اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-07-27

چائے کی پیالی میں مکھی

حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ کا ایک بہت ہی دلچسپ مضمون الفضل ستمبر1936ءسے پیش ہے جس میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض احادیث کی حکمت اور اس کا فلسفہ بہت ہی اچھے انداز میں بیان فرمایا ہے۔(ادارہ)

ایک دن ایک ٹی پارٹی میں ایسا اتفاق ہوا کہ نئے اور پرانے فیشن دونوں قسم کے لوگ دسترخوان پر جمع ہو گئے۔ ایک طرف دیکھو تواپ ٹو ڈیٹ جنٹلمین ننگے سر ریش و بُرُوت کا صفایا کئے لیونڈر کی خوشبو سے مہکتے ہوئے آدھی انگریزی اور آدھی اردو میں چہک رہے تھے۔ دوسری طرف علماء کرام لمبی لمبی داڑھیاں مقدس جبّے اور ہیبتناک عمامے پہنے ہوئے عین اور قاف کی گردان میں مصروف تھے۔ اتنے میں چائے آئی اور لوگ مل جلکر پینے میں مصروف ہو گئے۔ ہمارے دوست مسٹر تحقیق الدین کو مولانا مولوی قشر الدین صاحب کے پاس بیٹھنے کا اتفاق ہوا اور کھانے پینے کا شغل شروع ہوا ۔تھوڑی دیرمیں ایسا ہوا کہ ایک مکھی اُڑتی ہوئی مسٹر تحقیق کی پیالی میں آپڑی ۔وہ بیچارے نہایت نازک مزاج تھے ۔بھری بھرائی پیالی پھینکنے لگےتو مولانا قشر الدین صاحب نے ان سے کہا’’ٹھہرئیے پہلے میری ایک بات سن لیجئے ‘‘ مسٹر تحقیق نے کہا کہ فرمائیے ۔مولانا صاحب نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب مکھی کسی پینے کی چیز میں پڑ جائے تو وہ ایک پر اپنا اونچا رکھتی ہے اس پر میں تریاق ہے ۔اور دوسرے میں جو تر ہو گیا ہے زہر ہے اس لئے ساری مکھی کو ڈبو کر وہ چیز استعمال کر لی جائے۔ اب دیکھئےیہ آپ کی پیالی میں مکھی کا ایک پر اوپر ہے۔ لیجئے میں ساری مکھی ڈبو دیتا ہوں ۔یہ کہکر مولانا صاحب نے واقعی اپنی انگلی سے مکھی کو پیالی کے اندر غرق کیابلکہ اسکے تریاق والے پر کی مالش کی اور کچھ اسے نچوڑا بھی۔ پھر اس مکھی کو نکال کر کہا کہ لیجئے اب بیشک نوش فرمایئے۔ مسٹر تحقیق ایک پیالی پی چکے تھے۔ دوسری پیالی میں مکھی گرنے سے وہ پہلے ہی پریشان تھے ۔اب جو خیساندہ اور جوشاندہ مکھی کا تیار دیکھا اور مولانا کی انگلیاں اپنی چائے میں دھلتی ملاحظہ کیں تو ان سے برداشت نہ ہو سکا اُٹھکر سیدھے باہر کو بھاگے جاتے ہوئے صرف مولانا قشر الدین کا یہ ایک فقرہ دور سے انہوں نے سنا کہ ’’یہ خبیث حدیث کی بھی پروا نہیں کرتے ‘‘ مگرمسٹر تحقیق اپنی مصیبت میں تھے گھر سے باہرگلی میں نکلتے ہی بے اختیار استفراغ ہوا اور جو کچھ کھا یا پیا تھا سب نکل گیا ۔مجلس میں واپس آنے کے قابل نہ تھے گھر چلے گئے ۔مگر اسی الجھن میں رہے کہ یہ مکھی کا کیا مسئلہ ہے ۔مجھے تو آنحضرت ﷺ جیسے پاک اور مطہر انسان کے متعلق یہ خیال نہیں آسکتا کہ آپ ایسا حکم دیں ۔جس کا مظاہرہ میں نے آج اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔خیر اس کی ضرور تحقیق کرنی چاہئے کہ یہ کیا معاملہ ہے ۔
