سوال: جنگ احد میں مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچا؟
جواب:حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس لڑائی میں گو بڑا صدمہ مسلمانوں کو پہنچا اور عبداللہ بن جبیرؓ کی سپاہ کی خطا سے یہ بلا آئی مگر ایک فائدہ عظیم بھی حاصل ہوا کہ منافقوں کا نفاق اور یہودیوں کا بغض وعناد صاف صاف عیاں ہو گیا اور خالص مسلما ن ممتاز ہو گئے۔
سوال: جب صحابہ ؓنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہوئے درہ خالی کیا تو کیا ہوا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تاکیدی حکم کے باوجود بھی جب درّے کی حفاظت پر مامور اکثریت نے درّہ خالی کر دیا تو دشمن نے اس طرف سے حملہ کیا اور مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا۔
سوال:جب مسلمان مال غنیمت جمع کر رہے تھے تو کیا ہوا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:مسلمان اس وقت بے خبری کے عالم میں مال غنیمت جمع کرنے اور مشرکین کو قیدی بنانے میں مصروف تھے کہ اچانک مشرکوں کے گھڑ سوار دستے گھوڑے دوڑاتے ہوئے ان کے سروں پر پہنچ گئے۔
سوال:غزوہ طائف کے بعد جب حمزہ کا قاتل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو آپؐنے کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حمزہؓ کے قتل کی اطلاع ملی تو آپؐکو سخت صدمہ ہوا اور روایت آتی ہے کہ غزوۂ طائف کے بعد جب حمزہ کا قاتل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو آپؐنے اسے معاف تو فرما دیا مگر حمزہ کی محبت کااحترام کرتے ہوئے فرمایا کہ وحشی میرے سامنے نہ آیا کرے
سوال:جبرائیل نے عبدلمطلب کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا خبر دی؟
جواب:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جبرئیل نے آ کر مجھے خبر دی ہے کہ حمزہ بن عبدالمطلب کو سات آسمانوں میں اللہ اور اسکے رسول ﷺکا شیر لکھا گیا ہے۔
سوال:کیا صحابہؓ کرام کو جنگ احد میںمال غنیمت کی پڑی ہوتی تھی؟
جواب: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ (آل عمران :153)اور یقیناً اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا ثابت کر دکھایا جب تم اسکے حکم سے ان کی بیخ کنی کر رہے تھے تاکہ جب تم نے بزدلی دکھائی اور تم اصل حکم کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے اور تم نے اس کے باوجود بھی نافرمانی کی کہ اس نے تمہیں وہ کچھ دکھلا دیا جو تم پسند کرتے تھے۔ تم میں ایسے بھی تھے جو دنیا کی طلب رکھتے تھے اور تم میں ایسے بھی تھے جو آخرت کی طلب رکھتے تھے پھر اس نے تمہیں ان سے پرے ہٹا لیا تا کہ تمہیں آزمائے اور جو بھی ہوا وہ یقیناً تمہیں معاف کر چکا ہے (یعنی اللہ تمہیں معاف کر چکا ہے) اور اللہ مومنوں پر بہت فضل کرنے والا ہے۔
حضور انور نے فرمایا:یہ ہے آیت جس کی تفسیر میں یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ مالِ غنیمت یا اس جنگ کے حوالے سے یہ آیت ہے۔صحابہؓ کے بارے میں یہ کہنا بلکہ سوچنا بھی ان کی شان کے خلاف ہے کہ ان کو مال غنیمت کی پڑی ہوتی تھی۔یہ لوگ تو اپنے بیوی بچے اور اپنی جانیں تک اپنے سب سے محبوب خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر نچھاور کر چکے تھے اور اس سے پہلے وہ اپنے اموال و اسباب بھی اسی راہ میں لُٹا چکے تھے۔ شہادت کے شوق میں تو جیساکہ واقعات بیان ہوئے ہیں یہ لوگ باہر نکل کر جنگ کرنا چاہتے تھے اور یہ جنگیں مالِ غنیمت حاصل کرنے کیلئے نہیں لڑی جا رہی تھیں۔ یہ تو مسلمانوں پہ الزام ہے۔ ہاں فتح کی صورت میں اموال غنیمت مل جانا ایک ضمنی بات تو ہو سکتی ہے لیکن صحابہؓ کا مطلوب و مقصود مال غنیمت حاصل کرنا ہرگز نہیں ہو سکتا تھا۔
سوال: حضرت حمزہؓ کی شہادت کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓنے کیا بیان کیا ہے؟
