اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




کلام امام الزمان

2023-04-27

ایک سچا مسلمان نہ مغضوب ہو سکتا ہے نہ ضالین کے زمرہ میں شامل ہو سکتا ہے

مغضوب وہ قوم ہے جس پر خدا تعالیٰ کا غضب بھڑکا اور ضال سے مراد عیسائی ہیں

مذہب اسلام چونکہ اعتدال پر واقع ہوا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے تعلیم یہی دی ہے اور مغضوب اور ضالین سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ ایک سچا مسلمان نہ مغضوب ہو سکتا ہے نہ ضالین کے زمرہ میں شامل ہو سکتا ہے۔ مغضوب وہ قوم ہے جس پر خدا تعالیٰ کا غضب بھڑکا۔ چونکہ وہ خود غضب کرنے والے تھے اس لیے خدا کے غضب کو کھینچ لائے اور وہ یہودی ہیں اور ضال سے مراد عیسائی ہیں۔
غضب کی کیفیت قوت سبعی سے پیدا ہوتی ہے اور ضلالت وہمی قوت سے پیدا ہوتی ہے۔ اور وہمی قوت حد سے زیادہ محبت سے پیدا ہوتی ہے۔ بیجا محبت والا انسان بہک جاتا ہے حُبُّکَ الشَّیْءِ یُعْمِیْ وَیُصِمُّ اس کا مبدء اور منشاقوت وہمی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ چادر کو بیل سمجھتا ہے اوررسی کو سانپ بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی شاعر نے اپنا معشوق ایسا قرار نہیں دیاجو دوسروں سے بڑھ کر نہ ہو۔ ہر ایک کے واہمہ نے نئی تصویر ایجادکی۔
قوت بہیمی میں جوش ہو کر انسان جادئہ اعتدال سے نکل جاتا ہے؛ چنانچہ غضب کی حالت میں درندہ کا جوش بڑھ جاتا ہے۔ مثلاً کتا پہلے آہستہ آہستہ بھونکتا ہے پھر کوٹھا سر پر اُٹھا لیتا ہے۔ آخر کار درندے طیش میں آکر نوچتے اور پھاڑ کھاتے ہیں۔ یہود نے بھی اسی طرح ظلم وتعدّی کی بُری عادتیں اختیار کیں اور غضب کو حد تک پہنچا دیا۔ آخر خود مغضوب ہو گئے۔ قوت وہمی کو جب استیلاء ہوتا ہے تو انسان رسی کو سانپ بناتا اور درخت کو ہاتھی بتلاتا ہے اور اس پر کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ یہ قوت عورتوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ اسی واسطے عیسائی مذہب اور بت پرستی کا بڑا سہارا عورتیں ہیں۔ غرض اسلام نے جادئہ اعتدال پر رہنے کی تعلیم دی جس کا نام اَلصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم ہے۔ (ملفوظات، جلداوّل ،صفحہ456،مطبوعہ قادیان 2003)