اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-28

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ واقفاتِ نو لجنہ اماء اللہ سویڈن کی آن لائن ملاقات اور حضور انور کی زرّیں نصائح

اللہ کی عبادت کرنا ہماری تخلیق کا مقصد ہے اس لئے ہمیں اس مقصد کو پورا کرنا چاہئےاپنی روزمرہ کی پنجوقتہ نمازیں اس طرح ادا کریں کہ آپ کو لذت محسوس ہو ،اگر آپ تیزی سے اپنی نمازیں ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا نہیں ہو سکتا

ایک بنیادی بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ ہم نےدین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہےاگر کہیں ایسی جگہ پر نوکری ملتی ہے جہاں حجاب کی اجازت نہیں ہے تو آپ اس نوکری کو چھوڑ دیں

جہاں دعا کریں وہاں تبلیغ بھی کریں اور اپنے نمونے بھی دکھائیں تاکہ یہ لوگ جو مغرب میں رہنے والے ہیں یہ مذہب کو سمجھ کے اس کو قبول کریں 

ایوولیوشن کو تو ہم مانتے ہیں ،یہ ہم نہیں مانتے کہ ڈارون کی تھیوری صحیح ہے ،انسان کا ایوولیوشن ہوالیکن جو بندر تھے وہ بندر تھے ، جو بیٹل تھے وہ بیٹل تھے جو جانور تھے وہ جانور تھے

ماحول کو صاف رکھیں ، گنداٹھاتے رہیں ،ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ماحول کو صاف رکھیں گند نہ ہونے دیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے21؍نومبر 2021ء کو ممبرات واقفات نو لجنہ اماء اللہ سویڈن سے آن لائن ملاقات فرمائی۔حضور انور اس ملاقات کیلئے اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز میں رونق افروزہوئے جبکہ واقفات نو لجنہ اماء اللہ نےناصر مسجد Gothenburg، سویڈن سے شرکت کی۔ ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا، جس کے بعد واقفات نو کو حضور انور سےسوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک واقفہ نو کا سوال جماعتی پروگراموں میں ماحولیات کو مد نظر رکھنے سے متعلق تھا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پہلے تو یہ ہے کہ عموماً ہمیں ری سائیکل (recycle) چیزیں استعمال کرنی چاہئیں۔ جو جماعت کے ایونٹس ہوتے ہیں اجتماع ہوتے ہیں جلسے ہوتے ہیں وہاں ایک ہائی جین (hygiene) وغیرہ کی بھی ٹیم ہوتی ہے اس کا یہ کام ہے کہ جہاں دوسری facilities ہیں ان میں ہائی جین (hygiene)کا استعمال رکھیں وہاں جو atmosphere ہے ماحول ہے environment ہے اس کو بھی صاف رکھیں۔ اور وہاں سے گند اٹھاتے رہیں جو ری سائیکل پلاسٹک کی چیزیں ہیں ان کو علیحدہ رکھیں۔ جو ڈسپوزیبل چیزیں ہیں ان کو علیحدہ رکھیں اور گورنمنٹ کے جو بِن (bin)بنے ہوتے ہیں جو ٹرک اٹھا کر لے کر جاتے ہیں تو وہ جو ڈسپوزیبل آئٹم ہیں ری سائیکل آئٹم ہیں ان کو اس بن میں ڈالا، جو ڈسپوزیبل ہیں ان کو اس میں ڈالا تاکہ اس کو وہ ڈسپوزآف کر سکیں اپنے طریقے سے۔ تو ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ماحول کو صاف رکھیں گند نہ ہونے دیں۔ اجتماعوں پہ لجنہ کو بھی ناصرات کو بھی ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے بچوں کو بھی کہ اپنی چیزیں جو ہیں اِدھراُدھر پھینکا نہ کرو اگر استعمال کیا ہے تو اس کو بن میں ڈالو اور جو پھینک دیتے ہیں اس طرح وہاں ایک ٹیم ہونی چاہئے ہمارے اجتماعوں پہ جو سارا کچھ اکٹھا کرے اور اس کو بِن میں ڈالے اور پھر جو ری سائیکل چیزیں ہیں وہ ری سائیکل بن میں چلی جائیں جو دوسری ڈسپوزیبل ہیں ان کو ڈسپوزآف کرنے کیلئے علیحدہ بن میں ڈالا جائے۔

