اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-07-06

مورخہ17 جون 2023ء کو مسجد بیت السلام سکنتھورپ برطانیہ 

کا بابرکت افتتاح اور افتتاحی تقریب سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب

اسلام امن وسلامتی اور محبت کا مذہب ہے
اسلام میں شدت پسندی اور انتہاپسندی کی کوئی گنجائش نہیں ، اسلام ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے اور معاشرے میں امن اور سلامتی کے قیام کا درس دیتا ہے
اسلام ہمیں یہ حکم بھی دیتا ہے کہ بلاامتیاز ہم بنی نوع انسان کے حقوق ادا کریں، یہ قرآنی تعلیمات ہیں جو مَیں آپ کے سامنےپیش کررہاہوں
یہ مسجد اس علاقے میں اسلامی تعلیمات کے عملی اظہار کامظہر ہوگی
ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خدا کا شکر بھی ادا نہیں کرتا
مورخہ 17؍جون 2023ءکو مسجد بیت السلام Scunthorpe (یو.کے)کا بابرکت افتتاح اور افتتاحی تقریب سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب

 

سیّدناحضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 17؍جون2023ء کو Scunthorpe میں تعمیر ہونے والی مسجد بیت السلام کی افتتاحی رسپشن میں شمولیت فرمائی اور بصیرت افروز خطاب فرمایا۔مسجد پہنچنے پر حضور انور کا پر جوش اور والہانہ استقبال کیا گیا۔ بچے اور بچیاں الگ الگ گروپ میں ترانے پڑھ کر حضور انور کا استقبال کررہے تھے ۔
حضورانور نےمقامی وقت کے مطابق3 بجکر55 منٹ پر تختی کی نقاب کشائی کی اوربعدہ دعا کروائی جس میں مسجد کے احاطہ میں موجود تمام احباب و خواتین اور بچے شامل ہوئے۔ بعدہ حضور انورنے مسجد کا معائنہ فرمایا۔نیز مسجد کے احاطہ میں ایک زیتون کا پودا بھی لگایا۔اس کے بعد حضور انور نے نماز ظہر وعصر جمع کر کے پڑھائی پھر حضور انور ایک مارکی میں تشریف لائے جہاں تقریب میں شامل ہونے والے معززین کو حضورپُرنور سے ملاقات کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس موقع پر
Martin Vickers MP
Holly Mumby-Croft MP
Councillor Janet Longcake
Air commodore Andrew Dickens
Superintendent Sharon
سمیت بعض معززین موجود تھے۔
معززین نے حضورِ انور کی خدمت میں سکنتھورپ کا تعارف پیش کیا۔ملاقات کے بعد مہمان اور بعدہٗ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اُس مارکی میں تشریف لائے جہاں اختتامی تقریب کا آغازہونے والا تھا۔ تلاوت قرآن کریم کے بعد ریجنل امیر نارتھ ایسٹ ڈاکٹر سید مظفر احمد صاحب نے حاضرین کو خوش آمدید کہتے ہوئے جماعت احمدیہ کا تعارف کروانے کے بعد مسجد کی مختصر تاریخ اور حالات بیان کیے۔
بعد ازاں ممبر آف پارلیمنٹ سکنتھورپHolly Mumby-Croft صاحبہ نے حضور انور کا خیر مقدم کرتے ہوئے آج کے دن کو یادگار قرار دیااور اس تقریب میں مدعو کیے جانے پر شکریہ ادا کرتے ہوئےکہا کہ ہم حضور انور کے خطاب کے منتظر ہیں۔
ممبر آف پارلیمنٹ کلیتھوپ Martin Vickers صاحب نے کہا کہ مختلف کمیونٹیز کو ایک جگہ جمع کرنے اور ایک دوسرے کے عقائد کو جاننے کا یہ ایک بہترین موقع ہے ۔ مجھے علم ہے کہ مذہبی عقائد بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور مختلف عقائد کے افراد کا اس تقریب میں آنا مستقبل کے تعلقات کو مضبوط کرنے کیلئے خوش آئندبات ہے۔
کونسلر نارتھ لنکاشائرJanet Longcake صاحبہ نے کہا کہ حضور انور سے ملاقات میرے لیے ایک اعزاز ہے۔ مجھے اس تقریب میں دعوت دینے کا بہت شکریہ ۔مجھے احمدی کمیونٹی کو جاننے کا بھی موقع ملا ہے اور اس کمیونٹی کا مطمح نظر ’’محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ یقیناً اس معاشرے میں امن و سلامتی کی علامت ہے۔

خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالٰی

5بجکر 21منٹ پر حضور انور منبر پر تشریف لائے اور انگریزی زبان میںخطاب کا آغاز فرمایا۔حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:تمام معزز مہمانان کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!سب سے پہلے تو مَیں دل کی گہرائیوں سے آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ یہاں ہماری اس مسجد کے افتتاح کی تقریب میں شرکت کیلئے تشریف لائے ہیں۔ ہمارے مہمانوں کی اکثریت احمدیت یا اسلام سے تعلق نہیں رکھتی اسکے باوجود آپ تمام مہمان ہماری تقریب میں شامل ہورہے ہیں یہ بات آپ کی وسعتِ قلبی کو ظاہر کرتی ہے۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خدا کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔ پس آپ سب مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں اپنے دلی جذبات کا اظہار کر رہا ہوں۔
آج کا دن ہمارے لیے نہایت خوشی اور مسرت کا دن ہے کیونکہ آج ہم اپنی اس نئی مسجد کے افتتاح کی توفیق پا رہے ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں بھی آئیں جس کی وجہ سے اس کی تعمیر اور افتتاح میں تاخیر ہوئی۔ مقامی آبادی کی طرف سے اس مسجد کے قیام کی مخالفت کی گئی لیکن خدا کے فضل سے تمام مشکلات دور ہوگئیں۔ اس سلسلے میں مَیں مقامی کونسل اور متعلقہ حکام نیز مقامی آبادی کا بھرپور شکریہ ادا کرتا ہوں۔اس مسجد کا قیام ہماری جماعت کی مالی قربانیوں کے طفیل ممکن ہوا ہے۔ بعض احباب نے اس سلسلے میں بڑی بھاری رقوم پیش کیں تاکہ وہ سب ایک جگہ جمع ہوکر اجتماعی طور پر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی کوشش کرسکیں۔مجھے اندازہ ہے کہ جب میں یہ بات کہتا ہوں کہ یہ مسجد اس علاقے میں اسلامی تعلیمات کے عملی اظہار کا مظہر ہوگی تو یقیناً بعض لوگوں کے دلوں میں وساوس اور خدشات پیدا ہوتے ہیں اور یہ قدرتی بات ہے، جس کا ہمیں احساس ہے۔ اس دور میں تو ویسے بھی مسلمانوں اور اسلام کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے۔ اسلام میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام تو ظلم اور زیادتی سے منع کرتا ہے اور معاشرے میں امن اور سلامتی کے قیام کا درس دیتا ہے۔ اسلام کا پیغام تو یہ ہے کہ بنی نوع انسان بلا تفریق مذہب و ملت اور رنگ و نسل انسان ہونے کی حیثیت میں اکٹھے ہو جائیں۔
بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ کسی علاقے میں اسلام کا تعارف اچھی طرح ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہاں مسجد بنادے۔ اس بات سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ اس عمل سے غیر مسلم اسلام کی تعلیمات کو قریب سے دیکھ پائیں گے۔
اسی طرح اسلام ہمیں یہ حکم بھی دیتا ہے کہ بلا امتیاز ہم بنی نوع انسان کے حقوق ادا کریں۔ اس حوالے سے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلام کا جو نقشہ یہ شدت پسند گروہ پیش کرتے ہیں اسلامی تعلیمات اس سے یکسر مختلف ہیں۔ اسلام تو امن و سلامتی اور محبت کا مذہب ہے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ بات آپ کو متاثر کرنے کیلئے میں یوں ہی کہہ رہا ہوں بلکہ یہ قرآنی تعلیمات ہیں جو میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ اسلام بڑا واضح حکم دیتا ہے کہ دین کے معاملے میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں۔ہر حقیقی مومن اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ جب بھی کوئی مسجد تعمیر ہو تو وہ ان مقاصد کے تابع ہو جو اولین مسجد یعنی بیت الحرام کی تعمیر کے مقاصد تھے۔ پس ہر مسجد کا رخ کعبۃ اللہ کی طرف ہی ہوا کرتا ہے۔ بیت اللہ کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو بھی اس میں داخل ہوتا ہے وہ گویا امن میں داخل ہوتا ہے۔ قرآن نے تو یہ حکم دیا ہے کہ جاہل شخص کی جہالت کا جواب بھی جہالت سے نہیں دینا بلکہ امن اور وقار سے ایسی صورتحال سے گزر جانا ہے۔ اسلام مسلمانوں کو صبر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔عین ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر اسلام اتنا ہی پرامن مذہب ہے تو اسلام کے آغاز میں جنگیں اور خون خرابہ کیوں ہوا۔ یہ سوال دراصل اسلام کی تعلیمات سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ اسلام تو بڑے پیچیدہ اور مخصوص حالات میں جنگ کی اجازت دیتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ پر انتہائی ظلم و ستم ہوا۔ انہیں گھروں سے بےگھر کیا گیا، انہیں قتل کیا گیا۔ مکہ معظمہ کے تیرہ سالہ قیام کے دوران مسلمانوں پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد بھی اُن ظالموں نے اسلام کا پیچھا کیا، مسلمانوں پر زبردستی جنگ مسلط کی۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو محض دفاعی جنگ کی اجازت دی گئی۔ اس اجازت کا ذکر سورہٴ حج کی آیات میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان لوگوں کو جنگ کی اجازت دی گئی جن پر حد درجہ ظلم ہوا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد پر قادر ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے ذریعے بعض دوسرے گروہوں کو روکنے کا انتظام نہ فرماتا تو یقیناً لوگوں نے مسیحیوں کے گرجاگھر، یہود کے معابد اور مسلمانوں کی مساجد سب کو منہدم کردینا تھا۔پس مسلمانوں کو دفاعی جنگ کی اجازت مذہبی آزادی کے قیام کی غرض سے دی گئی تھی۔آج کے دور میں اگر جائزہ لیا جائے تو کہیں بھی مسلمان اسلام کی سربلندی کیلئے کفار سے برسرِ پیکار نہیں بلکہ یہ سیاسی جنگیں ہیں جن میں اسلامی ممالک کے علاوہ دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ یوکرین کی مثال آپ سب کے سامنے ہے۔ اس دور کی جنگیں دراصل زیادہ سے زیادہ علاقے اور وسائل پر قابض ہونے کیلئے لڑی جانے والی جنگیں ہیں۔ پس یہ تو بہت بڑا ظلم ہوگا اگر ان جنگوں کو مذہب سے جوڑا جائے۔ہم تو اس بات پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہر طرح کی مذہبی آزادی میسر ہے۔ ہم اپنے دین پر آزادی کے ساتھ عمل کرسکتے ہیں۔ اپنے مذہب کے پرچار کیلئےمساجد کی تعمیر کرسکتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ حقوق العباد پر بھی بڑا زور دیتی ہے۔ مثلاً ہم نے دنیا کے پسماندہ ترین اور دور دراز علاقوں میں ہسپتال اور سکول تعمیر کیے ہیں۔ ایسے ہی پسے ہوئے طبقات تک ہم پینے کا صاف پانی پہنچانے کا انتظام کررہے ہیں۔ ہماری ان کاوشوں سے مستفید ہونے والے احباب محض احمدی نہیں ہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگ خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں وہ ان سہولیات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔مجھے امید ہے کہ اس مسجد کی تعمیر سے اس علاقے کے لوگ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے متعارف ہوسکیں گے۔ اسی طرح ان لوگوں کے اسلام اور مسلمانوں سے متعلق تمام شکوک وشبہات بھی ان شاءاللہ دور ہو جائیں گے۔ اس مسجد کا تو نام ہی’بیت السلام‘یعنی سلامتی اور امن کا گھر رکھا گیا ہے۔
آخر میں مَیں خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ یہ مسجد خدا کے نور اور اس کی روشنی کا مظہر بن جائے۔ خدا کرے کہ یہ مسجد حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی، رواداری اور محبت کی طرف توجہ دلاتے چلے جانے کا باعث ہو۔ خدا کرے کہ یہاں کے مقامی احمدی مسلمان اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہوں۔ یہ لوگ یہاں کی آبادی کیلئے امن اور سلامتی کا ضامن بن جائیں۔ آخر میں مَیں آپ سب کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ اس تقریب میں شامل ہوئے۔بہت شکریہ
5 بجکر49 منٹ پر حضور انور کا خطاب اپنے اختتام کو پہنچا جس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔ اس کے بعد حضور انور نے تمام مہمانان کے ہمراہ عشائیہ تناول فرمایا۔

(بشکریہ اخبارروزنامہ الفضل 24؍جون 2023)