سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
انسان کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ حسب استطاعت خدا کے فرائض بجا لاوے۔ روزہ کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ یعنی اگر تم روزہ رکھ بھی لیا کرو تو تمہارے واسطے بڑی خیر ہے۔
ایک دفعہ میرے دل میں خیال آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہےتاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شئے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے ۔خد اتعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے۔ تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان ) دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ،یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ،اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خد اتعالیٰ طاقت بخش دے گا۔
اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو دوسری امتوں کی طرح اس امت میں کوئی قید نہ رکھتا مگر اس نے قیدیں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں۔ میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینہ میں مجھے محروم نہ رکھ تو خد اتعالیٰ اسے محروم نہیں رکھتا اور ایسی حالت میں اگر انسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جائے تو یہ بیماری اس کے حق میں رحمت ہوتی ہےکیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیت پر ہے۔ مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خد اتعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کردے۔ جو شخص کہ روزے سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیت درِددل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتااور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اس کے لئے روزے رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جُونہ ہو تو خداتعالیٰ اسے ہرگز ثواب سے محروم نہ رکھے گا۔
(ملفوظات جلد 2 صفحہ 563، مطبوعہ قادیان 2003)