اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-15

مکانوں کے نام تجویز کرنا

(حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ)

گزشتہ شمارہ میں حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ کا ایک مضمون بعنوان ’’مکان بنانے والے احباب اپنے مکانوں کے نام ضرور رکھیں‘‘الفضل اگست 1936 سے لیکر شائع کیا گیا تھا۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد الفضل کے اگلے شمارہ میں حضرت میر محمد اسحٰق صاحب رضی اللہ عنہ کا مضمون شائع ہوا کہ مکان کی آسانی سے تلاش کیلئے صرف مکان کا نام رکھنا کافی نہیں بلکہ صاحب مکان کا نام لکھنا بھی ضروری اور مفید ہے۔ نیز یہ کے نام کے علاوہ مکان کی پیشانی پر کیا لکھنا چاہئے اس طرح کی اور بہت سی مفید باتوں کی جانکاری کیلئے یہ دلچسپ مضمون ضرور پڑھیں ۔ (ادارہ)

اخبار الفضل 22؍اگست میں ذکر وفکر کی سرخی کے ماتحت یہ مضمون شائع کیا گیا ہے کہ احمدی احباب کو چاہئے کہ وہ اپنے مکانوں کے نام تجویز کر کے کسی نمایاں جگہ مکان پر لکھوا دیا کریں ۔ اس سے تلاش کنندہ کو مکان کا پتہ لگ سکے گا اور اچھے نام سے دعا اور تفاول کا فائدہ بھی حاصل ہوگالیکن میرے نزدیک مکان کی تلاش میں کامیابی کیلئے مکان کا نام لکھنا کافی نہیں بلکہ مالک مکان کا نام لکھنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ ہزاروں احمدی باوجود الفضل اور سلسلہ کے اخبارات پڑھنے کے اگر دارالحمد کے پاس سے گزریں اور انہیں پہلے سے یہ اطلاع نہ ہو کہ یہ کس کی کوٹھی ہے تو بہت ممکن ہے کہ محض دارالحمد کے الفاظ پڑھ کر معلوم نہ کرسکیں کہ کس ساکن کا یہ مسکن ہے لیکن اگر بجائے دارالحمد کے الفاظ کے مالک مکان یعنی حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا نام لکھا ہو تو ایک احمدی بھی ایسا نہ نکلے گا جو حضور کا نام پڑھ کر یہ معلوم نہ کر سکے کہ یہ کس کی کوٹھی ہے پس محض مکان کی تلاش کیلئے نہ مکان کے نام تجویز کرنے کی ضرورت ہے اور نہ اسے مکان پر لکھوانے کی ضرورت ہے بلکہ اس غرض کیلئے صرف مالک مکان کا نام لکھدینا کافی ہے۔ ہاں دعا وتفاول اور اظہار شکریہ کیلئے اپنے مکان کا اچھا سا نام تجویز کرنا بہت مناسب بلکہ مذاق لطیف اور بلند تہذیب کے عین مطابق ہے ۔ بالخصوص جبکہ مکان کا نام ایسا ہو جس سے مکان کا سنہ تعمیر نکلتا ہو۔
پس میں اس تجویز سے پوری طرح موافقت کرتا ہوا احباب کی توجہ ایک اور امر کی طرف منعطف کرانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے دوست اپنے مکان پر یہ الفاظ ضرور لکھوایا کریں مَا شَاۗءَ اللہُ۝۰ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِتا کہ جب وہ مکان میں داخل ہونے لگیں تو لازماً یہ الفاظ ان کے سامنے آجائیںاور وہ زبان ودل یا کم سے کم دل سے ان الفاظ کو پڑھتے ہوئے گھر میں داخل ہوں اور جو مفہوم ان پاک کلمات کا ہے وہ ان کے دل میں پوری طرح جاگزیں ہو جائے اور میرا یہ مشورہ قرآن مجیدکے اُس مقام سے مستنبط ہے جہاں لکھا ہے کہ ایک متکبرامیرجب اپنے باغ میں داخل ہوا تو اپنے پھلوں اور پھولوں سے لدے ہوئے باغ اور اپنی سر سبز کھیتیوں اور چشموں اور عظیم الشان محل کو دیکھ کر تکبر میں آگیا اور اپنے غریب ہمسایہ بھائی کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگا تو اس غریب نے اسے کہا لَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاۗءَ اللہُ۝۰ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِیعنی اَے میرے امیر بھائی !جب تو اپنے باغ میں داخل ہواکرتا ہے تو کیوں یہ نہیں کہا کرتا کہ یہ باغ اور محل اور چشمے وغیرہ میرے کسی زورِ بازو کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ محض خدا کی مشیت اور ارادے اور اُسکے فضل سے مجھے ملے ہیں۔ پس ان کی وجہ سے میری کوئی خوبی ثابت نہیں ہوتی کہ جس کی وجہ سے میں اپنے آپ کو بڑا سمجھوں اور غریب ہمسایہ کو حقیر تصور کروں اور نہ ان چیز وں کا قائم اور آباد رکھنا میرے احاطۂ اختیار میں ہے بلکہ محض خدا کے ارادے اور مرضی پر موقوف ہے لیکن غریب بھائی کی نصیحت سے وہ متکبر متاثر نہ ہوا بلکہ تکبر میں بڑھ کر یوں کہنے لگا کہ میرا مال ودولت اور حشمت واقتدار ہر گز کم نہیں ہوگابلکہ بڑھتا ہی جائے گا مگر خدا کو یہ تکبر پسند نہیں آیا اور اس کی قہری تجلی نے اس کے باغ کو ایک آن کی آن میں تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا۔ پس ہر مکان والے کو ڈرتے رہنا چاہئےاور اقرار کرتے رہنا چاہئے کہ یہ جھونپڑی یا چھوٹا سامکان یا حویلی یا محل یا پائگاہ میرے کسی ذاتی جوہر کا نتیجہ نہیں  بلکہ مَا شَاۗءَ اللہُ یعنی محض خدا کے فضل اور اس کی مہربانی سے ہے ۔ نیز اس کا آئندہ تباہی وبربادی سے بچے رہنا اور اس کے رہنے والوں کا دلشاد وکامیاب وکامران رہنا میرے قبضہ یا اختیار میں نہیں بلکہ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِیعنی محض خدا کے اختیار میں ہے ۔ پس لَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ کے مطابقمَا شَاۗءَ اللہُ۝۰ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ کا مکان کے دروازہ پر نمایاں جگہ پر لکھنا نہایت ضروری ہے تاکہ جب کوئی شخص اپنے مکان میں داخل ہونے لگے تو خود بخود یہ الفاظ اسکے سامنے آجائیں اور وہ یہ الفاظ پڑھتا ہوا اور اُن کے مفہوم کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہوا اپنے گھر میں داخل ہو۔ ورنہ دیکھو کہ جس نے اتنی عظیم الشان حویلی تمہیں دی ہے کیا اب وہ مسلوب الاختیار ہو گیا ہے کہ وہ تم سے اس حویلی کو واپس نہیں لے سکتا ؟ کیا پشاور کی آگ نے ہزاروں مکان تباہ نہیں کر دیئے ؟ یا کیا رہتک کے سیلاب نے قیمتی سے قیمتی کوٹھیاں خراب نہیں کر دیں؟ یا کیا کوئٹہ اور بہار کے زلزلہ نے لاکھوں سر بفلک محل زمین کے ساتھ نہیں ملا دیئے؟پس جب خدا کا قہر ایک آن میں جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا کے مطابق ساتویں منزل کو تحت الثریٰ  میں  لے جا سکتا ہے تو کیا یہ دانشمندی اور عاقبت اندیشی نہیں کہ ہم اس کی رحمت کا دامن پکڑ تے ہوئے مکان میں داخل ہوتے وقت یہ کہا کریں کہ مَا شَاۗءَ اللہُیعنی الٰہی تو نے ہی یہ گھر مجھے عنایت کیا اورتُو نے ہی اسے آباد کیا اور لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ یعنی الٰہی تیرے فضل سے ہی یہ گھر آباد اور ہم شادرہ سکتے ہیں ۔ پس اَے میرے مولا! آئندہ بھی میرا گھر آباد رہے اور میرے اہل وعیال شادر ہیں اور اے میرے مولا اپنے بندہ اور بندہ زادوں پر نظر کرم رکھیوکیونکہ اگر تُو نظر رحمت فرمائے گا تو ہمارا سب کچھ ہے اور اگر تیری نظر ہم سے پھر ی تو الٰہی ہمارا کچھ بھی نہ رہے گا ۔ الٰہی ہم تو تیری نظر لطف کے منتظر ہیں کیونکہ وہی ہماری دُنیا اور وہی ہماری آخرت ہے۔
پس نہایت ضروری ہے کہ جب ہم اپنے گھر میں  داخل ہوں یا اپنے باغ یا باغیچہ میں جائیں تو مَا شَاۗءَ اللہُ۝۰ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ کے الفاظ اور مفہوم ہمارے پیش نظر ہوں لیکن انسان بھول اور فراموشی کا پُتلا ہے ۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ یہ الفاظ ہم اپنے مکان پر لکھیں تا کہ مکان میں داخل ہوتے وقت خود بخود ہماری نظران الفاظ پر پڑے اور ہمیں قرآن مجید کا ارشاد یاد آجائے ۔
یہاں پر ایک روایت کا لکھنا ضروری ہے کیونکہ گواسکا اصل مضمون سے تعلق نہیں مگر بھول کو دُور کرنے کی خوب مثال ہے اور وہ روایت یہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہم لوگ ایک دعوت میں شریک تھے کہ صاحب خانہ نے دستر خوان پر کھانا چنکر کہا کہ بسم اللہ کیجئے ۔اس پر حضرت خلیفۃ  المسیح اوّل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بجائے اس کے کہ یوں کہا جائے کہ کھاناشروع کیجئے ، بسم اللہ کیجئے کا محاورہ کسی شخص نے نہایت ہی مفید اور صحیح طور پر رائج کیا ہے کہ اس سے کھانے والوں کو یہ مسئلہ یاد آجاتا ہے کہ کھانا بسم اللہ کہہ کر شروع کرنا چاہئے ۔ پس اس آیت کے یاد دلانے کیلئے یہی بہتر طریق ہے کہ اسکے الفاظ گھر کے دروازہ پر لکھ لئے جائیں ۔
