جو غلط تصور بعض غلط قسم کے مسلمانوں نے اسلام کے متعلق پیدا کر دیا ہے اور بدقسمتی سے اکثریت اس غلط قسم کے تصور پر چل رہی ہے
اس کو ہم رد کرنے والے بنیں گے اور قرآن اور حضرت محمد ﷺ کی سنت اور عمل سے یہ بتائیں گےکہ اسلام کی اصل تعلیم تو امن، پیار، محبت اور آشتی کی تعلیم ہے
ملک جرمنی کاجو قانون ہے وہ مکمل طور پر مذہبی آزادی دیتا ہے ،ہم اس کیلئے حکومت کے شکر گزار ہیں ،یہی وجہ ہے کہ پاکستانی لوگ یہاں آکر آباد ہوئے ان کو اپنے ملک میں مذہبی آزادی نہیں تھی
حقوق ادا کرنا اسلام کا بنیادی حکم ہے،اسلام یہ تعلیم نہیں دیتا کہ صرف اپنے حقوق کیلئے لڑو، اسلام یہ کہتا ہے کہ دوسروں کے حق ادا کرنے کی کوشش کرو
جب تم دوسروں کے حق ادا کرنے کی کوشش کرو گے تو پھر دنیا میں امن بھی قائم ہوگا اور محبت اور پیار کا معاشرہ بھی قائم ہوگا، یہی چیز ہے جس کی آج ہمیں دنیا میں ضرورت ہے
جماعت احمدیہ تو مذہبی آزادی کا صرف باتوں میں پرچار نہیں کرتی بلکہ عملاً ہم اس بات کا اظہار دنیا کے مختلف غریب ممالک میں کر رہے ہیں کہ
غریبوں کو بلاتفریق مذہب تعلیم مہیا کی جائے، ان کا علاج کیا جائے، ان کو پینے کا پانی میسر کیا جائے
تمام مذاہب کو اکٹھا رہنے کیلئے اور دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے ، معاشرہ میں پیار ومحبت پھیلانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی عزت کی جائے اور اسلام ہر مذہب کی عزت کا حکم دیتا ہے
اسلام صرف اپنی مسجد کی حفاظت کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ
چرچ کی بھی حفاظت کرنی ہے ،Synagogueکی بھی حفاظت کرنی ہے ، ٹیمپل کی بھی حفاظت کرنی ہے ، اسلام کے نام پر جوچرچوں کو جلاتے ہیں یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے
صرف اپنے حق کیلئے نہ لڑیں بلکہ دوسرے کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ کریں تو پھر ہی حقیقی امن اور پیار کی فضا قائم ہوگی، ہم لوگ تو حق ادا کرنے والے اور حقیقی امن کرنے والے لوگ ہیں
جرمنی کے شہر Karbenمیں مسجد صادق کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز خطاب
آپ لوگ تو سوسائٹی کے مفید وجود ہیں (Guido Rahnصاحب ،میئر Karben شہر)
مَیں خود اس بات کی گواہ ہونکہ آپکا ماٹو محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ آپ لوگ ایساعمل بھی کرتے ہیں (Natalie Pawlikصاحبہ ،ممبرجرمن پارلیمنٹ )
جماعت احمدیہ کو صرف اپنے جماعت کے ممبران کی فکر نہیں ہوتی بلکہ اس بات کی بھی توجہ ہے کہ انسانیت کی مجموعی طور پر خدمت کی جائے (Tobias Utterصاحب ممبرصوبائی ممبر پارلیمنٹ)
تقریب میں شامل معزز مہمانان کرام کے ایڈریسس
خلیفہ کا طرز بیان بہت ہی اچھا ہے اور آپ سے امن وسکون کی شعاعیں محسوس ہوتی ہیں ، آپ کے ارشادات بہت گہرے مطالب کے حامل ہیں (Alban Krasniqi)
خلیفہ کا طرزِ بیان بہت گہرا ہے اور پر حکمت ہے جس کی وجہ سے خلیفہ کے وجود میں سکون وامن محسوس ہوتا ہے اور آپ کے ارشادات بہت مستند معلوم ہوتے ہیں (Gabrielle Ratazzi Stoll)
سب سے اہم بات خلیفہ کی خطاب کی یہ تھی کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں اور امن کو قائم کرنے کیلئے ایک دوسرے سے رابطہ بھی رکھنا چاہئے اور احترام بھی کرنا چاہئے (Andreas Linke)
مَیں جماعت احمدیہ کو لمبے عرصہ سے جانتا ہوں اور مجھے پتا ہے کہ جماعت احمدیہ جو کہتی ہے وہ عملاً کر کے بھی دکھاتی ہے (Norbert Greulich)
مَیں کوئی خاص سوچ یاا مید کے ساتھ یہاں نہیں آیا تھا مگر مَیں حیران رہ گیا ہوں کہ یہ کیسی عظیم مجلس تھی اور کتنی عظیم باتیں یہاں پر ہوئیں اور مہمان نوازی کتنی اچھی تھی،مجھےیہ بات اچھی لگی کہ خلیفہ نے جو بھی سمجھایا وہ بغیر جوش وخروش کے بڑے تحمل اور سلجھے انداز میں نہایت عمدگی کے ساتھ بیان فرمایا ،خلیفہ کا وجود بہت احترام اور رواداری والا ہے(Walter Horz)
مَیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوں کہ خلیفہ کا وجود نہایت پر سکون معلوم ہوتا ہے ، خلیفہ کی شخصیت بہت پیاری ہے، شکر ہے کہ ہمیں صرف خلیفہ کے خطاب کا ترجمہ ہی نہیں بلکہ آپ کی آواز بھی سننے کا موقع ملا کیونکہ آپ کی آواز بھی بہت خوبصورت ہے (Astrid Bergman)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا خطاب سننے کے بعد معزز مہمانان کرام کے ایمان افروز تاثرات
رپورٹ : مکرم عبد الماجد طاہر صاحب ،ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن، یو.کے
مورخہ 29؍اگست 2023ء بروز منگل
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح5 بجکر 40منٹ پر تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔ حضور انور کی مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
فیملی ملاقاتیں
پروگرام کے مطابق صبح 11 بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دفتر تشریف لائے اور فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔آج صبح کے اس سیشن میں 37؍فیملیز کے 148 ؍افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ہر ایک نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف پایا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
ملاقات کرنے والی یہ فیملیز جرمنی کی مختلف جماعتوں سے آئی تھیں۔ بعض فیملیز بڑے لمبے سفر طے کر کے اپنے آقا سے ملاقات کیلئے پہنچی تھیں۔جماعت Trier سے آنے والی208 کلومیٹر، Filderstadtسے آنے والی222 کلومیٹر آخن سے آنے والی263 کلومٹر،Freiburgسےآنے والی280کلومیٹر اور جماعت Bocholt سے آنے والی فیملیز اور احباب 302 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے پہنچے تھے۔ جو فیملیز اور احباب Hannover سے آئے تھے وہ 337 کلومیٹر اور Waldshut سے آنے والے368 کلومیٹر جب کہ Leipzig سے آنے والے 378 کلومیٹر اور جماعت Chemnitz سے سفر کر کے آنے والے 382 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات کیلئے پہنچےتھے۔
تقریباً یہ سبھی فیملیز ایسی تھیں یا بعض فیملیز کا ایک حصّہ ایسا تھا جو اپنی زندگیوں میں پہلی مرتبہ اپنے پیارے آقا کے دیدار اور شرف ملاقات سے فیضیاب ہو رہا تھا۔ آج کا دن ان کی زندگی میں نہایت مبارک اور برکتوں اور اللہ کے فضلوں سے بھرپور دن تھا۔ پیارے آقا سے ملاقات کے ان لمحات کو یہ لوگ اور ان کی اولادیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔
خلیفۃ المسیح سے قرب کی یہ چند گھڑیاں ان کی ساری زندگی کا سرمایہ ہیں۔۔ انسان کی زندگی میں چند لمحات ایسے آجاتے ہیں جو اس کی کایا پلٹ دیتے ہیں۔ خلیفۃ المسیح سے قرب کے یہ چند لمحات یقیناً ایسے ہی مبارک لمحات ہیں جو ایک انسان کا دین بھی سنوار جاتے ہیں اور اس کی دنیا بھی سنور جاتی ہے اور اسے ایک نئی زندگی عطا ہوتی ہے۔
ملاقات کرنے والوں میں سے ایک دوست کاشف سہیل صاحب (جن کا تعلق ربوہ سے ہے) نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں اپنے جذبات کا اظہار کرسکوں، میرے جذبات قابو میں نہیں ہیں۔ میں بول نہیں پا رہا تھا۔ حضور نے میری مشکلات کیلئے دعا کی ہے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا، حضور نے مجھے انگوٹھی تبرک دی ہے۔
ربوہ سے آنے والے ایک اور دوست شیخ محمد ادریس صاحب نے بھی اپنی فیملی کے ساتھ حضور انور کے ساتھ پہلی ملاقات کی۔موصوف نے کہا کہ میں اس ملاقات کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا نورہی نور تھا۔ حضور انور کے چہرہ پر اتنا نور تھا کہ نظر نہیں ٹھہرتی تھی۔ ہم تو دعائیں لینے آئے تھے۔میرا جسم ابھی بھی کانپ رہا ہے۔ ہم ساری رات یہ سوچ کر سو نہیں سکے تھے کہ صبح حضور انور سے ہماری ملاقات ہے۔
ایک دوست صاحبزادہ نوید الرحمٰن صاحب جو چند ماہ قبل پشاور سے جرمنی آئے ہیں، بیان کرتے ہیں کہ اپنے پیارے آقا سے ملاقات واقعی ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔
ایک دوست خرم نوید صاحب جو جماعت Darmstadt سے آئے تھے کہنے لگے میری نو سال بعد ملاقات ہوئی ہے ملاقات سے قبل ہی جذبات قابو میں نہیں تھے۔ اب مجھ سے کچھ بیان نہیں ہو رہا۔ ابھی بھی دل کی دھڑکن بہت زیادہ ہے۔ حضور نے ہمیں بہت وقت دیا یہ ملاقات اب میری زندگی بدل دے گی۔(انشاء اللہ)
