سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ‘‘ (البقرۃ : ۱۸۶)سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ صوفیا نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کیلئے عمدہ مہینہ ہے۔کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے۔تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خد اکو دیکھ لے۔پس اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ (البقرہ :۱۸۶)میں یہی اشارہ ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ روزہ کا اجر عظیم ہے لیکن امراض اور اغراض اس نعمت سے انسان کو محروم رکھتے ہیں مجھے یاد ہے کہ جوانی کے ایام میںمَیں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ روزہ رکھنا سنت اہل بیت ہے۔میرے حق میں پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا : سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ سلمان یعنی اَلصُّلْحَانُ کہ اس شخص کے ہاتھ سے دو صلح ہوں گی۔ایک اندرونی اور دوسری بیرونی اور یہ اپنا کام رِفق سے کرے گا نہ کہ شمشیر سے اور میں جب مَشْرَبِ حسین پر نہیں ہوں کہ جس نے جنگ کی بلکہ مَشْرَبِ حسن پر ہوں کہ جس نے جنگ نہ کی تو مَیں نے سمجھا کہ روزہ کی طرف اشارہ ہے چنانچہ میں نے چھ ماہ تک روزے رکھے۔اس اثنا میں میں نے دیکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جارہے ہیں یہ امر مشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمین سے آسمان پر جاتے تھے یا میرے قلب سے لیکن یہ سب کچھ جوانی میں ہو سکتا تھا اور اگر اس وقت میں چاہتا تو چار سال تک روزہ رکھ سکتا تھا۔
نشاط و جوانی تا بہ سی سال
چہل آمد فرو ریزد پر و بال
اب جب سے چالیس سال گزر گئے دیکھتا ہونکہ وہ بات نہیںورنہ اوّل میں بٹالہ تک کئی بار پیدل چلا جاتا تھااورپیدل آتا اور کوئی کسل اور ضعف مجھے نہ ہوتا اور اب تو اگر پانچ چھ میل بھی جائوں تو تکلیف ہوتی ہے چالیس سال کے بعد حرارت غریزی کم ہونی شروع ہو جاتی ہے خون کم پیدا ہوتا ہے اور انسان کے اوپرکئی صدمات رنج و غم کے گزرتے ہیں۔اب کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ اگر بھوک کے علاج میں زیادہ دیر ہو جائے تو طبیعت بے قرار ہو جاتی ہے۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 561مطبوعہ قادیان 2003)