اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-08

مکان بنانے والے احباب اپنے مکانوں کے نام ضرور رکھیں

(حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب رضی اللہ عنہ)

مدت ہوئی مجھے ایک دفعہ قادیان میں ایک دوست کے گھر جانا پڑا ان کا مکان محلہ دارالرحمت میں تھا۔ بعض لوگوں سے پتہ بھی دریافت کیا مگر آخر 2 گھنٹہ کی تلاش کے بعد ناکام واپس آیاوجہ یہ ہوئی کہ مکان کے باہر ان کا یا مکان کا نام لکھا ہوا نہ تھا۔ اس کے بعد حال ہی میں مَیں اورحضرت مفتی محمد صادق صاحب اسی محلہ میں ایک صاحب کے مکان پر گئےمگر دیر تک وہ مکان نہیں ملا۔ آخر مَیں تو واپس آگیااور حضرت مفتی صاحب اسی طرح پھرتے رہے اور پوچھ پوچھکر اس مکان کا پتہ لگایا ۔ میرا مطلب ان باتوں  کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ اگر مکانوں کے نام ہوں  اور وہ دروازوں پر لکھے ہوا کریں تو پتہ دریافت کرنے والوں اور ڈاکخانہ کے چٹھی رسانوں کو کتنا آرام ہوجائے بعض لوگ شرم کے مارے بھی اپنے مکانوں کا نام نہیں  رکھتے یا بعض احباب اچھے نام رکھنا تعلّی میں داخل سمجھتے ہیں حالانکہ تعلّی کیلئے نہیں بلکہ تفاؤل کے طور پر ہر اچھا نام رکھا جاتا ہے ۔ کیا یہ تعجب نہیں کہ اپنے لڑکے کا نام نور الدین رکھنا تو تکبر نہ سمجھیں مگر گھر کا نام بیت النور رکھنے سے شرمائیں۔
اسکے بعد میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ احمدیوں  کیلئے تو مکانوں کانام رکھنا اتباع سنت کی حد تک پہنچا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کے الہامات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تعامل اس بات کو واجب کردیتے ہیں کہ ہم لوگ ایسا کیا کریں۔ چنانچہ دیکھ لیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سلسلہ نزول وحی کا شروع ہوا تو ابتدائی دنوں میں ہی آپ کو اپنے گھر کے دو حصوں کے نام الہامی طور پر بتائے گئے یعنی بیت الفکر اور بیت الذکر ۔ (بیت الفکر وہ حجرہ ہے جو مسجد مبارک سے ملحق ہے اور جس میں براہین احمدیہ تصنیف ہوئی اور بیت الذکر خود مسجد مبارک کا نام ہے)اس پر حضور علیہ السلام کو منشاء الٰہی معلوم ہو گیا اور حضور نے اسکے بعد جس قدر اپنے مکان میں توسیع فرمائی ان میں سے اکثر حصوں کے نام خود رکھے۔ چنانچہ دارالبرکات، بیت النور ، حجرہ ، بیت الدعا، وغیرہ آپ ہی کے رکھے ہوئے نام ہیں ۔ اسی کی اقتداء میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کوٹھی کا نام دارالحمد تجویز فرمایا ہے ۔ غرض ہمارے لئے نہ صرف اسوہ حسنہ ہی موجود ہے بلکہ تحریص اور منشائے الٰہی بھی یہی ہے اس لئے مَیں احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جب وہ کوئی مکان بنائیں تو اس کا اسی طرح نام رکھیں جس طرح اپنے بیٹے یا بیٹوں کے نام رکھتے ہیں ۔ خصوصاً قادیان کے احباب کو تو ضرور اس سنت پر عمل کرنالازم ہے ۔ یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ مکان چھوٹا ہے یا بے حیثیت ہے۔ کیا چھوٹے اور بے حیثیت آدمیوں کے نام نہیں ہوا کرتے ۔ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈیوڑھی سے بھی کوئی مکان رقبہ میں چھوٹا ہو سکتا ہے جس کانام حضور نے بیت النور تجویز فرمایا تھا۔ علاوہ ازایں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اچھے نام رکھنے میں جو مخفی برکات مضمر ہوتی ہیں وہ حاصل ہونگی۔
