سوال:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےصاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ کے کیا کوائف بیان فرمائے؟
جواب:حضور انورننے فرمایا:مکرمہ امتہ القدوس بیگم صاحبہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی بیٹی اور صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہو تھیں۔ یہ رہتی تو قادیان میں تھیں لیکن کچھ عرصہ سے ربوہ میںاپنی بیٹیوں کے پاس آئی ہوئی تھیں۔ ربوہ میں گذشتہ دنوں، چھیانوے سال کی عمر میں بقضائے الٰہی ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے 1/9کی موصیہ تھیں۔ 1951ء کے جلسہ سالانہ کے افتتاح پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت مرزا وسیم احمد صاحب کا نکاح ان کے ساتھ پڑھا۔
سوال: صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ کون کون سے عہدوں پر متمکن رہیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے ان کو جب قادیان بھجوایا تو یہ بھی نصیحت فرمائی تھی کہ لجنہ کی جماعتوں کو اکٹھا کرنا ہے۔ آپ وہاں جاتے ہی پہلے جنرل سیکرٹری قادیان بنیںپھر 1955ء میں صدر لجنہ مقامی اور پھر صدر لجنہ بھارت منتخب ہوئیں۔ 59ء میں لجنہ مقامی کی صدارت کیلئے کسی اَور کا انتخاب ہوا اور آپ صدر لجنہ بھارت کے طور پر کام کرتی رہیں۔ اللہ کے فضل سے 1999ء تک اس خدمت پر فائز رہیں۔ اسکے بعد اعزازی ممبر رہیں۔ اپنے عرصۂ خدمت کے دوران ہندوستان کی مجالس کے دورے بھی کیے، ان کی خدمات کا عرصہ 46 سال بنتا ہے۔
سوال: اللہ تعالیٰ کی نظر میں کون سے لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی صرف نیک یادیں ہوتی ہیں، جو نافع الناس ہوتے ہیں، جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عملی نمونہ ہوتے ہیں، جو اللہ اور اسکے رسولﷺ کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوتے ہیں، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوتے ہیں، جو خلافت احمدیہ سے حقیقی وفا رکھنے والے ہوتے ہیں، جو حقوق العباد کی ادائیگی کی حتی المقدور کوشش کرنے والے ہوتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی ہمہ وقت کوشش کرنیوالےہوتے ہیں، جن کیلئے ہر زبان سے صرف تعریفی کلمات ہی نکلتے ہیں اور یوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان پر جنت واجب ہو جاتی ہے۔
سوال:صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ جب قادیان جانے لگیں حضرت مصلح رضی اللہ عنہ نے کیا نصیحت کی؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ فرماتی ہیں جب میں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مَیں قادیان جانے لگی ہوں تو حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے خاص طور پر مجھے ہدایت کی تھی کہ اُمّ ناصر کے مکان میں رہنا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کثرت سے قدم پڑے ہیں اور ان کے صحن میں حضورعلیہ السلام نے درس بھی دیا ہوا ہے۔
سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صاحبزادہ مرزا وسیم احمدصاحب اور صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ کی قربانی کا کون سا واقعہ بیان فرمایا؟
جواب:حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقعےپر مرزا وسیم احمد صاحب کوفرمایا جبکہ آپ شادی کے سلسلے میں آئے تھے اور شادی کو ابھی چند دن ہوئے تھے اور اپنی اہلیہ کو ساتھ لے جانے کیلئے کاغذات تیار کروا رہے تھے، ان دنوں میں ایسی کھچاوٹ پیدا ہو گئی کہ حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں کہا کہ بیوی کے کاغذات تو بنتے رہیں گے تم اس کو چھوڑو اور واپس فوری طور پر قادیان چلے جاؤ کیونکہ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا کوئی فرد ہونا چاہئے۔اور فوری طور پرجہاز کی سیٹ بک کرواؤ۔ اگر جہاز میں سیٹ نہیں بھی ملتی تو تمہارا فوری جانا ضروری ہے چاہے چارٹرڈ جہاز کرا کے جانا پڑے کیونکہ اگر تم وہاں نہیں ہو گے اور اپنا نمونہ پیش نہ کیا اور قربانی نہ دی تو لوگ پھر کس طرح قربانی دیں گے۔ جہاں یہ قربانی مرزا وسیم احمد صاحب کی تھی وہاں صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ کی بھی قربانی تھی۔
