اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-08

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ29؍ستمبر2023بطرز سوال وجواب

غزوہ احد میں پیش آنے والے واقعات کا دلنشین تذکرہ

اور حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا ایمان افروز بیان


سوال: حضرت عمیرؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: حضرت عمیرؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہؐ! مَیں ہروقت اللہ کے نور کو بجھانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا اور جو لوگ اللہ کے دین کو قبول کر چکے تھے ان کو زبردست تکلیفیں پہنچایا کرتا تھا۔ پس اب مَیں پسند کرتا ہوں کہ آپؐمجھے مکہ جانے کی اجازت دیں تا کہ وہاں مکے والوں کو اللہ کی طرف بلاؤں اور اسلام کی دعوت دوں ۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرما دے ورنہ پھر مَیں ان لوگوں کو ان کی بت پرستی کی بنا پر اسی طرح تکلیفیں پہنچاؤں گا جیسے مَیں اسلام کی وجہ سے آپؐ کے صحابہؓ کو تکلیفیں پہنچاتا رہا ہوں ۔


سوال: جب صفوان کو حضرت عمیر ؓ کے قبول اسلام کے متعلق معلوم ہوا تو آپ نے کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: جب صفوان کو اطلاع ملی کہ حضرت عمیر ؓ نے اسلام قبول کر لیا ہے۔صفوان نے حلف اٹھایا کہ کبھی اس سے بات نہیں کروں گا اور کبھی اسکو کوئی نفع نہیں پہنچاؤں گا۔


سوال: عبداللہ بن ابی بن سلول کے اسلام لانے کے متعلق علامہ ابن کثیر نے کیا بیان کیاہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:علامہ ابن کثیر سورہ بقرہ کی آیت نو دس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ جب غزوۂ بدر کا واقعہ پیش آیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے کلمے کو غالب کیا اور اسلام اور اہل اسلام کو عزت دی تو عبداللہ بن ابی بن سلول جو مدینےکا رئیس اور بنو خزرج میں سے تھا اور زمانہ جاہلیت میں ان دونوں قبائل یعنی اوس اور خزرج کا سردار تھا ان لوگوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ ان پر حکومت کرے گا۔ یعنی عبداللہ بن ابی کو اپنا سردار بنا رہے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ اسکی قوم تاج بنوا کر اسے بادشاہ بنانے کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ اسی دوران بھلائی آ پہنچی یعنی اسلام کا پیغام پہنچ گیا اور لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور اسے بھول گئے۔ اس وجہ سے اسلام اور اہل اسلام اسکے دل میں کھٹکنے لگے۔ جب بدر کا واقعہ ہوا تو وہ کہنے لگا یہ امر تو اب غالب آتا جا رہا ہے۔ پہلے تو اس کا خیال تھا کہ تھوڑے سے لوگ ہیں جب بدر کی جنگ جیتی گئی تو اس سے اس کو فکر پیدا ہوئی چنانچہ اس نے بظاہر اسلام قبول کیا اور اسکے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسکے پیروکاروں کی ایک جماعت نے بھی اسلام قبول کر لیا اور بعض اہلِ کتاب بھی ان کے ساتھ تھے۔


سوال: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کے متعلق کیا فرمایا؟
جواب:حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓفرماتے ہیں:ابھی تک مدینہ میں قبائل اوس اورخزرج کے بہت سے لوگ شرک پر قائم تھے۔ بدر کی فتح نے ان لوگوں میں ایک حرکت پیدا کردی اوران میں سے بہت سے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظیم الشان اورخارق عادت فتح کو دیکھ کر اسلام کی حقانیت کے قائل ہو گئے اور اسکے بعد مدینہ سے بت پرست عنصر بڑی سرعت کے ساتھ کم ہونا شروع ہو گیا مگر بعض ایسے بھی تھے جن کے دلوں میں اسلام کی اس فتح نے بغض وحسد کی چنگاری روشن کردی اور انہوں نے برملا مخالفت کوخلاف ِمصلحت سمجھتے ہوئے بظاہر تو اسلام قبول کر لیا لیکن اندر ہی اندر اسکے استیصال کے درپے ہو ہو کر منافقین کے گروہ میں شامل ہو گئے۔ ان مؤخرالذکر لوگوں میں زیادہ ممتاز عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا جو قبیلہ خزرج کاایک نہایت نامور رئیس تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں تشریف لانے کے نتیجہ میں اپنی سرداری کے چھینے جانے کا صدمہ اٹھا چکا تھا۔ یہ شخص بدر کے بعد بظاہر مسلمان ہو گیا لیکن اسکادل اسلام کے خلاف بغض وعداوت سے لبریز تھا اوراہلِ نفاق کاسردار بن کر اس نے مخفی مخفی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ریشہ دوانی کاسلسلہ شروع کر دیا۔ چنانچہ بعد کے واقعات سے پتہ لگے گا کہ کس طرح یہ شخص بعض اوقات اسلام کیلئے نہایت نازک حالت پیدا کردینے کا باعث بنا۔


