اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




کلام امام الزمان

2023-10-26

مَیں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم وہ ایمان پیدا کرو جو ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا ایمان تھا

اس میں حُسنِ ظن اور صبر ہے اور وہ بہت سے برکات اور ثمرات کا منتج ہے

اور نشان دیکھ کر ماننا اور ایمان لانا اپنے ایمان کو مشروط بنانا ہے، یہ کمزور ہوتا ہے اور عموماً باروَر نہیں ہوتا

ارشادات عالیہ سیّدناحضرت مسیح موعود ومہدی معہود علیہ الصّلٰوۃ و السّلام

 

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان

لکھا ہے کہ جب آپ تجارت سے واپس آئے تھے اور ابھی مکہ میں نہ پہنچے تھے کہ راستہ میں ہی ایک شخص ملا۔ اس سے پوچھا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ۔ اس نے کہا کہ اور تو کوئی تازہ خبر نہیں، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ تمہارے دوست نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے۔ ابوبکرؓ نے وہیں کھڑے ہوکر کہا کہ اگر اُس نے یہ دعویٰ کیا ہے تو سچا ہے، چنانچہ جب مکہ میں پہنچے تو رسول اللہﷺ سے ملے اور آپ سے دریافت کیا کہ کیا آپؐنے واقعی پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے۔ آپؐنے فرمایا: ہاں اور اُسی وقت مشرف باسلام ہوگئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓکو قبول اسلام کیلئے کسی اعجاز کی ضرور ت نہ پڑی۔ اعجازبینی کے خواہشمند وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو تعارفِ ذاتی نہیںہوتا لیکن جس کو تعارفِ ذاتی ہوجاوے، اُسے اعجاز کی ضرورت اور خواہش ہوتی ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے معجزہ نہیں مانگا کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے حالات سے خوب واقف تھے اور خوب جانتے تھے کہ وہ راستباز اور امین ہے جھوٹا اور مفتری نہیں، جب کہ کسی انسان پر کبھی افترا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ پر افترا کرنے کی کبھی جرأت نہیں کرسکتا۔
پس یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ نشان صرف اس لیے مانگا جاتا ہے کہ اس بات کے امکان کا اندیشہ گزرتا ہوکہ شاید جھوٹ ہی بولا ہو، مگر جب یہ بات اچھی طرح پر معلوم ہو کہ مدعی صادق اور امین ہے پھر نشان بینی کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ یہ بھی یادرہے کہ جو لوگ نشان دیکھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں،ایسے لوگ راسخ الایمان نہیں ہوسکتے بلکہ ہر وقت خطرہ کے محل میں رہتے ہیں۔ ایمان بالغیب کے ثمرات اُن کو نہیں ملتے کیونکہ ایمان بالغیب کے اندر ایک فعل نیکی کا حُسن ظن بھی ہے، جس سے وہ جلد باز بے نصیب رہ جاتا ہے جو نشان دیکھنے کیلئے جلدی کرتا اور زور دیتا ہے۔ مسیح علیہ السلام کے حواریوں نے نزول مائدہ کیلئے زور دیا تو خداتعالیٰ نے ان کو زجر بھی کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہم تو مائدہ نازل کریں گے، لیکن بعد نزول مائدہ جو انکار کرے گا، اس پر سخت عذاب نازل ہوگا۔ قرآن شریف میں اس قصہ کے ذکر سے یہ فائدہ ہے کہ تابتلایا جاوے کہ بہترین ایمان کونسا ہے اور اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانات یوں تو اجلٰی بدیہیات سے ہوتے ہیں، لیکن اُن کے ساتھ ایک طرف اتمام حجت منظور ہوتاہے اور دوسری طرف ابتلائے اُمت۔ اس لیے بعض اُمور اُن میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ ایک ابتلا رکھتے ہیں اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ نشان مانگنے والے لوگ مستعجل اور حسن ظن سے حصہ نہ رکھنے والے ہوتے ہیں اور اُن کی طبیعت میں ایک احتمال اور شک پیدا کرنے کا مادہ ہوتاہے، تب ہی تو وہ نشان مانگتے ہیں۔ اس لیے جب نشان دیکھتے ہیں، تو پھر بیہودہ طور پر اس کی تاویلیں کرنی شروع کردیتے ہیں اور اس کو کبھی سحر کہتے ہیں، کبھی کچھ نام رکھتے ہیں۔ غرض وہ وہم پیدا کرنے والی طبیعت اُن کو اَمر حق سے دُور لے جاتی ہے۔ اس لیے مَیں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم وہ ایمان پیدا کرو جو ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابہ کا ایمان تھا، رضی اللہ عنہم کیونکہ اس میں حُسنِ ظن اور صبر ہے اور وہ بہت سے برکات اور ثمرات کا منتج ہے اور نشان دیکھ کر ماننا اور ایمان لانا اپنے ایمان کو مشروط بنانا ہے۔ یہ کمزور ہوتا ہے اور عموماً باروَر نہیں ہوتا۔ ہاں جب انسان حُسنِ ظن کے ساتھ ایمان لاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے مومن کو وہ نشان دکھاتا ہے جو اُس کے ازدیادِ ایمان کا موجب اور انشراح صدر کا باعث ہوتے ہیں۔ خود اُن کو نشان اور آیت اللہ بنادیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اقتراحی نشان کسی نبی نے نہیں دکھلائے۔ مومن صادق کو چاہئے کہ کبھی اپنے ایمان کونشان بینی پر مبنی نہ کرے۔

( ملفوظات، جلد اوّل، صفحہ 496،مطبوعہ 2018قادیان )