اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-23

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ9؍جون2023بطرز سوال وجواب

سریہ حضرت حمزہ،سریہ عبیدہ بن حارث،سریہ سعد بن ابی وقاص،غزوۂ ودان،غزوۂ بواط ،غزوہ عشیرہ ،غزوۂ بدر الاولیٰ کا ایمان افروز تذکرہ

حضرت نبی کریمﷺ کا فرقان جنگِ بدر کا دن تھا جس دن کہ مخالفوں کی زبردست طاقت والے سرگروہ ہلاک ہوئے اور مسلمانوں کو فتح اور غلبہ حاصل ہوا (حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ)

سوال: سریہ حضرت حمزہ کے بارے میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: سریہ حضرت حمزہ پہلا سریہ تھا جو رمضان ایک ہجری میں ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےبھیجا۔اسے سریہ سیف البحر کہتے ہیں۔ اسکا جھنڈا سفید تھا اور اسکے علمبردار ابو مرثد غنوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ یہ سریہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان سنہ ایک ہجری میں بھیجا اور اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کو اسکا امیر بنایا۔ ان کے ساتھ تیس مہاجر سوار تھے۔ یہ لوگ عیص کے اطراف میں بحیرۂ احمر کے ساحل تک گئے اور قریش کا ایک قافلہ جو ابوجہل کی سرکردگی میں شام سے آ رہا تھا اس سے سامنا ہوا۔ بہرحال دونوں فریق صف آرا ہو گئے۔ آمنا سامنا ہو گیا اور قریب تھا کہ جنگ ہو جاتی لیکن قبیلے کے ایک رئیس نے بیچ بچاؤ کروا دیا اور دونوں فریق واپس چلے گئے۔

سوال: سریہ عبیدہ بن حارث کے بارے میں حضور انور نے کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: شوال سنہ ایک ہجری میں رسول اللہﷺ نے حضرت عبیدہ بن حارثؓکو ساٹھ مہاجرین کی کمان دے کر رابغ کےقریب ثنیۃ المرہ کی طرف روانہ کیا۔ وہاں ابوسفیان اور اسکے دو سو سواروں سے انکا آمنا سامنا ہوا۔ دونوں طرف سے چند تیر چلائے گئے مگر باقاعدہ لڑائی نہیں ہوئی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اس دن سب سے پہلے تیر چلایا۔ اس سے پہلے کبھی مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان تیراندازی بھی نہیں ہوئی تھی۔گویا یہ اسلامی تاریخ کا پہلا تیر تھا جس پر حضرت سعد ؓکو بجا طور پر فخر تھا۔ پھر فریقین واپس اپنے اپنے علاقے میں چلے گئے۔ثنیۃ المرہ رابغ شہر کے شمال مشرق میں تقریباً پچپن کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور مدینہ منورہ سے اسکا فاصلہ دو سو کلو میٹر ہے۔

سوال: سریہ سعد بن ابی وقاص کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سریہ حضرت سعد بن ابی وقاص ہے۔سنہ ایک ہجری اور بعض کے بقول سنہ دو ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو بیس آدمیوں کا امیر بنا کر روانہ کیا اور حکم دیا کہ وہ خَرَّار وادی سے آگے نہ جائیں۔ وہ پیدل چلتے گئے۔ دن کو چھپے رہتے اور رات کو سفر کرتے۔ یہاںتک کہ وہ خَرَّار تک پہنچ گئے۔ ان کا مقصد قریش کے تجارتی قافلے کو روکنا تھا لیکن جب یہ دستہ خَرَّار پہنچا تو انہیں پتہ چلا کہ قافلہ کل یہاں سے گزر گیا ہے لہٰذا وہ بغیر کسی تصادم کے واپس آ گئے۔ خَرَّار کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کے معنی ہیں آواز کے ساتھ بہنے والا پانی اور خَرَّار حجاز کے علاقے میں جُحْفَہ کے نزدیک ایک جگہ کا نام ہے۔

سوال: غزوۂ وَدَّان کے بارے میں حضور انور نے کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:غزوۂ وَدَّان یا غزوۂ اَبْوَاءصفر دو ہجری کا ہے۔ صفر سنہ دو ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ ستر مہاجرین کے ساتھ اَبْوَاء یا ودّانکی طرف گئے۔ مؤرخ ابن سعد کے نزدیک یہ پہلا غزوہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس شریک ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عُبَادہؓ کو مدینے میں اپنا نائب مقرر فرمایا۔ آپؐ اَبْوَاء کے مقام تک پہنچے۔ آپؐکا ارادہ قریش کے تجارتی قافلے کو روکنا تھا لیکن وہ آپؐکے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی نکل چکا تھا۔ یہاں آپؐنے بنو ضَمْرَہ کے سردار مَخْشِی بن عَمْرو ضَمْرِی کے ساتھ معاہدۂ صلح کیا۔ معاہدہ یہ ہوا کہ آپؐبنوضَمْرَہ پر حملہ نہیں کریں گے اور نہ بنو ضمرہ آپؐکے خلاف کوئی کارروائی کریں گے نہ کسی کارروائی میں حصہ لیں گے اور آپؐکے کسی دشمن کی مدد بھی نہیں کریں گے۔ اس سفر میں آپؐمدینہ سے پندرہ دن باہر رہے۔ وَدَّا نْ کے بارے میں لکھا ہے کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان جگہ ہے۔ اَبْوَاءسے تیرہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ مدفون ہیں۔ جُحْفَہ سے اس کا فاصلہ تقریباً سو کلو میٹر ہے۔