ایک صاحب بشیر احمد مجوکہ صاحب جن کا تعلق حویلی مجوکہ سرگودھا سے ہے اپنی اہلیہ کے ساتھ ملاقات کیلئے آئے تھے۔ کہنے لگے کہ ان کی زندگی میں حضور انور کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ کہنے لگے کہ آج میرے لیے بہت ہی خوشی کا موقع تھا۔ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ اللہ کرے کہ یہ موقع ہمیں بار بار ملتا رہے۔
بوریوالہ ضلع وہاڑی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک دوست منور احمد صاحب نے بیان کیا کہ یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا۔ مجھ میں بات کرنے کی طاقت نہیں ہے میں جذبات سے مغلوب تھا۔ خدا تعالیٰ کا بےانتہا فضل ہوا کہ آج مجھےیہ ملاقات نصیب ہوئی۔
ربوہ سے آنے والے ایک دوست مختار احمد صاحب نے بیان کیا کہ ان کی حضور انور سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ آج میرے لیے خوشی کا دن ہے۔ مجھے حضور انور سے مل کر اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ ایک نوجوان احتشام مقصود صاحب جن کی عمر 18سال ہے جرمنی کی جماعت Speyer سے آئے تھے۔ کہنے لگے کے یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ میں جیسے ہی دفتر میں داخل ہوا میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ مجھ سے کوئی بات نہ ہوسکی، مجھ سے بولا نہیں جا رہا تھا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت مجھے تحفہ بھی عنایت فرمایا۔
ایک دوست محمد وسیم صاحب ملک یوکرین سے آئے تھے۔ زندگی میں پہلی ملاقات تھی کہتے ہیں میرے لیے بیان کرنا بہت مشکل ہے۔میر ا دل بہت دھڑک رہا تھا۔ حضور انور کو دیکھ کر رونا آجاتاتھا۔میرے لیے بات کرنی مشکل ہو رہی تھی۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام1بجکر 40 منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
نماز جنازہ حاضر
بعد ازاں 2 بجکر 5 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر عزیزم سرمد احمد ابن مکرم ضیاء اللہ آف روڈل ہائم فرنکفرٹ کی نماز جنازہ حاضر اور تین مرحومین کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
عزیزم سرمد احمد مورخہ 24؍ اگست کو ناگہانی طور پر وفات پا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وفات کے وقت مرحوم کی عمر گیارہ سال تھی اور چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ مرحوم نے والدین کے علاوہ ایک بڑا بھائی اور ایک بڑی بہن یادگار چھوڑے ہیں۔ عزیزم سرمد نے 8 سال کی عمر میں ناظرہ قرآن کریم پڑھ لیا تھا اور نویں سپارے تک ترجمہ کے ساتھ پڑھ چکا تھا۔ مرحوم کو قرآن مجید سے بہت لگائو تھا۔گذشتہ دو سالوں سے رمضان المبارک میں قرآن کریم کا ایک دور مکمل کر لیاکرتا تھا۔ اب دو مہینوں سے آن لائن قرآن پاک ترتیل سے سیکھ رہا تھا۔ قرآن کریم کی 21 سورتیں اور22؍احادیث زبانی یاد کی ہوئی تھیں اور5 کا ترجمہ بھی سیکھ لیا تھا۔ 9 دعائیں ترجمے کے ساتھ یاد تھیں اور 5 اشعار قصیدے کے بھی یاد تھے۔ مرحوم کو خلافت سے بے حد محبت تھی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جرمنی تشریف آوری پر ترانہ پیش کرنے والوں کے ساتھ تھا اور وفات سے ایک دن پہلے بیت السبوح میں ترانے کی تیاری کیلئے آیا تھا۔
نماز جنازہ غائب
(1)مکرم فضل احمد صاحب ابن مکرم نور احمد صاحب(الطاف پارک، امارت دہلی گیٹ لاہور)
8جون2023ء کو78 سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم نہایت مخلص، سادہ مزاج اور جماعت کے ساتھ وفا کا تعلق رکھنے والے انسان تھے۔ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔اپنے حلقہ میں سیکرٹری رشتہ ناطہ اور سیکرٹری تعلیم القرآن بھی تھے۔ تلاوت قرآن کریم کے پابند تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔
(2)مکرم محمد ریاض صاحب ابن مکرم سادہ خان صاحب(موضع ادر حماں تحصیل کوٹ مومن ضلع سرگودھا)
25؍مئی 2023ء کو 63 سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم مخلص احمدی تھے۔ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ نئی بیت الذکر کی تعمیر اور جماعتی سکول بنانے میں اپنے آپ کو اس طرح وقف کیے رکھا جیسے اپنا ذاتی کام ہو۔ جماعتی لحاظ سے جب بھی کسی خدمت کی ضرورت ہوتی اپنا کام چھوڑ کر فوری حاضر ہوجاتے تھے۔ نماز باجماعت کے پابند تھے۔ اپنی طاقت کے مطابق ہر ایک کی مدد کرنے والے تھے۔ مرحوم موصی تھے۔
(3)مکرمہ فرزانہ مقصود صاحبہ زوجہ مکرم مقصود احمد صاحب(گاؤں غلام حیدر ضلع عمر کوٹ)
13؍مئی2023ءکو بعمر 43 سال بقضائے الٰہی وفات پاگئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ صوم وصلوٰۃ کی پابند، مہمان نوازاور خوش اخلاق، غریبوں اور مساکین کا خاص خیال رکھتی تھیں۔ خلیفہ وقت اور جماعت سے عشق و وفا کا تعلق تھا۔ مرحومہ جماعتی عہدیداران اور مرکزی نمائندگان کی دل و جان سے خدمت کرتی تھیں۔ ان کا ایک بٹیا جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم ہے۔
نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لواحقین سے اظہار تعزیت فرمایا۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد میں تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائی۔ نماز کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
پچھلے پہر بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے،پروگرام کے مطابق 6 بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔
فیملی ملاقاتیں
آج شام کے اس سیشن میں پروگرام کے مطابق 40؍ فیملیز کے136 ؍افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ان سبھی فیملیز نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت بھی پائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔
آج شام کے اس سیشن میں بھی جرمنی کی مختلف 31 جماعتوں اور شہروں سے فیملیز اور احباب جماعت ملاقات کیلئے پہنچے تھے۔ بعض احباب اور فیملیز بڑے لمبے سفر طے کر کے آئی تھیں۔
جماعت Ebingen اورUlm.Donau سے آنے والے قریباً 300 کلومیٹر اور جماعت Hannover سے آنے والے 337کلومیٹر، اوسنابُروک(Osnabruck) سے آنے والے 343 کلومیٹر، Cheminitz سے آنے والے 382 کلومیٹر، جب کہ Jesteburgسے آنے والے 462 کلومیٹر لمبا سفر طے کر کے پہنچے تھے۔
ملاقات کرنے والی ان فیملیز میں سے بڑی تعداد اور اکثریت ان لوگوں کی تھی جو پاکستان سے یہاں آئے تھے اور اپنی زندگی میں پہلی بار اپنے پیارے آقا سے مل رہے تھے۔
ایک نوجوان ارسلان احمد صاحب جو سیالکوٹ سے آئے تھے اور یہاں جماعت Chemnitz کے ممبر ہیںاپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دل کی کیفیت کا نہ ہی پوچھیں۔ جب باہر تھا تو صبر نہیں ہو رہا تھا۔ بہت کچھ سوچا ہوا تھا مگر جب اندر گیا تو بات نہ کر پایا مگر دل کو تسلی ہوگئی۔ ان کی والدہ بھی ساتھ تھیں اور وہ جذبات سے مغلوب تھیں اور ان کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔
ایک دوست صدیق احمد صاحب پشاور سے آئے تھے ویسے ان کا تعلق افغانستان سے ہے۔ ان کی فیملی کے ساتھ حضور انور سے پہلی ملاقات تھی۔ یہ بھی جذبات سے مغلوب تھے اور بات نہیں کر پا رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے بہت دعائیں کیں کہ ہماری ملاقات ہوجائے۔ جب فون آیا تو بہت خوشی ہوئی۔
بہاولنگر پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نوید احمد صاحب نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے تو بولا نہیں جا رہا تھا۔ میری بیٹی بھی ساتھ تھی۔ حضور نے بہت پیار کا سلوک فرمایا اور میری اہلیہ کو انگوٹھی عنایت فرمائی۔
ایک دوست رانا خالد محمود صاحب کی فیملی کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے پہلی ملاقات تھی۔ انہوں نے بتایا کہ میری دعائیں قبول ہو گئیں، بہت خوشی ہوئی، ایسا لگتا ہے جیسے زندگی کا مقصد آج پورا ہوگیا۔ بہت دعائیں کی تھیں، جب ملاقات کی اطلاع ملی تو میں نے شکر انے کے نفل ادا کیے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بہت پیار کا سلوک فرمایا، انگوٹھیاں دیں، تبرک دیا۔ میں 23سال سے کام کر رہا ہوں، روزانہ تہجد کی نماز پڑھ کر کام پر جاتا ہوں، ہر نماز میں، میں پیارے حضور کیلئے پہلے دعا کرتا ہوں۔ اگر آپ کو کچھ چاہیے تو اللہ تعالیٰ سے مانگیں، اس کے آگے جھکیں، وہ آپ کی جھولی بھر دے گا، ورنہ تو اس دنیا کا سب مال اسباب ختم ہونے والا ہے۔