ایک دوسری ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ یورپی یونین نے ایک قانون پاس کیا ہے کہ ایمپلائر ایک باپردہ خاتون کو بغیر کسی وجہ کے نوکری سے نکال سکتے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے اس حوالہ سے راہنمائی کی درخواست ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ یہ نہایت احمقانہ قانون ہے اس کے خلاف آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں۔ اور یہ تو ہیومن رائٹس کے خلاف ہے۔ ایک شخص حجاب لیتا ہے وہ کہتا ہے میرے مذہب کا حصہ ہے یا کل کو وہ یہودیوں کو کہیں کہ تم جو ٹوپی پہنتے ہو چھوٹی سی سر پہ رکھتے ہو وہ سر پہ رکھ کے نہیں آ سکتے۔ ٹھیک ہے۔ مردوں کو کہیں گے تم ٹوپی نہیں پہن سکتے یا سکھ جو ہیں ان کو کہیں کہ تم پگڑی نہیں باندھ سکتے توجو ان کے رائٹس ہیں ان کو تم deny کر رہے ہو تو اس لیے یہ قانون ہی غلط ہے۔ آپ یہ عہد کرتی ہیں میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گی۔ ٹھیک ہے۔ اگر کہیں ایسی جگہ پرنوکری ملتی ہےجہاں حجاب کی اجازت نہیں ہے تو آپ اس نوکری کو چھوڑ دیں۔ انسان کو چاہئے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھے اور اس کے خلاف لیگل فائٹ بھی کرنی چاہئے اور شور بھی مچانا چاہئے لابنگ بھی کرنی چاہئے قانون جو بنائے ہوئے ہیں انسانوں کی پارلیمنٹوں میں یہ کوئی شریعت کے قانون تو نہیں جو ہمیشہ قائم رہیں گے۔ اس کے خلاف آوازیں اٹھیں گی ایک وقت آئے گا یہ بھی قانون ختم ہو جائیں گے،کئی ان کے اپنے قانون بنائے ہوئے ہیں جو آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں۔ تو ہمارا بھی کام ہے کہ آواز اٹھاتے رہیں۔ آج نہیں تو پانچ سال بعد دس سال بعد یا اگلی نسل کو کم از کم آزادی مل سکتی ہے لیکن ایک بنیادی بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے۔ اور جو یہ کر رہے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں اور پھر ایک طرف کہتے ہیں ہیومن رائٹس کی باتیں کرتے ہیں دوسری طرف جو رائٹس ہیں عورتوں کے اسلام کے اس کو denyکر رہے ہیں۔ تو اس کے خلاف اخباروں میں لکھو۔ سویڈش اخباروں میں بھی لکھیں یورپین اخباروں میں بھی لکھیں۔ ایک پوٹینشل شخص ہے ایک بڑا اچھا کیلیبر کا شخص ہے ایک اچھی سائنٹسٹ عورت ہے ایک اچھی ڈاکٹر ہے سرجن ہے لیکن اس کو اس کا ایمپلائر صرف اس لیے فائر کر دیتا ہے کہ جی تم حجاب پہنتی ہو تو یہ کوئی انصاف تو نہیں ہے یہ تو اس پوٹینشل کو ویسٹ (waste) کرنا ہے اور ایک اچھے دماغ کو اس کے رائٹ سے محروم کرنے کا سوال ہے۔ تو اس کے خلاف لکھیں لابی کریں۔ شور مچاؤ یہاں شور مچانے سے بڑا کچھ ہو جاتا ہے۔ تم لوگ بھی لکھو۔

