اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-08-17

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ

طلباء مجلس خدام الاحمدیہ مغربی کینیڈا کی آن لائن ملاقات اور حضور انور کی زرّیں نصائح

چندہ ، صدر مجلس خدام الاحمدیہ یا جماعت کیلئے نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہے

’کیوں ؟‘کا سوال نئی نسل میں بہت عام ہے، تو آپ کو اس ’کیوں‘کا جواب دینا ہوگا

عہدیداران کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے کہ جو بھی وہ کررہے ہیں کیا وہ قرآنی تعلیمات کے مطابق ہے ، اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ہے یا نہیں

جماعتی عہدیداران کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کی طرف سے احباب جماعت کو کوئی منفی رویہ دیکھنے کو نہ ملے

وہ لوگ جو شوریٰ کے فیصلوں پر عمل نہیں کرتے یا جن کو شوریٰ کے فیصلہ جات کے بارے میں کسی قسم کے بھی تحفظات ہیں

وہ در حقیقت خلیفۃ المسیح کے فیصلہ جات کا انکار کر رہے ہیں کیونکہ شوریٰ کے جملہ فیصلہ جات کی منظوری خلیفۃ المسیح نے دی ہوئی ہوتی ہے

اگر آپ کے ساتھ کے طلباء آپ سے گفتگو نہیں کرنا چاہتے یا آپ کی بات نہیں سننا چاہتے تو پھر آپ ان کیلئے دعا کریں

آپ کا ذاتی رویہ اور شخصیت بھی اسلام کی تبلیغ کو پھیلانے میں نہایت اہم ہے ،اس لئے آپ میں اور غیروں میں نمایاں فرق ہونا چاہئے

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ طلباء مجلس خدام الاحمدیہ مغربی کینیڈا کی آن لائن ملاقات اور حضور انور کی زرّیں نصائح

 

امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 23؍ اکتوبر 2021ء کو طلبہ مجلس خدام الاحمدیہ مغربی کینیڈا کے ساتھ آن لائن ملاقات فرمائی۔حضورانور اس ملاقات کیلئے اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز میں رونق افروز ہوئے جبکہ 115 طلباء نےبیت النور کیلگری کینیڈا سے آن لائن شرکت کی۔ ملاقات کا آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا، جس کےبعد طلباءکو حضور انور کی خدمت میں سوالات پیش کرنے کا موقع ملا۔