دوسرا دن ہوا تو وہ محلہ کے ایک مولوی ظاھر الدین خان صاحب کے پاس پہنچے اور ان سے یہ مسئلہ دریافت کیا اور کل کی کیفیت سنائی ۔مولوی صاحب نے اپنے افغانی لہجہ میں بدرشتیٔ تمام فرمایا کہ بالکل درست ہے تم نے غلطی کیا جو وہ مکھی والی چائے قے کے بعد پھرو اپس جا کر نہیں پیا اور آپ نفرت نفرت کہتا ہے ۔ہم کو تو آنحضرت ﷺ کی حدیث پر عمل کرنا ہے ۔اگر ہم اس جگہ ہوتا تو اس مکھی کو چوس لیتااور سارا تریاق اس کا نکالتا۔ دیکھو تم اس طرح منہ مت بنائوورنہ کاپر ہو جائے گااور توبہ کرو تم بڑا مغرور معلوم ہوتا ہے ۔جب مولانا قشر الدین نے آپ کو حدیث سنایا تھا تو آپ کس طرح مسلمان رہا جو اس پر عمل نہیں کیا ۔‘‘
یہ سنکر مسٹر تحقیق پژ مردہ خاطر ہوکے وہاں سے گھر واپس آئے مگر مکھی کا مسئلہ برابر ان کے دل میں کھٹکتا رہا ساتھ ہی دو مولویوں کا فتویٰ اور سلوک ایسا تھا کہ کسی تیسرے سے پوچھتے ہوئے ڈرتے تھے ۔
ٹی پارٹی کو کئی دن گذر گئے کہ پھرمسٹر تحقیق کو ایک دعوت میں شریک ہونا پڑا ۔وہاں ان کے دائیں جانب دسترخوان پر مولوی فقیہہ الدین احمدی بیٹھے تھے۔باتیں کرتے کرتے پھر وہی مسئلہ چائے والی مکھی کا درمیان میں آگیا۔ مسٹر تحقیق نے کہا آپ کے فرقہ کے لوگ جہاں تک مجھےعلم ہے تفقہ فی الدین کی طرف بہت خیال رکھتے ہیں ۔اگر آپ اپنے خیالات سے مجھے ممنون فرمائیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ مولوی فقیہہ الدین نے کہا کہ میں اس مسئلہ کو اپنے رنگ میں بیان کرتا ہوں جب آپ میری ساری تقریر سن لیں گے تو پھر جو آپ کی مرضی ہو رائے قائم کیجئے اور جو اعتراض اس جواب پر ہو بیان فرمایئے مگر پہلے اس کے متعلق میرا مفصل بیان غور سے سن لیجئے یہ کہہ کر مولوی صاحب نے یوں بیان شروع کیا :
میں اس خاص مسئلہ کے بیان سے پہلے ایک دو اور مسئلے بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ایک بہت امیر نہایت نفیس مزاج اور ذکی الحس بیگم ہے ۔اس کا ایک بچہ ہے اور بچہ پر ملازمہ نوکر ہے ۔اتفاقاً بچہ نے ماں پر پیشاب کر دیا جس سے اس کا پاجامہ تر ہو گیا ۔ماں نے بچہ کو نوکر کے حوالہ کیا پاجامہ اُتارا غسل کیا۔ نیا جوڑہ تبدیل کیا پھر نماز کا وقت آیا تو نماز پڑھی۔اس کے ایک رشتہ دار مولوی صاحب یہ واقعہ دیکھ رہے تھے ۔لال پیلے ہو گئے اور کہنے لگے کہ شریعت کا حکم ہے اگر بچہ پیشاب کر دے تو اس پر پانی کا چھینٹا ڈالنا کافی ہے ۔تم اپنی امارت کی وجہ سے متکبراور مدمغ ہو گئی ہوجو خلاف شریعت باتیں کرتی ہو۔اس کے بعد مولوی صاحب نے فتوے سنانے شروع کئے کہ یہ خباثت ہے ۔یہ سب لوگ مردود ہیں ۔بے ایمان ہیں ۔حدیث کی ذرا عزت ان کے دل میں نہیں ہے ۔پھر اور زیادہ تیز ہوئے تو فتویٰ زند یقیت لگاتے ہوئے آخر وہاں سے چلے گئے ۔
