سوال: گناہ سے سچی توبہ کرنے والا شخص کیسا ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:گناہ سے سچی توبہ کرنے و الا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔
سوال:اگر ہم اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا نہ کریں اور حقیقی توبہ اور استغفار کی طرف توجہ نہ دیں تو کیا ہوگا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:اگر ہم اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا نہ کریں اور حقیقی توبہ اور استغفار کی طرف توجہ نہ دیں تو ہمارا اپنی اصلاح کا عہد کرنا ہمیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے استغفار کے متعلق کیا فرمایا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:روحانی مگدر استغفار ہے۔ اس کے ساتھ روح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے۔ جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے۔
سوال: انبیاء کے استغفار کی کیا حقیقت ہے ؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:انبیاء کے استغفار کی بھی یہی حقیقت ہے کہ وہ ہوتے تو معصوم ہیں مگر وہ استغفار اس واسطے کرتے ہیں کہ تا آئندہ وہ قوت ظہور میں نہ آوے۔
سوال: دل کی دعائیں کیا ہوتی ہیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:دل کی دعائیں اصلی دعائیں ہوتی ہیں۔ جب قبل از وقتِ بلا انسان اپنے دل ہی دل میں خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتا رہتا ہے، استغفار کرتا رہتا ہے تو پھر خداوند رحیم و کریم سے وہ بلا ٹل جاتی ہے لیکن جب بلا نازل ہو جاتی ہے پھر نہیں ٹلا کرتی۔
سوال: آفات اور بلیّات کس طرح کی ہیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:’’آفات اور بلیّات چیونٹیوں کی طرح انسان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ان سے بچنے کی کوئی راہ نہیں بجز اس کے کہ سچے دل سے توبہ استغفار میں مصروف ہوجاؤ۔‘‘
سوال:جو شخص انسان ہو کر استغفار کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ کس طرح کا ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’جو شخص انسان ہو کر استغفار کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ بے ادب دہریہ ہے۔‘‘
سوال: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سچی توبہ کرنے والے کے متعلق کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: قرآن کریم میں اس بات کا مختلف جگہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ سچی توبہ کرنے والوں کو مال و اولاد سے نوازتا ہے (نوح:13) اللہ تعالیٰ نے استغفار کرنے والوں کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا کہ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا (النساء:65) وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنےوالا اور بار بار رحم کرنے والا پاتے ہیں لیکن شرط یہی ہے کہ حقیقی استغفار ہو، سچی توبہ ہو۔
سوال: گناہ سے سچی توبہ کرنےو الا کیسا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:گناہ سے سچی توبہ کرنےو الا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔
سوال:جب اللہ تعالیٰ کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟
جواب:رسول کریم ﷺ نے فرمایا:جب اللہ تعالیٰ کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو گناہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یعنی گناہ کے محرکات اسے بدی کی طرف مائل نہیں کر سکتے اور بدی کے نتائج سے اللہ تعالیٰ اسے محفوظ رکھتا ہے۔ پھر حضورﷺنے یہ آیت پڑھی کہ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ (البقرۃ:223) اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کر تا ہے۔
سوال: حقیقی توبہ کرنے والا حقیقی پشیمانی اور ندامت کیسا ہوتا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حقیقی توبہ کرنے والا حقیقی پشیمانی اور ندامت دکھا کر جہاں گناہوں سے پاک ہوتا ہے وہاں اسے اللہ تعالیٰ کی محبت بھی ملتی ہے۔ بار بار اللہ تعالیٰ کے رحم سے حصہ پاتا ہے۔
