اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-01-11

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ11؍اگست 2023 بطرز سوال وجواب

قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کے ذریعے

جماعت احمدیہ دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچا رہی ہے اور دنیا کی اصلاح کر رہی ہے

آج جماعت احمدیہ ہی ہے جو قرآن کریم کے مرتبہ و مقام کو بلند کرنے اور اس کی حقیقی تعلیم بتانے میں کوشاں ہے


سوال: کس کتاب کےذریعے سے جماعت احمدیہ دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچارہی ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:آخری شرعی کتاب قرآن کریم جس کا پڑھنا، سننا، رکھنا بھی پاکستان میں احمدیوں پر بین (Ban) ہے، ایک بہت بڑا جرم ہے۔ وہی کتاب ہے جس کے ذریعےجماعت احمدیہ دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچا رہی ہے اور دنیا کی اصلاح کر رہی ہے۔


سوال: امام تَمانے نے جو جماعت کے خلاف جھوٹا پروپیگیڈا اٹھتا ہے اسے کیا بتایا؟
جواب: امام تَمانےنے کہاآج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ جماعت کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا ہو رہا ہے اور جھوٹا پروپیگنڈا ہمیشہ الٰہی جماعتوں کے خلاف ہوتا ہے


سوال: جماعت احمدیہ قرآن کریم کی کس طرح تعلیم پیش کررہی ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:آج جماعت احمدیہ ہی ہے جو قرآن کریم کے مرتبہ و مقام کو بلند کرنے اور اس کی حقیقی تعلیم بتانے میں کوشاں ہے۔


سوال: حضور انور نے پاکستان کے مخالفین سے کیا کہا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:ہمارے مخالف جو پاکستان میں بھی ہیں صرف مخالفت برائے مخالفت نہ کریں بلکہ ہماری تعلیم کو سنیں، پڑھیں، سمجھیں۔ پھر جو اعتراض ہے وہ پیش کریں۔


سوال: کونگو کنشا میں لوکل لوگوں نے کس طرح جماعت کی طرف رغبت کی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:کونگو کنشاسامیں جہاں ہمارا ایف ایم ریڈیو ہے وہاں کے لوکل مشنری حمید صاحب لکھتے ہیں کہ Uvira شہر میں ہمارے ریڈیو پروگرام کو سُن کر لوکل امام مسجد عیسیٰ صاحب نے رابطہ کیا اورپھر وہ مشن ہاؤس آئے۔ جماعت کا پیغام سمجھا اور بیعت کر لی۔ نہ صرف بیعت کی بلکہ اپنے گاؤںKiliba Ondezi جا کر تبلیغ بھی شروع کر دی۔ ان کی تبلیغ کے نتیجے میں چوبیس افراد احمدیت میں داخل ہوئے۔ جب ہمارے مرکزی مبلغ سلسلہ نے وہاں دورہ کیا تو مزید آٹھ افراد نے بیعت کی۔ اس طرح وہاں جماعت قائم ہو گئی۔ اب ایک طرف تو جو نیک فطرت امام ہیں ان کو یہ پیغام سن کر اس کو سمجھنے کی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرماتا ہے اور دوسری طرف پاکستانی علماء ہیں جو سوائے مخالفت کے اَور کچھ نہیں جانتے۔


سوال: کوگو کنشا کیا واقعہ سرزد ہوا کہایک نئی جماعت احمدیوں کی قائم ہوگئی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:کونگو کنشاساکے صوبے Mai-Ndombeکے ایک گاؤں میں عمر منور صاحب معلم ہیں۔ ان کو تبلیغ کیلئے وہاں بھیجا گیا۔ وہابی مسلمانوں کی ایک مسجد میں بھی وہ گئے۔ لوگوں میں پمفلٹ تقسیم کیے بعض شریر نوجوانوں نے مسجد سے نکل کر شور مچانا شروع کر دیا اور پتھر مارنے شروع کر دیے۔ اب کہتے ہیں کہ جی افریقہ میں تو لوگ اَن پڑھ ہیں اس لیے باتیں سن لیتے ہیں وہاں بھی مخالفت ہے۔ معلم صاحب پتھروں سے بچاؤ کرتے ہوئے باقی لوگوں کو تبلیغ کرتے رہے اور جو لوگ تھے وہ ان کے صبر و تحمل کے رویے سے بہت متاثر ہوئے اور ان میں سے بعض لوگ جو اس وجہ سے نکل گئے تھے پھر دوبارہ مسجد میں آ گئے اور ان کی باتیں سننے لگے۔ جماعت کے متعلق سوالات ہوئے، اعتراضات پیش کیے، بہت سارے سوالوں کے جواب دیے۔ ایک شریر نوجوان نے جو بڑھ بڑھ کے باتیں کر رہا تھا، کہا کہ تم لوگ لندن جا کر حج کرتے ہو جبکہ رسول اللہﷺ نے تمام حج مکےمیں کیے تھے۔ معلم صاحب نے اس سے سوال کیا کہ تم یہ بتاؤ کہ آنحضور ﷺنے کتنے حج کیے تھے؟ اس پر اس نوجوان نے کہا کہ حضور ﷺ تو جب سے پیدا ہوئے انہوں نے تمام عمر حج کیے۔ اس پر معلم نے کہا کہ آپ ﷺ نے تو صرف ایک ہی حج کیا ہے۔ مسجد میں بیٹھے امام اور دیگر بڑی عمر کے لوگوں نے اس نوجوان کو برا بھلا کہا کہ تم لوگ سب فساد کر رہے ہو۔ بہرحال وہ لوگ جو فساد کرنے والے تھے شرمندہ ہو کر وہاں سے چلے گئے۔ بعد میںامام صاحب جماعت کے وفد کو اپنے گھر لے گئے جہاں ان کے علاوہ دو اَور ائمہ بھی تھے اور کچھ اَور افراد بھی تھے اس طرح چالیس، بتالیس افراد نے وہاں جماعت احمدیہ کی اس تبلیغ سے متاثر ہو کر بیعت کر لی اور یہاں بھی ایک نئی جماعت قائم ہو گئی۔


