احادیثِ نبویؐ کا ایک بہت بڑا اور بہت ضروری حصہ حضرت عائشہؓ ہی کی روایات پر مبنی ہے حتی کہ ان کی روایتوں کی کل تعداد دو ہزار دو سو دس تک پہنچتی ہے(حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم .اےرضی اللہ عنہ)
اسلام تو جنگی حالات میں بھی عورتوں، بچوں اور کسی طرح بھی جنگ میں حصّہ نہ لینے والوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا اور اس بات کی آنحضرت ﷺنے بڑی سختی سے ہدایت بھی فرمائی ہے(سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)
سوال:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے شادی کے متعلق کیا رؤیا دیکھی تھی؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے بعد فرمایاتم مجھے رؤیا میں دو مرتبہ دکھائی گئی قبل اس کے کہ میں تم سے شادی کرتا۔ میں نے فرشتے کو دیکھا اس نے تمہیں ریشم کے ایک ٹکڑے میں اٹھایا ہوا تھا۔
سوال:کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا شادی کے وقت 8 سال کی تھیں؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:حضرت عائشہؓ کا نو سالہ ہونا تو صرف بے سروپا اقوال میں آیا ہے کسی حدیث یا قرآن سے ثابت نہیں۔
سوال: حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی رخصتی کی کیا تفصیلات بیان فرمائی ہیں؟
جواب: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت عائشہؓ کی رخصتی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ شادی فرمائی تھی۔ یہ سنہ نبوی کا دسواں سال اور شوال کا مہینہ تھا اور اس وقت حضرت عائشہؓ کی عمرسات سال کی تھی۔مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نشوونما اس وقت بھی غیرمعمولی طور پر اچھا تھا، ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ خولہ بنت حکیم کو جو اُن کے نکاح کی محرک بنی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کیلئے ان کی طرف خیال جاتا لیکن بہرحال ابھی تک وہ بالغ نہیں ہوئی تھیں، اس لیے اس وقت نکاح تو ہوگیا مگر رخصتانہ نہیں ہوا اور وہ بدستور اپنے والدین کے پاس مقیم رہیں، لیکن اب ہجرت کے دوسرے سال جب کہ ان کی شادی پر پانچ سال گذر چکے تھےاور ان کی عمر بارہ سال کی تھی وہ بالغ ہو چکی تھیں، چنانچہ خود حضرت ابو بکرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر رخصتانہ کی تحریک کی۔ جس پر آپؐ نے مہر کی ادائیگی کا انتظام کیا … اور ماہ شوال2ھ میں حضرت عائشہؓ اپنے والدین کے گھر سے رخصت ہو کر حرمِ نبویؐ میں داخل ہو گئیں۔
سوال: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کرنے کا کیا منشاء تھا؟
جواب: حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں: باوجود …صغر سنی کےحضرت عائشہؓ کا ذہن اور حافظہ غضب کا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کے ماتحت انہوں نے نہایت سرعت کے ساتھ حیرت انگیز طور پر ترقی کی۔ اور دراصل اس چھوٹی عمر میں ان کو اپنے گھر میں لے آنے سے آپؐ کی غرض ہی یہ تھی کہ تا آپؐ بچپن سے ہی اپنے منشاء کے مطابق ان کی تربیت کر سکیں اور تا انہیں آپؐ کی صحبت میں رہنے کالمبے سے لمبا عرصہ مل سکے اور وہ اس نازک اور عظیم الشان کام کے اہل بنائی جاسکیں جو ایک شارع نبی کی بیوی پر عاید ہوتا ہے۔ چنانچہ آپؐاس منشاء میں کامیاب ہوئے اور حضرت عائشہؓ نے مسلمان خواتین کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کا وہ کام سرانجام دیا جس کی نظیر تاریخِ عالم میں نہیں ملتی۔
سوال: حضرت عائشہ ؓسے کتنی احادیث مروی ہیں؟