ایک دوست عرفان اللہ صاحب کی بھی فیملی کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ موصوف کا تعلق پاکستان میں گجرات سے ہے۔ یہ کہنے لگے کہ جذبات کی تو بات ہی نہ کریں، دل 100سے زیادہ رفتارسے دھڑک رہا ہے۔ حضورنے بہت پیار کاسلوک فرمایا۔ بچوں کو چاکلیٹس دیں، مجھے انگوٹھی دی۔ بہت زیادہ خوشی ہوئی۔
ایک دوست ماجد احمد صاحب کا تعلق بستی شکرانی، ضلع بہاولپور سے تھا۔ یہ2018ء میں جرمنی آئے تھے۔ آج ان کی پہلی ملاقات تھی۔ آپ تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پر نور چہرے کو دیکھ کر میں بول نہیں پایا۔ حضور کی شفقت میرے اور میری فیملی کیلئے بے شمار برکات کا موجب ہے۔ پاکستان میں بستی شکرانی کے حالات بہت خراب ہیں، جماعت کی بہت مخالفت ہے، میں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی، تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں دعا کروں گا، اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ آمین
ایک دوست محمد اکرم صاحب جو بہاولپور سے آئے تھے کہنے لگے کہ آج حضور سے میری پہلی ملاقات تھی۔ حضور انور سے مل کر ایسے لگتا ہے جیسے دوبارہ دنیا میں آگیا ہوں۔ دل کو سکون مل گیا ہے۔ حضور انورکی خدمت میں دعا کیلئے عرض کی تو دل کو تسلی ہوگئی۔ شہد بھی تبرک کروایا۔
احسان احمد صاحب کا تعلق ربوہ سے ہے۔ ان کی بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پہلی ملاقات تھی۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ میں بہت خوش ہوں۔ میں نے سارے دل کی بات کی۔ ان کے ساتھ ان کا9 سال کا بیٹا شاہ زیب تھا، کہنے لگا کہ مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا، ایسا تھا جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہوں اور بس۔ پیارے حضور نے میری آمین کروائی اور مجھے گفٹس بھی دیے۔ حضور نے بہت پیار کیا۔
ایک نوجوان شہاول بلال جن کا تعلق پنڈی بھاگو سیالکوٹ سےہے ڈیڑھ سال قبل جرمنی آئے تھے، یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کتنے احمدی پیارے حضور سے ملاقات کیلئے ترستے ہیں، میں بہت خوش قسمت ہوں کہ مجھے آج یہ موقع مل گیا ہے۔ پاکستان کے حالات کے بارہ میں پیارے حضور کو دعا کی درخواست کی، حضور نے فرمایا دعا کریںگے۔ میں نے انگوٹھی تبرک کروائی۔
سفیر احمد صاحب 23 سال کے نوجوا ن ہیں۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آرہی اور یقین ہی نہیں آرہا کہ میری ملاقات ہوگئی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم ان لوگوں میں سےہیں جن کی ملاقات ہوئی ہے۔ میں قائد کے طور پر خدمت کی توفیق پا رہا ہوں، حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ میں جماعت کی جو خدمت کر رہا ہوں اسے جاری رکھوں۔
ایک دوست نوید احمد صاحب جن کا تعلق گنڈا سنگھ، ضلع فیصل آباد سے ہے۔ ان کی بھی فیملی کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کے چہرہ کو نور سے بھرا ہوا ہے، میں دیکھ نہیں پارہا تھا۔ میرا بیٹا 2ماہ کا ہو رہا ہے۔ حضور نے پیارسے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ یہ جذبات سے مغلوب تھے اور بات نہیں کر پا رہے تھے، کہنے لگے کہ یہ میرا بیٹا وقف نو میں ہے، اب میں بھی اور میرا یہ بیٹا بھی جماعت کی ہر لحاظ سے خدمت کریں گے۔
رفیق احمد باجوہ صاحب کی عمر 71سال ہے اور ان کا تعلق فاروق آباد سے ہے۔ یہ دو سال سے جرمنی میں ہیں۔ ان کی بھی یہ پہلی ملاقات تھی۔ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو آنحضرت ﷺ کا سلام پہنچایا ہے کیونکہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جانشین ہیں۔ ملاقات کی تمنا بہت دیر سے تھی۔ حضور انور کو ٹی وی میں دیکھنا اور آمنے سامنے دیکھنا زمین و آسمان کا فرق ہے۔ حضور انور نے بہت شفقت سے باتیں کی۔ یقیناً آپ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ وجود ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے راشد مرزا صاحب کی خلیفہ وقت سے پہلی ملاقات تھی۔ وہ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے روپڑے اور ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ کہنے لگے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پر نور چہرہ دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا، اتنا نورانی چہرہ۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو دعا کیلئے لکھتے ہیں تو سب کام ٹھیک ہوجاتے ہیں۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست منعم آفتاب صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ میری پہلی ملاقات تھی،میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ بہت خوشی ہوئی، میری والدہ کو کچھ دن ہوئے ہارٹ اٹیک ہوا تھا، دعا کیلئے عرض کیا، تو اب انشاء اللہ وہ ٹھیک ہوجائیں گی۔ میری بیٹی کو بہت خوشی ہوئی کہ پیارے حضور نے مجھے چاکلیٹ دی تو میں نے جزاکم اللہ کہا، بہت اچھا لگا۔
رضوان احمد صاحب جرمنی کی جماعت Chemnitz سے آئے تھے۔ ان کی اور ان کی فیملی کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ کہتے ہیں کہ بہت ساری باتیں تھیں جو ہم حضور سے کرنا چاہتے تھے مگر جیسے ہی ہم حضور کے دفتر میں داخل ہوئے تو حضور کی روحانیت کے رعب سے ہم سب باتیں بھول گئے۔ ہمارا سب سے چھوٹا بچہ اتنا بیمار تھا کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا مگر حضور انور کی دعائوں سے الحمد للہ زندہ ہے اور بہتر ہوتا چلا جا رہا ہے اور آج حضور نے اسکے بارہ میں دریافت فرمایا اور پھر مزید دوائی وغیرہ لینے کا ارشاد فرمایا۔
محمد اکرام صاحب اور ان کی اہلیہ جن کا تعلق میر پور خاص سے ہے اور ابھی کچھ مہینے قبل ہی جرمنی منتقل ہوئے ہیں۔ ان کی آخری ملاقات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث سے ہوئی تھی اور اُس کے بعد آج حضور انور سے اپنی زندگی میں پہلی ملاقات کی سعادت پارہے تھے۔ دونوں میاں بیوی کہنے لگے کہ حضور کو دیکھ کر اور آپ سے گفتگو کرکے دل بھر آیا اور ہمیں جو پریشانیاں لاحق تھیں وہ سب اب پریشانیاں نہیں لگتیں اور ہمارے دل میں سکون پیدا ہوگیا ہے۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام8 بجکر 25 منٹ تک جاری رھا۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کچھ دیر کیلئے اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
نو بجے حضور انور نے تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے۔
مورخہ30؍اگست2023ء بروز بدھ
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح 5بجکر 40 منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ پرتشریف لے گئے۔صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔ حضور انور کی مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
تقریب افتتاح مسجد صادق
آجKarbenشہر میں ’’مسجد صادق‘‘ کے افتتاح کا پروگرام تھا۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 4 بجکر 50 منٹ پر اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اور فرنکفرٹ سےKarben کیلئے روانگی ہوئی۔ یہاں سے کاربن شہر کا فاصلہ 19 کلو میٹر ہے۔ سترہ منٹ کے سفر کے بعد 5 بجکر 7 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی ’’مسجد صادق‘‘ تشریف آوری ہوئی۔ یہاں کے مقامی جماعت کے افراد نے بڑے پرجوش اور والہانہ انداز میں اپنے پیارے آقا کا استقبال کیا۔ ان کیلئے آج کا دن بے انتہا خوشیوں اور برکتوں کا حامل دن تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک قدم دوسری مرتبہ ان کے مسکن میں پڑے تھے۔ اس سے قبل17؍جون 2014ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز یہاں تشریف لائے تھے اور مسجد صادق کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔
