اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-12-14

ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ان واقعات نے جو جماعتی قربانی کی صورت میں ہوئے جس طرح پہلے سے بڑھ کر ہمیں خداتعالیٰ کی طرف راغب کیاہے

اس جذبے کو ، اس ایمانی حرارت کو اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی آہ وبکا کے عمل کو ،اپنے اندر پاک تبدیلیوں کی کوششوں کوکبھی کمزورنہ ہونے دیں

سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ واطفال الاحمدیہ بھارت 2023ء کے موقع پر سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز خصوصی پیغام

 

پیارے ممبران مجلس خدام الاحمدیہ بھارت

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ بھارت ’’شہدائے احمدیت ‘‘ کے موضوع پر امسال اپنا سالانہ اجتماع منعقدکرنے کی توفیق پا رہی ہے۔
مجھ سے اس موقع پر پیغام بھجوانے کی درخواست کی گئی ہے۔ تویادرکھنا چاہئے کہ شہید کا اسلام میں بہت بڑامقام ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتاہے۔
’’اور جو اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں ان کو مردے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے۔ اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ آزمائیں گے اور صبر کرنےو الوں کو خوشخبری دے دے۔ اُن لوگوں کو جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم یقیناً اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقیناً اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘ (البقرۃ:155-157)
جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کی جو قربانیاں پیش کی جا رہی ہیں۔اُن میں سب سے عظیم الشان قربانی تو وہ ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب نے پیش کی۔اس موقع پر حضورعلیہ السلام نے فرمایا:’’جب میں اس استقامت اور جانفشانی کو دیکھتا ہوں جو صاحبزادہ مولوی محمد عبداللطیف مرحوم سے ظہور میں آئی تو مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے کیونکہ جس خدا نے بعض افراد اس جماعت کو یہ توفیق دی کہ نہ صرف مال بلکہ جان بھی اس راہ میں قربان کرگئے اُس خدا کا صریح یہ منشاء معلوم ہوتاہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی روح رکھتے ہوں۔اور ان کی روحانیت کا ایک نیا پودہ ہوں۔ ‘‘(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن، جلد20،صفحہ 75)
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو فکر تھی کہ پتہ نہیں میرے بعد کیاہو۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ کے بعد بھی ایسے لوگ پیدا ہوئے اور ہو رہے ہیں جنہوں نے دنیاوی لالچوں کی پروا نہیں کی اور اپنی جانیں بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ باپ نے بیٹے کو اپنے سامنے شہید ہوتے دیکھا اور بیٹے نے باپ کو اپنے سامنے شہید ہوتے دیکھا لیکن پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی۔ اور پھر خود بھی جان قربان کردی۔
28؍ مئی2010ء کوجب نماز جمعہ کے وقت جماعت کی دومساجد میں ہمارے پیارے احمدیوں کو شہید کیاگیاتھااس وقت میں نے ہر گھر میں فون کیا تو بچوں، بیویوں، بھائیوں، ماوٴں اور باپوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی پایا۔ ان کی پُر عزم آوازوں میں یہ پیغام صاف سنائی دے رہا تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر خوش ہیں۔ یہ ایک ایک دو دو قربانیاں کیا چیز ہیں ہم تو اپنا سب کچھ اور اپنے خون کا ہر قطرہ مسیح موعودؑ کی جماعت کیلئے قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔ یہ اس ایمان کی وجہ سے ہےجو زمانے کے امام کو ماننے کی وجہ سے ہم میں پیدا ہوا۔
چند ماہ قبل براعظم افریقہ کے ملک برکینا فاسو میں عشق و وفا اور اخلاص اور ایمان اور یقین سے پُر افرادِ جماعت نے جو نمونہ مجموعی طور پر دکھایا ہے وہ حیرت انگیز ہے، اپنی مثال آپ ہے۔جن کو موقع دیا گیا کہ مسیح موعودؑ کی صداقت کا انکار کرو تو ہم تمہاری جان بخشی کر دیتے ہیں۔ لیکن ان ایمان اور یقین سے پُر لوگوں نے جن کا ایمان پہاڑوں سے زیادہ مضبوط نظر آتا ہے جواب دیا کہ جان تو ایک دن جانی ہے، آج نہیں تو کَل، اِس کے بچانے کیلئے ہم اپنے ایمان کا سودا نہیں کر سکتے۔ جس سچائی کو ہم نے دیکھ لیا ہے اسے ہم چھوڑ نہیں سکتے اور یوں ایک کے بعد دوسرا اپنی جان قربان کرتا چلا گیا۔ان کی عورتیں اور بچے بھی یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اور کوئی واویلا کسی نے نہیں کیا۔
حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تذکرۃ الشہادتین میں ایک رؤیا کا ذکر فرماتے ہوئے لکھا کہ’’خدا تعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر دے گا۔‘‘(روحانی خزائن، جلد20،صفحہ76)
آپؑنے اپنی رؤیا سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مجھے امید ہے کہ صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے بعد اللہ تعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر دے گا۔ہم گواہ ہیں کہ آج افریقہ کے رہنے والوں نے اجتماعی طور پر اس کا نمونہ دکھا دیا اور قائم مقامی کا حق ادا کر دیا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’میری روح میں وہی سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی۔مجھے خداسے ابراہیمی نسبت ہے۔کوئی میرے بھید کو نہیں جانتامگرمیراخدا۔مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کررہے ہیں۔میں وہ پودانہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں۔اگران کے پہلے اوران کے پچھلے اوران کے زندے اور ان کے مُردے تمام جمع ہوجائیں اورمیرے مارنے کیلئے دعائیں کریں ،تومیرا خدا ان تمام دعاؤں کو لعنت کی شکل پربناکر ان کے منہ پر مارے گا۔دیکھو صدہادانشمند آدمی آپ لوگوں کی جماعت میں سے نکل کر ہماری جماعت میں ملتے جاتے ہیں۔ ‘‘(اربعین نمبر4، روحانی خزائن، جلد17،صفحہ 473)
مخالفین احمدیت اور دشمنان احمدیت کے ظالمانہ فعل اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ دعاؤں سے اور دلائل سے توجماعت احمدیہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ جس حکومت وطاقت کا تمہیں زعم ہے اسکا استعمال بھی کرلو بلکہ کررہے ہو۔کیا اس مخالفت سے احمدیت کے قدم رکے ہیں؟ احمدیت تو ہرجہت اورہرسُو پھیلتی چلی جارہی ہے۔ہرمخالفت کے بعد سعید فطرت احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آئے ہیں۔
پس ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ان واقعات نے جو جماعتی قربانی کی صورت میں ہوئے جس طرح پہلے سے بڑھ کر ہمیں خداتعالیٰ کی طرف راغب کیاہے ،اس جذبے کو ، اس ایمانی حرارت کو اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی آہ وبکا کے عمل کو ،اپنے اندر پاک تبدیلیوں کی کوششوں کوکبھی کمزورنہ ہونے دیں ،کبھی کمزورنہ ہونے دیں ،کبھی اپنے بھائیوں کی قربانی کو مرنے نہ دیں جو اپنی جان کی قربانیاں دے کر ہمیں زندگی کے نئے راستے دکھاگئے۔
اللہ تعالیٰ آپ کےاجتماع کو ہرلحاظ سے کامیاب اور بابرکت فرمائے اورآپ کو ایمان اور استقامت میں ترقی عطا فرمائے۔آمین

والسلام خاکسار
مرزا مسرور احمد
خلیفۃ المسیح الخامس