اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-01-25

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ1؍ستمبر2023بطرز سوال وجواب

جو علمی ترقی چاہتا ہے ان کو چاہئے کہ قرآن شریف کو غور سے پڑھیں

(حضرت مسیح موعودعلیہ السلام)

میرے آنے کی اصل غرض اور مقصد یہی ہے کہ توحید، اخلاق اور روحانیت کو پھیلاؤں

(حضرت مسیح موعودعلیہ السلام)

بیعت کا حق ادا کرنا کوئی معمولی بات نہیںیہ تبھی ادا ہو سکتا ہے جب ہم ہر وقت اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع چلنے کی کوشش کریں

(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ)


سوال: بیعت کا حق کب ادا ہو سکتا ہے؟
جواب:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:بیعت کا حق ادا کرنا کوئی معمولی بات نہیںیہ تبھی ادا ہو سکتا ہے جب ہم ہر وقت اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع چلنے کی کوشش کریں۔


سوال: جلسہ میں شامل ہونے کا کیا مقصد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کا ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت میں شامل ہونےو الے دینی علم سیکھیں، روحانیت میں ترقی کریں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق اورمحبت میں بڑھیں۔ رسول کریم ﷺ کی مکمل پیروی کرنے والے ہوں۔ آپﷺ سے محبت کا تعلق ہو۔ دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور دین مقدم ہو۔


سوال: علمی ترقی کس طرح حاصل ہوتی ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:جو علمی ترقی چاہتا ہے ان کو چاہئے کہ قرآن شریف کو غور سے پڑھیں۔


سوال: ہمیں کس بات کا جائزہ لینا چاہئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ کتنے ہیں جو غور کر کے قرآن کریم کو پڑھتے ہیں، اسکی تلاوت کرتے ہیں اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔


سوال: ہر احمدی کو کس چیز کا جائزہ لینا چاہئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: ہر احمدی کو یہ جائزہ لینا چاہئے کہ اسکی نماز کی کیا حالت ہے۔ اگر ہماری یہ حالت درست ہو گئی اور ہمارا اللہ تعالیٰ سے اس طرح تعلق قائم ہو گیا تو پھر ہی وہ حالت ہے جب ہمیں حقیقی خوشی ملے گی۔


سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آنے کی کیا غرض بیان فرمائی؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:میرے آنے کی اصل غرض اور مقصد یہی ہے کہ توحید، اخلاق اور روحانیت کو پھیلاؤں۔


سوال: جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب کی اور آپؑکا انکار کیا تو ان کی مثال کس طرح کی ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:جن لوگوں نے میرا انکار کیا ہے اور جو مجھ پر اعتراض کرتے ہیں انہوں نے مجھے شناخت نہیں کیا اور جس نے مجھے تسلیم کیا اور پھر اعتراض رکھتا ہے وہ اَور بھی بدقسمت ہے کہ دیکھ کر اندھا ہوا۔ اصل بات یہ ہے کہ معاصرت بھی رتبہ کو گھٹا دیتی ہے۔


سوال: بیعت کرنے کی اصل غرض کیا ہونی چاہئے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول ﷺ کی محبت دل پر غالب آجائے۔


سوال: پہلی کوشش حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے والوں کی کیا ہونی چاہئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: پہلی کوشش حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے والوں کی یہ ہونی چاہئے کہ ہم ان مخلصین میں شامل ہونے والے ہوں جن پر اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ کی محبت غالب آجائے اور ہمارے ہر قول و فعل سے اسکا اظہار بھی ہوتا ہو۔


سوال: پاکستانی احمدی جرمن میں آکر کیوں بسناشروع ہوئے؟
جواب:ـ حضور انور نے فرمایا:پاکستان کے اس لیے یہاں آئےکیونکہ ان کو احمدی ہونے کی وجہ سے اپنے ملک میں اللہ تعالیٰ اور اسکے رسولؐ کی تعلیم پر عمل کرنے اور کھل کر اسکا اظہار کرنے پر ان پر پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔


سوال:حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سچا مدعی بننے کے متعلق کیا فرمایا؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان، محبت، اطاعت، بیعت، اعتقاد، مریدی اسلام کا مدعی سچا مدعی نہیں ہے۔ یاد رکھو کہ یہ سچی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مغز کے سوا چھلکے کی کچھ بھی قیمت نہیں۔خوب یاد رکھو کہ معلوم نہیں موت کس وقت آ جاوے لیکن یہ یقینی امر ہے کہ موت ضرور ہے۔ پس نرے دعویٰ پر ہرگز کفایت نہ کرو اور خوش نہ ہو جاؤ وہ ہرگز ہرگز فائدہ رساں چیز نہیں۔ جب تک انسان اپنے آپ پر بہت موتیں وارد نہ کرے اور بہت سی تبدیلیوں اور انقلابات میں سے ہو کر نہ نکلے وہ انسانیت کے اصل مقصد کو نہیں پا سکتا۔


سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آنے کی اصل غرض اور مقصد کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:میرے آنے کی اصل غرض اور مقصد یہی ہے کہ توحید، اخلاق اور روحانیت کو پھیلاؤں۔توحید سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہی کو اپنا مطلوب، مقصود اور محبوب اور مطاع یقین کر لیا جاوے۔ موٹی موٹی بت پرستی اور شرک سے لے کر اسباب پرستی کے شرک اور باریک شرک اپنے نفس کو بھی کچھ سمجھ لینے تک دور کر دیا جاوے۔