بالآخر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مکان کا نام جو بھی ہو موزون ہو اور بابرکت معنی رکھتا ہو یا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کاتجویز کردہ ہواور بہتر ہے کہ ایسا مختصر ہو کہ عام لوگوں کو اسکا تلفظ ادا کرنے میںدقت نہ ہو اور اگر مالک مکان یا اسکے بیوی بچوں میں سے کسی کے نام سے تعلق رکھتا ہو تو اور بھی اچھا ہے اور اگر تاریخ تعمیر بھی اس میں مضمر ہو تو نورٌ عَلٰی نور۔
چندماہ کا عرصہ گزرا ہے کہ مجھے خود اپنے مکان کیلئے کچھ نام ڈھونڈنے پڑے تھے اور اس وقت بہت سے نام میرے خیال میں آئے تھے جو ذیل میں نمونہ کے طور پر لکھ دیتا ہوں تاکہ احباب فائدہ اٹھاسکیں ۔ انہیں دنوں میں ایک دفعہ مکرمی مصباح الدین صاحب میرے پاس تشریف لائے اور کہا کہ مَیں نے ایک مکان بنایا ہے مَیں اس کا نام’’ محبت سرائے‘‘ رکھنا چاہتا ہوں ۔ مَیں نے عرض کیا آپ کے مکان کا نام زجاجہ ہونا چاہئے کیونکہ آیت قرآنی اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَۃٍ کی رو سے تو مصباح الدین کو بہ نسبت کسی اور نام کے زجاجہ سے زیادہ مناسبت ہے۔ (مصباح کے معنے چراغ کے ہیں اور زجاجہ کے معنے شیشہ کی قندیل کے ہیں )سو نام رکھتے ہوئے اگر کوئی خاص مناسبت لفظی بھی مل جائے تو وہ اور بھی زیادہ موزون ہو جاتا ہے۔
اب مَیں وہ نام لکھتا ہوں ۔الغرفہ، المحراب، کوکب، السفینہ، السکینہ، الروضہ، زینت، النجم ، الفلک، المسکن، الطیب، عارضی منزل ، منارہ ویو view،وَسِّعَ مَکَانَکَ، احمدی منزل ، کاشانہ، آشیانہ، گوشۂ تنہائی، گوشۂ عافیت، گلشن ، گلستان ، حدیقہ، فضل الٰہی، غریب خانہ، محبت سرائے ، حسبی اللہ ، انعام الٰہی ، عنایتِ الٰہی، وغیرہ غیرہ۔ ان کے علاوہ منزل ، محل ، دار، بیت، خانہ ، ہاؤس، بلڈنگس کے الفاظ مالک کے نام یا کسی اور لفظ کے ساتھ مرکب ہو کر گھر کا نام بن سکتے ہیں ۔ مثلاً فقیر منزل ، نور محل، دارالفضل، بیت الظفر ، خانۂ درویش ، نور بلڈنگس ، وغیرہ ۔
رہاتاریخی نام سویہ سوائے کسی ماہر کےہر شخص کا کام نہیں ہے ۔ مسجد مبارک کے متعلق حضرت مسیح  موعودعلیہ السلام کا الہام ایسا ہے جس سے تاریخ تعمیر نکلتی ہے اور وہ یہ ہے۔
مُبَارَکٌ وَمُبَارِکٌ وَکُلُّ اَمْرٍ مُبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ (1300ھ)اس لئے تاریخی نام رکھنا بھی منشائے الٰہی کے موافق ہی ہے۔ یہ تاریخی نام یا تو مستقل بطور نام کے استعمال ہو سکتا ہے یا اصلی نام مکان کا اور ہوتا ہے اور تاریخی اَور۔ نمونہ کے طور پر بعض تاریخی نام پیش کرتا ہوں۔
دارالحمد حضرت اقدس :
’’دارالحمد حضرت محمود امام جہاں‘‘ (1932ء)
النصرۃ حضرت ام ا لمومنین ؓ :
’’گلزار منظوم‘‘ (1934ء)
کوٹھی چودہری صاحب :
’’پائگا ہ ظفر اللہ خان ‘‘ (1936ء)
اَلصُّفَّہ:
’’صفہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل ‘‘ (1354ھ)
آئندہ صحبت میں انشااللہ بعض آیا اور اشعار لکھوں گا جو گھروں پر لکھوائے جا سکتے ہیں کیونکہ عموماً لوگوں کو آج کل اس کا بھی شوق ہے۔

(مطبوعہ روزنامہ الفضل قادیان22؍اگست 1936ءصفحہ4)