10؍اکتوبر 2021ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نو مبائعین مجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا کے ساتھ آن لائن ملاقات فرمائی۔حضور انور اس ملاقات کے لئے اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوزمیں رونق افروز ہوئے جبکہ 20نو مبائعین نے ایوان طاہر ہال، پیس ولیج ٹورونٹو سے آن لائن شرکت کی۔
اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا، جس کے بعد نو مبائعین کو حضور انور کی خدمت میںاپنا تعارف پیش کرنے اور اپنے ذاتی حالات بیان کرنے کا موقع ملا کہ انہوں نے کس طرح احمدیت قبول کی ۔
حضور انور نےایک نو مبائع خادم جناب Tony صاحب سے پوچھا کہ انہوں نے احمدیت کب اور کیوں قبول کی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے جولائی میں بیعت کی۔ وہ اپنی زندگی کے مشکل ترین حالات سے گزر رہے تھے۔ اور میرے ساتھ ایک co-worker تھیں جو اس وقت میرا خیال رکھ رہی تھیں۔ حضور انور کے استفسار پر Tony صاحب نے بتایا کہ وہ اسلام کے بارے میں مزید سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جس پر حضور انور نے خوشنودی سے فرمایا اچھا، ماشاء اللہ۔
ایک اَور نو مبائع نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ ان کا نام محمد مہد امجد ہے۔ اور وہ کینیڈا سے ہیں جبکہ ویسے ان کا تعلق لاہور پاکستان سے ہے۔ نیز بتایا کہ وہ اپنی فیملی میں پہلے احمدی ہیں اور ان کا سب گھر والوں سے رابطہ ختم ہوگیا ہے اور اب بس اللہ ہے اور وہ ہیں ۔
اس پر حضور انور نے ان سے دریافت فرمایا کہ انہوں نے بیعت کرکے کیوں اپنے آپ کو مشکل میں ڈالا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہر انسان نے مرنا ہے۔ اور مجھے یہ ڈر تھا کہ میں اگر مر گیا تو کیا ہوگا۔ مجھے کسی نے بس ایک رستہ دکھایا کہ حضرت امام مہدی، جس کا سنی فرقہ والے ابھی تک انتظار کر رہے ہیں، وہ آگئے ہیں۔ اس پر میں نے جماعت کی بہت سی کتب پڑھیں اور اس کے بعد مجھے ایسا لگا کہ مجھے احمدیت قبول کرنی چاہیے۔چنانچہ میں نے بیعت کرلی۔ موصوف نے حضور انور سے اپنی فیملی اور خاص کر اپنی والدہ کے لیے درخواست دعا کی۔
حضور انور نے فرمایا کہ اللہ فضل کرے۔ جس پر موصوف نے حضور انور کا شکریہ ادا کیا۔
ایک اَور نومبائع مکرم Sergiu صاحب نے بتایا کہ انہوں نے اپریل 2018ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت میں ایک بہکی ہوئی روح تھا اور مجھے کسی جماعت کا حصہ بننا تھا۔ اور میں نے یہاں پر چند جلسہ ہائے سالانہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس کے ماحول نے اور خوش آمدید کہنے والے دوستوں نے بہت اچھی طرح خوش آمدید کیا تھا۔ حضو ر انور نے استفسار فرمایا کہ کیا آپ کا تعلق عیسائیت سے تھا؟انہوں نے بتایا کہ جی حضور۔ پھر حضور انور نے احمدیت میں داخل ہو نے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ میں جس یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں وہاں ایک دوست سے ملاقات ہوئی جنہوں نے مجھے مسلسل دو سال جلسہ سالانہ پر مدعو کیا۔ ایک جلسہ وہ تھا جب 2016ء میں آپ تشریف لائے تھے اور وہاں جو slogan آویزاں تھا کہ Love for all Hatred for none یہ مجھے بہت اچھا لگا تو میں ایسی جماعت کا حصہ بننا چاہتا تھا جو دوسری جماعتوں کے لیے بھی متاثر کن ہو۔ حضور انور نے فرمایا ، اچھا ، اللہ آپ کو اپنے فضلوں سے نوازے۔
