اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-22

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ20؍اکتوبر 2023 بطرز سوال وجواب

آنحضرت ﷺاموال کی تقسیم میں ایسے محتاط تھے کہ باوجود اسکے کہ

حضرت فاطمہؓ کو ایک خادم کی ضرورت تھی اور چکّی پیسنے سے آپؓ کے ہاتھوں کو تکلیف ہوتی تھی

مگر پھر بھی آپ ﷺنے ان کو خادم نہ دیا بلکہ دعا کی تحریک کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہی متوجّہ کیا

 

اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے کفر کی وجہ سے علیحدہ ہوتی ہے تو پھر خاوند کے ایمان لانے پر دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی


سوال:آنحضرت ﷺ نے جمادی الاولیٰ چھ ہجری میں زید بن حارثہؓ کی کمان میں کون سا سریہ عیص مقام کی جانب روانہ فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمادی الاولیٰ چھ ہجری میں زید بن حارثہؓ کی کمان میں ایک سریہ عیص مقام کی جانب روانہ فرمایا۔


سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےزید بن حارثہ کو کتنے صحابہؓکی کمان میں مدینہ سے روانہ فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: آنحضرت ﷺنے جمادی الاولیٰ چھ ہجری میں زید بن حارثہ کو ستر صحابہؓ کی کمان میں مدینہ سے روانہ فرمایا۔


سوال: تجارتی سامان کے قافلے کا کا کیا مقصد تھا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: تجارتی سامان کے قافلہ کا مقصد یہ تھا کہ اسکی آمد سے پھر مسلمانوں پہ حملہ کیا جائے اور جنگ کی جائے۔


سوال:حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ابوالعاص کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کا تذکرہ کرتے ہوئے کیا بیان فرمایا ہے؟
جواب: حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ابوالعاص کے متعلق آنحضرتﷺ کی خوشنودی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس طرح لکھا ہے :آنحضرتﷺ کے داماد ابوالعاص بن الربیع حضرت خدیجہؓ مرحومہ کے قریبی رشتہ دار یعنی حقیقی بھانجے تھے اور باوجود مشرک ہونے کے انکا سلوک اپنی بیوی سے بہت اچھا تھا اور مسلمان ہونے کے بعد بھی میاں بیوی کے تعلقات بہت خوشگوار رہے۔ چنانچہ آنحضرتﷺ اس جہت سے ابوالعاص کی بہت تعریف فرمایا کرتے تھے کہ اس نے میری لڑکی کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ ابوالعاص حضرت ابوبکرؓکے عہد خلافت میں 12ھ میں فوت ہوئے مگر ان کی زوجہ محترمہ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہی فوت ہو گئیں۔


سوال: غزوہ ٔ سویق کب ہوا اور اس کا کیا سبب تھا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:غزوۂ سویق دو ہجری ذوالحجہ میں ہوا۔ غزوۂ سویق کا سبب یہ ہے کہ جب مشرکین شکست خوردہ اور غمناک،مکّہ کی طرف واپس آئے تو ابوسفیان نے خود پر تیل لگانا حرام کر دیا۔ اس نےنذر مانی کہ وہ غسل نہیں کرے گا یہاں تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ اور آپ ؐکے صحابہؓ سے بدر کا انتقام لے لے۔ ابوسفیان دو سو سواروں کے ساتھ اپنی قسم کو پورا کرنے کیلئے نکلا اور مدینے کی طرف جانے والا راستہ ترک کرتے ہوئے نجد کے راستے روانہ ہوا۔ جب وہ وادی قَنَاۃکے سرے پر پہنچا تو اس نے یَتِیب نامی پہاڑ کے قریب پڑاؤ ڈالا۔وہ رات کے وقت نکلا اور رات کی تاریکی میں ہی قبیلہ بنو نضیر کی طرف گیا اور حُیَیِّبِن اخطب کے پاس پہنچ کر اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ پھر وہاں سے سَلَّام بن مِشْکَم کے پاس گیا ۔ ابوسفیان نے اس سے اجازت مانگی۔ اس نے اجازت دے دی اور اس کی خاطر تواضع کی، کھلایا پلایا اور لوگوں کی راز کی باتیں بتائیں اور رسول اللہ ﷺ کے روزانہ کے معمول کے بارے میں بتایا کہ وہ کیا کیا کرتے ہیں، کس وقت کہاں ہوتے ہیں۔ ابوسفیان رات کے آخری حصے میں وہاں سے روانہ ہوا اور اپنے ساتھیوں سے جا ملا۔ اس نے قریش کے چند لوگوں کو مدینے کے نواح میں عُرَیْض نامی جگہ کی طرف بھیجا۔ انہوں نے وہاں کھجوروں کے درختوں کے کئی جھنڈ جلا دیے اور ایک انصاری شخص اور اسکے حلیف کو قتل کر دیا۔ جب ابوسفیان نے سمجھا کہ اسکی قسم پوری ہو چکی ہے، نقصان جو اس نے پہنچا دیا تو کچھ نہ کچھ بدلہ لے لیا۔ انتقام کی آگ کچھ ٹھنڈی ہوئی تو وہ اپنا لشکر لے کر مکّہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں حضرت ابولُبابہ بشیر بن عبدالمنذرؓ کو اپنا نائب مقرر فرمایا اور ہجرت کے بائیسویں ماہ، پانچ ذوالحجہ کو اتوار کے دن مہاجرین اور انصار میں سے دو سو صحابہ کو ساتھ لے کر ان کے تعاقب میں نکلے یہاں تک کہ آپؓ قَرْقَرۃ الکُدْر پہنچ گئے۔ ابوسفیان اور اسکا لشکر چھپتے چھپاتے بھاگتے جا رہے تھے اور ستو کے تھیلے پھینکتے جا رہے تھے اور یہی انکا عام زادِ راہ تھا۔ مسلمان انہیں اٹھاتے جا رہے تھے۔ اس لیے اس غزوہ کا نام غزوۃ السویق یعنی ستووں والا غزوہ پڑ گیا۔


