اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




کلام امام الزمان

2023-09-21

نیکیوں کی ماں اخلاق ہی ہے،خیر کا پہلا درجہ جہاں سے انسان قوت پاتا ہےاخلاق ہے

میرا تویہ مذہب ہے کہ دنیا میں ہر ایک چیز کام آتی ہے

مگر انسان جو اخلاقِ فاضلہ کو حاصل کرکے نفع رساں ہستی نہیں بنتا، ایساہوجاتا ہے کہ وہ کسی بھی کام نہیں آسکتا

ارشادات عالیہ سیّدناحضرت مسیح موعود ومہدی معہود علیہ الصّلٰوۃ و السّلام

 

اخلاق نیکیوں کی کلید ہے

اخلاق دوسری نیکیوں کی کلید ہے۔ جو لوگ اخلاق کی اصلاح نہیں کرتے وہ رفتہ رفتہ بے خیر ہوجاتے ہیں۔ میرا تویہ مذہب ہے کہ دنیا میں ہر ایک چیز کام آتی ہے۔ زہر اور نجاست بھی کام آتی ہے۔ اسٹرکینا بھی کام آتا ہے۔ اعصاب پر اپنا اثر ڈالتا ہے۔ مگر انسان جو اخلاقِ فاضلہ کو حاصل کرکے نفع رساں ہستی نہیں بنتا، ایساہوجاتا ہے کہ وہ کسی بھی کام نہیں آسکتا۔ مُردار حیوان سے بھی بدتر ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی تو کھال اور ہڈیاں بھی کام آجاتی ہیں۔ اُس کی تو کھال بھی کام نہیں آتی۔ اور یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں انسان بَلْ ھُمْ اَضَلُّ کا مصداق ہوجاتا ہے۔ پس یادرکھو کہ اخلاق کی درستی بہت ضروری چیز ہے، کیونکہ نیکیوں کی ماں اخلاق ہی ہے۔
خیر کا پہلا درجہ جہاں سے انسان قوت پاتا ہےاخلاق ہے۔ دو لفظ ہیں، ایک خَلق اور دوسرا خُلق۔ خَلق ظاہری پیدائش کا نام ہے اور خُلق باطنی پیدائش کا۔ جیسے ظاہر میںکوئی خوب صورت ہوتا ہے اور کوئی بہت ہی بدصورت۔ اسی طرح پر کوئی اندرونی پیدائش میں نہایت حسین اور دلربا ہوتا ہے اور کوئی اندر سے مجذوم اور مبروص کی طرح مکروہ۔ لیکن ظاہری صورت چونکہ نظرآتی ہے، اس لیے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان لیتا ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ بدصورت اور بدوضع ہو، مگر چونکہ اس کو دیکھتا ہے اس لیے اُس کو پسند کرتا ہے اور خُلق کو چونکہ دیکھا نہیں، اس لیے اُسکی خوبی سے ناآشنا ہوکر اُس کو نہیں چاہتا۔ ایک اندھے کیلئے خوبصورتی اور بدصورتی دونوں ایک ہی ہیں۔ اسی طرح پروہ انسان جس کی نظر اندرونہ تک نہیں پہنچتی، اس اندھے ہی کی مانند ہے۔ خَلق تو ایک بدیہی بات ہے۔ مگر خُلق ایک نظری مسئلہ ہے۔ اگر اخلاقی بدیاں اور ان کی لعنت معلوم ہو تو حقیقت کھلے۔ غرض اخلاقی خوبصورتی ایک ایسی خوبصورتی ہے جس کو حقیقی خوبصورتی کہنا چاہیے۔ بہت تھوڑے ہیں جو اس کو پہچانتے ہیں۔ اخلاق نیکیوں کی کلید ہے۔ جیسے باغ کے دروازے پر قفل ہو۔ دُور سے پھل پھول نظرآتے ہیں۔ مگر اندر نہیں جاسکتے۔ لیکن اگر قفل کھول دیا جاوے ، تو اند رجاکر پوری حقیقت معلوم ہوتی ہے اور دل و دماغ میں ایک سرور اور تازگی آتی ہے۔ اخلاق کو حاصل کرنا گویا اس قفل کو کھول کر اندر داخل ہونا ہے۔

( ملفوظات، جلد اوّل، صفحہ 481،مطبوعہ 2018قادیان )