اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




کلام امام الزمان

2023-10-19

جوشخص خدا کیلئے زندگی وقف کردیتا ہے، یہ نہیں ہوتا کہ وہ بے دست و پاہوجاتا ہے

نہیں ہرگز نہیں بلکہ دین اور للّٰہی وقف انسان کو ہوشیار اور چابکدست بنادیتا ہے،سُستی اور کسل اُس کے پاس نہیں آتا

ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عجز اور کسل سے پناہ مانگا کرتے تھے، مَیں پھر کہتا ہوں کہ سُست نہ بنو

ارشادات عالیہ سیّدناحضرت مسیح موعود ومہدی معہود علیہ الصّلٰوۃ و السّلام

اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَا اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(البقرۃ: 202) اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے ، لیکن کس دنیا کو؟ حسنۃ الدنیا کو جو آخرت میں حسنات کی موجب ہوجاوے۔ اس دعاکی تعلیم سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصول میں حسنات الآخرۃ کا خیال رکھنا چاہئے اور ساتھ ہی حسنۃ الدنیا کے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصول دنیا کا ذکر آگیا ہے جو ایک مومن مسلمان کو حصول دنیا کیلئے اختیار کرنے چاہئیں۔ دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو۔ نہ وہ طریق جو کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسانی کا موجب ہو۔ نہ ہم جنسوں میں کسی عاروشرم کاباعث۔ ایسی دنیا بے شک حسنۃ الاٰخرۃ کا موجب ہوگی۔
پس یادرکھو کہ جوشخص خدا کیلئے زندگی وقف کردیتا ہے، یہ نہیں ہوتا کہ وہ بے دست و پاہوجاتا ہے۔ نہیں ہرگز نہیں بلکہ دین اور للّٰہی وقف انسان کو ہوشیار اور چابکدست بنادیتا ہے۔ سُستی اور کسل اُسکے پاس نہیں آتا۔ حدیث میں عمار بن خزیمہ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے میرے باپ کو فرمایا کہ تجھے کس چیز نے اپنی زمین میں درخت لگانے سے منع کیا ہے تو میرے باپ نے جواب دیا کہ مَیں بڈھا ہوں، کل مرجاؤں گا۔ پس اُس کو حضرت عمر نے فرمایا تجھ پر ضرور ہے کہ درخت لگاوے۔ پھر میں نے حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ خود میرے باپ کے ساتھ مل کر ہماری زمین میں درخت لگاتے تھے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عجز اور کسل سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ مَیں پھر کہتا ہوں کہ سُست نہ بنو۔ اللہ تعالیٰ حصولِ دنیا سے منع نہیں فرماتا، بلکہ حسنۃ الدنیا کی دعا تعلیم فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ انسان بے دست و پا ہوکر بیٹھ رہے بلکہ اُس نے صاف فرمایا ہے لَيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى (النجم:40) اس لیے مومن کو چاہئے کہ وہ جدوجہد سے کام کرے، لیکن جس قدر مرتبہ مجھ سے ممکن ہے یہی کہوں گا کہ دنیا کو مقصود بالذات نہ بنالو۔ دین کو مقصود بالذات ٹھہراؤ اوردنیا اس کیلئے بطور خادم اور مَرکب کے ہو۔ دولت مندوں سے بسااوقات ایسے کام ہوتے ہیں کہ غریبوں اور مُفلسوں کو وہ موقع نہیں ملتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں خلیفہ اول نے جو بڑے ملک التجار تھے مسلمان ہوکر لانظیر مدد کی اور آپ کو یہ مرتبہ ملا کہ صدیق کہلائے اور پہلے رفیق اور خلیفہ اول ہوئے۔

( ملفوظات، جلد اوّل، صفحہ 494،مطبوعہ 2018قادیان )