سوال: حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓکے غزوہ سویق کی بابت کیا فرمایا؟
جواب:حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓنے فرمایا: بدر کے بعد ابوسفیان نے قسم کھائی تھی کہ جب تک مقتولین بدر کا انتقام نہ لے لے گا کبھی اپنی بیوی کے پاس نہ جائے گا اورنہ کبھی اپنے بالوں کوتیل لگائے گا۔ چنانچہ بدرکے دوتین ماہ بعد ذوالحجہ کے مہینہ میں ابوسفیان دوسومسلح قریش کی جمعیت کواپنے ساتھ لے کر مکہ سے نکلا اورنجدی راستہ کی طرف سے ہوتا ہوا مدینہ کے پاس پہنچ گیا۔ یہاں پہنچ کراس نے اپنے لشکر کومدینہ سے کچھ فاصلہ پر چھوڑا اور خود رات کی تاریکی کے پردہ میں چھپتا ہوا یہودی قبیلہ بنونضیر کے رئیس حُیِیبن اَخْطَب کے مکان پر پہنچا اوراس سے امداد چاہی مگر اس نے انکار کیا۔ابو سفیان اسی طرح چھپتا ہوا بنونضیر کے دوسرے رئیس سلام بن مشکم کے مکان پر گیا اور اس سے مسلمانوں کے خلاف اعانت کا طلب گار ہوا۔ اس بدبخت نے ابوسفیان کی بڑی آؤ بھگت کی اوراسے اپنے پاس رات کو مہمان رکھا اور اس سے مسلمانوں کے حالات کے متعلق مخبری کی۔ صبح ابوسفیان وہاں سے نکلا اور اس نے قریش کے ایک دستے کو مدینہ کے قریب عریض کی وادی میں چھاپہ مارنے کیلئے روانہ کردیا۔ جب قریش کا یہ دستہ وادی عریض میں پہنچا توانہوں نےایک مسلمان انصاری اوراسکا ایک ساتھی کو پکڑ کر ظالمانہ طورپر قتل کر دیا اور کھجوروں کے درختوں کو آگ لگاکر اوروہاں کے مکانوں اور جھونپڑیوں کو جلا کر ابوسفیان کی قیام گاہ کی طرف واپس لوٹ گئے۔ ابوسفیان نے اسکامیابی کواپنی قسم کے پورا ہونے کیلئے کافی سمجھ کر لشکر کو واپسی کا حکم دیا۔ دوسری طرف آنحضرت ﷺکو ابوسفیان کے حملہ کی اطلاع ہوئی تو آپؐصحابہ کی ایک جماعت ساتھ لے کر اسکے تعاقب میں نکلے مگر چونکہ ابوسفیان اپنی قسم کے ایفاء کو مشکوک نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ ایسی سراسیمگی کے ساتھ بھاگا کہ مسلمان اسکے لشکر کو پہنچ نہیں سکے اوربالآخر چند دن کی غیر حاضری کے بعد آنحضرت ﷺ مدینہ واپس لوٹ آئے۔ اس غزوہ کو غزوۂ سویق کہتے ہیں جسکی وجہ یہ ہے کہ جب ابوسفیان مکہ کوواپس لوٹا تو تعاقب کے خیال کی وجہ سے کچھ تو گھبراہٹ میں اور کچھ اپنا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے وہ اپنا سامانِ رسد جوزیادہ ترسویق یعنی ستو کے تھیلوں پرمشتمل تھا راستہ میں پھینکتا گیا تھا۔


سوال: اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے کفر کی وجہ سے علیحدہ ہوتی ہے تو کیا خاوند کے ایمان لانے پر دوبارہ نکاح کی ضرورت ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے کفر کی وجہ سے علیحدہ ہوتی ہے تو پھر خاوند کے ایمان لانے پر دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی۔


سوال:آج کل شادی کے بعد لڑکا لڑکی میں جو مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اسکے بارے میں حضور انور نے کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:آج کل کے شادی کے بعد لڑکا لڑکی میں جو مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ صرف دنیا کی ہوا و ہوس ہے جو بہت زیادہ ہو گئی ہے اور دین اور خدا تعالیٰ کے احکامات پر توجہ کم ہے۔ اگر دین کو مقدّم رکھا جائے اور اس طرح دعا کی جائے اور والدین بھی اس طرح اپنا کردار ادا کریں تو رشتے قائم رہ سکتے ہیں۔


سوال: آنحضرت ﷺ اموال کی تقسیم میں کیسے محتاط تھے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:آنحضرت ﷺ اموال کی تقسیم میں ایسے محتاط تھے کہ باوجود اسکے کہ حضرت فاطمہؓ کو ایک خادم کی ضرورت تھی اور چکّی پیسنے سے آپؓ کے ہاتھوں کو تکلیف ہوتی تھی مگر پھر بھی آپؐنے ان کو خادم نہ دیا بلکہ دعا کی تحریک کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہی متوجّہ کیا۔

…٭…٭…٭…