اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-08

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ6؍اکتوبر 2023 بطرز سوال وجواب

عصماء اور ابوعفک یہودی کے قتل کے واقعات روایتاً اور درایتاً درست ثابت ہی نہیں ہوتے

اور اگر بالفرض انہیں درست سمجھا بھی جاوے تو وہ اس زمانہ کے حالات کے ماتحت قابل اعتراض نہیں سمجھے جاسکتے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہ یہ الزام ہی غلط ہے کہ آپؐنے حکم دیا کہ ان کو قتل کرو

یہ سب من گھڑت باتیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہیں

غزوہ احد میں پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ


سوال: ابوعفک یہودی کے متعلق کون سی فرضی روایت ملتی ہےجسکی وضاحت حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:ایک فرضی واقعہ ابوعفک یہودی کے قتل کا بیان کیا جاتا ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا ۔ کون ہے جو میرے لیے اس خبیث یعنی ابوعفک سے نپٹ سکتا ہے؟ یعنی کون ہے جو اسکا کام تمام کر سکتا ہے اسکو مار سکتا ہے؟ یہ شخص یعنی ابوعفک بہت زیادہ بوڑھا آدمی تھا یہاں تک کہ کہا جاتا ہے اسکی عمر ایک سو بیس برس ہوچکی تھی مگر یہ شخص لوگوں کو رسول اللہﷺ کے خلاف بھڑکایا کرتا تھا اور اپنے شعروں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی اور گستاخی کیا کرتا تھا۔ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد پر حضرت سالم بن عمیرؓ اٹھے۔ یہ ان لوگوں میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے بےحد رویا کرتے تھے۔غرض انہوں نے عرض کیا مجھ پر نذر یعنی منّت ہے کہ میں یا تو ابوعفک کو قتل کر ڈالوں گا اور یا اس کوشش میں اپنی جان دے دوں گا۔ چنانچہ اسکے بعد حضرت سالم بن عمیرؓ موقع کی تلاش میں رہنے لگے۔ ایک روز جبکہ رات کا وقت تھا اور شدید گرمی تھی تو ابوعفک اپنے گھر کے صحن میں سویا جو اسکے مکان کے باہر تھا۔ حضرت سالم ؓکو اسکی اطلاع ہوئی تو وہ فوراً روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر حضرت سالمؓ نے اپنی تلوار ابوعفک کے جگر پر رکھی اور اس پر پورا دباؤ ڈال دیا یہاں تک کہ تلوار اسکے پیٹ میں پار ہوکر بستر میں بندھ گئی اور ساتھ ہی خدا کے دشمن ابوعفک نے ایک بھیانک چیخ ماری۔ حضرت سالمؓ اسکو اسی حالت میں چھوڑ کر وہاں سے چلے آئے۔ ابوعفک کی چیخ سن کر فوراً ہی لوگ دوڑ پڑے اور اسکے کچھ ساتھی اسی وقت اسے اٹھا کر مکان کے اندر لے گئے مگر وہ خدا کا دشمن اس کاری زخم کی تاب نہ لا کر مر گیا۔


سوال: قتل ابوعفک والی روایت کے اندرونی تضادات کیا بیان کرتے ہیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:قتل ابوعفک والی روایت کے اندرونی تضادات بھی اس واقعےکو مشتبہ کر دیتے ہیں مثلاً نمبر ایک قاتل میں اختلاف۔ ابن سعد اور واقدی کے نزدیک ابوعفک کے قاتل سالم بن عمیر تھے جبکہ بعض دیگر روایات میں سالم بن عمر کا ذکر ہے جبکہ ابن عُقبہ کے نزدیک سالم بن عبداللہ بن ثابت انصاری نے اسے قتل کیا۔ دوسرے یہ کہ قتل کے سبب میں اختلاف ہے۔ ابن ہشام اور واقدی کے نزدیک سالم نے خود جوش میں آ کر اسے قتل کیا جبکہ بعض روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے قتل کیا گیا۔ابن ہشام نے اس طرح لکھا ہے۔ ایک تیسری بات مذہب کے اختلاف کے بارے میں ہے۔ ابن سعد کے نزدیک ابوعفک یہودی تھا جبکہ واقدی کے نزدیک یہ یہودی نہیں تھا۔


سوال: عصماء بنت مروان کے قتل کے متعلق کیا اختلاف پایا جاتا ہے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: زمانہ قتل میں بھی اختلاف ہے۔ واقدی اور ابن سعد کے نزدیک یہ واقعہ عصماء بنت مروان کے قتل کے بعد کا واقعہ ہے جبکہ ابن اسحاق اور ابن ہشام وغیرہ کے نزدیک یہ واقعہ عصماء کے قتل سے پہلے کا ہے۔


