نبی وہ ہوتے ہیں جن کا تبتل الی اللہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ خدا سے کلام کرتے اور وحی پاتے ہیں
صدیق وہ ہوتے ہیں جو صدق کی تمام راہوں سے پیار کرتے ہیں اور صدق ہی چاہتے ہیں
شہید ایسا قوی الایمان انسان ہوتا ہے جس کو خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے سے بھی دریغ نہ ہو
صالحین کے اندر کسی قسم کی روحانی مرض نہیں ہوتی اور کوئی مادہ فساد کا نہیں ہوتا
ارشادات عالیہ سیّدناحضرت مسیح موعود ومہدی معہود علیہ الصّلٰوۃ و السّلام
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ(الفاتـحۃ:6) میں اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی راہ طلب کی گئی ہے او رمَیں نےکئی مرتبہ یہ بات بیان کی ہے کہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں چار گروہوں کا ذکر ہے۔ نبی، صدیق، شہید، صالح۔ پس جبکہ ایک مومن یہ دعا مانگتا ہے تو ان کے اخلاق اور عادات اورعلوم کی درخواست کرتا ہے۔ اس پر اگر ان چارگروہوں کے اخلاق حاصل نہیں کرتا، تو یہ دعااُس کے حق میں بے ثمرہوگی اور وہ بے جان لفظ بولنے والا حیوان ہے۔ یہ چارطبقے اُن لوگوں کے ہیں، جنہوں نے خداتعالیٰ سے علومِ عالیہ اور مراتب عظیمہ حاصل کیے ہیں۔ نبی وہ ہوتے ہیں جن کا تبتل الی اللہ اس حدتک پہنچ جاتا ہے کہ وہ خدا سے کلام کرتے اور وحی پاتے ہیں اور صدیق وہ ہوتے ہیں جو صدق سے پیار کرتے ہیں۔ سب سے بڑا صدق لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے اور پھر دوسرا صدق مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے۔ وہ صدق کی تمام راہوں سے پیار کرتے ہیں اور صدق ہی چاہتے ہیں۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو شہید کہلاتے ہیں۔ وہ گویا خدا تعالیٰ کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ شہید وہی نہیں ہوتا جو قتل ہو جائے۔ کسی لڑائی یا وبائی امراض میںمارا جاوے،بلکہ شہید ایسا قوی الایمان انسان ہوتا ہے،جس کو خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے سے بھی دریغ نہ ہو۔ صالحین وہ ہوتے ہیں جن کے اندر سے ہر قسم کا فساد جاتا ہے۔ جیسے تندرست آدمی جب ہوتا ہے تو اس کی زبان کا مزا بھی درست ہوتا ہے۔ پورے اعتدال کی حالت میں تندرست کہلاتا ہے۔ کسی قسم کا فساد اندر نہیں رہتا۔ اسی طرح پرصالحین کے اندر کسی قسم کی روحانی مرض نہیں ہوتی اور کوئی مادہ فساد کا نہیں ہوتا۔ اس کا کمال اپنے نفس میں نفی کے وقت ہے اور شہید،صدیق،نبی کا کمال ثبوتی ہے۔ شہید ایمان کو ایسا قوی کرتا ہے گویا خدا کو دیکھتا ہے۔ صدیق عملی طور پر صدق سے پیار کرتا اور کذب سے پرہیز کرتا ہے۔ اور نبی کا کمال یہ ہے کہ وہ ردائے الٰہی کے نیچے آجاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کمال کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہوسکتے اور مولوی یا علماء کہتے ہیں کہ بس ظاہری طور پر کلمہ پڑھ لے اور نماز روزہ کے احکام کا پابند ہو جاوے اور اس سے زیادہ ان احکام کے ثمرات اور نتائج کچھ نہیں اور نہ ان میںکچھ حقیقت ہے۔ یہ بڑی بھاری غلطی ہے اور ایمانی کمزوری ہے۔ انہوںنے رسالت کے مدعا کو نہیں سمجھا۔
( ملفوظات، جلد اوّل، صفحہ 465،مطبوعہ 2018قادیان )