سوال: مکہ سے نکلنے سے پہلے قریش نے کعبہ میں جاکر کیا دعا کی؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:مکہ سے نکلنے سے پہلے قریش نے کعبہ میں جا کر دعا کی کہ اے خدا! ہم دونوں فریقوں میں سے جو گروہ حق پر قائم ہے اور تیری نظروں میں زیادہ شریف اورزیادہ افضل ہے تُو اسکی نصرت فرما اور دوسرے کو ذلیل و رسوا کر۔
سوال: جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد کتنی بیان ہوئی ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ بیان ہوئی ہے۔
سوال: جنگ بدر میں رسول کریم ﷺ نے اپنے صحابہؓ کیلئے کیا دعا کی اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کیلئے یہ دعا کی کہ اے اللہ! یہ ننگے پاؤں ہیں ان کو سواریاں عطا فرما اور یہ ننگے بدن ہیں انہیں لباس عطا فرما۔ یہ بھوکے ہیں انہیں سیر کردے۔ یہ تنگدست ہیں انہیں اپنے فضل سے غنی کردے۔ چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور غزوۂ بدر سے واپس آنے والوں میں سے کوئی ایسا شخص نہیں تھا کہ اگر اس نے سواری پر جانا چاہا تو اس کو ایک دو ایسے اونٹ نہ مل گئے ہوں جنہیں وہ استعمال کرسکے۔ اسی طرح جن کے پاس کپڑے نہیں تھے انہیں کپڑے مل گئے اورسامانِ رسد اتنا ملا کہ کھانے پینے کی کوئی تنگی نہ رہی۔ اسی طرح جنگی قیدیوں کی رہائی کا اس قدر معاوضہ ملا کہ ہر خاندان دولتمند ہوگیا۔
سوال: ابتدا میں مکی لشکر کی تعداد کتنی تھی؟
جواب:انور نے فرمایا:ابتدا میں مکی لشکر کی تعداد تیرہ سو تھی۔لیکن بنو زہرہ اور بنو عدی کے لوگ راستے میں اس لشکر سے علیحدہ ہوگئےاس طرح قریش کے لشکر کی تعداد ساڑھے نو سو یا ایک روایت کے مطابق ایک ہزار رہ گئی۔
سوال: جب امیہ بن خَلَف جنگ پر جانے سے گریز کررہا تھا تو مکہ کا ایک سردار عُقبہ بن ابومُعَیْط نے اسے کیا کہا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: مکہ کا ایک سردار عُقبہ بن ابو مُعَیْط امیہ کے پاس آیا اور اس کے پاس خوشبو دان اور دھونی رکھ کر بولا کہ ابو علی! تم یہ عورتوں والی خوشبو کی دھونی لو کیونکہ تم بھی عورتوں میں سے ہو تمہارا جنگ سے کیا کام۔
سوال: جب امیہ نے جنگ بدر پر جانے سے تامل کیا تو ابوجہل نے اس کو کیا کہا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:ایک روایت میں آتا ہے کہ ابوجہل امیہ کے پاس آیا اور اس کو کہا کہ تم مکہ کے سردار اور معزز لوگوں میں سے ایک ہو۔ اگر لوگوں نے تمہیں جنگ سے پیچھے ہٹتا ہوا دیکھ لیا تو وہ بھی رک جائیں گے۔ اس لیے ہمارے ساتھ ضرور نکلو چاہے ایک دو دن کی مسافت تک چلو اور اس کے بعد واپس آجانا۔
سوال: امیہ جنگ بدرپر جانے سے کس لئے خائف تھا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: امیہ جنگ بدر پر جانے سے اس لیے خائف تھا کہ اس کے قتل کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرما رکھی تھی اور اس کا اس کو علم تھا۔
سوال: بعض سیرت نگار اعتراض کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس کو قتل کریں گے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس کوقتل نہیں کیا تھا اس کی حضور انور نے کیا وضاحت فرمائی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:اس کا مطلب یہ تھا کہ آپؐ اس کے قتل کا سبب بنیں گے ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے امیہ بن خَلَف کے بھائی اُبَی بن خَلَف کے کسی کو قتل نہیں کیا۔ اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ احد میں قتل کیا تھا۔
سوال: ابو لہب کے جنگ بدر میں نہ جانے کی کیا وجہ تھی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: ابولہب بھی جنگ پر جانے سے خوفزدہ تھااور اس نے اپنی جگہ ایک آدمی کو روانہ کیا تھا اور خود جنگ پر نہیں گیا تھا۔ اس کے جنگ پر نہ جانے کی وجہ عاتکہ بنت عبدالمطلب کا خواب تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ عاتکہ کا خواب ایسے ہی ہے جیسے کوئی چیز ہاتھ سے لے لی جائے۔یعنی یقینی بات۔
