اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




کلام امام الزمان

2023-11-02

مخلوقِ الٰہی کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے جو ایمان کا دُوسرا جزو ہے جس کے بدُوں ایمان کامل اور راسخ نہیںہوتا


مال کی کوئی خصوصیت نہیں ہے، جو کچھ اللہ تعالیٰ نے کسی کو دیا ہے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے، مقصود اس سے یہ ہے کہ انسان اپنے بنی نوع کا ہمدرد اور معاون بنے


ارشادات عالیہ سیّدناحضرت مسیح موعود ومہدی معہود علیہ الصّلٰوۃ و السّلام

 

انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت

مَیں پھر اصل بات کی طرف رجوع کرکے کہتا ہوں کہ دولتمند اور متموّل لوگ دین کی خدمت اچھی طرح کر سکتے ہیں۔ اسی لئے خداتعالیٰ نے مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ (البقرۃ:4) متقیوں کی صفت کا ایک جزو قراردیا ہے۔ یہاں مال کی کوئی خصوصیت نہیں ہے، جو کچھ اللہ تعالیٰ نے کسی کو دیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ مقصود اس سے یہ ہے کہ انسان اپنے بنی نوع کا ہمدرد اور معاون بنے۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت کا انحصار دو ہی باتوں پر ہے۔ تعظیم لامر اللہ اور شفقت علیٰ خلق اللہ۔ پس مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ میں شفقت علیٰ خلق اللہ کی تعلیم ہے۔ دینی خدمات کیلئے متمول لوگوں کو بڑے بڑے موقعے مل جاتے ہیں۔
ایک دفعہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روپیہ کی ضرورت بتلائی تو حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر کا کل اثاث البیت لے کر حاضر ہوگئے۔ آپؐ نے پوچھا ابوبکر! گھر میں کیا چھوڑ آئے تو جواب میں کہا کہ اللہ اور رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نصف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا عمر! گھر میں کیا چھوڑ آئے تو جواب دیا کہ نصف۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر و عمر کے فعلوں میں جو فرق ہے ، وہی اُن کی مراتب میں فرق ہے۔
دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے اسی واسطے علمِ تعبیر الرؤیاء میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اس سے مُراد مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کیلئے فرمایا: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ( آل عمران: 93) حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک کہ تم عزیز ترین چیز خرچ نہ کروگے، کیونکہ مخلوقِ الٰہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ابنائے جنس اور مخلوقِ الٰہی کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے جو ایمان کا دُوسرا جزو ہے جس کے بدُوں ایمان کامل اور راسخ نہیںہوتا۔ جب تک انسان ایثار نہ کرے، دُوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے۔ دُوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کیلئے ایثار ضروری شے ہے اور اس آیت لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے۔
پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں للّٰہی وقف کا معیار اورمحک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت بیان کی اور وہ کل اثاث البیت لے کر حاضر ہوگئے۔

( ملفوظات، جلد اوّل، صفحہ 497،مطبوعہ 2018قادیان )