ایک خادم نے عرض کیا کہ حضورانور یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ بعض خدام گریجوایٹ ہونے کے بعد بھی طلباءکی شرح کے مطابق ہی چندہ دے رہے ہوتے ہیں۔
حضورانور نے فرمایا کہ ا گر وہ کام کر رہے ہیں یا وظیفہ یا کوئی سکالر شپ یا کوئی جیب خرچ مل رہا ہے تو انہیں اس کے مطابق ادائیگی کرنی چاہئے جو وہ باقاعدگی سے حاصل کر رہے ہیں۔ وہ جن کی کوئی آمدنی نہیں ہے، نہ ہی وہ والدین سے کوئی جیب خرچ لے رہے ہیں اور کوئی سکالر شپ بھی نہیں ہے(وہ اس شرح پر چندہ دے سکتے ہیں)۔ بعض طلبہ ایسے ہیں جو تحقیق کر رہے ہیں اور انہیں بھی کچھ معمولی سی رقم یا وظیفہ مل رہاہے تو انہیں اس کےمطابق ادائیگی کرنی چاہئے۔ تو آپ انہیں کہہ سکتے ہیں کہ اگر تم کما رہے ہو تو یہی بہتر ہے کہ شرح کے مطابق چندہ ادا کرو۔ کیونکہ تم یہ چندہ صدر مجلس خدام الاحمدیہ کو یا جماعت کو نہیں دے رہےبلکہ محض اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوشنودی حاصل کرنے کیلئے دے رہے ہو۔ یہ قرآنی احکامات میں سے ایک حکم ہے۔ دیکھو یہ قرآن کریم کے ابتدا میں بیان فرمودہ احکامات میں سے ایک حکم ہے۔ اس لیے اگر وہ کہتے ہیں کہ ہم روزمرہ کے اخراجات پورے کر رہے ہیں اور ہم شرح کے مطابق چندہ ادا نہیں کر سکتے تو پھر وہ صدر صاحب کو درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ خدام کے چندہ سے رعایت دیں اور اگر وہ جماعتی چندہ ہے تو پھر وہ نظام جماعت سے اجازت لے سکتے ہیں کہ فلاں فلاں وجوہات کی بناپر میں شرح کے مطابق چندہ دینے سے قاصر ہوں۔ ہم تو صرف ان سے درخواست کر سکتے ہیں، انہیں نصیحت کر سکتے ہیں، انہیں مجبور نہیں کر سکتے۔ اگر وہ یہ بات سمجھ جائیں کہ وہ یہ چندہ اللہ تعالیٰ کی خاطر دے رہے ہیں اور اللہ کی محبت کے حصول کیلئے دے رہے ہیں کیونکہ اللہ نے انہیں حکم دیاہے کہ وہ اپنی بہتری کیلئے چندہ دیں اور جماعت کے روزمرہ اخراجات کیلئے چندہ دیں۔ اگر وہ یہ بات سمجھ جائیں کہ یہ چندہ ایک خاص اور اچھےمقصد کیلئے استعمال ہو رہا ہے تو پھر وہ ادائیگی بھی کریں گے۔ اس لیے آپ کو انہیں سمجھانا ہوگا کہ آپ یہ چندہ کہاں خرچ کر رہے ہیں۔ جب میں تحریکِ جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں تو بسا اوقات میں یہ تفصیل بھی بتا دیتا ہوں کہ یہ رقم افریقہ میں اس مقصد کیلئے خرچ ہو رہی ہے،کسی فلاں مقصد کیلئے قادیان میں یا انڈیا میں خرچ ہو رہی ہے یا دنیا کے کسی دوسرے حصے میں (خرچ ہو رہی ہے)۔ بعد میں کئی لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ آپ کا خطبہ سننے کے بعد اب ہمیں احساس ہوا ہے کہ ہمیں کیوں چندہ دینا چاہئے۔ اور یہ کہ اب ہم اپنی استطاعت اور شرح کے مطابق چندہ دیں گے۔ اس لیے انہیں غلط طریق پر پیچھے دھکیلنے کی بجائے آپ انہیں توجہ دلائیں کہ ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور انہیں کیوں چندہ ادا کرنا چاہئے۔ ’کیوں؟‘ (کا سوال) نئی نسل میں بہت عام ہے۔ تو آپ کو اس ’کیوں‘ کا جواب دینا ہوگا۔ آپ نے اس ’کیوں‘ کا حل نکالنا ہے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ بعض اوقات ہم لوگوں کو نظام جماعت کے خلاف بات کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، ایسے موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہئے۔
حضورانور نے فرمایا کہ دیکھیں، پہلی بات یہ ہے کہ عہدیداران کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے کہ جو بھی وہ کر رہے ہیں کیا وہ قرآنی تعلیمات کے مطابق ہے، اللہ تعالیٰ اور آنحضرتﷺ کی تعلیمات کے مطابق ہے یا نہیں۔ اگر عہدیداران ٹھیک ہیں اور اللہ کے خوف سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے والے ہیں تو پھر ان سے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے اور الزام ان لوگوں پر آئے گا جو عہدیداران کے خلاف منفی باتیں کر رہے ہیں۔ بعض اوقات عہدیداران کے رویوں کی وجہ سے چند لوگوں کو ان عہدیداران کے خلاف کچھ شکایات بھی ہوتی ہیں۔ اس لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ جماعتی عہدیداران کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کی طرف سے احبابِ جماعت کو کوئی منفی رویہ دیکھنے کو نہ ملے۔ انہیں کیوں عہدیداران سے شکایا ت ہیں یا وہ ان کے بارے میں بد کلامی کرتے ہیں، اس لیے کہ ان کے ذاتی تجربات ہیں اور شکایات ہیں۔ اور پھر وہ ذاتی شکایات کی وجہ سے نظام جماعت کے خلاف بولتے ہیں۔ اس لیے اگر وہ آپ کے قریبی دوست ہیں تو پھر آپ انہیں بتا سکتے ہیں کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اگر آپ کو کسی عہدیدار سےکوئی ذاتی شکایت ہے تو پھر بھی آپ کو نظام جماعت کے خلاف کوئی بری بات نہیں کہنی چاہئے۔ آپ کے اپنے ذاتی اختلافات ہوسکتے ہیں جو حل کیے جا سکتے ہیں یا آپ بالا نظام یا خلیفہ وقت تک اس معاملہ کو لے جاسکتے ہیں۔ لیکن اگر اس کے بعد بھی وہ نہیں رکتے یا اس بات پر مصر رہتے ہیں تو آپ ان کیلئے دعا کریں اور کچھ وقت کیلئے ان کی صحبت چھوڑ دیں تاکہ انہیں احساس ہو جائے کہ وہ جو کر رہے تھے وہ غلط تھا اور اس کی وجہ سے ان کا ایک قریبی دوست ان سے دور ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کیلئے دعا بھی کرتے رہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ بات جماعت کو بدنام کر رہی ہے یا جماعت کونقصان پہنچا رہی ہے توپھر آپ کو بالائی نظام کو مطلع کرنا چاہئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نظام جماعت کے خلاف باتیں کر ر ہے ہیں، صرف عہدیداران کے بارے میں نہیں بلکہ نظام جماعت کے بارے میں بھی۔ تو یہ آپ کا فرض ہے۔ لیکن پہلی چیز یہ ہے کہ انہیں نصیحت کریں اور اگر وہ آپ کے قریبی دوست ہیں تو نرمی سے انہیں سمجھا ئیں کہ نہیں یہ درست رویہ نہیں ہے۔ یہ بات کرنے کا درست طریق نہیں ہے۔ یہ جماعت کو نقصان نہیں پہنچائے گا بلکہ یہ آپ کیلئے نقصان کا باعث ہوگا اس لیے اس معاملے کو چھوڑ دیں۔ تو یہ وہ طریقہ ہے جس سے ہم انہیں نصیحت کر سکتے ہیں۔ اگر وہ توبہ کرنے کی کوشش نہیں کرتےتو پھر ان کی صحبت چھوڑ دو۔ لیکن ان کو صرف چھوڑ نہیں دینابلکہ ان کیلئے دعا بھی کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں گمراہ ہونے سے بچائے۔

