اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-05

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ممبران نیشنل مجلس عاملہ ناروے کی آن لائن ملاقات اور حضور انور کی زرّیں نصائح وہدایات

جو واقفین نو ہیں، جو پندرہ سال کی عمر کے ہو جاتے ہیں، یا واقفات نو ہیں، ان سے پوچھیں کہ کیا طریقہ ہم اختیار کر سکتے ہیں کہ
تم لوگ بہتر طور پہ جماعت سے attachرہو،کوئی نہ کوئی ان کی ایکٹیویٹیزکے سامان کریں ، ایسے پروگرام بنائیں جن میں وہ دلچسپی لے کر مسجد میں آئیں 

اپنے ساتھ خدا م الاحمدیہ اور انصار اللہ اورلجنہ کی تنظیموں کو بھی توجہ دلائیں کہ
وہ بھی اپنے خدام کو انصار کو لجنہ کو کہتی رہیں تو جب سارے مل کے کوشش کریں گے تو ایک consolidatedکوشش ہوگی اس سے آپ کو نتائج اچھے بہتر ملیں گے

نصیحت کرو ،نصیحت کرتے چلے جاؤ،نصیحت کرنا ہی ہمارا فرض ہے یہی ہمارا کام ہے،تھکنا نہیں، مایوس نہیں ہونا، ہمارا یہی کام ہے مسلسل کوشش

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 5دسمبر 2021ء کو ممبران نیشنل مجلس عاملہ ناروے سے آن لائن ملاقات فرمائی۔حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے رونق بخشی جبکہ ممبران نیشنل مجلس عاملہ نے اس آن لائن ملاقات میں مسجد بیت النصر Oslo، ناروے سے شرکت کی۔
دوران ملاقات ہر ممبر مجلس عاملہ کو حضور انور کے ساتھ بات کرنے اور راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔حضور انور نے سیکرٹری صاحب مال سے ایسے احباب کے بارہ میں جو کہتے ہیں کہ وہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے چندہ نہیں دے سکتے فرمایا کہ ٹھیک ہے ان کو توجہ ہی دلانا ہے اور اس کے علاوہ تو نہیں کر سکتے۔ ان سے کہیں دیکھو تمہاری مجبوریاں ہیں تم نہیں چندہ دے سکتے تو نہ دو لیکن کم از کم نظام جماعت کو بتا دوکہ میں اس شرح سے یا کم شرح سے چندہ دے سکتا ہوں۔ ان کو یہ کہیں اگر ٹوٹل معاف کرانا ہے تو بھی، اگر حالات ایسے ہیں تو معاف ہو جائے گا لیکن اگرکم شرح سے دینا ہے تو پھر بھی دینا چاہئے تو ایمانداری کا تقاضا تو یہی ہے کہ یہ بتایا جائے۔ آپ ان کو آہستہ آہستہ پیار سے سمجھاتے رہا کریں۔ سمجھانا ہی ہمارا کام ہے اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔
سیکرٹری صاحب مال نے بتایا کہ احباب جماعت ایسی درخواست لکھنے سے جھجکتے ہیں اور ان کو شاید شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ان سے کہیں مجھے براہ راست خط لکھ دیا کریں۔ وہ آپ کو نہ دیا کریں وہ مجھے براہ راست لکھا کریں۔
سیکرٹری صاحب تعلیم القرآن نے عرض کیا کہ احمدیوں کی اکثریت روزانہ تلاوت قرآن کریم کی عادی ہے لیکن بعض افراد ایسے ہیں جو تھوڑے سست ہیں تو ان کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت اور شوق کو کیسے مزید اجاگر کیا جا سکتا ہے تا کہ سو فیصد احمدی قرآن کریم کی تلاوت کے عادی خود بھی ہو جائیں اور اپنے بچوں کو بھی قرآن کریم کی تلاوت کے عادی بنائیں۔حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ آپ کے جو سیکرٹری صاحب تربیت ہیں وہ کہتے ہیں کہ آپ کے 62فیصد لوگ جو ہیں وہ نماز پڑھتے ہیں۔ نماز جو ایک بنیادی رکن ہے وہ اس کی اگر ادائیگی نہیں کر رہے تو اس کا مطلب ہے ان کے بچے بھی نہیں پڑھتے ہوں گے ان کو دیکھا دیکھی۔ یا اگر پڑھتے ہیں لوگ تو پانچ نمازوں کی بجائے دو یا تین نمازیں پڑھ لیتے ہیں ان کے بچوں پہ بھی یہی اثر ہو گا۔ اب کسی نےسوال کیا کسی بچے سے۔ بچے! دن میں کتنی نمازیں ہوتی ہیں اسلام میں؟ اس نے کہا تین۔ اس نے کہا تمہیں کس نے بتایا؟کہتا ہے کہ میں نے تو اپنے ابا کو اتنی ہی پڑھتے دیکھا ہے۔ یامسجدوں میں نمازیں جمع ہو گئیں تو بچے کو خیال ہو گیا کہ شاید مسجدوں میں نمازیں موسم کے لحاظ سے جمع ہو جاتی ہیں اس لیے تین نمازیں ہی ہوں گی حالانکہ یہ تو انتہائی صورت میں نمازوں کا جمع ہونے کی جو موسمی حالات یا وقت کے حالات ہوں ان دنوں میں ہوتا ہے۔ جب کھلا موسم ہوتا ہے ان دنوں میں پانچ نمازیں ادا کرنی چاہئیں تا کہ بچوں کی بھی تربیت صحیح ہو۔ تو بات یہ ہے کہ جب بنیادی چیز نماز ہے اسی کی طرف توجہ نہیں تو قرآن کریم کی تلاوت تو پھر بعد میں آتی ہے ۔ تو وہ آپ نے مسلسل توجہ دلانی ہے۔ توجہ دلانا ہی آپ کا کام ہے۔ ان کو کہنا تم لوگ قرآن کریم پڑھو گے تو تمہیں قرآنی احکام کا بھی پتہ لگے گا یہی میں بار بار اپنے خطبات میں تقریروں میں بھی کہتا رہتا ہوں کہ قرآن کریم پڑھو قرآنی احکام آپ کو پتہ لگیں، اپنی میٹنگوں میں بھی یہی بتاتا رہتا ہوں اگر وہ سنتے ہوں پروگرام کہ اسی سے تم لوگوں کو پھر پتہ لگے گا کہ اللہ تعالیٰ نے کیا حکم دیے ہوئے ہیں۔ اگر وہی نہیں ہم پڑھ رہے ایک بات جو ہدایت نامہ ہمارے سامنے ہے اسی کو ہم پڑھ نہیں رہے تو ہمیں پتہ کیا لگے گا، ہمارے مقصد کیا ہیں، ہمارے فرائض کیا ہیں، ہماری ڈیوٹیاں کیا ہیں تو یہ توجہ دلانا مسلسل کام ہے ہمارا اس لئے سیکرٹری بنایا گیا ہے تعلیم القرآن۔ وہ آپ کرتے رہیں پیار سے سمجھاتے رہیں، توجہ دلاتے رہیں، بار بار کہتے رہیں اور یہی قرآن کریم کا حکم ہے۔ ذَکِّرْ۔ نصیحت کرو نصیحت کرتے چلے جاؤ۔ داروغہ تو ہمیں بنایانہیں ہوا۔ اللہ میاں نے کہا ہے نصیحت کرو اور نصیحت کرنا ہی ہمارا فرض ہے یہی ہمارا کام ہے۔ آپ نے تھکنانہیں ۔ یہ ارادہ کر لیں کہ آپ نے تھکنا نہیں۔ کسی سے مایوس نہیں ہونا۔ ہمارا یہی کام ہے مسلسل کوشش کوشش کوشش اور کرتے جاؤ کوشش۔ اور اپنے ساتھ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کی تنظیمیں ہیں لجنہ کی تنظیمیں ہیں ان کو بھی توجہ دلائیں کہ وہ بھی اپنے خدام کو انصار کو لجنہ کو کہتی رہیں تو اس سے جب سارے مل کے کوشش کریں گے تو ایک consolidated کوشش جوہو گی اس سے آپ کو نتائج اچھے بہتر ملیں گے۔
سیکرٹری صاحب تربیت کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ آ پ کو لوگوں کو بتانا چاہئے کہ اگر وہ احمدی مسلمان ہیں تو انہیں اپنے فرائض کو ادا کرنا چاہئے۔ صرف عہد بیعت کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ آپ کو بنیادی اسلامی تعلیمات اور ارکان اسلام پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔
سیکرٹری سمعی بصری سے مخاطب ہوتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو چند پروگرام بنانے چاہئیں اور انہیں ایم ٹی اے کو نشر کرنے کیلئے بھجوانا چاہئے۔ مثال کے طور پر ناروے ایک خوبصورت ملک ہے تو آپ کوا س ملک کے بارے میں چند ڈاکومنٹریز بنانی چاہئیں اور دیگر پہلوؤں پر بھی غور کرنا چاہئے۔