سوال: حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓنے عصماء اور ابوعفک کے قتل کے متعلق کیا فرمایا؟
جواب:حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے فرمایا: جنگ بدر کے حالات کے بعد واقدی اور بعض دوسرے مؤرخین نے دو ایسے واقعات درج کئے ہیں جن کا کتبِ حدیث اور صحیح تاریخی روایات میں نشان نہیں ملتا اور درایتاً بھی غور کیا جائے تو وہ درست ثابت نہیں ہوتےمگر چونکہ ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک ظاہری صورت اعتراض کی پیدا ہوجاتی ہے اس لئے بعض عیسائی مؤرخین نے حسب عادت نہایت ناگوار صورت میں انکا ذکر کیا ہے۔ یہ فرضی واقعات یوں بیان کئے گئے ہیں کہ مدینہ میں ایک عورت عصماء نامی رہتی تھی جو اسلام کی سخت دشمن تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت زہر اگلتی رہتی تھی اور اپنے اشتعال انگیز اشعار میں لوگوں کو آپؐ کے خلاف بہت اکساتی تھی اور آپؐکے قتل پر ابھارتی تھی۔ آخر ایک نابینا صحابی عُمیر بن عدیؓ نے اشتعال میں آکر رات کے وقت اسکے گھر میں جبکہ وہ سوئی ہوئی تھی اسے قتل کر دیا اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپؐنے اس صحابی کو ملامت نہیں فرمائی بلکہ ایک گونہ اسکے فعل کی تعریف کی۔دوسرا واقعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک بڈھا یہودی ابوعفک نامی مدینہ میں رہتا تھا۔ یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اشتعال انگیز شعر کہتا تھا اور کفار کو آپؐکے خلاف جنگ کرنے اور آپؐ کو قتل کر دینے کیلئے ابھارتا تھا۔ آخر ایک دن اسے بھی ایک صحابی سالم بن عُمیؓر نے غصہ میں آکر رات کے وقت اس کے صحن میں قتل کر دیا۔واقدی اور ابن ہشام نے بعض وہ اشتعال انگیز اشعار بھی نقل کئے ہیں جو عَصْماء اور ابوعفک نے آنحضرتﷺ کے خلاف کہے تھے۔ ان دو واقعات کو سرولیم میور وغیرہ نے نہایت ناگوار صورت میں اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے۔مگرحقیقت یہ ہے کہ جرح اور تنقید کے سامنے یہ واقعات درست ثابت ہی نہیں ہوتے۔


سوال:نیز حضرت بشیر احمد صاحبؓنے عصماء اور ابوعفک کےقتل کے متعلق کیا فرمایا؟
جواب:حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓنے فرمایا:عصماء اور ابوعفک یہودی کے قتل کے واقعات روایتاً اور درایتاً درست ثابت ہی نہیں ہوتے اور اگر بالفرض انہیں درست سمجھا بھی جاوے تو وہ اس زمانہ کے حالات کے ماتحت قابل اعتراض نہیں سمجھے جاسکتےاور پھر یہ کہ جو بھی صورت ہویہ واقعاتِ قتل بہرحال بعض مسلمانوں کے انفرادی افعال تھے جو سخت اشتعال کی حالت میں ان سے سرزد ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق حکم نہیں دیا تھا۔


سوال: کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عصماء اور ابوعفک کو قتل کرنے کا حکم دیا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہ یہ الزام ہی غلط ہے کہ آپؐنے حکم دیا کہ ان کو قتل کرو۔ یہ سب من گھڑت باتیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔ ان مؤرخین نے جو لکھا، بعد میں چاہئے تو یہ تھا کہ اس کا صحیح طرح تجزیہ کیا جاتا۔


سوال: حضور انور نے ان فرضی قصوں کے متعلق کیا فرمایا ؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:جس جہت سے بھی دیکھا جاوے یہ قصّے صحیح ثابت نہیں ہوتے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو کسی مخفی دشمن اسلام نے کسی مسلمان کی طرف منسوب کر کے یہ قصے بیان کر دیئے تھے اور پھر وہ مسلمانوں کی روایتوں میں دخل پاگئے اور یا کسی کمزور مسلمان نے اپنے قبیلہ کی طرف یہ جھوٹا فخر منسوب کرنے کیلئے کہ اس سے تعلق رکھنے والے آدمیوں نے بعض موذی کافروں کو قتل کیا تھا یہ روایتیں تاریخ میں داخل کر دیں۔

…٭…٭…٭…