پھر ایک نو مبائع مکرم Mark صاحب سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ انہوں نے احمدیت قبول کیوں کی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ جب وہ فلپائن میں تھے تو انہوں نے مذہب کے بارے میں بہت ریسرچ کی ۔ کیونکہ ان کا دل عیسائیت سے بھر چکا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ پھر جب میں کینیڈا آیا تو میرے ایک co-workerنے مجھے احمدیت کا تعارف کروایا اور میری ان سے بحثیں ہوتی رہیں۔ پھر یکم اگست 2018ء کو میں نے احمدیت قبول کر لی۔
ایک اَور نومبائع مکرم Sadat صاحب نے بتایا کہ انہوں نے احمدیت رمضان 2020ء میں قبول کی تھی۔ حضور انور کے استفسار پر کہ انہوں نے احمدیت کیوں قبول کی انہوں نے بتایا کہ وہ چند احمدی دوستوں سے گزشتہ پندر ہ سال سے رابطے میں تھے۔ حضور انور نے ان سے پوچھا کہ آپ کی عمر کتنی ہے تو انہوں نے بتایا کہ حضور 35 سال ہے۔ اس پر حضورانور نے فرمایا کہ آپ نے اپنی آدھی زندگی تو بحث کرنے میں گزار دی ہے۔ تو انہوں نے بتایا کہ اصل میں شروع میں دہریت کی طرف جا رہا تھا۔ پھر کچھ دوستوں نے مجھے قائل کیا کہ وہ غلط راستہ ہے، دماغ بھی نہیں مانتا تھا۔ اسلام کی باتیں تو ٹھیک تھیں لیکن باقی اسلام کو دیکھتا تھا تو …حضور انور نے فرمایا کہ اسلام کی باتیں تو ٹھیک نظر آتی تھیں لیکن عمل صحیح نظر نہیں آتے تھے؟ انہوں نے کہا بالکل صحیح۔ بالکل صحیح۔
پھر انہوں نے بتایا کہ مجھے ملائیشیا میں ایک احمدی دوست ملا، اس کو میں نے دیکھا تو اس میں مَیں نے عمل دیکھا۔ غیر احمدی اس کے ساتھ بحث کرنے آتے تھے تو وہ کافی اچھے طریقے سے سوالات کے جوابات دیتا تھا اور اس کے دلائل بھی معقول تھے۔ باقی لوگ جو تھے ان کی بات بھی سمجھ نہیں آرہی ہوتی تھی۔ جب میں کینیڈا آیا تو تب میں تھوڑا سا دہریت کی طرف واپس چلا گیا لیکن پھر مجھے ایسا لگا کہ نہیں یہ غلط راستہ ہے اور پھر میں کیلگری میں مربی صاحب سے ملا پھر تھوڑی بہت بات چیت ہوئی اور جب پچھلے رمضان میں کافی عجیب سا معاملہ ہورہا تھا کیونکہcovidآگیا تھا اور مجھے ایسا لگا کہ نہیں، مجھے اب صحیح طریقے سے اپنا راستہ چننا چاہیے اور میں ڈرتا کیوں ہوں؟ چنانچہ میں نے احمدیت قبول کرلی۔
حضور انور نے فرمایا کہ اچھا ماشاء اللہ۔
ایک نو مبائع نے بتایا کہ ان کا نام کیول گاندھی ہے۔ میراتعلق انڈیا سے ہے، پھر سوئٹزرلینڈ میں رہا اور اب 2018ء سے کینیڈا میں ہوں۔ میں نے پرسوں احمدیت قبول کی ہے۔ حضور انور نے مسکراتےہوئےفرمایا کہ اچھا ، ابھی ابھی پیدائش ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ احمدیت قبول کرنے سے پہلے میں دہریہ تھا۔ میں کسی بھی قسم کے خداؤں میں یقین نہیں رکھتا تھا۔ لیکن میں یقین رکھتا تھا کہ ایک طاقت ہے جو اس دنیا کو کنٹرول کر رہی ہے۔ پھر 2018ء میں جب میں اپنا ماسٹرز کرنے کینیڈا آیا تو میرے پروفیسر ایک احمدی ڈاکٹر تھے۔ تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ہر چیز ایک طاقت کے کنٹرول میں ہے جو خدا ہے۔ میرے کچھ تحفظات تھے کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ سائنس سے سب کچھ بنا ہے۔ پھر تفصیلی ریسرچ کرنے کے بعد مجھے یقین آگیا کہ خدا ہے اور میں ایک خدا پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور اسلام کا بھی یہی ماننا ہے کہ ایک خد اہے۔ اور پھر خاص طور پر احمدیہ جماعت (میں شمولیت اس لیے اختیا ر کی) کیونکہ دیگر مذاہب (کے لوگ) ایسے ہیں جو اپنے مذہب کی حفاظت کے لیے دوسروں کی جان لے سکتے ہیں۔ حضور انور نے ان کی اصلاح کروائی کہ دیگر مذاہب بغیر کسی وجہ کے کسی کی جان لے سکتے ہیں۔ اور وہ صرف جان لے سکنے کی بات نہیں ہے بلکہ وہ جان لیتے ہیں۔ اور احمدیت اگرچہ اسلام کاہی ایک حصہ ہے اور غیر متشدد ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کے امن کے لیے آئندہ یہی ایک راستہ ہے۔ اس لیے میں نے احمدیت قبول کی ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ اچھا ، ماشا ء اللہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مضبوطی عطا فرمائے اور ثابت قدم رکھے۔