ایک اور خادم نے سوال کیا کہ اس وبا کے دوران ہماری زندگیوں میں بہت تبدیلی آئی ہے، چند مثبت چیزیں بھی ہوئی ہیں جیسے حضورانور سے کلاسز کے ذریعہ ملاقات کا نصیب ہونا جو ہم اب بھی کر رہے ہیں، حضورانور کا اس بارے میں کیا خیال ہے کہ ہم کب ذاتی ملاقاتیں کر سکیں گے۔
حضورا نور نے فرمایا کہ دیکھیں، آپ اس وقت کیلگری کینیڈا میں بیٹھے ہیں جو یہاں سے آٹھ ہزار کلو میٹر یا اس سے زیادہ دور ہے۔ تو آپ جب بھی لندن آئیں تو آپ مجھے مل سکتے ہیں۔ میں نے احباب سےذاتی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ لیکن اس سے ہٹ کر بھی یہ ایک نیا راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے کھولا ہےتو ہم اس سے مستفید ہو رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ راستہ بھی بند نہیں ہوا۔ وہ بھی کھلا ہے۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ میں کینیڈا کب آؤں گا، آپ سے ملنے کیلئے تو یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ لیکن جہاں تک آپ کا تعلق ہے تو آپ مجھ سے یہاں لندن ملنے آسکتے ہیں، اسلام آباد میں، لندن میں نہیں۔ ٹھیک ہے۔