سوال: اگر ہم ترقی کی راہ جس سے خدا کو پہچانا جاتا ہے ایسی باتوں کو ہم دنیا پرستوں کی مجلس میں بیان کریں تو کیا ہوگا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:ہماری رائے تو یہی ہے جس کو آنکھیں دیکھتی ہیں۔ ترقی کی ایک ہی راہ ہے کہ خدا کو پہچانیں اور اس پر زندہ ایمان پیدا کریں۔ اگر ہم ان باتوں کو ان دنیا پرستوں کی مجلس میں بیان کریں تو وہ ہنسی میں اڑا دیں مگر ہم کو رحم آتا ہے کہ افسوس یہ لوگ اس کو نہیں دیکھ سکتے جو ہم دیکھتے ہیں۔


سوال:ہماری بیعت ہم سے کیا تقاضا کرتی ہے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ مت خیال کرو کہ صرف بیعت کر لینے سے ہی خدا راضی ہو جاتا ہے یہ تو صرف پوست ہے۔مغز تو اسکے اندر ہے۔ اکثر قانون قدرت یہی ہے کہ ایک چھلکا ہوتا ہے اور مغز اسکے اندر ہوتا ہے۔ چھلکا کوئی کام کی چیز نہیں ہے مغز ہی لیا جاتا ہے۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں مغز رہتا ہی نہیں اور مرغی کے ہوائی انڈوں کی طرح جن میں نہ زردی ہوتی ہے نہ سفیدی جو کسی کام نہیں آ سکتے اور ردّی کی طرح پھینک دئیے جاتے ہیں۔ ہاں ایک دو منٹ تک کسی بچے کے کھیل کا ذریعہ ہو تو ہو۔ اسی طرح پر وہ انسان جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اگر وہ ان دونو باتوں کا مغز اپنے اندر نہیں رکھتا تو اسے ڈرنا چاہئے کہ ایک وقت آتا ہے کہ وہ اس ہوائی انڈے کی طرح ذرا سی چوٹ سے چکنا چور ہو کر پھینک دیا جائے گا۔اسی طرح جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اسکو ٹٹولنا چاہئے کہ کیا میں چھلکا ہی ہوں یا مغز۔


سوال:نماز میں لذت نہ آنے کی وجہ اور اسکا علاج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: لوگ نمازوں میں غافل اور سست اس لئے ہوتے ہیں کہ ان کو اس لذت اور سرور سے اطلاع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے اندر رکھا ہے اور بڑی بھاری وجہ اس کی یہی ہے پھر شہروں اور گاؤں میں تو اَور بھی سستی اور غفلت ہوتی ہے۔ سو پچاسواں حصہ بھی تو پوری مستعدی اور سچی محبت سے اپنے مولا حقیقی کے حضور سر نہیں جھکاتا۔ پھر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ان کو اس لذت کی اطلاع نہیں اور نہ کبھی انہوں نے اس مزہ کو چکھا۔ اَور مذاہب میں ایسے احکام نہیں ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں مبتلا ہوتے ہیں اور مؤذن اذان دے دیتا ہے۔ پھر وہ سننا بھی نہیں چاہتے گویا ان کے دل دکھتے ہیں۔یہ لوگ بہت ہی قابل رحم ہیں۔ بعض لوگ یہاں بھی ایسے ہیں کہ ان کی دکانیں دیکھو تو مسجدوں کے نیچے ہیں مگر کبھی جا کر کھڑے بھی تو نہیں ہوتے۔ پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی چاہئے کہ جس طرح پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطا کی ہیں نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزہ چکھا دے۔ کھایا ہوا یاد رہتا ہے۔ دیکھو! اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اسے خوب یاد رہتا ہے اور پھر اگر کسی بدشکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے تو اس کی ساری حالت باعتبار اس کے مجسم ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی تعلق نہ ہو تو کچھ یاد نہیں رہتا۔اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اٹھ کر سردی میں وضو کر کے خواب راحت چھوڑ کر کئی قسم کی آسائشوں کو کھو کر پڑھنی پڑتی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ اسے بیزاری ہے وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس لذت اور راحت سے جو نماز میں ہے اس کو اطلاع نہیں ہے۔پھر نماز میں لذت کیونکر حاصل ہو۔ میں دیکھتا ہوں کہ ایک شرابی اور نشہ باز انسان کو جب سرور نہیں آتا تو وہ پے درپے پیالے پیتا جاتا ہے یہاں تک کہ اسکو ایک قسم کا نشہ آ جاتا ہے۔ دانش مند اور بزرگ انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور وہ یہ کہ نماز پر دوام کرےاور پڑھتا جاوے یہاں تک کہ اسکو سرور آجاوے اور جیسے شرابی کے ذہن میں ایک لذت ہوتی ہے جسکا حاصل کرنا اسکا مقصود بالذات ہوتا ہے اسی طرح سے ذہن میں اور ساری طاقتوں کا رجحان نماز میں اسے سرور کا حاصل کرنا ہو اور پھر ایک خلوص اور جوش کے ساتھ کم از کم اس نشہ باز کے اضطراب اور قلق و کرب کی مانند ہی ایک دعا پیدا ہو کہ وہ لذت حاصل ہو تو میں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ یقیناً یقیناً وہ لذت حاصل ہو جاوے گی۔ پھر نماز پڑھتے وقت ان مفاد کا حاصل کرنا بھی ملحوظ ہو جو اسے ہوتے ہیں اور احسان پیش نظر رہے۔ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ (ھود:115)

…٭…٭…