ایک دوسرے نو مبائع نے بتایا کہ ا ن کانام Aubrey Bakerہے اور میں نے تین ماہ قبل احمدیت قبول کی ہے۔ میرا تعلق کراچی پاکستان سے ہے۔ جب میں دو سال کا تھا تو ہم ابوظہبی چلے گئے۔ میں ایک کیتھولک خاندان میں بڑا ہوا ہوں۔ کیتھولک چرچ محبت اور ہم آہنگی پر بہت زور دیتا ہے۔ پھر میں جس سکول میں پڑھا وہاں کی Nuns اور Priests کا عمل ان کی تعلیمات کے بالکل متضاد تھا۔ 2005ء میں میری فیملی عیسائیت کے ہی ایک اور فرقہ میں داخل ہو گئی۔ لیکن مجھے پھر بھی تسلی نہ ہوئی۔ 2015ء میں میرا ایمان ہر چیز سے اٹھ گیا تھا۔ چند سالوں بعد میری ملاقات بہت سے احمدی دوستوں سے ہوئی تو مجھے بہت محبت اور اپنائیت ملی آپ کی جماعت میں مجھے حقیقی طور پر محبت سب کے لیے کا عملی نمونہ نظر آیا۔ اس لیے میں اس طرف کھنچ گیا۔
حضور انور نے فرمایا کہ اچھا، ماشاء اللہ۔ تو آپ نے احمدیت اپنے دوستوں کے ذریعہ قبول کی۔ انہوں نے بتایا جی گزشتہ سال قبول کی ہے اور میرا رشتہ بھی اپنے ایک دوست کی بہن سے ہوا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ اچھا، ماشاء اللہ۔ تو آپ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جی حضور۔ حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کا رشتہ با برکت فرمائے۔
ایک اَور نو مبائع دوست نے بتایا کہ میرا نام ہمایوں ہے اور میں نے 2019ء کے آخر میں بیعت کی تھی۔ میرا چھوٹا سا سوال ہے کہ اسلام میں جو خلافت ہے اور جو خلیفہ کا مقام ہے اس کی جو حیثیت ہے وہ مذہبی اور سیاسی طور پہ قرآن اور حدیث کی رو سے اگر آپ مختصراً بیان کر دیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ یہ جو موجودہ خلافت ہے جو امام مہدی کے آنے کے ساتھ شروع ہونی تھی، ان کے آگے ہونی تھی یہ روحانی خلافت ہے، مذہبی اور دینی خلافت ہے۔اس کا دنیاوی چیزوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعض انبیاء پرانے زمانے میں بھی آئے جن کو حکومتیں ملیں اور بعض ایسے تھے جو حکومتوں کے بغیر رہے، اُن کو کوئی حکومت نہیں ملی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کون سی حکومت ملی تھی جو عیسائیوں کے بادشاہ تھے، نبی تھے۔ تین سو دس سال کے بعد جب رومن بادشاہ نے عیسائیت قبول کی تبھی آگے کھل کے عیسائیت کی تبلیغ ہونی شروع ہوئی اور عیسائیت پھیلی۔ تو بہرحال جو احمدیہ خلافت ہے وہ ایک روحانی خلافت ہے۔ ہاں اس خلافت میں بادشاہ یا صدرانِ حکومت وہ احمدیت اور اسلام قبول کریں گے اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بھی فرمایا کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ مطلب یہ تھا یہاں کہ تمہاری روحانی بادشاہت ہے وہ قائم رہے گی اور دنیاوی بادشاہ تمہارے سے برکت
حاصل کریں گے۔ اسی طرح قرآن کریم میں سورۃ الحجرات میں لکھا ہوا ہے کہ جب دو مسلمان گروہ اور حکومتیں لڑپڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔ بڑا کھل کے بڑا واضح ہے کہ اُس وقت ان کی صلح کراؤ اور ان میں آپس میں جو دوسرے ہمسائے ہیں ان کو روکیں، جو ظالم ہے اس کا ہاتھ روکیں اور جب وہ جنگ ختم ہو جائے، لڑائی ختم ہو جائے، صلح ہو جائے تو پھر کسی پہ ظلم نہ کیا جائے بے شک ایک حکومت کی طرف سے زیادتی بھی ہوئی ہے تب بھی اس پہ ظلم نہ کیا جائے۔ صلح ہو گئی تو صلح صفائی سے رہو اور اگر وہ دوبارہ حملہ کریں تو پھر سب مل کے اس کو روکو۔ اُس وقت جب قرآن شریف نازل ہوا ہے ایک مسلمان حکومت تھی وہاں تو دو حکومتوں کا سوال ہی نہیں تھا یا گروہوں کا سوال ہی نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ دنیاوی حکومتیں اپنی جگہ قائم رہیں گی اور ان کے لیے حکم یہ ہے کہ ان کی صلح کرواؤ لیکن جہاں تک دینی اور علمی اور روحانی تعلیم اور ترقی کا سوال ہے وہ خلافت کے ذریعہ سے ہو گا یا مسیح موعود کے ذریعہ سے ہو گا تو یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ اب جو زمانہ ہے اس میں خلافت کا تعلق صرف روحانیت سے اور دین سے ہے۔ ہاں مختلف حکومتوں کے بادشاہ ہوں گے، اسلامی حکومتوں کے بھی ہوں گے وہ روحانی طور پر بھی راہنمائی لیتے رہیں گے اور ہو سکتا ہے بعض دوسرے معاملات میں بھی خلیفۂ وقت سے راہنمائی لیتے رہیں لیکن دنیاوی بادشاہت اب خلافت کے پاس نہیں ہے ہاں دنیاوی بادشاہ روحانی لحاظ سےاس کے ماتحت ضرور ہیں۔
پھر انہوں نے ایک اور چھوٹا سا سوال کرنے کی اجازت چاہی اور بعد اجازت سوال کیا کہ پوری دنیامیں جو مین سٹریم مسلم ہیں جماعت کی نظر میں ان کا کیا سٹیٹس ہے اور ان کے ساتھ پوری دنیا میں جہاں پر بھی جو بھی سلوک ہو رہا ہے وہ ان پر عذاب ہے یا وہ زیادتی ہے، ان کے ساتھ ظلم ہے؟
حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ چھوٹا سا سوال تو نہیں بہت بڑا سوال ہے۔ سوال چھوٹا ہے پر جواب اس کا بڑا ہے۔ بات یہ ہے کہ جو مین سٹریم مسلم ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کہتا ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہکی بھی بات نہیں کی۔ جو کہتا ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ وہ مسلمان ہے تو جولَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہکہتا ہے ہم تو اس کو مسلمان ہی کہتے ہیں۔ ہاں وہ زمانے کے امام اور مسیح موعودؑ کے انکاری اور منکر ہیں اس لحاظ سے اگر ہم ان کو کہتے ہیں کہ تم منکر ہو تو وہ انکاری اگر ہیں تو وہ مسیح موعود کے ہیں اور وہ مسیح موعود جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور جس کی پیشگوئی سورۂ جمعہ میں قرآنِ کریم نے فرمائی، اَور جگہوں پہ بھی فرمائی تو اس لحاظ سے وہ منکرین ہیں لیکن کلمہ پڑھنے کی رو سے جہاں ایک وسیع جو تعریف ہے اسلام کی اس کے تحت وہ مسلمان ہیں۔ ہم ان کو غیرمسلم نہیں کہتے کیونکہ وہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یہ کیا ہو رہا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا تو وعدہ تھا کہ جب مسلمان کافروں سے لڑائی کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا اور وہ جیتیں گے۔ یہی وعدہ تھا اور یہی اسلامی تاریخ میں ہم نے دیکھا۔ خلافتِ راشدہ کے زمانے میںیہی دیکھا۔ آج کل میں بدری صحابہ پہ خطبات دے رہا ہوں تو ان میں اب خلفاء کا ذکر چل رہا ہے، حضرت عمرؓ کا ذکر چل رہا ہے، اسی میں زیادہ تر فتوحات ہوئیں۔ یہاں ہم نے دیکھا کہ کس طرح بڑی بڑی حکومتیں ٹکرائیں لیکن اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔ تو یہ چیز ہے،بات یہ ہے کہ اگر مسلمان اللہ تعالیٰ کی خاطر لڑ رہے ہیں تو ان کی فتوحات ہونی چاہئیں جو نہیں ہو رہیں۔ نمبر ایک۔ دوسرے یہ کہ مسلمان اس وقت کافروں سے لڑ بھی نہیں رہے۔ مسلمان تو مسلمان سے لڑ رہا ہے۔ کہیں ایک جگہ بھی بتائیں سوائے اس کے کہ فلسطین میں اسرائیلیوں، یہودیوں کے ساتھ جو لڑ رہے ہیں اس کے علاوہ یا کشمیر میں آپ کہتے ہیں کچھ حد تک ہندوستان کے ساتھ لڑائی کر رہے ہیں اس کے علاوہ اکثر دنیا میں جو فتنہ اور فساد اور لڑائی ہے مسلمانوں کی مسلمانوں کے ساتھ ہے، ایک فرقہ دوسرے فرقے سے لڑ رہا ہے، ایک طبقہ، ایک پارٹی دوسری پارٹی سے لڑ رہی ہے۔ طالبان نے کہہ دیا کہ ہم نے ’فتح مکہ‘ کر لیا۔ اب فتح مکہ کیا کیا۔ وہاں کوئی کافر تھے جن کو انہوں نے فتح کیا؟ وہ بھی مسلمان تھے، لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہپڑھنے والے تھے، طالبان بھی وہی کلمہ پڑھنے والے ہیں۔ تو کس چیز سے فتح مکہ ہو گیا۔ تو یہ تو مسلمان مسلمان کو مار رہا ہے اور یہاں پھر اس صورت میں اللہ تعالیٰ پھر کہتا ہے میں سزا دوں گا ۔ قرآن شریف میں بڑا واضح لکھا ہوا ہے کہ ایک ناحق مسلمان کا قتل جو ہے وہ تمہیں جہنم میں لے کے جائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے جب ایک شخص کو لڑائی میں ،جب اس نے تلوار کے خوف سے کلمہ پڑھ لیا تب بھی قتل کر دیا اور پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی تو آپؐ بڑے سخت ناراض ہوئے۔ انہوں نے کہا جی اس نے تلوار کے خوف سے کلمہ پڑھا تھا۔ انہوں نے کہا تم نے دل چیر کے دیکھا تھا اس کا کہ کس خوف سے کلمہ پڑھا تھا۔ تو اس حد تک تو سختی ہے کہ مسلمان مسلمان کو قتل نہیں کرے، ٹھیک! اس کے باوجود اگر یہ کرتے ہیں تو مجھے اس کے بارے میں فتویٰ دینے کی کیا ضرورت ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا جو عمل ہے وہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ ان کے اوپر سزا ہے یا ان سے اللہ تعالیٰ راضی ہے۔یہ آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود جو فعلی شہادت بتا دی کہ یہ کیا ہے۔ مجھے اس کے بارے میں کوئی رائے دینے کی ضرورت ہی نہیں۔
انہوں نے مزید پوچھا کہ نہیں جیسے برما میں روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور ان پر ظلم کیا گیا اور دنیا کے دوسرے خطوں میں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اگر مسلمانوں میں unity ہوتی، چوّن(54) ملک ہیں مسلمانوں کے اور امیر امیر ملک بھی ہیں۔ وہ کیوں نہیں اکٹھے ہوئے اوربرما کوروکا۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہونے کی صرف حدیث پڑھتا ہے، اگر حکومتوں کویہ طاقت ہے تو کیوں اس کو ہاتھ سے نہیں روک رہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر تم کوئی برائی دیکھو تو اس کو ہاتھ سے روکو۔ پھر اگر اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے روکو۔ اس کی طاقت نہیں ہے تو اس کے لیے کم از کم دعا ہی کرو تو ہمارے پاس تو فی الحال نہ حکومت ہے نہ ہی طاقت ہے تو ہم اس کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان مظلوموں پر رحم کرے لیکن یہ حکومتیں جن کے پاس دولت بھی ہے اور حکومتیں بھی ہیں اور چون(54) ملک ہیں، جس نے آدھی دنیا پہ قبضہ کیا ہوا ہے انہوں نے کیوں نہیں مل کے برما کو روکا۔ تو یہ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ظلم ہو رہا ہے مسلمانوں پہ لیکن یہ کہنا کہ سزا ہے یا نہیں یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ ان کے عمل کیا تھے یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ کس عمل کی پاداش میں سزا مل رہی ہے یا واقعی ان پہ ظلم ہو رہا ہے تو مظلوم کی مدد کرنی چاہیے۔ مسلمان کیوں نہیں کر رہے اور جب وہ اپنے مظلوم بھائی کی مدد نہیں کریں گے تو پھر خود بھی وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آتے ہیں اس لیے بہت استغفار کا مقام ہے۔
بعد ازاں حضور انور نے حاضرین مجلس کو السلا م علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہہ کر مجلس کا اختتام فرمایا ۔
(بشکریہ الفضل انٹرنیشنل 26؍اکتوبر 2021)