ایک اَور ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ اگر ایک انسان پیدائشی عیسائی ہے اور اس نے اپنی پوری زندگی ایک عیسائی کی طرح گزاری ہے تو پھر وہ کس طرح مان سکتا ہے کہ اسلام سچا مذہب ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ اس کو زبردستی منوانا ہے تم نے؟ ہم نے کب کہا ہے اس کو زبردستی مسلمان بناؤ۔ ہم نے تو اس کے سامنے اسلام کی خوبیاںرکھنی ہیں ۔ اسلام کے مذہب کی تعلیم کہ Christianityیہ کہتی ہے اسلام یہ کہتا ہے۔ حضرت عیسیٰ کی اپنی پیشگوئیاں ہیں عیسائیت کی اپنی پیشگوئیاں کیا ہیں یا حضرت موسیٰ کی اپنی پیشگوئیاں کیا ہیں جنہیں یہ لوگ مانتے ہیں تورات اور انجیل کو مانتے ہیں بائبل پہ یقین رکھتے ہیں تو وہ جب اس کو دیکھ لیتا ہے بہت سارے practising christians ہیں جب وہ دیکھتے ہیں، سوچتے ہیں اور ساری پیشگوئیاں دیکھتے ہیں اور بائبل کی بھی پیشگوئیوں کو پورا ہوتا دیکھتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو ہے کہ فاران کے پہاڑوں سے آئے گا اس پیشگوئی کو پورا ہوتا دیکھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ہاں بات تو سچی ہے۔ بائبل کی ہی بعض پیشگوئیاں ہیں جن میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنا تھا اور ایک آخری زمانے میںنبی نے آنا تھا۔ یہ سارے پرانے نبیوں نے پیشگوئیاں کی ہوئی ہیں تو اُس کو اگر اس تعلیم کی سمجھ آ جاتی ہے اور وہ سن لیتا ہے اور مان لیتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن قرآن کریم نے تو کہہ دیا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہم نے زبردستی کسی کو مسلمان نہیں بنانا۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو کہا ہی نہیں کہ زبردستی بناؤ، نہ اسلام نے کبھی زبردستی بنایا۔ بلکہ جنگیں جو ہوتی ہیں اسلام پر الزام لگایا جاتا ہے کہ جنگیں اسلام نے کیں اسلام پھیلانے کیلئے اسلام نے جنگیں نہیں کیں اسلام پھیلانے کیلئے مذہب کا معاملہ دل کے ساتھ ہے کسی کے دل کو ہم نہیں بدل سکتے ہاں اگر کسی کو سمجھ آ جائے وہ اس سے بدلتا ہے۔ عیسائی جو ہیں افریقن جو ہیں وہ بہت اچھے practisingعیسائی ہیں یورپین تو پریکٹسنگ عیسائی ہیں ہی نہیں اور وہاں بہت سارے ہیں جو احمدیت اور اسلام قبول کر رہے ہیں۔ یورپ میں بھی بعض لوگ ہیں جو عیسائیت قبول کر لیتے ہیں لیکن افریقہ میں تو پریکٹسنگ ہیں اور وہ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ ہمارے جو شروع کے جو احمدی ہوئے ہیں ویسٹ افریقہ میں مثلاً سارے کے سارے عیسائیت سے ہی اسلام میں داخل ہوئے۔ اور احمدی ہوئے۔ تو اصل چیز یہ ہے کہ دل کا معاملہ ہے ہم نے زبردستی کسی کو نہیں منانا۔

پھر اس ممبر لجنہ نے عرض کی کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خدام کے ساتھ کلاس میں سورج مغرب سے نکلے گا کی پیشگوئی کے بارے میں د عا کی ہدایت کی۔ پیارے حضور خاکسار اس بارے میں کچھ کہنے کی اجازت چاہتی ہے۔حضور انور نے فرمایا ’ہاں فرماؤ‘۔ اس پر انہوں نے عرض کی کہ پچھلے تیس سالوں سے خلافت کا سورج مغرب کو اپنی روشنی سے منور کر رہا ہے تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سورج مغرب سے نکلنے کی پیشگوئی پوری ہو رہی ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ ہو رہی ہے ایک لحاظ سے تو ہورہا ہے مغرب سے اسلام کی تعلیم پھیل رہی ہے دنیا میں، خلافت یہاں ہے اس لحاظ سے ایک لحاظ سے ایک ذوقی تشریح ہے، لے سکتے ہو یہ مطلب۔ لیکن اصل چیز یہ ہے کہ یہاں اسی تبلیغ سے ایک وقت آئے گا یہ بھی اس کا مطلب ہے کہ ایک وقت آئے گا جب مغرب کے لوگ زیادہ اسلام کو قبول کریں گے اور جب یہ اسلام کو قبول کریںگے جس طرح رومن حکومت کے زمانے میں ہوا تھا عیسائیت بادشاہ نے قبول کر لی تھی تو پھر اسلام کی تبلیغ تو جلدی دنیا میں پھیلے گی۔ سمجھ آئی۔ تو یہ بھی ہے کہ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ جہاں دعا کریں وہاں تبلیغ بھی کریں اور اپنے نمونے بھی دکھائیں تا کہ یہ لوگ جو مغرب میں رہنے والے ہیں یہ مذہب کو سمجھ کے اس کو قبول کریں۔جب یہ قبول کریں گے اسلام کی تعلیم زیادہ جلدی تعلیم پھیلنی شروع ہو جائے گی ان شاء اللہ۔ اور یہ مطلب بھی ہے تم کہہ رہی ہو یہ بھی ٹھیک ہے کوئی ایسی بات نہیں، لے سکتی ہو یہ مطلب۔ ماشاء اللہ بڑا اچھا پردہ کیا ہوا ہے۔