جواب:حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓفرماتے ہیں: احادیث نبویؐ کا ایک بہت بڑا اور بہت ضروری حصہ حضرت عائشہؓ ہی کی روایات پر مبنی ہے حتی کہ ان کی روایتوں کی کل تعداد دو ہزار دو سو دس تک پہنچتی ہے۔
سوال: حضرت عائشہ ؓ کے خواندہ ہونے کے متعلق حضرت بشیر احمد صاحب نے کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓفرماتے ہیں:مگر بخاری کی ایک روایت سے پتہ لگتا ہے کہ ان کے پاس ایک نسخہ قرآن شریف کا لکھا ہوا موجود تھا۔ جس پر سے انہوں نے ایک عراقی مسلمان کو بعض آیات خود املاء کرائی تھیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ کم از کم خواندہ ضرور تھیں اور اغلب ہے کہ انہوں نے اپنے رخصتانہ کے بعد ہی لکھنا سیکھا تھا لیکن جیساکہ بعض مؤرخین نے تصریح کی ہے وہ غالباً لکھنا نہیں جانتی تھیں۔
سوال: حضرت عائشہؓآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کتنا عرصہ زندہ رہیں؟
جواب: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓفرماتے ہیں:حضرت عائشہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کم و بیش اڑتالیس سال زندہ رہیں اور58ھ کے ماہِ رمضان میں اپنے محبوب حقیقی سے جا ملیں۔ اس وقت ان کی عمر قریباً اڑسٹھ سال کی تھی۔
سوال: احمدی مسلمانوں کے پاس کون سا ہتھیار جسے ہر ایک کو استعمال کرنا چاہئے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: ہمارے پاس تو دعا ہی کا ہتھیار ہے اسے ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر استعمال کرنا چاہیے۔
سوال: امام بیہقی نے حضرت زینب کے مکہ آنے کا کیا واقعہ بیان کیا ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:امام بیہقی نے حضرت زینبؓ کے مکہ سے آنے کا واقعہ بیان کر کے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ ؓکو اپنی انگوٹھی دے کر مکہ روانہ کیا کہ زینب کو اپنے ہمراہ لے آئے۔ اس نے اپنی حکمت و دانائی سے یہ انگوٹھی ایک چرواہے کو دی اور اس نے حضرت زینبؓ کو پہنچا دی۔ حضرت زینبؓ یہ انگوٹھی دیکھ کر پہچان گئیں توآپ نے اس سے پوچھا: تجھے یہ کس نے دی ہے؟ اس نے بتایا مکے سے باہر ایک آدمی نے مجھے دی ہے۔ چنانچہ حضرت زینبؓ رات کو مکے سے باہر آئیں اور اس کے پیچھے سوار ہو گئیں اور وہ آپؓکو مدینہ لے آئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ میری سب بیٹیوں سے زینب افضل ہے کہ اس کو میری وجہ سے تکلیف پہنچی۔
سوال: حضرت زینبؓکو مدینہ سے ہجرت کرتے ہوئے کیا صدمہ پہنچاجس کے بعد ان کا انتقال ہوگیا؟
جواب: حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں : حضرت زینبؓ کی ہجرت کے متعلق یہ روایت آتی ہے کہ جب وہ مدینہ آنے کیلئے مکہ سے نکلیں تومکہ کے چند قریش نے ان کو بزور واپس لے جانا چاہا۔ جب انہوں نے انکار کیا توایک بدبخت ھَبَّار بن اسود نامی نے نہایت وحشیانہ طریق پران پرنیزے سے حملہ کیا جس کے ڈر اورصدمہ کے نتیجہ میں انہیں اسقاط ہو گیا بلکہ اس موقع پر ان کو کچھ ایسا صدمہ پہنچ گیا کہ اسکے بعد ان کی صحت کبھی بھی پورے طورپر بحال نہیں ہوئی اور بالآخر انہوں نے اسی کمزوری اورضعف کی حالت میں بے وقت انتقال کیا۔
سوال:کیا جنگی حالات میں عورتوں اور بچوں کو قتل کیا جاسکتا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:اسلام تو جنگی حالات میں بھی عورتوں بچوں اور کسی طرح بھی جنگ میں حصّہ نہ لینے والوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا اور اس بات کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سختی سے ہدایت بھی فرمائی ہے۔
…٭…٭…٭…