بات یہ ہے کہ مُردوں سے مدد مانگنے کے طریق کو ہم نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ ضعیف الایمان لوگوں کاکام ہے کہ مُردوںکی طرف رجوع کرتے ہیں اورزندوں سے دُوربھاگتے ہیں۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں لوگ اُن کی نبوت کا انکار کرتے رہے اور جس روز انتقال کرگئے تو کہا کہ آج نبوت ختم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی مُردوں کے پاس جانے کی ہدایت نہیں فرمائی بلکہ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التوبۃ:119) کاحکم دے کر زندوں کی صحبت میںرہنے کا حکم دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے دوستوں کو بارباریہاں آنے اور رہنے کی تاکید کرتے ہیں اور ہم جو کسی دوست کو یہاں رہنے کے واسطے کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ محض اسکی حالت پر رحم کرکے ہمدردی اور خیر خواہی سے کہتے ہیں۔ مَیں سچ سچ کہتاہوں کہ ایمان دُرست نہیں ہوتا جب تک انسان صاحبِ ایمان کی صحبت میں نہ رہے اور یہ اس لیے کہ چونکہ طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں۔ ایک ہی وقت میں ہر قسم کی طبیعت کے موافقِ حال تقریر ناصح کے مُنہ سے نہیں نکلا کرتی۔ کوئی وقت ایسا آجاتا ہے کہ اس کی سمجھ اور فہم کے مطابق اُس کے مذاق پر گفتگو ہوجاتی ہے جس سے اُس کو فائدہ پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر آدمی باربار نہ آئے اور زیادہ دِنوں تک نہ رہے تو ممکن ہے کہ ایک وقت ایسی تقریر ہوجو اُس کے مذاق کے موافق نہیں ہے اور اُس سے اُس کو بددلی پیدا ہو اور وہ حسنِ ظن کی راہ سے دُور جاپڑے اور ہلاک ہوجاوے۔
غرض قرآن کریم کے منشاء کے موافق تو زندوں ہی کی صحبت میں رہنا ثابت ہوتا ہے۔
( ملفوظات، جلد اوّل، صفحہ 462،مطبوعہ 2018قادیان )