اب سنئے حقیقت اس پیشاب کے مسئلہ کی صرف اتنی ہے کہ عورتوں کے کپڑے عموماًبچوں کے سبب سے پیشاب سے ناپاک ہوتے رہتے ہیں ۔بچہ گھڑی گھڑی پیشاب کرتا ہے ۔سارا جہان امیر نہیں ہوتا بلکہ اکثر لوگ غریب ہی ہوتے ہیں ۔اگر ماں ہر دفعہ اس کا پیشاب دھوتی پھرے یا کپڑے بدلتی رہے تو مائوں کی اور خصوصا غریب مائوں کی زندگی تلخ ہو جائے ۔اس لئے شارع ﷺ نے کمال رحم سے ان کمزوروں پر مہربانی کی اور یہ حد لگا دی کہ اگر بچہ کپڑے پر پیشاب کر دے تو چھینٹے دینے سے شرعی پاکیزگی حاصل ہو جاتی ہے ۔سبحان اللہ کیا کرم ہے کیا رحمت ہے۔کیا غرباء پروری ہے ۔اب دیکھو دوسری طرف ایک شہزادی ہے جو روز دو دو دفعہ جوڑے بدلتی ہے ۔ہر صبح کو نہاتی ہے ہر وقت معطر معبر رہتی ہے۔ نہایت درجہ پاکیزہ اور نفیس مزاج ہے ۔اس شہزادی پر اگر بچہ پیشاب کر دے تو اس کے لئے ناممکن ہے کہ وہ گیلا کپڑا بدن پر برداشت کر سکے یا پیشاب کی ایک چھینٹ بھی اسے اپنے کپڑے پر گوارا ہو ۔یا اس کی طبعی ذکاوت اور نفاست اسے اجازت دے کہ ایسی حالت میں وہ بغیر کپڑا تبدیل کئے اور غسل کئے نماز پڑھ سکے ۔ اس کے پاس بیسیوں جوڑے کپڑوں کے ایک سے ایک اعلیٰ درجہ کے موجود ہیں ۔اور اتنی فرصت حاصل ہےکہ اگر چاہے تو دس دفعہ غسل کر سکتی ہے ۔غرض ایسی عورت پر ایک غریب اور معمولی حیثیت کے عورت والے مسئلہ کو لگانا اور اس پر جبر کرنا کہ وہ اپنے مزاج اور حالات کے مخالف صرف پانی کے ایک چھینٹے سے پیشاب کو پاک کر لیا کرے ظلم نہیں تو اور کیا ہے ۔اسے تو یہ بھی برداشت نہیں کہ صرف پاک پانی کا ایک چھینٹا ہی اس کے کپڑوں کو گیلا کرے چہ جائیکہ پہلے پیشاب اس پر کیا جائے پھر اگر گلاس پانی کا اس پر ڈالا جائے اور پھر اگر وہ کپڑا تبدیل کرے تو کہا جائے کہ اے بے ایمان متکبر امیرزادی تو ایسی خبیثہ ہے کہ جہنم کے قابل ہے تونے حدیث پر عمل کیوں نہیں کیا اور اگر وہ عذر کرے کہ میری طبیعت گوارا نہیں کرتی تو فوراً کفر کا فتویٰ لگا کر اسے کہہ دیا جائے کہ تو شقی ازلی ہے کیونکہ تو آنحضرت ﷺ سے زیادہ پاکی کا خیال رکھتی ہے ۔
در اصل بات یہ ہے کہ ہر ایسے مسئلہ کی دو حدیں ہوتی ہیں کم سے کم یہ حد تھی جو غرباء کیلئے رحم کے طور پر مقررکر دی گئی تا کہ ان پر سختی نہ ہو اور زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اپنے مزاج کی نفاست مالی وسعت اور حالات کے مطابق عورت اعلیٰ سے اعلیٰ صفائی کے درجہ کو قائم رکھے اور بس ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ نہ امیر عورت غریب عورت پر طعن کر سکتی ہے اگر وہ اس اجازت پر عمل کرے اور نہ کوئی غریب عورت یا جناب مولانا قشر الدین اس امیر عورت پر اظہار ناراضگی کر سکتے ہیں کہ تُونے اس پر عمل کیوں نہیں کیا۔دونوں کے آرام کیلئے شارعﷺ نے راستہ کھول دیا ہے جو چاہے اپنی حالت اور حیثیت کے مطابق عمل کرے ۔