آج ہر کوئی بےحد خوش تھا۔ جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ گاڑی سے باہر تشریف لائے تو احباب جماعت نے خوشی سے نعرے بلند کیے اور بچوں اور بچیوں نے گروپس کی صورت میں خیر مقدمی دعائیہ نظمیں پیش کیں۔ اس موقع پر Karbenشہر کے صدر جماعت مکرم عاطف شہزاد ورک صاحب،ریجنل امیر مظفر احمد بھٹی صاحب اور یہاں کے مربی سلسلہ تحسین رشید صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو خوش آمدید کہا۔
بعد ازاں حضور انور نے مسجد کی بیرونی دیوار میں نصب تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی۔
اسکے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد کے ہال میں تشریف لے گئے اور نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں جس کے ساتھ ہی مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔
نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور نے جماعت کی تجنید کے بارہ میں دریافت فرمایا تو لوکل صدر صاحب جماعت نے عرض کیا کہ ہماری تجنید280 کے قریب ہے۔
حضور انور کے استفسار پر کہ یہاں سے لوگ کام کاج کیلئے کہاں جاتے ہیں اس پر صدر صاحب نے عرض کیا کہ فرنکفرٹ جاتے ہیں اور آجکل بہت سے لوگ اپنے گھروں سے بھی آن لائن کام کر رہے ہیں۔
بعد ازاں حضور انور نے اس شہر میں نئے آنے والے احباب کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ اس پر ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ احمد خان منگلا صاحب کے بیٹے ہیں اور2018ء میں ربوہ سے یہاں آئے تھے۔
ربوہ سے آنے والے ایک طالبعلم نے بتایا کہ وہ یہاں فی الحال کام بھی کر رہے ہیں اور ساتھ جرمن زبان کا کورس بھی کر رہے ہیں۔
اسکے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد سے ملحقہ کامن روم اور دفتر کا معائنہ فرمایا۔ اس دوران بچے باہر قطاروں میں کھڑے ہوچکے تھے۔ حضور انور نے ازراہ شفقت بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد کے اُس حصہ میں تشریف لے آئے جہاں لجنہ موجود تھیں۔ یہاں بچوں نے حضور انور کی خدمت میں دعائیہ نظمیں پیش کیں۔ خواتین شرف زیارت سے فیضیاب ہوئیں۔ خواتین کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے باہر مارکی میں بھی خواتین کا انتظام کیا گیا تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ خواتین کی مارکی میں بھی تشریف لے آئے اور ازراہ شفقت بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کے بیرونی احاطہ میں بادام کا پودا لگایا۔
اسکے بعد ممبران مجلس عاملہ جماعت Karben اور کارکنان شعبہ سو مساجد اور مسجد کی تعمیر کے دوران وقار عمل کرنے والی ٹیم نے حضور انور کے ساتھ گروپ کی صورت میں تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔
مسجد صادق کے افتتاح کے حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام مسجد سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع شہر کے ٹاؤن ہال میں کیا گیا تھا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزمسجد سے 5 بجکر 45 منٹ پر روانہ ہوکر5 بجکر 55 منٹ پر اس ہال میں تشریف لے آئے۔ حضور انور کی آمد سے قبل اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمان اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ آج کی اس تقریب میں91 مہمان شامل ہوئے۔ جن میں مختلف سیاسی پارٹیوں
CDU، SPD، Die Grunen اور FDP کے مقامی اور صوبائی سیاستدان،Catholic Churchکے نمائندے،Protestant Churchکے نمائندے،Morman Culture Region کے نمائندے، پولیس، فائر بریگیڈ، وکلاء، مختلف رفاہی اداروں کے نمائندے، سپورٹس کلب اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مہمان شامل تھے۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم حافظ بدریا سر اشرف صاحب نے کی۔ اور مکرم یاسر احمد صاحب نے اس کا جرمن زبان میں ترجمہ پیش کیا۔
اسکے بعد مکرم امیر صاحب جرمنی نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا۔
امیر صاحب نے اس شہر کے تعارف میں بتایا کہ سال 1970ء میں شہر کاربن کی پیدائش کا آغاز ہوا۔ لیکن شہر کی جڑیں اس سے بھی بہت قدیم ہیں۔ شہر کاربن کے نام کا ذکر پہلی مرتبہ 1827ء میں ملتا ہے۔
اس شہر میں 1987ء سے احمدی آباد ہونا شروع ہوئے لیکن جماعت کا باقاعدہ قیام1988ء میں ہوا۔ آغاز میں چھ فیملیز پر مشتمل 25؍افراد کی جماعت تھی اور اب یہ تعداد276 تک پہنچ چکی ہے۔
شروع میں مختلف گھروں میں سینٹر بنا کر نمازیں ادا کی جاتی تھیں۔ بعد ازاں نمازوں اور اجلاسات کیلئے ایک چھوٹا سا گھر کرایہ پر لیاگیا جو سال 2013ء تک استعمال ہوتا رہا۔ اسکے بعد شہر کے ٹائون ہال کے تہ خانہ میں ایک جگہ حاصل کی گئی۔ جہاں جماعت اپنے پروگرام منعقد کرتی رہی۔
کاربن (Karben) میں احمدیہ مسلم جماعت کئی سالوں سے فلاحی سرگرمیوں کی وجہ سے معروف ہے۔ سال 2013ء سے ہمارے نوجوانوں کی ذیلی تنظیم کاربن شہر کا کچرا اورگند اٹھانے کی مہم میں شامل ہے۔ اس طرح باقاعدگی سے نئے سال کے موقع پر صفائی کا اہتمام کرتی ہے۔
سال2023ء میں مسجد کیلئے پلاٹ کے حصول کی بات چیت ہوئی اور عمارت کی ابتدائی درخواست منظور ہوگئی تو سال 2014ء میں 834مربع میٹر کا یہ قطعہ زمین حاصل کرنے کی توفیق ملی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے 7؍جون 2014ء کو یہاں تشریف لاکر مسجد صادق کا سنگ بنیاد رکھا۔
نماز ہال کے ساتھ ایک ملٹی پرپز روم بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ ان دونوں کا تعمیراتی رقبہ 126مربع میٹر ہے۔ اس کے علاوہ ایک دفتر بھی ہے اور بعض اور چھوٹے کمرے ہیں جو بطور دفاتر استعمال کیے جائیں گے۔ مسجد سےملحقہ ایک کچن اور ایک گیسٹ روم بھی ہے۔ گنبد کا قطر چھ میٹر ہے۔ دو مینار تعمیر کیے گئے ہیں ہر ایک کی اونچائی سات میٹر ہے۔ اس مسجد کی تعمیر 7 لاکھ50 ہزار یوروز میں مکمل ہوئی ہے۔
امیر صاحب جرمنی کے ایڈریس کے بعد Natalie Pawlikصاحبہ جو کہ جرمن پارلیمنٹ کی ممبر ہیں نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہامیں his holiness کی خدمت میں سلام عرض کرتی ہوں۔ اسی طرح نیشنل امیر Abdullah Wagishauser صاحب اور میئر صاحب اور تمام معزز مہمانوں کو سلام پیش کرتی ہوں۔
اسکے بعد موصوفہ نے کہا کہ سب سے پہلے میں آپ لوگوں کی دعوت کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ مجھے صادق مسجد کے افتتاح کے موقع پر آپ سے مخاطب ہونے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ احمدیہ مسلم جماعت کے ممبران کو اس مسجد کے افتتاح سے اب ایک ایسی جگہ میسر ہےجس میں وہ امن پاتے ہیں اور جس میں آپ لوگ اپنی عبادتیں وغیرہ اکٹھے مل کر بجا لاسکتے ہیں۔
بعد ازاں انہوں نے کہا کہ مذہبی آزادی جرمنی کے آئین کا ایک بنیادی حصہ ہے۔ لیکن اگر ہم مختلف ممالک کی طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ حقوق ہر جگہ اس طرح سے ہر ایک کو میسر نہیں ہیں۔ لوگوں کو ان کے مذہب کی وجہ سے ظلم سہنے پڑتے ہیں۔ افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ احمدی مسلمانوں پر بھی ایسا ظلم ہوتا ہے۔ کئی ممالک میں جیسا کہ پاکستان یا برکینافاسو میں آپ لوگوں کے پیاروں پر ظلم کیا جاتا ہے، مذہب کی وجہ سے آپ لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، آپ لوگوں کی مساجد اور قبرستان توڑدیے جاتے ہیں۔ آپ لوگوں کیلئے امن میں رہنا ممکن نہیں اور آپ لوگوں کو اپنی جانوں کا خطرہ رہتا ہے۔ میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ ایسے حادثات کو مشہور کردیا جائے تا کہ دنیا کو پتا چلے۔ پھر تمام جمہوریت پسند لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ آپ لوگوں کا ساتھ دیں۔ اقلیتوں کا تحفظ اصل میں امن کا ذریعہ ہوتا ہے۔ امن تب ہی مستقل طور پر قائم کیا جاسکتا ہے، جب ہم ہر ایک کیلئے ایسے حالات پیدا کریں کہ آزادی میں اور ظلم سے بچ کر رہ سکے۔
موصوفہ نے کہا مذہب کی وجہ سے ہم میں فاصلہ نہیں پیدا ہوناچاہئے۔ اس علاقہ میں ہم سب کا آپس میں مل جل کر رہنے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔ اور اس کام میں احمدیہ مسلم جماعت کا بھی ایک بہت بڑا کردار ہے۔