ایک اَور لجنہ نے سوال کیا کہ مینٹل ہیلتھ کی بیماری کو اس طرح اہمیت نہیں دی جاتی جس طرح دیگر امراض کو دی جاتی ہے اور اس سلسلہ میں حضور انور کی راہنمائی کی درخواست ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ اگر کوئی تھوڑا بہت ذہنی ڈپریشن ہو جاتا ہے کسی کو یا کوئی اور ذہنی بیماری ہو جاتی ہے کسی وجہ سے بعض آٹسٹک(autistic) ہو جاتے ہیں بچے یا بڑی عمر میں آکر بعض دفعہ آٹسٹک ہوجاتے ہیں تو ان کا صحیح طرح علاج ہونا چاہئے ان کی صحیح طرح نگہداشت ہونی چاہئے ان کا خیال رکھنا چاہئے ان کی فکر کرنی چاہئے اور جو ممکن علاج ہے اس کو کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ان کے جذبات کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ جو نہیں کرتے وہ بیوقوف لوگ ہوتے ہیں۔ میں تو یہی کہہ سکتا ہوں اور کیا کہوں۔

ایک ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ کیا حضور ہمارے ساتھ اپنی بچپن کی کوئی یاد جو آپ کو اکثر یاد آتی ہووہ شیئر کر سکتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ میں بچپن کی یادیں بھول گیا ہوں۔ بچپن کی ایسی یادیں نہیں۔ تم لوگوں کی طرح میں یادیں نہیں رکھا کرتا بچپن کی۔ آج کل کے بچوں کو بڑا شوق ہے یادیں رکھنا بچپن کی لیکن بہرحال ایک دفعہ میں چھوٹا سا تھا تو ہمارے دادا حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے کہا حضرت خلیفہ ثانی کو ملنا ہے تو مجھے ساتھ لے گئے وہ۔ دن کا وقت تھا اور حضرت خلیفۃ ثانی اوپر اپنے گھر کے اوپر فرسٹ فلور میں رہتے تھے نیچے سے مجھے بھیجا جاکے اطلاع کرو۔ یہ نہیں ہے کہ چھوٹا بھائی ہو تو گھر چلے گئے ایک دم۔ جا کے اطلاع کرو کہ میں آیا ہوں ملنے کیلئے۔ حضرت خلیفۃ ثانی تھوڑے سے بیمار تھے لیٹے ہوئے تھے تو حضرت چھوٹی آپا تھیں وہاں ان کو میں نے کہا تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے بلا لاؤ۔ کرسی رکھ دی۔ حضرت خلیفہ ثانی وہاں لیٹے ہوئے تھے حضرت مرزا شریف احمد صاحب آئے۔ وہ آکے تو ان سے باتیں کرنے لگے کرسی پہ نہیں بیٹھے انہوں نے کرسی پیچھے ہٹا دی۔ خلیفہ ثانی پلنگ پہ لیٹے ہوئے تھے۔نیچے دری بچھی ہوئی تھی نیچے بیٹھ گئے مرزا شریف احمد صاحب اور باتیں کرتے رہے اور باتیں تو مجھے یاد نہیں میں چھوٹا سا تھا آٹھ نو سال کا یا دس سال کا ہوں گا۔ تو بہرحال وہ باتیں کر کے اسی طرح اٹھے اور الٹے قدموں واپس چلے گئے بڑا ادب اور احترام اور لحاظ تھا خلیفہ وقت کا باوجود بھائی ہونے کے احترام اور لحاظ کرتے تھے۔ تو ایسی باتیں بعض جو تربیت والی ہیں وہ ذہن میں رہ جاتی ہیں تو یہ بڑی مجھے اچھی طرح نقش ہے میرے ذہن میں اور اسی طرح اور بعض باتیں۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحب مجھے قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے۔ ان کے پاس تو قرآن شریف نہیں ہوتا تھا لیکن جہاںکہیں میں زبر زیرپیش کی غلطی کرتا تھا نہ فوراً مجھے کہتے تھے یہاں تم نے اس طرح نہیں پڑھا یہاں پیش ہے یہاں زبر ہے اس کو’آ‘ کرنا ہے یا اُو کرنا ہے جو آواز نکالنی ہے اس طرح ان لوگوں کو زبانی قرآن کریم (یادتھا)حافظ نہ ہونے کے باوجود ہر بات اس طرح زبانی یاد تھی۔ تو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں تو یہ پہلا واقعہ تو میں پہلے بھی کہیں بیان کر چکا ہوں۔ پھر یہ کہ ہمارے ہاں بڑے ہیں بغیر اجازت لیے بچوں کو لے جاتے ہیں۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحب ہمارے دادا نےکبھی مجھے اپنے ساتھ باہر لے کے جانا ہوتا تھا ناں تو پہلے آ کے ہماری والدہ سے پوچھتے تھے کہ اس کو میں ساتھ لے جاؤں باہر۔ انہوں نے اجازت دے دی تو پھر ٹھیک ہے پھر ساتھ لے کر گئے۔ اب یہاں بچوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں دادا دادی نانا نانی اور پتہ بھی نہیں لگتا کہ کہاں گئے بچے۔ تو اس قسم کی حرکتیں نہیں کرتے تھے وہ بزرگ۔