سوال: سردارانِ قریش کی ہلاکت کے متعلق جُہَیم بن صَلت نے کیا خواب دیکھی تھی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:سردارانِ قریش کی ہلاکت کے متعلق جُہَیم بن صَلت نے بیان کیا کہ مَیں نے یہ خواب دیکھا ہے کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار آیا اور ایک اونٹ بھی اس کے ساتھ ہے اور وہ شخص کہہ رہا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ کا قتل ہوا اور شیبہ بن ربیعہ قتل ہوا اور ابوالحکم بن ہشام یعنی ابوجہل قتل ہوا اور امیہ بن خَلَف قتل ہوا اور فلاں فلاں اور سرداران قریش میں سے جو لوگ بعد میں بدر میں قتل ہوئے سب کے نام لیے اور پھر اس شخص نے جو آیا تھا اپنے اونٹ کی گردن میں نیزہ مار کر ہمارے لشکر کی طرف چھوڑ دیا تو ہمارے لشکر میں سے کوئی خیمہ ایسا نہ رہا جس کو اس اونٹ کا خون نہ لگا ہو۔ جب یہ خواب ابوجہل نے سنا تو تمسخر اور غصے سے کہنے لگا۔ بنو مطلب میں سے یہ ایک اَور نبی پیدا ہوگیا ہے۔ کل اگر ہم نے جنگ کی تو خوب معلوم ہوجائے گا کہ کون قتل ہوتا ہے۔
سوال: رسول کریم ﷺکی مدینہ سے روانگی اور مسلمانوں کے لشکر کی تعدادکے بارے میں کیا بیان ہوا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ سے روانگی اورمسلمانوں کے لشکر کی تعدادکے بارے میں لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ بارہ رمضان دو ہجری بروز ہفتہ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپﷺ کے ہمراہ تین سو سے کچھ اوپر افراد تھے جن میں چوہتر74 مہاجرین اور باقی انصار میں سے تھے۔ یہ پہلا غزوہ تھا جس میں انصار بھی شامل ہوئے تھے۔
سوال: حضرت عثمان بن عفانؓجنگ بدر میں کیوں نہیں شامل ہوئے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: حضرت عثمان بن عفانؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ہی رکنے کا حکم دیا کیونکہ ان کی زوجہ حضرت رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیمار تھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عثمانؓ خود بیمار تھے لیکن زیادہ معروف روایت یہی ہے کہ ان کی اہلیہ محترمہ بیمار تھیں۔
سوال: حضرت بَراء بن عازبؓ نے جنگ بدر میں شریک ہونے والوں کی کیا تعداد بیان فرمائی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: حضرت بَراء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ان صحابہ نے جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے مجھے بتایا کہ وہ تعداد میں اتنے ہی تھے جتنے طالوت کے وہ ساتھی تھے جو اُن کے ساتھ دریا سے پار ہوئے تھے یعنی تین سو دس سے کچھ اوپر۔ حضرت براءؓ کہتے تھے بخدا! طالوت کے ساتھ دریا سے صرف مومن ہی پار گئے تھے۔
سوال: حضرت مصلح موعودؓ جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت مصلح موعودؓ جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں فرماتے ہیں:ہم دیکھتے ہیں کہ بدر کے موقع پر صحابہ 313کی تعداد میں نکلے تھے اگر وہ بجائے 313 کے چھ یا سات سو کی تعداد میں نکلتے اور وہ صحابہ بھی شامل ہوجاتے جو مدینہ میں ٹھہر گئے تھے تو لڑائی ان کیلئے زیادہ آسان ہوجاتی مگرخدا تعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس جنگ کے متعلق بتا دیا لیکن ساتھ ہی منع بھی فرما دیا کہ جنگ کے متعلق کسی کو بتانا نہیں اور اسکی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ بعض گزشتہ پیشگوئیوں کو پورا کرنا چاہتا تھا۔
سوال: جنگ بدر میں اسلامی لشکر کے پاس کتنے جھنڈے تھے؟
جواب: حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ایک روایت کے مطابق اسلامی لشکر کے پاس تین جھنڈے تھے۔ مہاجرین کا جھنڈا حضرت مُصْعَب بن عُمیرؓ کے پاس، قبیلہ خزرج کا جھنڈا حضرت حباب بن منذرؓ کے پاس اور قبیلہ اوس کا جھنڈا حضرت سعد بن معاذؓ کے پاس تھا۔
سوال: کس وجہ سےحضرت خَوَّاتْ بن جُبَیرؓکا جنگ بدر میں شامل نہیں ہو پائے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت خَوَّاتْ بن جُبَیرؓ بھی جنگ میں ساتھ تھے لیکن رستے میں ایک مقام پر پہنچ کر ان کی ٹانگ پر ایک پتھر لگنے کی وجہ سے چوٹ آئی اور خون بہنا شروع ہوگیا جس کی وجہ سے وہ چلنے کے قابل نہ رہے اس لیے مدینہ واپس چلے گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے بھی مالِ غنیمت میں حصہ رکھا۔ بعض علماء کے نزدیک وہ جنگِ بدر میں شامل ہوئے تھے۔
…٭…٭…٭…