سوال:سچی توبہ کرنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا شرائط بیان فرمائی ہیں؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ سچی توبہ کرنے کی شرائط کا ذکر فرمایا ہے۔ پہلی شرط یہ فرمائی کہ خیالاتِ فاسدہ اور تصوراتِ بد کو چھوڑ دے۔ پس جو خیالات بدلذات کی وجہ سمجھے جا سکتے ہیں ان کو مکمل طور پر ترک کرے۔ یہ بہت بڑا جہاد ہے جو انسان کو کرنا چاہئے تبھی توبہ کی طرف قدم اٹھے گا۔ دوسری شرط یہ ہے کہ حقیقی ندامت اور پشیمانی ظاہر کرے۔ یہ سوچے کہ یہ لذات اور دنیاوی حظ عارضی چیزیں ہیں اور انسان کی عمر کے ساتھ ساتھ ہر روز اس میں کمی ہوتی جاتی ہے۔ تو پھر اس کے ساتھ کیوں انسان چمٹا رہے؟ پس خوش قسمت ہے وہ جو اس حقیقت کو سمجھ لے اور توبہ کرے، حقیقی پشیمانی کا اظہار کرے۔ یہ حقیقی پشیمانی ہے جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔ اور تیسری شرط یہ ہے کہ پکا ارادہ کرے کہ ان برائیوں کے قریب بھی نہیں جائے گا۔ اور یہیں رک نہیں جانا کہ برائیوں کے قریب نہ جانے کا عہد کر لیا اور بس کافی ہو گیا بلکہ اخلاق حسنہ اور پاکیزہ افعال اس کی جگہ لے لیں گے۔
سوال: اگر ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا نہ کریں اور حقیقی توبہ اور استغفار کی طرف توجہ نہ دیں تو کیا ہوگا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:اگر ہم اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا نہ کریں اور حقیقی توبہ اور استغفار کی طرف توجہ نہ دیں تو ہمارا اپنی اصلاح کا عہد کرنا ہمیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔
سوال:استغفار کا فائدہ کیا ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وَاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ (ہود:4)یادرکھو کہ دوچیزیں اس امّت کو عطا فرمائی گئی ہیں۔ ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے، دوسری حاصل کردہ قوت کوعملی طور پر دکھانے کیلئے۔ قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں۔صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کے اٹھانے او رپھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے۔ویٹ لفٹنگ کرنے والے جو ہیں، ویٹ اٹھانے والے ہیں، ڈمبل اٹھانے والے ہیں، مختلف قسم کی ورزشیں کرنے والے ہیں، جس طرح ان کے ورزش کرنے سے جسمانی طاقت بڑھتی ہے اسی طرح پرروحانی مگدر استغفار ہے۔ اس کے ساتھ روح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے۔ جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے۔
سوال:انسان کی کون سی دو حالتوں کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر فرمایا؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:انسان کی دو ہی حالتیں ہیں۔ یا تو وہ گناہ نہ کرے یا اللہ تعالیٰ اس گناہ کے بد انجام سے بچا لے۔ سو استغفار پڑھنے کے وقت دونوں معنوں کا لحاظ رکھنا چاہئے۔ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ سے گزشتہ گناہوں کی پردہ پوشی چاہئے اور دوسرا یہ کہ خدا سے توفیق چاہے کہ آئندہ گناہوں سے بچائے مگراستغفار صرف زبان سے پورا نہیں ہوتا بلکہ دل سے چاہئے۔نماز میں اپنی زبان میں بھی دعا مانگو۔ یہ ضروری ہے۔
سوال:آپ کا رعب دوسروں پر کب پڑے گا ؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:خوب یاد رکھو کہ صاف ہو کر عمل کرو گے تو دوسروں پر تمہارا ضرور رعب پڑے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا بڑا رعب تھا۔ ایک دفعہ کافروں کو شک پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بددعا کریں گے تو وہ سب کافر مل کر آئے اور عرض کی کہ حضور بددعا نہ کریں۔ سچے آدمی کا ضرور رعب ہوتا ہے۔ چاہئے کہ بالکل صاف ہو کر عمل کیا جاوے اور خدا کیلئے کیا جاوے تب ضرور تمہارا دوسروں پر بھی اثر اور رعب پڑے گا۔
…٭…٭…