دو چیزوں کے باہم تعلق اور رگڑ سے ایک حرارت پیدا ہوتی ہے اسی طرح پر انسان کی محبت اور دنیا اور دنیا کی چیزوں کی محبت کی رگڑ سے الٰہی محبت جل جاتی ہے اور دل تاریک ہو کر خدا سے دورہو جاتا ہے اور ہر قسم کی بے قراری کا شکار ہو جاتا ہے لیکن جب کہ دنیا کی چیزوں سے جو تعلق ہو وہ خدا میں ہو کر ایک تعلق ہو اور ان کی محبت خدا کی محبت میں ہو کرہو، اس وقت باہمی رگڑ سے غیر اللہ کی محبت جل جاتی ہے اور اس کی جگہ ایک روشنی اور نور بھر دیا جاتا ہے۔ پھر خدا کی رضا اس کی رضا اور اس کی رضا خدا کی رضا کا منشاء ہو جاتا ہے۔ اسی حالت پر پہنچ کر خدا کی محبت اس کیلئے بمنزلہ جان ہوتی ہے اور جس طرح زندگی کے واسطے لوازم زندگی ہیں، اسی کی زندگی کے واسطے خدا اور صرف خدا ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس کی خوشی اور راحت خدا ہی میں ہوتی ہے۔ پھر دنیا داروں کے نزدیک اگر اسے کوئی رنج اور کرب پہنچے تو پہنچے،لیکن اصل یہی بات ہے کہ اس ہم وغم میں بھی وہ اطمینان اور سکینت سے الٰہی لذت لیتا ہے جو کسی دنیا دار کی نظر میں بڑے سے بڑے فارغ البال کو بھی نصیب نہیں۔
بر خلاف اس کے جو کچھ حالت اس کی اور انسان کی ہے،وہ جہنم ہے۔ گویا خدا تعالیٰ کے سوا زندگی بسر کرنا یہ بھی جہنم ہے۔
پھر حدیث شریف سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ تپ بھی حرارت جہنم ہی ہے۔ امراض اور مصائب جو مختلف قسم کے انسان کو ہوتے ہیں، یہ بھی جہنم ہی کا نمونہ ہے اور یہ اس لئے کہ تا دوسرے عالم پر گواہ ہوں ا ور جزا وسزا کے مسئلہ کی حقیقت پر دلیل ہوں اور کفارہ جیسے لغو مسئلہ کی تردید کریں۔ مثلاً جذام ہی کو دیکھو کہ اعضا گر گئے ہیں اور رقیق مادہ اعضا سے جاری ہے۔ آواز بیٹھ گئی ہے۔ ایک تو یہ بجائے خود جہنم ہے۔ پھر لوگ نفرت کرتے ہیں اور چھوڑ جاتے ہیں۔ عزیز سے عزیز بیوی، فرزند ماں باپ تک کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ بعض اندھے اور بہرے ہو جاتے ہیں۔ بعض اور خطرناک امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پتھریاں ہو جاتی ہیں، اندر پیٹ میں رسولیاں ہو جاتی ہیں۔ یہ ساری بلائیں اس لئے انسان پر آتی ہیں کہ وہ خدا سے دور ہو کر زندگی بسر کرتا ہے اور اسکے حضور شوخی اور گستاخی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کی عزت اور پرواہ نہیں کرتا ہے۔ اس وقت ایک جہنم پیدا ہو جاتا ہے۔
(ملفوظات، جلد اوّل ، صفحہ503تا504، مطبوعہ 2018قادیان )
…٭…٭…٭…