سوال: صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ کو اللہ تعالیٰ نے کتنے بیٹے اور بیٹیوں سے نوازا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کو تین بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا۔ ایک بیٹی ان کی امتہ العلیم صاحبہ آجکل صدرلجنہ پاکستان ہیں، منصور احمد خان صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید کی بیگم ہیں۔ باقی دو بیٹیاں جو ہیں، ایک کیپٹن ماجد خان صاحب کی اہلیہ ہیں امتہ الکریم صاحبہ، دوسری امتہ الرؤوف صاحبہ ڈاکٹر ابراہیم منیب کی بیوی ہیں۔ مرزا کلیم احمد ان کے بیٹے امریکہ میں رہتے ہیں۔
سوال: مرزا وسیم احمد صاحب کی وفات کے متعلق حضرت صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ نے کیا خواب دیکھی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: حضرت صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ کی بیٹی کہتی ہیں کہ مرزا وسیم احمد صاحب کی جب وفات ہوئی ہے تو انہوں نے خواب دیکھا کہ گویا وہ آخری سفر پر جا رہی ہیں، وہ بھی تیاری کر رہی ہیں تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ خواب میں ان کی آئے اور فرمایا ابھی تمہارا ویزہ نہیں لگا۔ چنانچہ اللہ کے فضل سے اس خواب کے بعد انہوں نے لمبی زندگی پائی اور گزاری۔
سوال: 1991 ءمیں جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ قادیان تشریف لائے تو آپ نے قادیان کی لجنہ کے متعلق کیا فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: 1991ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ قادیان تشریف لے گئے تو آپؒنے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہندوستان کی لجنات میں سب کے متعلق تو مَیں نہیں کہہ سکتا لیکن قادیان کی لجنہ کے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ مالی قربانی میں یہ بےمثل نمونے دکھانے والی ہے۔ قادیان کی جماعت ایک بہت غریب جماعت ہے لیکن میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی تحریک کی جائے یہاں کی خواتین اور بچیاں ایسے ولولے اور جوش کے ساتھ اس میں حصہ لیتی ہیں کہ بعض دفعہ میرا دل چاہتا ہے کہ ان کو روک دوں کہ بس کرو، تم میں اتنی استطاعت نہیں ہے اور واقعۃً مجھے خوشی کے ساتھ ان کا فکر بھی لاحق ہو جاتا ہے لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ جس کی خاطر انہوں نے قربانیاں کیں وہ جانتا ہے کہ کس طرح ان کو بڑھ چڑھ کر عطا کرنا ہے۔ وہی اللہ اپنے فضل کے ساتھ ان کے مستقبل کو دین اور دنیا کی دولتوں سے بھر دے گا۔
سوال: حضرت صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ کی نواسی نے آپ کے اوصاف کے متعلق کیا فرمایا؟
جواب: حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ان کی نواسی لکھتی ہیں کہ قادیان کے چھوٹے بچے آپ کو نانی امی کہا کرتے تھے اور ہر ایک سے آپ نے نانی جیسا محبت اور شفقت کا سلوک کیا۔ پھر ان کی نواسی لکھتی ہیں کہ ایک دفعہ کمزوری طبیعت کی وجہ سے آرام کر رہی تھیں۔ شام کے وقت کچھ خواتین کسی دُور کی جماعت سے ملنے آ گئیں۔ کوئی بڑا گھر میں نہیں تھا، مَیں نے کہہ دیا کہ نانی آرام کر رہی ہیں اور وہ ایک دعا کی چٹھی دے کے چلی گئیں۔ جب میری نانی اٹھیں۔ ان کو میں نے کہا کہ دو عورتیں آئی تھیں تو فوراً چٹھی منگوا کر پڑھی دعا کی۔ پھر ٹیلیفون کروا کر کسی کو ہدایت دی کہ جو بھی انہوں نے لکھا تھاچٹھی میں اس کی تعمیل کروا دیں۔ پھر مجھے سمجھایا کہ لوگ بڑی دُور دُور سے محبت کے ساتھ تمہارے نانا کے پاس آتے تھے وہ ان کو ایسے واپس نہیں جانے دیتے تھے تو اس لیے تم بھی مہمانوں کو عزت سے بٹھایا کرو۔ مجھے اطلاع کر دیتی۔ نانی کا سمجھانے کا انداز بہت پیارا تھا جو اب تک میرے ذہن میں نقش ہے۔
سوال: حضرت صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ غرباء کا کس قدر خیال رکھتی تھیں؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:ایک دفعہ آپ اڈیشہ کے کسی گاؤں میں دورے پہ گئیں۔ وہاں آپ کو کچھ لوگ ملے جو بہت ہی غریب تھے۔ ان لوگوں کو کچھ دینے کیلئے ان کے پاس کچھ نہ تھا تو انہوں نے بچوں کے جو زائد کپڑے تھے ان لوگوں کو دے دیے تاکہ وہ اپنا تن ڈھانک سکیں کیونکہ وہ لوگ بہت مفلس حال اور خستہ حال میں تھے۔
٭٭