سوال:غزوۂ بُواط کے متعلق حضور انور نے کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:ربیع الاول سنہ دو ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذؓ کو مدینےکا امیر مقرر فرمایا اور اپنے دو سو صحابہ کی معیت میں قریش کےایک قافلے کو روکنے کیلئےنکلے۔ اس قافلے میں اُمَیَّہ بن خَلَف بھی موجود تھا اور سو دیگر قریشی تھے اور دو ہزار پانچ سو اونٹ تھے۔ آپؐرَضْویٰ کے نواح میں بُوَاط پہنچے مگر وہاں کسی سے سامنا نہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ لَوٹ آئے۔ اس غزوے میں جھنڈے کا رنگ سفید تھا جسے سعد بن ابی وقاص نے اٹھا رکھا تھا۔ بُواط کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ جُہَیْنَہ قبیلے کے دو پہاڑ ہیں جو مکے سے شام جانے والے راستے پر واقع ہیں۔ ان کے ساتھ رَضْویٰ کا مشہور پہاڑ ہے۔ مدینےسے بواط کا فاصلہ تقریباً سو کلو میٹر ہے۔

سوال: غزوہ عُشَیْرَہ کے بارے میں حضور انور نے کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ مکے سے نکلا ہے اور مکہ والوں نے اس تجارتی قافلے میں اپنا سارا مال لگا دیا تھا اس لیے کہ جو منافع ہو وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں استعمال ہو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جُمَادِی الاولیٰ یا ایک روایت کے مطابق جُمَادِی الثانیہ دو ہجری میں مدینے سے ڈیڑھ سو یا دو سو افراد کے ساتھ عازمِ سفر ہوئے۔ جب آپؐعُشَیْرَہ مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ قریش کا تجارتی قافلہ آپؐکے پہنچنے سے چند روز پہلے ہی وہاں سے جا چکا ہے۔ مکے اور مدینے کے درمیان بَنُو مُدْلِجْ کے علاقے میں یَنبُع کے نواح میں ایک مقام کا نام عُشَیرہ تھا۔ آپؐنے چند روز وہاں قیام فرمایا اور بَنُو مُدْلِجْ اور بنو ضَمْرَہ میں سے اس کے حلیفوں سے صلح کا معاہدہ کیا اور اسکے بعد مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ یہ قریش مکہ کا وہی تجارتی قافلہ تھا جس کی شام سے واپسی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ اس کے تعاقب میں نکلے تھے اور بدر کا معرکہ پیش آیا تھا۔

سوال: غزوۂ بدر الاولیٰ کے بارے میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ عُشَیرہ سے مدینہ واپس تشریف لائے تو ابھی دس روز بھی نہ گزرے تھے کہ کُرْزْ بن جابر نے مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسکے تعاقب میں نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہؓکو اپنا نائب مقرر کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدرکے قریب سَفَوَانْ نامی وادی میں پہنچے۔ سَفَوَانْ بدر کے نواح میں ایک وادی ہے لیکن کُرْزْ بن جابر تیزی سے آگے نکل گیا اور آپؐاسے نہ پا سکے۔ اس غزوے کو غزوۂ بدرالاولیٰ بھی کہتے ہیں۔ اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ تشریف لے آئے۔

سوال: رسول کریم ﷺ کا یوم الفرقان کون سا تھا؟
جواب: حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں : حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرقان جنگِ بدر کا دن تھا جس دن کہ مخالفوں کی زبردست طاقت والے اس سرگروہ کے ہلاک ہوئے اور مسلمانوں کو فتح اور غلبہ حاصل ہوا۔

سوال: حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓنے فرقان کا کیا مطلب بیان فرمایا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ ایک اَور مقام پر لفظ فرقان کا مطلب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ قرآن سے مجھے اس کے یہ معنے معلوم ہوئے کہ فرقان نام ہے اس فتح کا جس کے بعد دشمن کی کمر ٹوٹ جائے اور یہ بدر کا دن تھا۔

…٭ …٭…٭…