اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-29

’’وہ دن ‘‘
(حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب رضی اللہ عنہ)

اَے عزیز ! ہرطالب صادق پر ایک دن آتا ہے جو اس کی قسمت کے فیصلہ کا دن ہوتا ہے ۔میں نہیں کہہ سکتا کہ اسکا کیا نام رکھوں ۔’’وہ دن ‘‘ کی اصطلاح مجھے کسی اور اصطلاح کی نسبت زیادہ پسند ہے ۔آگے جو کوئی اسکا نام رکھ لے پہلے وہ ایک ظلمت اور اندھیرے میں ہوتا ہے ۔اسکا ضمیر اسے گاہے بگاہے بیدارکرتا ہے، خدا کی کتاب۔خدا کا رسول اسے بار بار جھنجھوڑتے ہیں اور دوسری طرف مخالف طاقتیں اپنا پورا زور لگا تی رہتی ہیں ۔وہ گرتا ہے اور اُٹھتا ہے۔ ٹھوکریں کھاتا ہے اور سنبھلتاہے ۔ڈگمگاتاہے اور قائم ہوتا ہے ۔یہاں تک کہ سعادت ازلی اور عنایت ایزدی اس کا ہاتھ پکڑتی ہیں اور مدتوں کی کشمکش کے بعد آخر ایک دن یکدم ملاء اعلیٰ سے اُسے یہ آواز آتی ہے ۔ اَلَمْ یَانِ لِذِکْرِ اللہِ۔ بس پھر کیا یکدم ایک فیصلہ ہو جاتا ہے ۔مملکت نفس انسانی میں ایک حشر برپا ہوتا ہے شیطانی طاقتیں رحما نی تجلّی کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہیں اور سالک کا فرشتہ خیر اسکی روح کا امتحان لیتا ہے اور یوں سوال کرتا ہے کہ دیکھ اے بندے تیرا خدا تجھے اپنی طرف بلاتا ہے کیا تو اس کی خاطر آئندہ ہمیشہ غیر اللہ کو بکلی ترک کرنے کیلئے تیار ہے ؟اس وقت روح کی گہرائیوں سے جواب آتا ہے : لبیک !ہاں میں بالکل تیار ہوں ۔ پھر سوال ہوتا ہے کہ کیا تو ہر عسر اور یسر میں ہر تنگی اور راحت میں عزت اور ذلت میں اپنے ربّ سے وفا دار رہنے کا عہد کرتا ہے ؟جواب ملتا ہے کہ ہاں ہاں میں اقرار کرتا ہوں ۔ پھر سوال ہوتا ہے کہ کیا تو اپنے مال اپنی عزت اپنے اہل و عیال اپنے رشتہ دار اپنی برادری اپنے املاک اپنے اموال اپنی تجارت اپنی ملازمت کی اس راہ میں کوئی عزت یا وقعت سمجھےگا ؟جواب ملتا ہے، ہرگز نہیں ۔ہرگز نہیں ۔ اسکے بعد تفاصیل طے ہوتی ہیں ۔مثلاً یہ کہ اگر تیرے ماں باپ تیری بیوی ،تیرے بچےاور تیرے دوست اس راہ میں حائل ہوں تو تو کہاں تک ان کا کہنا ماننے کو تیار ہوگا ؟جواب:میں ان کو چھوڑ دوں گا اور اگر رضائے الٰہی حاصل کرنے کیلئے ان کو قربان کرنا پڑے تو بلا تامل قربان کر دوں گا ۔کیا میرے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شاندار قربانیوں کا نمونہ موجود نہیں ہے ۔ سوال: اگر تجھے اپنے اموال و املاک اس کی راہ میں دینے پڑیں ؟ جواب: وہ اب بھی حاضر ہیں ۔ وہ نہ پہلے میرے تھے نہ آئندہ ہوں گے ۔مجھے فاقہ کشی کرنا،آسمان کے سایہ تلے زندگی بسر کرنا،ننگا رہنا ، ہر آرام اور راحت کی چیز کا ترک کرنا منظور ہے مگر میں اپنے خدا کو کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا۔ سوال:اگر تجارت یا ملازمت یا روزگار پر اس راہ میں آفت آئے تو کیا کریگا ؟ جواب: بھوکا رہوںگا ۔سسک سسک کر جان دے دوں گا ۔بھیک مانگ کر گزارہ کر لوں گا ۔گھاس پات کھا لوں گا۔ مگر آقا کا دامن نہ چھوڑ سکتا ہوں نہ چھوڑوں گا۔کیا شعب ابی طالب کے سہ سالہ بائیکاٹ میں ایک مقدس جماعت درختوں کے پتے اور سوکھے ہوئے چمڑے کے ٹکڑے بھگو بھگو ان سے اپنا پیٹ نہیں بھرا کرتی تھی اور وہ بھی مسلسل تین سال کے لمبے عرصہ تک ۔ سوال:اگر بیماری یا تکالیف جسمانی اسکی طرف سے پہنچیں تو کیا تو شکایت کریگا ؟ جواب: کبھی نہیں ۔ساری عمر اگر ان مصیبتوں سے گھرا رہوںاور اگر بدتر سے بدتر دکھ درد میں مبتلاء رہوں،تب بھی اسکا حق مالکانہ اور حق محبوبانہ مجھ پر ہے۔ میں ہمیشہ صابر و شاکر رہوں گا اور کبھی شکایت نہیں کروں گا۔ شکایت تو کیا اگر اسکی رضا کیلئے مجھے اپنے ہاتھوں سے اپنی ایک ایک بوٹی اور ایک ایک رگ وریشہ کو کند قینچی کے ساتھ کاٹنا پڑے تو میں دل وجان سے تیار ہوں بلکہ مجھے ان باتوں سے راحت ہوگی نہ کہ تکلیف۔کیا یہ وہی رستہ نہیں جس پر مجھ سے پہلے میرے ہی جیسے انسانوں کو آروں کے ساتھ سرسے پیر تک چیرا گیا ۔ان کو جلتی ریت اور سلگتے ہوئے کوئلوں پر لٹا یا گیا۔ان کو سنگسار کیا گیا ۔ان کی کھالیں اتاری گئیں ۔ان کو زندہ جلا یا گیا ۔ان کی آنکھیں نکالی گئیں ۔ان کو گلے گھونٹ کر ختم کیا گیا ۔مگر انہوں نے اف تک نہ کی۔اللہ کی رحمتیں ہوں ان پر کہ وہ اس وقت میرے مشعل راہ ہیں ۔ سوال:عزت بڑی چیز ہے ۔کیا تو ہر ذلت کیلئے اپنے تئیں تیار پاتا ہے ؟ جواب: ہاں!اگر اس راہ میں مجھے کہا جائے گا کہ تو جھاڑو لیکر روزانہ بازاروں میں صفائی کرتو مجھے کوئی عذر نہ ہوگا۔ اگر مالک کی خوشی اس میں ہو کہ میں شہر کے چوک میں بیٹھ جائوں اور ہر آنے جانے والا میرے سر پر خاک ڈال کر جایا کرے یا جو شخص میرے پاس سے گذرےوہ میرے منہ پر تھوک کرگذرا کرے تو میں اس ذلت پر بھی راضی ہوں اور اگر عمر بھر صبح سے شام تک مجھے منہ در منہ گالیاں دی جائیں تو میں ان کے سننے کو تیار ہوں ۔مگر اس کیلئے تیار نہیں کہ میرا آقا میرا محبوب ایک لمحہ کیلئے بھی مجھ سے کشیدہ خاطر ہو۔ کیا مجھ سے پہلے وہ لوگ نہیں گزر چکےجن کی ناک میں نکیل ڈال کر ان کو سر بازار رسوا کیا گیا یا وہ جن کو کانٹوں کے تاج پہنا کر ان کے مبارک چہروں پر تھوکا گیا یا وہ جن کی پشت اور گردن پر گندی او جھڑیاں مسجد کے اندر عین سجدہ کی حالت میں رکھی گئیں ۔ آخری سوال : بے شک تو سب کچھ کر لیگا مگر ان سے زیادہ سخت امتحان شہوات اور عادات کا ہے ۔اس میں کامیابی کیونکر حاصل کریگا؟ جواب: بے شک میں مانتا ہوں کہ شہوات کے جذبات نہایت سخت ہوتے ہیں مگر کیا وہ انسان دنیا میںنہیں گزرے جنہوں نے حضرت یوسف والا نمونہ ہر زمانہ میں دکھایا ؟اور کیا لاکھوںحوّا کی بیٹیاں دنیا میں اس وقت بھی موجود نہیں ہیں جن کی پاکدامنی اور عفت پر فرشتے قسم کھا سکتے ہیں کیا میں مرد ہو کر عورتوں سے بھی گیا گزرا ہوں۔ رہا عادات کا معاملہ سو میں تسلیم کرتا ہوں کہ پہاڑ کو توڑنا زیادہ آسان ہےبہ نسبت راسخ عادتوں کے توڑنے کے اور اونٹ کا سوئی کے ناکہ میں سے گذر نا بہت سہل ہے بہ نسبت اسکے کہ پرانی عادات قبیحہ یکدم محو ہو جائیں مگر میں اقرار کرتا ہوں کہ ان کیلئے میں ان تھک کوشش کرتا رہوں گا اور ہر وقت اپنا محاسبہ جاری رکھوں گااور ہمیشہ اپنے اللہ سے دعائیں کرتا رہوں گااور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری مدد کرے گا اور میری کوشش کو بار آور کرے گا ۔ اب اے سننے والے سن جب حقیقۃًنفس کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے اور انسانی روح کی مستعدی اس درجہ پر پہنچ جاتی ہے اس وقت آسمان سے ایک قبولیت نازل ہوتی ہے اور اس بندے کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے وہ صرف سننے سے سمجھ میں نہیں آسکتا۔وہ اسی وقت سمجھ میں آتا ہےجب کسی پر وہ مبارک دن آئے اور اس وقت اسکے نفس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہو ۔ پس اے عزیزاگر تجھ پر یہ وقت نہیں آیاتو تُو بھی دعا کر اور کوشش کر کہ ’’وہ دن ‘‘ وہ مبارک دن وہ آخری فیصلہ کا دن وہ تیری زندگی کا یوم الفرقان تجھے نصیب ہو۔ آمین

(مطبوعہ الفضل قادیان 4؍ستمبر1936ء)