جواب:حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓنےفرماتے ہیں: حضرت حمزہؓ جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا ہونے کے علاوہ آپؐکے رضاعی بھائی بھی تھے۔ نہایت بہادری کے ساتھ لڑ رہے تھے اورجدھر جاتے تھے ان کے سامنے قریش کی صفیں پھٹ پھٹ جاتی تھیں مگر دشمن بھی ان کی تاک میں تھا اورجبیربن مطعم اپنے ایک حبشی غلام وحشی نامی کو خاص طور پر آزادی کاوعدہ دے کر اپنے ساتھ لایا تھا کہ جس طرح بھی ہو حمزہ کو جنہوں نے جبیر کے چچا طعیمہ بن عدی کوبدر کے موقعہ پر تلوار کی گھاٹ اتارا تھا قتل کر کے اسکے انتقام کو پورا کرے۔ چنانچہ وحشی ایک جگہ پر چھپ کر ان کی تاک میں بیٹھ گیا اورجب حمزہ کسی شخص پر حملہ کرتے ہوئے وہاں سے گزرے تو اس نے خوب تاک کر ان کی ناف کے نیچے اپنا چھوٹا سانیزہ مارا جو لگتے ہی بدن کے پار ہوگیا۔ حمزہ لڑکھڑاتے ہوئے گرے مگرپھر ہمت کرکے اٹھے اورایک جست کرکے وحشی کی طرف بڑھنا چاہا مگر پھر لڑکھڑا کر گرے اورجان دے دی اوراس طرح اسلامی لشکر کاایک مضبوط بازو ٹوٹ گیا۔
سوال: کیا مسلمان جنگ احد میں مال غنیمت حاحل کرنے کی خاطر گئے تھے؟
جواب: حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا:اصل بات یہ ہے کہ ان کو یہ خواہش تھی کہ ہم بھی اس جنگِ اُحد میں شریک ہوں۔ یہ بھی دنیوی خیال تھا کہ ہم اس غزوہ میں شامل ہوں اور کافروں کو ماریں۔ لُوٹ کے مال میں شامل ہونا اس جگہ مراد نہیں۔ تم کو یہ خیال تھا کہ ہم غزوہ میں شامل ہونے والوں سے پیچھے نہ رہ جائیں مگر یہ بھی ایک دنیوی خیال ہے دنیوی خیال اس لیے ہے کہ صرف لڑنا تو کوئی بات نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل نہ کرنا یہ دنیوی خیال بن جاتا ہے۔ تمہیں تو حکم کی تعمیل کرنی چاہئے تھی اور بس کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل نہ کرنا چاہے وہ دین کی خاطر جنگ ہو رہی ہو اور آپؐ نے اس سے منع کر دیا اور کہیں اَور جگہ ڈیوٹی لگا دی تو اس حکم کی تعمیل اصل میں دین ہے نہ کہ جنگ کرنا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمِنْکُمْ مَنْ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃ تمہارا افسر اور اس کے ساتھی تو آخرت کو چاہتے تھے۔ ان کے مدِنظر انجام اور نتیجہ تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اسکا نتیجہ اچھا نہ ہو گا۔ وہ نافرمانی کے بد نتیجہ کو دیکھ رہا تھا۔ اس طرح اسکے ساتھی بھی اسے حق پر سمجھتے تھے۔ افسر اور اسکے ساتھ متفق لوگوں کی نظر اس بات کے آخری نتیجہ پر پہنچ رہی تھی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو جنگ میں شمولیت سے زیادہ اہم سمجھتے تھے لیکن برخلاف اس کے تمہاری نظر سطحی بات پر پڑی ہوئی تھی۔ یہ معنے صحابہؓ کی اس شان کے مناسبِ حال ہیں جو ان کے کاموں اور ان کی قربانیوں سے ظاہر ہوتی ہے۔
سوال: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہؓکی نعش کے سامنے کھڑے ہوکر کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:ابن ہشام کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ ؓکی نعش پر آ کر کھڑے ہوئے تو فرمانے لگے کہ اے حمزہ!تیری اس مصیبت جیسی کوئی مصیبت مجھے کبھی نہیں پہنچے گی۔ میں نے اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر آج تک نہیں دیکھا۔
سوال: ابوسفیان کی بیوی ہند نے حضرت حمزہ کی نعش کے ساتھ کیا کیا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: ابوسفیان کی بیوی ہند غزوۂ احد کے دن لشکروں کے ہمراہ آئی۔ اس نے اپنے باپ کا انتقام لینے کیلئے جو بدر میں حضرت حمزہؓ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا تھایہ نذر مان رکھی تھی کہ مجھے موقع ملا تو میں حمزہ کا کلیجہ چباؤں گی۔ جب یہ صورتحال ہو گئی اور حضرت حمزہؓ پر مصیبت آ گئی تو مشرکین نے مقتولین کا مثلہ کر دیا، ان کی شکلیں بگاڑ دیں، ناک کان وغیرہ عضو کاٹے۔ وہ حمزہ کے جگر کا ایک ٹکڑہ لائے۔ ہند اسے لے کر چباتی رہی کہ کھا جائے مگر جب وہ اس کونگل نہ سکی تو پھینک دیا۔
سوال: جب حضرت حمزہ کلیجے کو ہند نے چبایا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟
جواب:جب رسول کریم صی اللہ علیہ وسلم کویہ واقعہ معلوم ہوا توآپ ﷺنے فرمایا کہ اللہ نے آگ پر ہمیشہ کیلئے حرام کر دیا ہےکہ حمزہ کے گوشت میں سے کچھ بھی چکھے۔
…٭…٭…٭…