اب ایک دوسرا مسئلہ سنئے ۔ایک متمول شخص کے ہاں دودھ میں بلی منہ ڈال گئی ۔کسی نو کرنے غل مچایا کہ بلی دودھ جھوٹا کر گئی۔ مولوی ظاہر الدین صاحب بھی وہیں موجود تھے کہنے لگے پاک ہے پاک ہے ۔اسے مت پھینکو ۔حدیث میں یہ پاک بیان کیا گیا ہے ۔اس لئے اسے رہنے دو ۔گھر والے نے کہا کہ ہاں پاک تو ہے مگر نوکروں کو تقسیم کردو ۔اس پر مولانا جھلّا کر بولے یہ حدیث کی مخالفت ہے جو نہ مانے وہ بے ایمان ہے نوکر بھی یہ دودھ پی سکتے ہیں مگر گھر والوں کو ضرور پینا چاہئے تا کہ معلوم ہو کہ وہ حضرت کے فتوے پر عمل کرتے ہیںاور مسلمان ہیں ۔یہاں بھی مولوی صاحب کو وہی غلطی لگی ہے ۔ایک شخص متمول پاک صاف رہنے والا اور بہت نفیس مزاج ہے ۔اس کے پانی کے گلاس کو اگر باہر سے کسی کا میلا ہاتھ بھی لگ جائے تو وہ اس پانی کو پی نہیں سکتا چہ جائیکہ اس کے دودھ میں کوئی منہ ڈال دے اور وہ بھی ایک حیوان جس کی بابت یہ بھی خیال ہو کہ ابھی کوئی چوہا مار کر اور کھا کر آئی ہوگی ،اُسے اگر وہ دودھ پلا بھی دیا جائے تو بجائے ہضم ہونے کے فوراً قے ہو جائے گا، ایسے شخص کو ایک اجازتی مسئلہ پیش کر کے اور بے ایمان بنا کر مجبور کرنا کہ وہ دودھ پیوے سخت درجہ کا حمق ہے ۔بے شک غرباء اس پر عمل کر سکتے ہیں یا ضرورت کے وقت ایسا دودھ خود گھر والے بھی استعمال کر سکتے ہیںاور وہ اسے شرعاً پاک سمجھتے ہیں مگر یہ ضروری تو نہیں کہ جو چیز پاک ہو وہ ہر شخص خواہ جی چاہے یا نہ چاہے زبردستی اپنے حلق کے نیچے اتارلے ۔شارعﷺ نے یہ اجازت اس لئے دی ہے کہ لوگ تکلیف میں نہ پڑیں ان کا مالی نقصان نہ ہو اور سب جانوروں کو ایک ہی طرح کا نجس اور گند انہ سمجھ لیں۔نہ اس لئے کہ زبردستی اچھے دودھ کی موجودگی میں ایک لطیف مزاج اعلیٰ مذاق اور وسعت رکھنے والا شخص ضرور بلیوں کا جھوٹا کھایا کرے ۔ہاں یہ لازم ہوگا کہ وہ امیر اس غریب پر کبھی طعن نہ کرے گا نہ دل میں یہ بات معیوب سمجھے گااگر وہ غریب بلی کا جھوٹا کھا پی لے۔ اور وہ غریب اس امیر اور نفیس شخص پر فتویٰ نہ دیگا ۔اگر اس کی طبیعت اس بلی کا جھوٹا کھانا گوارا نہ کرے۔ یہ دونوں حدود ہیں۔ ایک حد تو پاکیزگی کی صاف ظاہر ہے دوسری حد محض غرباء پروری رحم اور بعض ضروریات کی وجہ سے شرع نے بیان کر دی ہے اور بس ۔
یہی حال اس پانی کا ہے جو دہ در دہ کہلاتا یا قُلّتین کا وزن رکھتا ہے ۔اسے ہر شخص کو پاک سمجھنا چاہئے مگر کسی کے پاس زیادہ عمدہ پانی ہو تو اس کی مرضی ہے کہ اس اچھے صاف پانی کو ترجیح دے اور اس شخص پر طعن نہ کرے جو قلتین والا پانی استعمال کرتا ہے ۔نہ دوسرے شخص کو مناسب ہے کہ پیالہ بھر کر لوگوں کو زبردستی ایسا پانی پلاتا پھرے اور جو کراہت کرے اسے بے ایمان اور کافر کا خطاب دے ۔
اب آخر میں آپ کی مکھی والے مسئلہ کو بیان کرتا ہوں ۔ابھی تک سائنسدانوں نے یہ عقدہ حل نہیں کیا کہ مکھی کے ایک پر میں زہر ہے او ر دوسرے میں اس کا تریاق۔ جب یہ مسئلہ علمی طور پر ثابت ہو جائیگا اس وقت آنحضرت ﷺ کی صداقت کی ایک اور دلیل دنیا میں پیدا ہو جائے گی۔مگر فرض کرو ہم نے ایسا ہی مان لیا۔ پھر بھی اگر زہر کے ساتھ اس کا تریاق چائے کے اندر ہم گھول دیں اور مکھی کو اچھی طرح غوطے دیکر اور ادھمرا کر کے نکالیں تب بھی وہ چائے ویسی ہی رہی جیسے پہلے تھی۔ یعنی ایک پر سے زہر اس کے اندر داخل ہوا تھا تو دوسرے پر سے اس زہر کا تریاق۔ چلو معاملہ برابر ہو گیا ۔یعنی زہریلی نہ رہی ۔کوئی خاص فضیلت تو اس چائے کو حاصل نہیں ہو گئی جو ہم ضرور اسے دوا یا شفاء سمجھ کر پی جائیں خواہ دل کراہت ہی کرے ۔برخلاف اس کے ممکن ہے مکھی کسی نجاست پر بیٹھ کر آئی ہو یا کسی بلغم پر سے اُٹھکر وہاں پہنچی ہواور اس طرح اس کے پیروں میں پاخانہ یا بلغم کے ذرے اور ساتھ ہی ہیضہ یا سل دق کے جراثیم چمٹے ہوئے ہوں ۔اس لئے اگر کوئی نفیس مزاج آدمی یا ڈاکٹر اس سے کراہت کرے اور اس چائے کو پھینک دے تو عین مناسب ہے ۔لیکن اگرکوئی شخص جس کو طبعی کراہت ان چیزوں سے نہیں ہے یا مولانا قشر الدین اس کو ڈبو کر نچوڑ کر پھر چائے نوش فرما لیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ہمارے نزدیک مکھی پڑی ہوئی چائے ناپاک اور حرام نہیں ہو گئی جس کا جی چاہے یا جس کو ضرورت ہو پی لے شریعت نے تنگی نہیں رکھی۔ دیکھئے میں خود عموماًایسی چائے اپنے سامنے سے اُٹھا دیا کرتا ہوں مگر ایک دو دفعہ ایسا بھی اتفاق ہوا ہے کہ میرے سر میں سخت درد تھا بے وقت چائے بنوائی اور اتفاقاً اس میں مکھی گر گئی اس وقت ایسی تکلیف اور ضعف تھا کہ میں نے جلدی اور ضرورت کی وجہ سے وہی چائے پی لی ۔پس اس معاملہ میں بھی شریعت نے دونوں حدیں رکھ دی ہیں۔کسی نفیس مزاج کے لئے وہ طیب نہیںرہتی بلکہ آپ جیسے نازک مزاج آدمی کو تو استفراغ ہی ہو جاتا ہے اور مکھی کا نام سنکر ہی متلی ہونے لگتی ہے۔ دوسرے آدمیوں کیلئے وہ طیب نہ سہی حلال تو ہے اور کوئی پی لے تو اسے کون بُرا کہہ سکتا ہے ۔البتہ مولانا قشر الدین نے جو ایک دفعہ ایک مجلس میں ایسی مکھی نکال کر اسے لوگوں کے سامنے منہ میں رکھ کر اسے چوسا اور پھر پھینک دیا اور ساتھ ہی اعلان فرمایا کہ ہم حدیث کی عملی طور پر اس طرح تعظیم کرتے ہیں یہ سخت بے ہودگی ہے۔ آنحضرت ﷺ جیسا پاک اور مقدس اور مطہر اور مزکی اور نفیس مزاج انسان بھلا ایسی کار روائیوں کو کس طرح پسند کر سکتا ہے۔ شریعت نے غریبوں اور حاجتمندوں کیلئے جو نرمی اور اجازت دے رکھی ہے اسے حکم کہکر ہر شخص کو مجبور کرنا کہ ضرور وہ مکھی چوسے ورنہ اسلام سے خارج ہو یہ سخت افسوس ناک ذہنیت ہے۔ امید ہے کہ اب آپ اس مسئلہ کو سمجھ گئے ہونگے ۔بات صرف اتنی ہے کہ مولویوں نے اجازت اور حکم میں فرق نہیں کیا اور تفاوت مراتب اور تفاوت مزاج کا خیال نہیں رکھا ورنہ مسئلہ بالکل صاف تھا ۔
مسٹر تحقیق نے یہ تسلی بخش جواب پاکر ایک خوشی محسوس کی اور وعدہ کیا کہ وہ ضرور اپنی پہلی فرصت میں  قادیان جائینگے اور وہاں کے حالات کا بذات خود ملاحظہ کرینگے کیونکہ ذرا ذرا سی باتوں میں بھی ان مولویوں نے ان کو اسلام سے متنفر کر دیا تھا اور وہ اس بات کے متلاشی تھے کہ ان کو اصلی اور صحیح اسلام کا راستہ دکھانیوالا کوئی ملے ۔

…٭…٭…٭…