بعدازاں موصوفہ نے کہا کہ کچھ ماہ قبل مجھےشہر Nidda میں احمدیہ مسلم جماعت کے ساتھ ان کی سو سالہ جوبلی منانے کا موقع ملا۔ لیکن ہمارے بہت سے شہریوں کو معلوم ہی نہیں کہ اتنے لمبے عرصہ سے مسلمان ہمارے درمیان رہتے ہیں۔ اس وقت مجھے یہ موقع ملا تھا کہ میں خود اس بات کی گواہ بن سکی کہ آپ لوگوں کا ماٹو محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ آپ لوگ ایسا عمل بھی کرتے ہیں۔ آپ لوگ کچھ چھپاتے نہیں اور جرمنی میں آپ لوگ فعال ہیں اور سب سے آپ رابطے رکھتے ہیں۔ میری آپ لوگوں کیلئے یہی تمنا ہے کہ مسجد صادق میں آپ لوگ آپس میں خوشی سے ملیں اور امن قائم کرتے چلیں۔ شکریہ۔
بعد ازاں صوبائی ممبر پارلیمنٹ Tobias Utter نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ موصوف نے سب سے پہلے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو سلام پیش کیا اور خوش آمدید کہا۔ اسکے بعد تمام حاضرین کو خوش آمدید کہا۔
اسکے بعد انہوں نے کہا کے مجھے دوسری مرتبہ یہ خاص اعزاز حاصل ہو رہا ہے کہ میں احمدیہ مسلم جماعت کی ایک مسجد کے افتتاح کے موقع پر کچھ بیان کرسکوں۔ بطور صوبائی ممبر پارلیمنٹ میں آپ لوگوں کو سب کی طرف سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
پھر موصوف نے کہا کہ احمدیہ مسلم جماعت Karben کو آج مسجد کے افتتاح کا موقع مل رہاہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جرمنی میں حقیقت میں مذہبی آزادی ہر ایک کو میسر ہوتی ہے۔یہ سہولت ہر ایک کو آجکل بھی ہر جگہ اس طرح میسر نہیں۔ یقیناً آپ کو یہ بھی سیکھنا پڑا کہ جرمنی میں تعمیراتی کام کے قانون کتنے مشکل ہیں۔ لیکن آپ نے اب مسجد مکمل کر لی ہے۔ مسجد ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں عبادت کی جاسکے لیکن ساتھ ہی اس جگہ پر لوگ آپس میں ملتے بھی ہیں اور یہ ایک امن کی جگہ بھی ہوتی ہے۔ مجھے ہر بار خوشی ہوتی ہے کہ جماعت احمدیہ کو صرف اپنے جماعت کے ممبران کی فکر نہیں ہوتی بلکہ احمدی مسلمانوں کو اپنے دین میں اس بات کی بھی توجہ ہے کہ انسانیت کی مجموعی طور پر خدمت کی جائے۔ his holiness نے سوموار کو یہ بات واضح کی کہ ہمسائے کی خدمت مذہبی طور پر فرض ہے۔ مجھے تو hesse کی احمدی سوسائٹی کے فعال ممبران دیکھنے کو ملتے ہیں۔
موصوف نے پاکستان میں احمدیوں اور عیسائیوں کی مخالفت اور ان پر مظالم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کیونکہ ایسے ظالم لوگ ناجائز طور پر مذہب کا نام استعمال کرتے ہیں تا کہ اپنے غلط کام کرسکیں اس لیے بہت سے لوگوں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ لیکن خاص طور پر ایسے اندھیرے وقت میں خدا کے نور کی ضرورت بڑھ جاتی ہے اور پیار اور امن کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ہمیں ایسے انسانوں کی ضرورت ہے جو اتنی طاقت رکھتے ہوں جو لوگوں کے غلط نعروں سے مت گھبرائیں۔ خلیفۃ المسیح نے اپنی مختلف ملاقاتوں اور مختلف خطابات میں امن قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ یہ آپ کی تصنیف Die Weltkriese und der Weg zum Frieden سے واضح ہوتا ہے۔
آخر پر موصوف نے کہا کہ ہمارے لیے یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے کہ خلیفۃ المسیح ایک بار پھر Karben تشریف لائے ہیں اور اپنی آمد سے مسجد کے افتتاح کو خاص کردیا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا گھر ہمیشہ ایک رواداری والا گھر رہے، جہاں لوگوں کی مدد کی جائے اور انہیں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ترغیب دلائی جائے اور خداتعالیٰ کا پیار ہم میں ظاہر ہو۔
اسکے بعد Karben شہر کے میئرGuido Rahn صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کر تے ہوئے کہامیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خوش آمدید کہتا ہوں۔اسی طرح تمام حاضرین کو سلام عرض کرتا ہوں۔ ہمارے لیے یہ نہایت ہی اعزاز کی بات ہے کہ جماعت احمدیہ کے روحانی سربراہ 2014ء کے بعد اب دوسری بار ہمارے پاس karbenمیں تشریف لائے ہیں۔ آج کا یہ پروگرام شہر karbenکیلئے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔
اسکے بعدمیئر صاحب نے کہا کہ جس چیز کی مجھے بطور میئر ہونے کے خاص طور پر خوشی ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ اگر میں اس ہال میں اپنی نظر دوڑاؤں تو مجھے دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہ پروگرام صرف احمدیہ جماعت کے ممبران کیلئے نہیں ہے بلکہ آپ لوگ تو صحیح رنگ میں Karben کا حصہ بن چکے ہیں۔ کیونکہ ہر طبقہ کے لوگ ادھر مل رہے ہیں۔ آپ نے تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندے بلائے ہوئے ہیں، پولیس کے نمائندگان موجود ہیں، فائر بریگیڈ موجود ہے، لوکل سپورٹس کلبز کے نمائندگان حاضر ہیں۔ آپ سب سیکھ سکتے ہیں کہ Karben کے بہت سے شہریوں نے آپ کی دعوت قبول کی ہے اور آج ادھر یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ لوگ karbenکا حصہ بن چکے ہیں اور integrate ہو چکے ہیں۔ احمدیہ مسلم جماعت کو karben میں 25سال ہوچکے ہیں۔ یہ معمولی عرصہ نہیں۔ آپ لوگوں کایہ وطن بن چکا ہے۔
بعد ازاں میئر صاحب نے کہا کہ تعمیراتی کام میں صرف آپ کو ہی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ ہمیں بھی بہت سی رکاوٹیں پیش آتی رہتی ہیں۔لیکن ایک بات ہمارے لیے بالکل واضح تھی اور وہ یہ کہ جس کا وطن اب ادھر ہے وہ پھر ایک عبادت گاہ بھی ادھر چاہتا ہے۔بے شک کچھ دیر لگی ہے لیکن اب یہ کام مکمل ہوگیاہے۔ Karben شہر میں ہم ہر ایک کو خوش آمدید کہیں گے جو ہمارے آئین کے مطابق امن میں رہنا چاہتا ہو۔ آپ لوگ تو خاص طور پر ان تمام چیزوں کا خیال رکھتے ہیں بلکہ سوسائٹی کے مفید وجود بھی ہیں۔ یہ دوسروں کو بھی دیکھنا ہو گا اور آپ لوگوں سے یہ سیکھنا ہو گا۔
اسکے بعد میئر صاحب نے کہا کہ میں اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بات بالکل ناقابل برداشت ہے کہ کسی پر صرف اس کے مذہب یا کسی اور قومیت ہونے کی بنا پر ظلم کیا جائے یا اسے ماردیا جائے۔ نہایت ہی افسوس کی بات ہے کہ اس زمانہ میں بھی ابھی تک ایسے لوگ ہماری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے میں یہی کہتا ہوں کہ karben شہر ہر ایک کو خوش آمدید کہتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔
آخر پر میئر صاحب نے کہا کہ مجھے نہایت خوشی ہے کہ احمدیہ مسلم جماعت کے سربراہ ہمارے ہاں موجود ہیں اور آپ سب آج یہاں آئے ہوئےہیں۔شکریہ۔
اسکے بعد6 بجکر33 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا۔
خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:تمام معزز مہمانان کرام، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اتنے عرصہ کے بعد جماعت احمدیہ مسلمہ کو اس شہر میں مسجد بنانے کی توفیق ملی۔ اس لیے اس شہر کے میئر، کونسلرز اور شہری سب کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے اس مسجد کو ممکن بنانے میں ہماری مدد کی۔ یہ شکریہ صرف زبانی شکریہ نہیں، بلکہ ہمارا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ اسلام کا یہ حکم ہے، بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتے۔ پس ایک لحاظ سے یہ ہمارا مذہبی فریضہ بھی ہے کہ ہم ان کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے اس کام میں ہماری مدد کی اور آج خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ مسلمہ کو اس شہر میں ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد میسر آ سکی ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: عبداللہ صاحب امیر جماعت جرمنی نے اس شہر کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ذکر کیا کہ یہ مسجد شہر کے درمیان میں ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ جہاں شہر میں دنیاوی اور مادی چیزوں کیلئے بہت زیادہ سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں وہاں ہی خدا تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں کیلئے بھی جگہ ہونی چاہئے تاکہ وہ وہاں جمع ہو کر ایک خدا کی عبادت کر سکیں۔ مسجد بھی ہو، چرچ بھی ہو اور دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں بھی ہونی چاہئیں اور جب یہ سب اکٹھے ہوںگے تو پھر پتا چلے گا کہ مذہب ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر اور تعاون سے رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ کوئی مذہب ایسا نہیں، کسی مذہب کا بانی ایسا نہیں جس نے شدت پسندی کی تعلیم دی ہو، فساد پیدا کرنے کی تعلیم دی ہو۔ تمام انبیاء ہمارے ایمان کے مطابق خدا تعالیٰ کی طرف سے آئےتو خداتعالیٰ نے انہیں یہ تعلیم دے کر بھیجا کہ تم خدا کی عبادت کرنے کی طرف توجہ دلاؤ۔ ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی طرف لوگوں کو توجہ دلاؤ۔ امن اور پیار اور بھائی چارہ کو فروغ دینے کی طرف لوگوں کو توجہ دلاؤ۔ پس اس لحاظ سے یہ ایک اچھی بات ہے کہ یہاں ہمیں ایک ایسی جگہ مسجد مل گئی، جہاں ہم مرکز میں رہتے ہوئے اپنے اردگرد کے لوگوں کو اسلام کی حسین تعلیم کے متعلق بتا سکیں گے۔ جو غلط تصور بعض غلط قسم کے مسلمانوں نے اسلام کے متعلق پیدا کر دیا ہے اور بدقسمتی سے اکثریت اس غلط قسم کے تصور پر چل رہی ہے، اس کو ہم رد کرنے والے بنیں گے اور قرآن اور حضرت محمد ﷺ کی سنت اور عمل سے یہ بتائیں گے کہ اسلام کی اصل تعلیم تو امن، پیار، محبت اور آشتی کی تعلیم ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مسجد کے خلاف شروع میں بعض لوگوں نے مخالفت بھی کی۔ جیسا کہ ہمارے امیر صاحب نے بتایا اور یہ ان کی مخالفت شاید ایک حد تک جائز بھی ہوکیونکہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا انہوں نے مسلمانوں کے رویے دیکھے۔ انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں میں شدت پسندی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کے اکثر ملکوں میں ایک دوسرے کے حق نہیں ادا کیے جا رہے۔ تو شاید اس وجہ سے ان کو اعتراض ہوا ہو۔ لیکن جب وہ ہماری مسجد دیکھیں گے، ہمارے رویے دیکھیں گے، حقیقی اسلام کا نمونہ دیکھیں گےتو ان کے شکوک وشبہات مزید دور ہو جائیں گے۔ اور جیسا کہ خود لوگوں کے عمل نے ثابت کیا کہ وہی لوگ جو مخالف تھے، آج ہمارے دوست بھی ہیں اور انہوں نے مخالفت ترک کر دی۔ آہستہ آہستہ اس مخالفت میں مزید کمی ہوتی جائے گی اور لوگوں کو اسلام کے بارہ میں مزید تعارف ہوتا چلا جائے گا۔ اور یہ دائرہ دوستی کا ہم امید رکھتے ہیں کہ بڑھتا چلا جائے گا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اسی طرح حکومت کی طرف سے اقلیت کی نمائندہ بھی آئیں۔ انہوں نے بڑی اچھی بات کی کہ مذہبی آزادی ہونی چاہئےاور ان کے ملک جرمنی کا جو قانون ہے وہ مکمل طور پر مذہبی آزادی دیتا ہے۔ ہم اس کیلئے حکومت کے شکرگزار بھی ہیں کیونکہ یہ مذہبی آزادی ہی ہے جس کی وجہ سے بہت سے پاکستانی لوگ یہاں آکر اس لیے آباد ہوئے کہ ان کو اپنے ملک میں مذہبی آزادی نہیں تھی۔ یہاں آکر انہیں آرام سے حکومت کی پناہ میں رہنے کی توفیق ملی تاکہ وہ مذہبی آزادی کا حق بغیر کسی روک ٹوک کے صحیح طور پر استعمال کر سکیں۔ اس لحاظ سے بہرحال ہم حکومت کے شکرگزار ہیں کہ جہاں جن ملکوں میں لوگوں کی مذہبی آزادی کو پامال کیا جاتا ہے یا کسی بھی آزادی کو پامال کیا جاتا ہے ان ملکوں میں انہیں خوش آمدید کہا جاتا ہےاور اپنے اندر جذب کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہ بھی بڑی خوش کن بات انہوں نے کی کہ یہاں مختلف مذاہب کے لوگ پیار سے رہتے ہیں اور یہی تعلیم ہے جیسا کہ شروع میں میں نے ذکر کیاکہ ہر مذہب کا بانی یہ تعلیم لے کر آیا کہ جہاں تم اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت کرو، وہاں آپس کے حقوق ادا کرو اور ایک دوسرے کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حقوق ادا کرنا اسلام کا بنیادی حکم ہے۔اسلام یہ تعلیم نہیں دیتا کہ صرف اپنے حقوق کیلئے لڑو۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ دوسروں کے حق ادا کرنے کی کوشش کرو۔ جب تم دوسروں کے حق ادا کرنے کی کوشش کرو گے تو پھر دنیا میں امن بھی قائم ہوگا اور محبت اور پیار کا معاشرہ بھی قائم ہوگا۔ یہی چیز ہے جس کی آج ہمیں دنیا میں ضرورت ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ممبر آف پارلیمنٹ صاحب آئے ان سے دو دن پہلے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ ان کی باتیں بھی سنیں۔ انہوں نے اپنی وہی باتیں آج ایک نئے انداز میں پیش کیں اور جماعت احمدیہ کے ساتھ تعلق کا اظہار کیا۔ اس لیے انکا بھی شکرگزار ہوں۔ اس بات کا بھی انہوں نے ذکر کیا کہ بعض جگہ پر مذہب کے نام پر خون کیے جا رہے ہیں۔ جسکی کبھی مذہب اجازت نہیں دیتا۔ مذہب تو کہتا ہے دوسروں کی خدمت کرو۔ جماعت احمدیہ، جہاں جہاں ہماری جماعت قائم ہے، جہاں جہاں لوگ ہماری جماعت میں شامل ہوتے ہیں، خاص طور پر افریقہ کے ممالک میں، ساؤتھ امریکہ کے ممالک میں، وہاں ہم یہ نہیں کہ صرف احمدی مسلمانوں کی خدمت کرتے ہیں، بلکہ ہر مذہب کے ماننے والے کی ہم خدمت کر رہے ہیں۔ افریقہ میں ہمارے سکول قائم ہیں، ہسپتال قائم ہیں۔ اسی طرح ماڈل ولیج ہم نے بنائے ہیں۔ پانی کی سہولتیں مہیا کر رہے ہیں۔ اور ان سے فائدہ اٹھانے والے 80 فی صد وہ لوگ ہیں جن کا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں، وہ عیسائی ہیں یا دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ پس جماعت احمدیہ تو مذہبی آزادی کا صرف باتوں میں پرچار نہیں کرتی بلکہ عملاً ہم اس بات کا اظہار دنیا کے مختلف غریب ممالک میں کر رہے ہیں کہ غریبوں کو بلاتفریق مذہب تعلیم مہیا کی جائے، ان کا علاج کیا جائے، ان کو پینے کا پانی میسر کیا جائے۔ ہم یہاں ترقی یافتہ ممالک میں رہتے ہوئے اس بات کا تصور نہیں کر سکتے کہ صاف پانی پینے کی کیا اہمیت ہے۔ باوجود اس کے کہ حکومت کی طرف سے بار بار یہ یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ پانی کو احتیاط سے استعمال کریں۔ وہ لوگ جن کو پینے کا صاف پانی کیا میسر آنا ہے، ان کے بچوں کو تو تھوڑا سا پانی لینے کیلئے کئی کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ پھر وہ ایک بالٹی سر پر اٹھا کر لاتے ہیں اور گھر کی روزمرہ ضرورت پوری کرتے ہیں۔ ان ملکوں میں دوردراز کے گاؤں میں، علاقوں میں ہمارے والینٹیئرجاتے ہیں، کام کرتے ہیں، نلکے لگاتے ہیں، پمپ لگاتے ہیں اور انہیں پانی مہیا کرتے ہیں۔ جب ان کے گھر کے سامنے انہیں ٹیپ واٹر مل جاتا ہے۔ پینے کا صاف پانی میسر آ جاتا ہے تو ان کی خوشی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ شاید یہاں کسی کی بڑی رقم کی لاٹری نکل آئے تو اسے جتنی خوشی ہوتی ہو گی، ان کو صاف پانی دیکھ کر اتنی خوشی ہوتی ہےکہ اس تکلیف سے بچ گئے کہ اتنی دور جا کر پانی لے کر آئیں اور وہ پانی بھی گندا ہو جسے پینے کے بعد پھر بیماریاں پھیلتی ہوں۔پس جماعت احمدیہ یہ خدمات بھی دنیا میں سرانجام دے رہی ہے۔ جہاں جہاں ہماری جماعت قائم ہوتی ہے، مسجدیں بنتی ہیں وہاں ساتھ ساتھ یہ پراجیکٹ ہوتے ہیں اور کوئی ایسی شرط نہیں کہ احمدی مسلمان ہو تو یہ سہولتیں ملیں گی ورنہ نہیں۔ بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے اسّی فی صد وہ لوگ ہمارے پراجیکٹ سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو احمدی نہیں ہیں۔ انہوں نے افغانستان کی مثال دی کہ وہاں عورتوں کے حقوق ادا نہیں کیے جا رہے۔ اسلام اور قرآن کریم کی تعلیم تو یہ ہے کہ عورتوں سے حسن سلوک کرو۔ بلکہ اعلیٰ رنگ میں ان سے حسن سلوک کرو۔ قرآن کا یہ حکم ہے کہ جیسے تمہارے جذبات ہیں ویسے ہی عورتوں کے بھی جذبات ہیں۔ جیسے تمہاری خواہشات ہیں ویسی ہی ان کی بھی خواہشات ہیں۔ ان کو عزت و احترام سے دیکھو اور ان کی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرو۔ ہاں مذہبی اسلامی تعلیم کے اندر رہتے ہوئے عورتوں کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے، ہماری احمدی عورتوں میں بہت ساری ڈاکٹرز ہیں، انجینئرز ہیں، ایگلریکلچرسٹ ہیں، اکانومسٹس ہیں اور مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں اور خدمات کیلئے باہر بھی جاتی ہیں اور اپنی زندگیاں خدمت خلق کے کام کیلئے پیش کرتی ہیں۔ سو اس لحاظ سے عورتوں کے یہ سب حقوق ہیں۔ اسی طرح جائیداد کا حق ہے، اسلام نے عورتوں کو ہر قسم کا حق دیا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: بہرحال مذاہب کی عزت بہت ضروری ہے۔ تمام مذاہب کو اکٹھا رہنے کیلئے اور دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے، معاشرہ میں پیار و محبت پھیلانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی عزت کی جائےاور اسلام ہر مذہب کی عزت کا حکم دیتا ہے۔ میں نے گذشتہ دنوں جہاں ہماری مسجد کا افتتاح ہوا تھا، بتایا تھا کہ اسلام صرف اپنی مسجد کی حفاظت کی تعلیم نہیں دیتا۔ بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی چرچ پر حملہ کرے تو تم نے اس کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ اگر کوئی Synagogue پر حملہ کرے تو تم نے اس کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ اگر کوئی ٹیمپل پر حملہ کرے تو اس کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ پس یہ جو اسلام کے نام پر چرچوں کو جلاتے ہیں اور مختلف قسم کے حملے کرتے ہیں۔ یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے، قرآن کریم کی تعلیم تو جیسا کہ میں نے بیان کیا، اسکے بالکل خلاف ہے، وہ تو کہتا ہے ان تمام مذاہب کی حفاظت کرو۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میئر صاحب نے بھی بہت اعلیٰ باتیں کی۔ سیاسی پارٹیوں کا انہوں نے ذکر کیا کہ، آج اس مجلس میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے لوگ شامل ہیں۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ جماعت احمدیہ اپنے آپ کو اس معاشرہ میں نہ صرف integrate کر رہی ہے بلکہ سب کو اکٹھا کرکے ایک پلیٹ فارم پر لے کر آ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپس میں محبت اور پیار اور بھائی چارہ کی فضا قائم ہو۔ انسان کو بحیثیت انسان ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرنا چاہئے۔ یہی چیز ہے جو ہمیں ایک دوسرے کا حق ادا کرنے والا بنائے گی۔ یہی اسلام کا حکم ہے۔ قرآن کریم نے کہا ہے تمہارے لیے دو حکم ہیں، ایک اپنے پیدا کرنے والا کا حق ادا کرو اور دوسرا یہ کہ بندے آپس میں ایک دوسرے کا حق ادا کریں اور اس کیلئے پھر مختلف تفصیل بتائی کہ کس طرح حق ادا کرنا ہے۔ اگر یہ چیزیں پیدا ہو جائیں کہ صرف اپنے حق کیلئے نہ لڑیں بلکہ دوسرے کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ کریں تو پھر ہی حقیقی امن اور پیار کی فضا قائم ہوگی۔ پس ہم لوگ تو حق ادا کرنے والے اور حقیقی امن قائم کرنے والے لوگ ہیں۔ انہوں نے ہمسایوں کے حق کی بات کی ہے تو ہمسایوں کے حق کے بارہ میں صرف اتنا کہہ دیتا ہوں کہ بانی اسلام حضرت محمد ﷺ نے ہمسایوں کے حق پر اتنا زور دیا کہ آپ ﷺ کے صحابہ نے یہ خیال کر لیا کہ شاید وراثت کے حق میں بھی انہیں شامل کر لیا جائے گا۔ تو اس حد تک اسلام کی تعلیم ہے۔ پس یہ باتیں ایسی ہیں جو پیار اور امن اور بھائی چارہ کو فروغ دیتی ہیں، اس کو پھیلاتی ہیں۔ یہی چیز ہے جس کیلئے آج ہم پوری دنیا میں کام کر رہے ہیں۔ یہی تعلیم ہے جس کیلئے ہم ہر کسی سے بلا تفریق مذہب تعلق رکھنا چاہتے ہیں اور یہی تعلیم ہے جو دنیا میں حقیقی امن اور بھائی چارہ قائم کرنے والی ہو گی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مجھے امید ہے یہ مسجد بن جانے کے بعد اس کی عمارت آپ کو مزید اسلام کی تعلیم سے روشناس کروائے گی اور آپ کو پتا چلے گا کہ اسلام کے بارہ میں بعض لوگوں نے جو غلط نظریات پیدا کر دیے ہیں، وہ ان لوگوں کے اپنے ذاتی مفادات ہیں، انکے western interests ہیں۔ ان کا اسلام کی اصل تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کی تعلیم تو پیار، محبت اور بھائی چارہ کی تعلیم ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے انسانوں کو یہ توفیق دےکہ وہ آپس میں پیارو محبت اور بھائی چارہ کے ساتھ رہنے والے ہو ں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے پیداکرنے والے خدا کو پہچاننے والے ہوں اور اسکی عبادت کرنے والے ہوں۔ جزاکم اللہ۔ شکریہ۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےدعا کروائی۔
تأثرات
آج کی اس تقریب میں شامل ہونے والے بہت سے مہمان اپنے جذبات اور تاثرات کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکے۔یہاں بعض مہمانوں کے تاثرات پیش کیے جاتے ہیں۔
ماغیو بِک (Mario Beck ) جو کہ CDU کے لوکل پارٹی لیڈر ہیں نے کہا کہ میں پہلے کبھی کسی مذہبی اور روحانی شخصیت سے نہیں ملا اور خلیفہ سے ملنا میرے لیے باعث اعزاز ہے۔جب خلیفہ نے خطاب فرمانا شروع کیا تو مجھے اچھا لگا کہ آپ ایک عام انسان کی طرح خطاب فرما رہے تھے اور اتنی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود آپ سے قربت محسوس ہو رہی تھی۔مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کے آپ نے اپنے سے پہلے مقررین کے خطابات کے بارہ میں بات کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے صرف اپنی بات بیان کرنے کیلئے پہلے سے کوئی تقریر نہیں تیار کی تھی بلکہ مقامی ضرورت کے مطابق ارشادات فرمائے۔ خلیفہ کا یہ فرمانا کہ مسجد کا شہر کے وسط میں ہونا بہت اچھی بات ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت ہمارے ساتھ رہنا چاہتی ہے اور پیار اور محبت کی فضا قائم کرنا چاہتی ہے۔جیسا کہ خلیفہ نے فرمایا کہ جو شروع میں مسجد کے مخالفین تھے اب ہمارے دوست ہیں یہی میں نے بھی محسوس کیا ہے کہ سب کے دلوں سے شبہات ختم ہو گئے ہیں۔خلیفہ کے خطاب سےہمیں معلوم ہوا ہے کہ اسلام تشددپسند مذہب نہیں ہے۔لوگ عموماً سعودی عرب کی طرف دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہی اسلام اصلی اسلام ہے مگر آپ کے خلیفہ نے واضح فرما دیا ہے کہ اسلام کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔
ایک مہمان خاتون مارگریٹ حاس (Margret Haas) جن کا تعلق New Zealand سے ہے مگر اب جرمنی میں مقیم ہیں۔ ان کو 1998ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒسے جرمنی میں ہی ملنے کا موقع ملا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب بہت دلچسپ تھا۔ خاص طور پر خلیفہ نے یہ جو فرمایا کہ مذاہب تو امن کا ذریعہ ہیں اور جس بھی مذہب سے کوئی تعلق رکھتا ہو اسے tolerant ہونا چاہئے۔ میں سمجھتی ہوں کو یہ بات امن کہ قائم کرنے میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ مجھے خلیفہ نہایت عاجزی اختیار کرنے والے معلوم ہوئے۔
ایک مقامی سیاستدان اَلبان کَرَشنِیقی (Alban Krasniqi)نے کہا کہ میں نے آج سیکھا ہے کہ اسلام سب انسانیت کی بہتری چاہتا ہے۔ خلیفہ کے وجود سے میں بہت متاثر ہوا ہوں اور میرے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ خلیفہ سے مجھے ملنے کا موقع ملا اور اسلام کی حقیقت کے بارہ میں سیکھنے کو ملا۔ مجھے خلیفہ کی یہ بات خاص طور پر اچھی لگی کے ہمیں امن کو قائم کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کرنی چاہئے اور اس کام میں دوسروں کی مدد بھی کرنی چاہئے۔ہمارے لیے تو یہ ایک معمولی بات ہے کہ ہمیں مذہبی آزادی حاصل ہے مگر آج میں نے سیکھا ہے کہ ایسے امن پسند لوگ بھی دنیا میں ہیں جن کو تکلیفیں دی جاتی ہیں اور مذہبی آزادی حاصل نہیں۔ خلیفہ نے افریقہ میں رہنے والوں اور خاص طور پر افریقن بچوں کے جو حالات بیان فرمائے اور جماعت کس طرح سے بے لوث خدمت کر رہی ہے اس سے میرا دل بھر آیا ہے۔ خلیفہ کا طرز بیان بہت ہی اچھا ہے اور آپ سے امن و سکون کی شعاعیں محسوس ہوتی ہیں۔ آپ کے ارشادات بہت گہرے مطالب کے حامل ہیں۔
ایک مہمان خاتون کرِستِینا شُوستَا (Kristina Schuster) جن کا تعلق مقامی catholic community سے ہے انہوں نے کہا کہ خلیفہ کے خطاب سے میں بہت متاثر ہوئی ہوں۔خلیفہ کیونکہ ایک مذہبی راہنما ہیں اس لیے میں توقع کر رہی تھی کہ وہ صرف اپنے مذہب اور اس کی تعلیم اور اس کی بڑائی کی باتیں کریں گے اور اگر ایسا خلیفہ کرتے تو بھی مجھے آپ کی باتیں اچھی ہی لگنی تھیں مگر مجھے یہ بات بہت پسند آئی کہ آپ نے عمومی امور کے بارہ میں ارشادات فرمائے جن کا تعلق ہم سب سے تھا۔ خلیفہ کے خطاب کی سب سے اہم بات مجھے یہ لگی ہے کہ ہمیں ایک ساتھ امن اور پیار اور محبت کے ساتھ رہنا چاہئے اور یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عیسائیت میں ان امور کے بارہ میں زیادہ توجہ دی جاتی۔ آج خلیفہ کے خطاب سے مجھے دوبارہ ان ضروری امور کی یاددہانی ہوئی ہے۔ خلیفہ کےوجود کیلئے میرے دل میں ایک خاص تعظیم قائم ہوئی ہے۔جس طرح ہمارے لیے پوپ سے ملنا ایک بہت بڑا اعزاز ہے اسی طرح یقیناً احمدیوں کیلئے بھی اپنے خلیفہ سے ملاقات ایک اعزاز ہوگا مگر میرے لیے بھی خلیفہ کی مجلس میں شامل ہونا بہر حال ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔
ایک مہمان خاتون گابرِیئیلے راتَتسی شٹول (Gabrielle Ratazzi Stoll) جو کہ ایک رفاہی ادارہ کی کارکن ہیں انہوں نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب ایک امن کا خطاب تھا۔ مجھے آپ کے خطاب میں یہ بات بہت پسند آئی کہ اگر احترام اور ایک دوسرے کا خیال جیسے بنیادی اصول کا خیال رکھا جائے تو ہم سب امن اور محبت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں چاہے کوئی کس رنگ، نسل یا قوم کا ہو۔ خلیفہ نے جو کچھ بنیادی اصول بیان فرمائے ہیں ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔خلیفہ کے خطاب سے مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ احمدیت وہ اسلام نہیں جو ٹی وی اور میڈیا میں دکھایا جاتا ہے۔خلیفہ کا طرزِ بیان بہت گہرا ہے اور پر حکمت ہے جس کی وجہ سے خلیفہ کے وجود میں سکون و امن محسوس ہوتا ہے اور آپ کے ارشادات بہت مستند معلوم ہوتے ہیں۔ میں اس بات سے بھی بہت متاثر ہوئی ہوں کہ خلیفہ نے یہاں تشریف لا کر صرف اسلام کا propaganda نہیں کیا بلکہ ایسے امور کے بارہ میں خطاب فرمایا جس کا تعلق سب سے ہے اور سب کیلئے ضروری ہے جس وجہ سے آپ کے خطاب کو سننے میں بہت مزا آیا۔
ایک مہمان اَندرِیاس لِنکے (Andreas Linke ) تھے جو کہ مسجد کے ان ہمسائیوں میں سے ایک تھے جو شروع میں مسجد کے مخالف تھے مگر بعد میں جماعت کے دوست بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ میرے لیے اصل مسئلہ یہ بنا تھا کہ شہری انتظامیہ نے مجھ سے سچی اور سیدھی بات نہیں کی۔ مثلاً مجھے یہ نہیں بتایا کہ جو property میں خریدنے لگا تھا اس کے ساتھ والے پلاٹ پہ ایک مسجد بننے والی ہے جو کہ ہمارے معاشرہ میں کوئی عام بات نہیں۔ پھر میرے پلاٹ کے ساتھ ایک چھوٹا سا حصہ تھا جو میں خریدنا چاہتا تھا جس کی خرید سے مجھے شہری انتظامیہ نے منع کردیا تھا مگر بعد میں جماعت کو مسجد کی پارکنگ کیلئے دے دیا۔ اس وجہ سے مجھے ناانصافی محسوس ہوئی اور مجھے غصہ تھا۔ ورنہ تو میرا تعلق صدر جماعت ورک صاحب سے بھی اچھا ہے اور احترام والا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خلیفہ کا خطاب بہت اعلیٰ تھا کیونکہ جرمنی میں اسلام کی تصویر بہت بری ہے اور خلیفہ نے ہمیں بتایا کہ اسلام کی اصل تصویر کیا ہے۔ سب سے اہم بات خلیفہ کے خطاب کی یہ تھی کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں اور امن کو قائم کرنے کیلئے ایک دوسرے سے رابطہ بھی رکھنا چاہئے اور احترام بھی کرنا چاہئے۔
ایک مہمان نوربرت گغوئےلِش (Norbert Greulich) جن کا تعلق protestant church سے ہے اور retirement کے بعد اب صرف مختلف رفاہی کام طوعی طور پر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بہت اچھا لگا ہے کہ خلیفہ نے اپنا خطاب بڑے آرام اور تحمل سے دیا اور اپنا خطاب مقامی حالات کے مطابق دیا۔ایک بات مجھے بہت اچھی لگی ہے کہ خلیفہ نے بہت سادہ انداز میں نہایت ہی ضروری امور کے بارہ میں خطاب فرمایا۔ خلیفہ کے خطاب کا میں نے تو ترجمہ ہی سنا ہے مگر ساتھ ساتھ خلیفہ کی اپنی آواز بھی سنی جو کہ بہت سکون دینے والی ہے۔مجھے یہ بات بھی بہت اچھی لگی ہے کہ خلیفہ نے خاص طور پر آپس میں اچھے تعلقات رکھنے کی اہمیت پر توجہ دلائی ہے۔میرے لیے اسلام احمدیت کے بارہ میں کوئی بات نئی نہیں تھی کیونکہ میں جماعت احمدیہ کو لمبے عرصہ سے جانتا ہوں اور مجھے پتا ہے کہ جماعت احمدیہ جو کہتی ہے وہ عملاً کرکے بھی دکھاتی ہے۔
ایک مہمان والٹر ہورتس (Walter Horz ) جو کہ مقامی پلاننگ ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کوئی خاص سوچ یا امید کے ساتھ یہاں نہیں آیا تھا مگر میں حیران رہ گیا ہوں کہ یہ کیسی عظیم مجلس تھی اور کتنی عظیم باتیں یہاں پر ہوئیں اور مہمان نوازی کتنی اچھی تھی۔میں ساتھ والے گاؤں سے ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپ ہمارے پاس بھی آئیں۔ مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کہ خلیفہ نے خطاب پہلے سے تیارنہیں کیا ہوا تھا جسے انہوں نے بس پڑھ کر سنا دیا بلکہ مقامی حالات اور ضروریات کے بارہ میں خطاب فرمایا اور اپنے سے پہلے مقررین کے خطاب کو بھی اپنے ارشادات میں شامل کیا۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر مجھے یہ بات اچھی لگی کہ خلیفہ نے جو بھی سمجھایا وہ بغیر جوش و خروش کے بڑے تحمل اور سلجھے انداز میں نہایت عمدگی کے ساتھ بیان فرمایا۔ میں اس بات سے بھی متاثر ہوا ہوں کہ خلیفہ کی آمد بھی بڑی خاموشی عاجزی سے ہوئی اورکوئی تکلفانہ اور شوخ طرز نہیں اختیار کیا گیا۔خلیفہ نے اپنی باتیں آرام سے تحمل سے اور غیرجانبدار ہو کر بیان فرمائی ہیں مگر ان کا اثر بہت گہرا ہے۔میں دوبارہ کہتا ہوں کہ خلیفہ کا وجود بہت احترام اور رواداری والا ہے۔
ایک مہمان گوکمین اَبسارسلان(Gorkmen Absarsalan)جو کہ Hanau سے تشریف لائے تھے انہوں نے کہا کہ میں خلیفہ سے ملنے سے پہلے بہت nervous تھا اور جب آپ کو میں نے براہ راست دیکھا تو حیران رہ گیا۔خلیفہ کا خطاب میرے لیے بہت متاثر کن تھا اور بالکل درست تھا اور بہت ضروری تھا کیونکہ جو اہم ارشادات خلیفہ نے فرمائے ہیں وہ ہم بعض دفعہ بھول جاتے ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ حضور کے خطاب کا کونسا حصہ انہیں سب سے زیادہ پسند آیا ہے تو انہوں نےجواب دیا کہ مجھے سارے کا سارا خطاب بہت پسند آیا ہے۔ ایک بھی ایسی بات نہیں جو مجھے کم پسند آئی ہو۔
ایک مہمان خاتون اَستغِد برگمَن (Astrid Bergman)جو کہ آنے والے صوبائی الیکشن میں امید وار ہیں انہوں نے کہا کہ مجھے ایک عورت ہونے کے ناطہ سےخلیفہ کے خطاب میں سب سے اچھی عورتوں کے حقوق والی بات لگی۔ اس سے میں بہت متاثر ہوئی ہوں۔ میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوں کہ خلیفہ کا وجود نہایت پرسکون معلوم ہوتا ہے۔ خلیفہ کی شخصیت بہت پیاری ہے۔شکر ہے کہ ہمیں صرف خلیفہ کے خطاب کا ترجمہ ہی نہیں بلکہ آپ کی آواز بھی سننے کا موقع ملا کیونکہ آپ کی آواز بھی بہت خوبصورت ہے۔
ایک مہمان خاتون زابِینے(F.Sabine)جو کہ ایک سوشل ورکر ہیں انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے زیادہ تر پروگرام اور جماعت کے ماٹو ’محبت سب کیلئے، نفرت کسی سے نہیں‘ کی تعریف کی۔لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ پروگرام کی سب سے اچھی چیز ان کو کیا لگی تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سارے پروگرام کی سب سے اچھی چیز انہیں خلیفہ کا وجود لگا کیونکہ ان میں ایک خاص کشش ہے اور آپ ایک متاثر کن شخصیت ہیں۔
ایک خاتون مہمان لوسیا وورنر (Lucia Worner) جو کہ بینک میں کام کرتی ہیں اور ساتھ والے ایک گاؤں میں CDU پارٹی کی نمائندہ ہیں انہوں نے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ ان کو اس مجلس میں مدعو کیا گیا اور ان کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ یہ مجلس کتنی عظیم ہو گی۔ خلیفہ کے خطاب سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہماری آپس میں مشترکہ چیزیں بہت زیادہ ہیں۔خلیفہ کا خطاب اچھا لگا۔ میرے لیے عورتوں کے اسلام میں حقوق کے بارہ میں جو تعلیم ہے وہ نئی اس لیے نہیں تھی کیونکہ میں جس بینک میں کام کرتی ہوں وہاں مسلمان خواتین بھی ہیں اور ان کے ذریعہ اسلام کی عورتوں کے بارہ میں تعلیم کی حقیقت کا پتا چلتا رہا ہے۔
ان کے میاں بھی ان کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب ایسا تھا جو عموماً جرمنی کو سننے کو نہیں ملتا لیکن یہ ایک بہت عظیم خطاب تھا کیونکہ اس سے واضح ہوا ہے کہ ہم انسانوں میں بہت مشترکہ چیزیں ہیں جن پہ توجہ کرنے سے ہم امن کو بہتر طور پر قائم کر سکتے ہیں۔
(باقی آئندہ)
…٭…٭…٭…