ایک دوسرے خادم نے سوال کیاکہ بسا اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عہدیدار کو ایک فیصلے کے بارے میں کچھ تحفظات ہوتے ہیں جبکہ وہ فیصلہ اجتماعی طور پر طے ہو چکا ہوتا ہے مثلاً عاملہ کے اجلاس میں۔ ایسی صورتحال میں حضور ا نور کی کیا ہدایت ہے؟
حضورانور نے فرمایا کہ دیکھیں، آج کی دنیا میں ہم جمہوریت کو تسلیم کرتے ہیں۔ جب مجلس عاملہ کی اکثریت کوئی فیصلہ کرتی ہے تو ہمیں اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس پر کاربند ہو نا چاہئے۔ اور اگر کوئی فیصلہ شوریٰ میں طے ہوتا ہے تو شوریٰ میں کیا گیا کوئی بھی فیصلہ خلیفۃ المسیح کی خدمت میں ایک تجویز ہوتی ہے اور آپ کی تمام تجاویز یہاں میرے پاس آتی ہیں۔ میری منظوری کے بعد وہ متعلقہ جماعت یا متعلقہ اتھارٹیز کو عمل در آمد کیلئے واپس بھجوا ئی جاتی ہیں۔ اگر ان کو شوریٰ کے فیصلہ کے بارے میں تحفظات ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خلیفۃ المسیح کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ اگر وہ خلیفۃ المسیح کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں تو پھر ان کے احمدی ہونے کا کیا فائدہ؟ بعض اوقات لوگ کہتے ہیں کہ یہ معروف فیصلہ نہیں ہے اور معروف کے معنی یہ ہیں کہ ہر وہ فیصلہ جو قرآن کریم کے مطابق ہو، جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو، جو سنت کے مطابق ہو۔ معروف کی اصطلاح بھی قرآن کریم میں استعمال ہوئی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ کیا ان لوگوں نے آنحضور ﷺ کے معروف اور غیر معروف فیصلوں کی کوئی فہرست تیار کر رکھی ہے۔ آپﷺ کے کون سے فیصلے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق تھے اور معروف تھے اور کون سے غیر معروف تھے۔ تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ اس لیے معروف کو سمجھنے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ معروف کا معنی ہر اس بات کے ہیں جو قرآن کریم کے مطابق ہو، قرآنی احکامات کے مطابق ہو اور آنحضرتﷺ کے مطا بق ہو اور آج کے دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطابق ہو۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ کسی خلیفہ نے اس کے خلاف کوئی بات کہی ہو۔ اس لیے وہ لوگ جو شوریٰ کے فیصلوں پر عمل نہیں کرتے یا جن کو شوریٰ کے فیصلہ جات کے بارے میں کسی قسم کے بھی تحفظات ہیں وہ در حقیقت خلیفۃ المسیح کے فیصلہ جات کا انکار کر رہے ہیں۔ کیونکہ شوریٰ کے جملہ فیصلہ جات کی منظوری خلیفۃ المسیح نے دی ہوئی ہوتی ہے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ ایک پیشگوئی ہے کہ سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔ میرا سوال یہ ہےکہ یہ واقعہ کس دَور میں پورا ہوگا۔ اور بطور احمدی اس حوالے سے ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں؟
حضورانور نے فرمایا کہ ہم آپ کو معین وقت تو نہیں بتا سکتے۔ یہ ایک پیشگوئی ہے جو ان شاء اللہ اپنے وقت پر پوری ہوگی۔ لیکن ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی دعاؤں، اپنے اعمال اور اپنے علم کے ذریعہ اس مقصد کو جلد از جلد حاصل کرلیں۔ بلکہ اپنے دور میں ہی پورا کرلیں۔ عین ممکن ہے کہ ہم اس پیشگوئی کو اپنے دور میں پورا ہوتا دیکھیں۔ اگر آپ اللہ کے سامنے جھکیں گے اور پانچوں نمازیں وقت پر ادا کریں گے، یہ دعا کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو یہ موقع عطا فرمائے کہ آپ اس پیشگوئی کو پورا ہوتا دیکھیں۔ اور جب آپ کا ہر عمل اسلام کی تعلیم اور قرآن کریم کے مطابق ہوگا اور احمدیوں کی اکثریت اس کے مطابق عمل کرے تو پھر آپ اس پیشگوئی کو اپنے دور میں پورا ہوتا دیکھ سکیں گے۔ لیکن اگر ابھی نہیں تو پھر جب اللہ تعالیٰ چاہے گا اسے اپنے وقت پر پورا کردے گا۔