شعبہ امور عامہ کے متعلق حضور انور نے راہنمائی فرمائی کہ لڑائی جھگڑوں کا تصفیہ تو ایک ثانوی امر ہے، ورنہ شعبہ امور عامہ کی اصل ذمہ داری احمدیہ مسلم جماعت کے افراد کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ اس کا مقصد ان کی درست راہنمائی ہے اور کسی بھی مسئلہ کی صورت میں ان کی مدد کرنا ہے، مثال کے طور پر اگر وہ نوکری کیلئے کوشش کر رہےہوں۔ ایسے افراد جو مشکل سے گزر بسر کر رہے ہوں تو اس شعبہ کو ا ن کے حالات کی آگاہی حاصل کرنی چاہئے ا ور ان کے خاندانی حالات کی بھی اور اگر وہ واقعی مشکل حالات میں گھرے ہوئے ہوں تو ان کے حالات بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
سیکرٹری صاحب وقف نو نے عرض کیا کہ حضور یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ جب تک بچے پندرہ سال کی عمر کو آتے ہیں اس وقت تک ان کا معیار اور ان کی تربیت بہت اچھی ہوتی ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ والدین بھی بہت محنت کرتے ہیں ان کے ساتھ لیکن جیسے جیسے وہ خادم کی عمر میں جاتے ہیں اور بڑے ہونا شروع ہو جاتے ہیں ان کا رابطہ بھی جماعت سے کم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کے نصاب کامعیار بھی کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ والدین سے بات کرتے ہیں تو والدین کہتے ہیں کہ بچے اب ہماری بات نہیں سنتے یا زیادہ ہماری بات کو مانتے نہیں۔ تو اس سلسلہ میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟حضور انور نے فرمایا کہ خدام الاحمدیہ اور لجنہ کو کوشش کرنی چاہئے۔ جب خدام الاحمدیہ اور لجنہ کی تنظیم میں وہ شامل ہوتی ہیں لڑکیاں اور لڑکے تو وہ اپنے پروگرام ایسے بنائیں کہ ان لوگوں کو جو ماحول میں باہر ان کو آزادی مل جاتی ہے باہر آنا جانا دوستوں میں پھرنا اٹھنا بیٹھنا زیادہ ہو جاتا ہے وہ ان کے مطابق plan بنائیں ان کو اپنے ساتھ جوڑ کے رکھیں اور اسی طرح آپ لوگ بھی صرف اپنے بڑھاپے والی سوچیں نہ نہ رکھیں۔ ان کیلئے کوئی plan بنائیں ایسا کہ ان کو ایکٹو کرنے والا ہو۔ ان کو باقاعدہ plan دیں۔ آپ نے بھی ایک رکھا ہوا ہے لائحہ عمل کہ یہ ہم نے لائحہ عمل بنا دیا ہے اب اسی پہ چلنا ہے۔ آپ اپنے ساتھ کوئی نوجوان نائبین شامل کریں اور ان کو کہیں ان نوجوانوں کو attractکرنے کیلئے ان کو اپنے ساتھ جوڑنے کیلئے اور اس سسٹم میں انٹیگریٹ کرنے کیلئے کس طرح ہم planکر سکتے ہیں۔ خود لڑکوں سے سوال کریں جو واقفین نو ہیں جو پندرہ سال کی عمر کے ہو جاتے ہیں یا واقفات نو ہیں ان سے پوچھیں کہ کیا طریقہ ہم اختیار کر سکتے ہیں کہ تم لوگ بہتر طور پہ جماعت سے attach رہو۔ان سے خود سوال کریں یہ۔ پھر ہر ہفتے اور ہر مہینے یا مہینے دو مہینے بعد ان کا جائزہ بھی لیتے رہیں ان سے پوچھیں، ان کو بلائیں، ان سے ملیں۔ کوئی نہ کوئی ان کی ایکٹویٹیز کے سامان کریں۔ ایسے پروگرام بنائیں جن میں وہ دلچسپی لے کر مسجد میں آئیں۔ مسجد سے اٹیچ رکھنا اصل کام ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا اس میں انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو بھی شامل کریں اور اپنی ٹیم کو بھی ذرا وسیع کر کے ان کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں اور خود ان سے یہ سوال کریں بچوں سے تا کہ ان میں یہ پیدا ہو کہ ہماری کوئی اہمیت ہے۔ دنیا داری صرف کوئی چیز نہیں ہے بلکہ ہم نے وقف کیا ہے۔ وقف کی اہمیت اگر آپ پندرہ سال کی عمر تک والدین نے تو محنت کر دی لیکن اگر آپ نے پندرہ سال کی عمر تک بچوں کے ذہنوں میں خدام الاحمدیہ نے بھی لجنہ نے بھی اور آپ نے بھی یہ راسخ کر دیا کہ تم وقف نو ہو اور وقف نو کی کیا ذمہ داریاںہیں۔ کینیڈا میں ایک خطبہ میں مَیں نے بہت ساری ذمہ داریاں بتائی تھیں کیا ذمہ دار یاں ہیں وہ ہر ایک کو بتائیں ہر ایک کو یاد کرائیں ان کو پتہ ہو ہر مہینے ان کو اس کی جگالی کرتے رہیں یاددہانی کرواتے رہیں تو جب پندرہ سال کی عمر کو وہ پہنچیں گے تو ان کے ذہنوں میں بیٹھ چکا ہو کہ ہم کون ہیں۔ پندرہ سال تک جو ماں باپ نے کر لیا وہ تو کر لیا آپ نے کوئی زیادہ خاص کوشش نہیں کی ہوتی ۔ سوائے اس کے کہ دو مہینے بعد یا مہینے بعد ایک اجلاس کر لیا یا ان کی ایک لسٹ بنا دی یا اجتماع کر لیا سال میں ایک دفعہ۔ تو جب ایسی صورتحال ہے تو آپ نے دیکھنا ہے کہ بچپن سے ہی آپ نے ان کو کس طرح قابو کرنا ہے۔ اپنے ساتھ اس طرح ہلا لینا ہے کہ وہ آپ کی آواز پہ لبیک کہیں۔ صُرْھُنَّ۔ قرآن شریف نے کہا ہے حضرت ابراہیمؑ نے کہا تھا اس طرح ہلا لو اپنے ساتھ پرندوں کو پھر جو تمہاری آواز دو گے تمہارے ساتھ آئیں گے دوڑے۔ تو آپ کی آواز پہ آنے چاہئیں۔ اس طرح ہلائیں اپنے ساتھ اس طرح جوڑیں۔
سیکرٹری صاحب وقف نو نے ایک اور سوال پوچھا کہ ناروے کا معاشرہ ہے کہ نارویجین چودہ پندرہ سال کی عمر میں سکول کے ساتھ جاب شروع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے بچوں میں بھی یہ عادت پڑتی جا رہی ہے کہ نویں دسویں کلاس سے جاب شروع کر دیتے ہیں اور جاب اکثر ہفتہ اور اتوار کو ہوتا ہے اسکی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ جماعت کے پروگراموں میں بھی اور جماعتی باقی کاموں میں بھی…حضور انور نے فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ یہ ان کو بتائیں ناں۔ پندرہ سال کی عمر میں جب آپ راسخ کر دیں گے ان کی ذمہ داریاں تو وہ نہیں کریں گے۔ دوسرے یہ کہ جاب اس لیے کرتے ہیں ان کے ماں باپ ان کو ناروے کے بچوں کو تو یہ کہہ دیتے ہیں ناں کہ ہم نے تمہیں اب کچھ نہیں دینا پندرہ سال کے ہو گئے ہوجاؤ کماؤ اور اپنی جو تم نے عیاشیاں کرنی ہیں، تم نے الکوحل پینی ہے، تم نے برگر کھانا ہے یا لڑکیوں سے دوستی کرنی ہے یا جو بھی بدمعاشیاںکرنی ہے جا کے کرو اپنے پیسوں سے ہم نے تمہیں اس کیلئےنہیں دینا ۔ وہ تو اس لیے کرتے ہیں۔ تو احمدی بچوں کو تو یہ کام نہیں کرنا چاہئے۔ اور جب وہ کام کیلئے جائیں گے پھر اسی سوسائٹی میں جائیں گے انہی لوگوں میں اٹھیں بیٹھیں گے تو ظاہر ہے پھر وہی کام کریں گے۔ اسی لیے تو میں کہہ رہا ہوں پندرہ سال تک آپ ان کے ذہنوں میں راسخ کریں کہ تمہاری ضروریات کیا ہیں تمہاری preferences کیا ہیں تمہاری ترجیحات کیا ہیں۔ا گر تم جاب کرتے ہو تو ایک شریفانہ جاب ہونی چاہئے۔ دوسرے یہ کہ تمہاری جاب کس مقصد کیلئے ہونی چاہئے۔ صرف اپنی فکر نہ کرو بلکہ یہ دیکھو کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے دنیامیں کتنے لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ اگرکرنا ہے تو لوگوں کیلئے کرو۔ ہاں اپنی ضروریات بھی پوری کر لو چھوٹی موٹی لیکن ہماری ترجیحات یہ ہیں دنیاداروںکی ترجیحات یہ ہیں پندرہ سال کی عمر بڑی میچور عمر ہوتی ہے۔ تیرہ چودہ پندرہ سال کی عمر میں اس میں بچے کے ذہن میں ڈال دیں میں نے دیکھا ہے جن لوگوں نے بچوں کے ذہنوں میں ڈالا ہے وہ بچے بڑے پکے ہوتے ہیں جنہوں نے تربیت نہیں کی ہوتی وہ نہیں ہوتے۔ تو یہ تو شعبہ بھی اور ذیلی تنظیموں کوبھی اور گھر والوںکو بھی مل کے کوشش کرنی پڑے گی۔ اسی کا پہلے بھی میں جواب دے چکا ہوں ۔
اللہ حافظ و ناصر ہو۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(بشکریہ اخبار الفضل انٹرنیشنل 21؍دسمبر 2021)
…٭…٭…٭…