یہاں پر ضمناً میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دارا ور اس کے مختلف حصوں کے ناموں  کے متعلق کچھ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جس طرح عربی میں ہر شہر کو مدینہ کہتے ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خاص شہر میں تشریف لے جانے سے صرف المدینہ اس کا نام پڑگیا۔ نیز عربی میں ہر چھوٹے سے چھوٹے گھر کو بیت کہتے ہیں ۔ مگر ابتدائے آفرنیش میں خدا تعالیٰ نے مکہ میں ایک گھر بنا کر اس کا نام البیت رکھ دیا جیسا کہ فرمایا وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِاسی طرح عربی میں ہر بڑے گھر کو دار کہتے ہیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اِنِّی اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّار کہہ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کا نام الدار رکھ دیا ۔یہاں پر اگر کوئی شخص کہے کہ حضور !رسول مقبول علیہ السلام کے مکان کا نام کیا ہے؟ تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ حضور علیہ السلام کے تمام گھر خلفاء کے زمانہ میں مسجد کا جز وبن چکے ہیںاور اب دنیا میں کوئی گھر ایسا نہیں جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا جا سکے۔ پس کسی احمدی کو اجازت نہیں کہ وہ اپنے مکان کانام صرف الدار رکھے۔ یہ دنیا میں صرف ایک گھر کا نام ہے جیسا کہ کسی شہر کا نام المدینہ رکھنا نا جائز ہے۔ یہ محض حضور سرور کائنات کے شہر کا امتیازی نام ہے ۔ نیز کسی مکان کو البیت کے نام سے موسوم کرنا درست نہیں۔ یہ خصوصیت تو صرف اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّۃَ کو حاصل ہے۔ اسی طرح دنیا کی کوئی کتاب الکتاب کہلانے کی مستحق نہیں کیونکہ یہ طرۂ امتیاز خدا تعالیٰ کی آخری اور کامل کتاب کو حاصل ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کا نام الدار ہے اور باقی احمدیوں کے مکانات الدار نہیں ۔ ہاں دارالحمد ، دارلشکر، دار الفضل ، دار الانوار وغیرہ وغیرہ دار کی اضافت کے ساتھ ہیں ۔
اس کے بعد مَیں بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح  موعود علیہ السلام نے الدار کے مختلف حصوں کے مختلف نام کیوں رکھے۔ سو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے حکم وَسِّعْ مَکَانَکَ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مکان میں اپنے مریدوں کی رہائش کیلئے بیسیوں کمروں کا اضافہ کیا تو اب مریدوں اور خادموں کیلئے کمروں کی تعیین مشکل ہوگئی ۔ اس لئے حضور نے کسی کمرہ کا نام بیت الذکر کسی کا بیت الفکر کسی کا بیت الدعا، کسی کا حجرہ ، کسی کا دار البرکات او ر کسی کا بیت النور رکھا تا کہ گھر میں مختلف رہنے والے خاندانوں کے افراد کو کسی خاص حصہ کی تعیین کرنے میں دقت نہ ہو۔ علاوہ ان ناموں کے حضور نے اپنے ایک چوبارہ کی چھت پر جگہ بنائی تا کہ گھر کی مستورات گرمیوں میں مغرب عشاء اور فجر ادا کر سکیں اور اس پر الفاظ مسجد البیت یعنی گھر کی مسجد لکھوادیئے اور علاوہ عربی ناموں کے حضور کے مکان کے بعض حصے گول کمرہ ، گلابی کمرہ، سردخانہ، ڈونگا دالان کے نام سے بسبب اپنی ہیئت وضع اور رنگ کے کہلاتے تھے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ حضور نے خود یہ نام رکھے تھے بلکہ خدام اور گھر کے رہنے والے ایسا کہتے تھے اور عربی ناموں میں سے بیت النور اسی کمرہ کا نام حضور نے تجویز فرمایا جو الدار میں سب سے اندھیرا کمرہ تھا ۔ پس اس کے ظاہری اندھیرے کے باوجود اسے بیت النور کہنا ہی نہایت درست اور موزوں ہے کیونکہ ایسا کہنا گو یا دوسرے لفظوں میں  یوں کہنا ہے کہ جو کمرہ ظاہر میں تاریک اور اندھیرے والا ہو اس میں اگر کوئی نورانی شخص قدم رکھے تو اسے تاریک مت کہوکیونکہ اس کی تاریکیوں پر سو نور قربان ہیں اور اب تو وہ خود ہمہ تن نور ہے جیسا کہ باوجود مرجانے اور مردہ ہو جانے کے اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں  مرنے والوں کے متعلق فرماتا ہے وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتٌیعنی میری راہ میں مرنے والے کو مرنے والا نہ کہا کرو بلکہ اسے زندہ ہونے والا کہا کرو۔

(مطبوعہ اخبارالفضل قادیان27؍اگست 1936ء)