سوال:عمیر بن وہب جب اپنی ناکامی کا بدلہ لینے مدینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کیلئے آیا تو کیا ہوا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:عمیر بن وہب آنحضرت ﷺ کے قتل کیلئے مسجد نبویؐ پہنچا تو یہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور غزوۂ بدر کی باتیں کر رہے تھے۔ عمیر نے جونہی مسجد نبویؐ کے دروازے پر اپنی اونٹنی بٹھائی تو حضرت عمرؓ نے اس کو دیکھتے ہی کہا کہ خدا کا دشمن عُمیر بن وہب ضرور کسی بُرے ارادے سے یہاں آیا ہے۔ پھر حضرت عمرؓ فوراً ہی وہاں سے اٹھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپؐ کے حجرۂ مبارک میں گئے اور عرض کیا: اے پیغمبر خداؐ! خدا کا یہ دشمن عُمیر بن وہب ننگی تلوار لیے آیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اسے میرے پاس اندر لے آؤ۔ حضرت عمرؓ سیدھے عمیر کے پاس آئے اور تلوار کا جو پٹکا اس کی گردن میں پڑا ہوا تھا اس کو مضبوطی سے پکڑ کر عمیر کو لے چلے۔ حضرت عمرؓ کے ساتھ اس وقت وہاں جو انصاری مسلمان موجود تھے ان سے حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اندر چلو اور آپؐکے قریب ہی بیٹھو کیونکہ اس کی طرف سے مجھے اطمینان نہیں ہے۔ اسکے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اندر آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حال میں آ رہے ہیں کہ ہاتھ سے عمیر کی تلوار کا وہ پٹکا مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے جو اسکی گردن میں تھا تو آپؐنے فرمایا۔ عمر! اس کو چھوڑ دو۔ پھر آپؐنے فرمایا: عمیر قریب آؤ۔ عمیر قریب آیا اور اس نے جاہلیت کے آداب کے مطابق اَنْعَمُوْا صَبَاحًاکہتے ہوئے سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمیر سے کہا تم کس لیے آئے ہو؟ عمیر نے کہا میں اپنے اس قیدی یعنی اپنے بیٹے کے سلسلے میں بات کرنے آیا ہوں جو آپ لوگوں کے قبضے میں ہے۔آپؐنے اسکی ننگی تلوار دیکھ کے فرمایا: پھر اس تلوار کا کیا مطلب ہے؟ عمیر نے کہا خدا اس تلوار کا ناس کرے۔ کیا آپ نے ہمیں کسی قابل چھوڑا ہے؟ اس تلوار نے پہلے کونسا ہمارا ساتھ دیا ہے۔ آپؐنے فرمایا مجھے سچ سچ بتاؤ تم کس مقصد سے آئے ہو؟ عمیر نے کہا میں واقعی اس کے سوا اَور کسی ارادے سے نہیں آیا کہ اپنے قیدی کے متعلق آپ سے بات کروں ۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ ایک دن تم اور صَفْوَان بن امیہ حطیم کے پاس بیٹھے تھے اور قریش کے ان مقتولوں کی باتیں کر رہے تھے جن کو جنگِ بدر میں قتل کر کے گڑھے میں ڈالا گیا ہے۔ اس وقت تم نے صفوان سے کہا تھا کہ اگر مجھ پر ایک قرض نہ ہوتا اور اپنے بیوی بچوں کی فکر نہ ہوتی تو میں جا کر محمدؐ کو قتل کر دیتا۔ صفوان نے میرے قتل کی شرط پر تمہارا قرض اتارنے اور بیوی بچوں کی ذمہ داری لے لی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ساری باتیں اللہ تعالیٰ نے بتا دی تھیں ۔ عمیر نے جب یہ سب سنا تو فوراً بول اٹھا کہ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ یا رسول اللہؐ! آپؐکے پاس آسمان سے جو خبریں آیا کرتی ہیں اور آپؐ پر جو وحی نازل ہوتی ہے ہم اسکو جھٹلایا کرتے تھے اور جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے تو اس وقت حطیم کے پاس میرے اور صفوان کے سوا کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا اور نہ ہی کسی اَور کو ہماری اس گفتگو کی خبر ہے۔ اس لیے خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ کے سوا آپؐکو اَور کوئی اس کی خبر نہیں دے سکتا۔


سوال:قبول اسلام کے بعد عمیر بن وہب نے صفوان بن امیہ کو کیا کہا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: عمیر صفوان بن امیہ کے پاس پہنچے اور اس کو پکار کر کہا تم ہمارے سرداروں میں سے ایک سردار ہو۔ تمہیں معلوم ہی ہے کہ ہم پتھروں کی پوجا اور ان کیلئے قربانیاں کیا کرتے تھے۔ کیا یہ کوئی دین ہوا! مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔


سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ بدر سے لَوٹے تو آپؐکوکن کے متعلق حملہ کرنے کے بارہ میں اطلاع ملی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ بدر سے لَوٹے تو چند ہی دنوں بعد آپؐکو اطلاع ملی کہ بنوسُلَیم اور بنو غطفان کے لوگ قَرقَرۃ الکُدر کے مقام پر جمع ہیں اور مدینے پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔ قَرقَرۃالکُدر ایک چٹیل میدان میں ایک چشمہ تھا اس کا نام ہے۔ یہ ادھر نجد کے راستے میں مکہ سے شام جانے والی شاہراہ پر مدینے سے چھیانوے میل کے فاصلے پر واقعہ ہے۔


سوال: مسلمانوں نے پہلی عید الفطر کب منائی؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: مسلمانوں کی پہلی عیدالفطر کے بارے میںجو شوال دو ہجری میں ہوئی اسکے بارے میں لکھا ہے کہ ہجرت کے دوسرے برس ماہ رمضان کے اختتام پر آپ ﷺ نے پہلی عید الفطر ادا فرمائی۔

…٭…٭…٭…