ایک اَور ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ تھیوری آف ایوولیوشن کے بارے میں اسلامی نظریہ کیا ہے اور اس کو ہم ان لوگوں کو کیسے سمجھا سکتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ سوال یہ ہے کہ ایوولیوشن تو ہوا انسان کا۔ یہ نہیں ہم مانتے جو ڈارون کی تھیوری ہے کہ کیڑا تھا یا بندر تھا یا بیٹل تھا یا جانور تھا تو اس سے انسان بن گیا۔ انسان تھا لیکن اس کی اپنی stages تھیں شروع کی۔ Initial stages میں اسکی بالکل حرکتیں ایسی تھیں جیسے وہ بندر والا cave میں رہنے والا یا جنگلوں میں رہنے والا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کو عقل آتی رہی ڈیویلپمنٹ ہوتی رہی لیکن بندر جو تھا اس سے بندر کی نسل چلی ہے جو انسان تھا اس سے انسان کی نسل ہی چلی۔ تو ایوولیوشن کو تو ہم مانتے ہیں کہ ہوا قرآن کریم میں بھی ہے لکھا ہوا ہے ایوولیوشن ہے اور یہ انسان جو ہے اس حالت میں پہنچا اور ابھی تک ایولیوشن ہو رہاہے اس لیے ہم تو یہ نہیں کہتے کہ ایوولیوشن نہیں ہوا انسان کا ایوولیوشن ہوا اور اس سٹیج پر پہنچا ابھی مختلف حالتیں پیدا ہوتی جا رہی ہیں لیکن جو بندر تھے وہ بندر تھے، جو بیٹل تھے وہ بیٹل تھے، جو جانور تھے وہ جانور تھے۔ یہ ہم نہیں مانتے کہ ڈارون کی تھیوری صحیح ہے لیکن یہ ہم مانتے ہیں کہ ایوولیوشن ضرور ہوا۔

ایک اَور ممبرلجنہ نے سوال کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق کیسے جوڑ سکتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ اپنی روزمرہ کی پنجوقتہ نمازیں اس طرح ادا کریں کہ آپ کو لذت محسوس ہو۔ اگر آپ تیزی سے اپنی نمازیں ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ کسی سہیلی کے گھر جاتی ہیں اور ان کے گھر کی گھنٹی بجاتی ہیں اور باہر کھڑے کھڑے ہی ان کو ملتی ہیں اور تیزی سے واپس چلی جاتی ہیں تو آپ کی وہ سہیلی بھی حیران ہو گی کہ یہ کس قسم کی سہیلی ہے کہ باوجود اس کو اند ر بلانے کےیہ اندر نہیں آئی، چائے نہیں پی اور ساتھ میں وقت بھی نہیں گزارا۔ یہ ایک سہیلی کیسے ہو سکتی ہے۔ وہ ہر گز اچھی سہیلی نہیں ہو سکتی۔ اچھے دوست وہ ہوتے ہیں جو اکٹھے بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں اور اپنی خوشیاں اور غم ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ کی عبادت کرنا ہماری تخلیق کا مقصد ہے اس لیے ہمیں اس مقصد کو پورا کرنا چاہئے اور بہترین طریق اس کا یہ ہے کہ تم اپنی پنجوقتہ نمازیں اس طرح ادا کرو کہ تمہیں محسوس ہو کہ تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہےاور اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں سن رہاہے۔

(بشکریہ اخبار الفضل انٹرنیشنل 10؍دسمبر 2021)
…٭…٭…٭…