۔
ایک جرمن مہمان جَاکَمو اِیزو (Giaccamo Izzo) جنہوں نے سُنی اسلام اختیار کیا ہے انہوںنے کہا کہ خلیفہ نے اپنا خطاب اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر فرمایا ہے اور آپ نے وہی تعلیمات بیان فرمائی ہیں جن پر ایک مسلمان کو زندگی بھر عمل کرنا چاہئے اور ان کے مطابق دوسروں سے تعلق اختیار کرنا چاہئے۔جماعت کا ماٹو ’محبت سب کیلئے، نفرت کسی سے نہیں‘ میں بہت سے گہرے مطالب مخفی ہیں اور در اصل یہ تمام انسانیت کیلئے ہے۔ خلیفہ کا خطاب مجھے اس لیے بھی اچھا لگا کہ آپ نے قرآنی آیات کی بنیاد پر اپنے ارشادات فرمائے ہیں۔ویسے تو ہم سب کو پتا ہے کہ اچھائی کیا ہے اور برائی کیا مگر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اچھائی اچھائی کیوں ہے اور برائی برائی کیوں ہے اور اس پر خلیفہ نے بڑی وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ خلیفہ وقت ایک نرم دل اور خاموش طبع انسان ہیں۔ آپ کی آواز میں سکون ہے۔ آپ کے ارشادات کو انسان بڑی آسانی سے سن اور سمجھ سکتا ہے اور جب خلیفہ کے الفاظ پر انسان غور کرتا ہے تو باقی سب کچھ بھول جاتا ہے۔جلسہ میں شامل ہو کر مجھے احساس ہوا ہے کہ یہاں پر مجھے نہ صرف زبانی طور پر خوش آمدید کہا گیا ہے بلکہ اس کا اظہار عملی طور پر بھی محسوس ہوا ہے۔
ایک جرمن خاتون مہمان اَنگیلِیکا بَغاؤنے (Angelika Braune) نے کہا کہ مجھے خلیفہ کا خطاب بہت دلچسپ لگا ہے کیونکہ آپ نے بغیر جھجک کے ان تمام امور پر خطاب فرمایا ہے جن کے بارہ میں پبلک میں بات کرنا مشکل ہوتی ہے مگر آپ نےسیاستدانوں کی طرح گول مول بات نہیں کی بلکہ سیدھی اور کھری بات کی ہے اور یہ میرے لیے بہت خوشکن اور تازگی بخشنے والی بات تھی۔خلیفہ نے فرمایا کہ ہم سب کو مل کر امن قائم کرنے کی خاطر جد و جہد کرنی ہوگی اور یہ کام پہلے چھوٹی سطح پر شروع کرنا ہو گا اور آپ نے اس بارہ میں بہت عمدہ مثالیں بھی دی ہیں۔ خلیفہ کو اس سے قبل میں نے صرف ویڈیو اور تصاویر میں دیکھا تھا مگر آج براہ رست دیکھ کر آپ کی اعلیٰ شخصیت کی ایک خاص کشش مجھے محسوس ہوئی ہے۔ جب آپ ہال میں تشریف لائے تو تمام لوگ صرف خاموش ہی نہیں ہوئے بلکہ ہر ایک نے اپنی مکمل توجہ آپ کی طرف کر دی۔ میرے خیال میں خلیفہ نہ صرف مذہبی طور پر بلکہ عمومی طور پر بھی بہت اچھے لیڈر ہیں کیونکہ مختلف الفاظ میں آپ اپنے پیروکاروں کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ آپ ان کی فکر کرتے ہیں اور ان کی راہنمائی ہمیشہ بہتری کی طرف ہی کرتے ہیں کیونکہ آپ ان کیلئے صرف بہتری ہی چاہتے ہیں۔ اسلام احمدیت میں عورتوں کے مقام کے بارہ میں مجھے بہر حال ابھی مزید ریسرچ کرنی پڑے گی کیونکہ اس بارہ میں بہت منفی خبریں میڈیا وغیرہ سے ملتی رہتی ہیں مگر میں یہ گواہی دے سکتی ہوں کہ جو تعلیم خلیفہ نے عورتوں کے بارہ میں بیان فرمائی ہے اس کو عملی طور پر احمدی خواتین میں مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
ایک جرمن مہمان توبِیاس ویبا(Tobias Weber) نے کہا یہ میرا تیسرا جلسہ سالانہ ہے اور پیغام ایک ہی ہے کہ ’محبت سب کیلئے، نفرت کسی سے نہیں‘۔ اس لیے میرے لیے یوں تو کوئی نئی چیز نہیں تھی مگر مجھے دوبارہ سے جلسہ میں شامل ہونے پہ بہت خوشی ہے۔ آج یہ دوسری دفعہ موقع نصیب ہوا ہے خلیفہ وقت ہمارے بہت قریب سے گزرے ہیں اور ہمیں انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔ ظاہری بات ہے کہ میرے لیے یہ اتنی بڑی بات نہیں ہو گی جتنی جماعت احمدیہ کے احباب کیلئے ہے مگر مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ احباب جماعت کیلئے اور ان کے ایمان کیلئے خلیفہ وقت کا وجود بہت زیادہ ضروری ہے۔خلیفہ کو دیکھ کر امن محسوس ہوتا ہے۔ مجھے خلیفہ کا لجنہ سے خطاب بہت پسند آیا ہے اور میں نے گذشتہ سالوں میں کبھی ایسا خطاب نہیں سنا۔
ایک کرگ احمدی مہمان نے کہا کہ حضورِانور میں مجھے صرف نور ہی محسوس نہیں ہوتا ہے بلکہ کچھ اور بھی محسوس ہوتا ہے جو میرے لیے قاصر البیان ہے مگر دل ونین دونوں بھر آتے ہیں۔
ایک جرمن مہمان نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب مجھے بہت اچھا لگا ہے کیونکہ اس میں بہت سارے حالیہ اور ضروری امور مثلاً عورتوں کے حقوق کا احاطہ کیا گیا ہے اور آپ نے ان امور پر بڑی عمدگی کے ساتھ وضاحت فرمائی ہے۔ خلیفہ عاجزی اختیار کرنے والے اور عالم انسان معلوم ہوتے ہیں۔ آپ پر حکمت ہیں اور جو آپ بات بیان فرماتے ہیں اس پر آپ کو مکمل عبور حاصل ہے اور آپ well informed بھی ہیں۔ اس وجہ سے آپ کا لوگوں پر بہت گہرا اثر ہے۔مجھے یہ بات اچھی لگی ہے کہ خلیفہ نے اس بات کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ اسلام کا شدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ جھگڑوں کو ختم کرے۔ مجھے بہت اچھا لگا ہے کہ آپ نے ان ضروری امور کو تکرار سے بیان فرمایا ہے۔
ایک ترک مہمان نے کہا کہ خلیفہ سے ایسی شعاعیں محسوس ہوتی ہیں جنہیں میں بیان نہیں کر سکتا مگر ان شعاعوں نے تمام ہال کو بھر دیا تھا۔

(باقی آئندہ )

…٭…٭…٭…