یہ ایک باریک امر ہے کہ اگر کسی شخص پر (اپنے نفس کے کسل کی وجہ سے) روزہ گراں ہے اور وہ اپنے خیال میں گمان کرتا ہے کہ میں بیمار ہوں اور میری صحت ایسی ہے کہ اگر ایک وقت نہ کھائوں تو فلاں فلاں عوارض لاحق ہونگے اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا تو ایسا شخص جو خد اتعالیٰ کی نعمت کو خود اپنے اُوپر گراں گمان کرتا ہے۔کب اس ثواب کا مستحق ہوگا۔ہاں وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آگیا اور میں اس کا منتظر تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر وہ بوجہ بیماری کے روزہ نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے۔اس دنیا میں بہت لوگ بہانہ جُو ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جس طرح اہل دنیا کو دھوکا دے لیتے ہیں ویسے ہی خدا کو فریب دیتے ہیں۔بہانہ جو اپنے وجود سے آپ مسئلہ تراش کرتے ہیں اور تکلفات شامل کر کے ان مسائل کو صحیح گردانتے ہیں۔لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ صحیح نہیں۔تکلفات کا باب بہت وسیع ہے اگر انسان چاہے تو اس (تکلف) کی رو سے ساری عمر بیٹھ کر نماز پڑھتا رہے اور رمضان کے روزے بالکل نہ رکھے مگر خدا اس کی نیت اور ارادہ کو جانتا ہے جو صدق اور اخلاص رکھتا ہے۔خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کے دل میں درد ہے اور خدا تعالیٰ اسے ثواب سے زیادہ بھی دیتا ہے کیونکہ درد دل ایک قابل قدر شئے ہے۔حیلہ جُو انسان تاویلوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شئے نہیں۔جب میں نے چھ ماہ روزے رکھے تھے تو ایک دفعہ ایک طائفہ انبیاء کا مجھے (کشف میں )ملااور انہوں نے کہا کہ تُونے کیوں اپنے نفس کو اس قدر مشقت میں ڈالا ہوا ہے، اس سے باہر نکل۔اسی طرح جب انسان اپنے آپ کو خدا کے واسطے مشقت میں ڈالتا ہے تو وہ خود ماں باپ کی طرح رحم کرکے اسے کہتا ہے کہ تو کیوں مشقت میں پڑا ہوا ہے۔
یہ لوگ ہیں کہ تکلف سے اپنے آپ کو مشقت سے محروم رکھتے ہیں۔اس لئے خدا ان کو دوسری مشقتوں میں ڈالتا ہے اور نکالتا نہیں اور دوسرے جو خود مشقت میں پڑتے ہیں ان کو وہ آپ نکالتا ہے۔انسان کو واجب ہے کہ اپنے نفس پر آپ شفقت نہ کرے بلکہ ایسا بنے کہ خدا تعالیٰ اس کے نفس پر شفقت کرے کیونکہ انسان کی شفقت اس کے نفس پر اس کے واسطے جہنم ہے اور خدا تعالیٰ کی شفقت جنت ہے۔ابراہیم علیہ السلام کے قصہ پر غور کرو کہ جو آگ میں گرنا چاہتے ہیں تو ان کو خد اتعالیٰ آگ سے بچاتا ہے۔اور جو خود آگ سے بچنا چاہتے ہیں وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں۔یہ سلم ہے اور یہ اسلام ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش آئےاس سے انکار نہ کرے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عصمت کی فکر میں خود لگتے تو وَاللہُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کی آیت نازل نہ ہوتی۔حفاظت الٰہی کا یہی سر ہے۔
(ملفوظات جلد 2 صفحہ 564 مطبوعہ قادیان 2003)