ایک خادم نے پوچھا کہ کیا کچھ گناہ جیسے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دینا اور دیگر کبائر گناہ جیسے قتل یا چوری ایک جیسے ہی ہیں؟
حضورانور نے فرمایا کہ کسی کا قتل یا چوری ایک ایسا گناہ ہے جو دوسروں کی حق تلفی ہے یا دوسرے انسانوں کے ساتھ درندگی سے پیش آنا ہے۔ جہاں تک نماز چھوڑنے کا تعلق ہے یا روزہ نہ رکھنا ہے خاص طور پر جب کوئی حقیقی وجہ بھی نہ ہو تو یہ ایسی مثالیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر جو ایک سچے مسلمان پر فرض ہیں ان سے رو گردانی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارے ایسے گناہ بخش سکتا ہوں جو میری ذات سے تعلق رکھتے ہیں یا حقوق اللہ میں کوتاہی سے متعلق ہیں یا جو دوسروں کے حقوق پر اثر انداز نہیں ہوتے لیکن میں تمہارے گناہ معاف نہیں کروں گا جو تم حقوق العباد کے حوالہ سے کرتے ہو۔ میں تمہیں معاف نہیں کروں گا اگر تم لوگوں کے حقوق میں تجاوز کرو گے۔ اس لیے قتل یا چوری نماز چھوڑنے سے زیادہ بڑے گناہ ہیں۔
حضورانور نے مزید فرمایا کہ تاہم نماز لوگوں پر فرض کی گئی ہے۔ اسی لیے ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو ادا کریں۔ بسا اوقات جب آپ نماز ادا کر رہے ہوتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی کسی کے ساتھ کچھ غلط کر رہاہے اور وہ آدمی مدد کیلئے پکار رہاہے تو آپ کو اپنی نماز توڑ کر اس کی مدد کرنی چاہئے۔ یہ پہلی ترجیح ہے۔ یہ آنحضرتﷺ کی ایک حدیث میں بھی ہے۔ یوں حقوق العباد کا ادا کرنا بہت ضروری ہے اور ساتھ ساتھ حقوق اللہ کا ادا کرنا بھی بہت اہم ہے، اور اگر آپ نماز پڑھ رہے ہیں یا روزہ رکھ رہےہیں تو آپ صرف فرائض ادا نہیں کر رہے بلکہ آپ اپنی اصلاح بھی کر رہے ہیں۔ ان چیزوں کی مدد سے آپ اپنی روحانیت، نیکی اور تقویٰ میں اضافہ کرتے ہیں ۔

ایک اور خادم نے سوال کیاکہ وہ اپنے ساتھ پڑھنے والے طلباء کو کس طرح اسلام کا پیغام پہنچائے، خاص طور پر اس ماحول میں جو غیر مذہبی ماحول ہے جہاں مذہب کو حساس موضوع قرار دیا جاتا ہے؟
حضورانور نے فرمایا کہ اگر یہ ایک حساس موضو ع ہے اور آپ کے ساتھ طلبہ اس بارے میں آپ سے گفتگو نہیں کرنا چاہتے یا آپ کی بات نہیں سننا چاہتے تو پھر آپ ان کیلئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو بدلے۔ یوں بنی نوع انسان سے ہمدردی اور محبت کا تقاضا ہے کہ آپ ان کیلئے دعا کریں اور اللہ تعالیٰ آپ کی دعائیں سنے گا۔ اگر آپ کا اپنا رویہ مذہب کی مثبت عکاسی کرے گا اور وہ آپ میں ایسی مختلف بات محسوس کریں گے جو ان میں نہیں ہے تو پھر وہ بھی متوجہ ہوں گے۔ یوں آپ کا ذاتی رویہ اور شخصیت بھی اسلام کی تبلیغ کو پھیلانے میں نہایت اہم ہے اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف لانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ دعا کریں دوسرا یہ کہ آپ میں اور غیروں میں نمایاں فرق ہونا چاہئے۔

(بشکریہ اخبار الفضل ا نٹرنیشنل 12؍نومبر2021)
…٭…٭…٭…