سوال: امام تمانے صاحب نےجلسہ کے متعلق کیا ذکر کیا اور کس بات سے وہ بہت متاثر ہوئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:اس بارے میںگنی بساؤسے امام تَمَانے کہتے ہیں کہ آج تک ہم جماعت کے بارے میں یہی سنتے آئے ہیں کہ آپ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور قرآن و حدیث کو نہیں مانتے مگر آج ہم نے جلسےکا پروگرام دیکھا تھا۔ کہتے ہیں آج اس جلسے کی برکت سے ہم نے آپ کے خلیفہ کو دیکھا اور سنا ہے۔ انہوں نے تو اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور قرآن و حدیث کی نصائح فرمائی ہیں۔ کہتے ہیںآج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ جماعت کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا ہو رہا ہے اور جھوٹا پروپیگنڈا ہمیشہ الٰہی جماعتوں کے خلاف ہوتا ہے۔امام صاحب اسی مسجد کے امام تھے کہتے ہیں میں آج سے جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں اور میں اپنے تمام لوگوں کو جماعت کی تبلیغ کروں گا۔ اللہ کے فضل سے یہ تبلیغ کر بھی رہے ہیں اور ان کی تبلیغ سے نئی جماعتیں بھی قائم ہو رہی ہیں۔


سوال: امیر صاحب لائبیریا نے نمبا کاؤنٹی کے ایک ٹاؤن گیناگلے کے لوگوں کی قبولیت احمدیت کا کیا ذکر فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:امیر صاحب لائبیریانے لکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ مخالفت کے باوجود ہماری مدد فرماتا ہے۔ دو سال پہلے Nimba کاؤنٹی کے ایک ٹاؤن Ganaglay کےکچھ لوگ احمدیت میں داخل ہوئے۔ پہلے ان کا تعلق عیسائیت سے تھا یا لامذہب تھے۔ بیعت کے بعد ان احباب کی تربیت اور نمازوں کا انتظام کسی گھر کے برآمدے میں کیا گیا۔ لوکل مبلغ مرتضیٰ صاحب نے ایک دن نماز کے بعد احباب کو دعا کی تحریک کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مسجد بنانے کیلئے کوئی مناسب زمین عطا فرمائے۔ یہ علاقہ عیسائیت اور لامذہب لوگوں کا گڑھ ہے اور یہ لوگ مسلمانوں کو اچھا نہیں سمجھتے اس لیے مسجد کیلئے زمین کا حصول بہت مشکل تھا۔ ابھی گفتگو جاری تھی کہ ایک شخص مسٹر Dahn جو لامذہب تھے اور خدا کی ہستی پر بھی یقین نہیں رکھتے وہاں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کھڑے ہو کے کہا کہ جب سے مشنری نے ہمارے گاؤں میں آنا شروع کیا ہے مَیں نے ان کا بہت اچھا اخلاق دیکھا ہے۔ سب لوگوں سے ملتے ہیں، ایک ہی برتن میں کھانا کھا لیتے ہیں حتی کہ میں جو خدا کو نہیں مانتا اور پکا شرابی ہوں میرے پاس بھی آ کر بیٹھ جاتے ہیں اور حال احوال پوچھتے ہیں۔ مجھے اس طرح کے اخلاق پہلے دیکھنے کو نہیں ملے۔


سوال: تنزانیہ کے ایک مبلغ صاحب جب کسی علاقے میں پمفلٹ تقسیم کرنے گئے تو کیا ہوا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:تنزانیہ کے ایک معلم صاحب نے بتایا کہ وہ ایک علاقے میں پمفلٹ تقسیم کرنے گئے۔ جماعتی کتب بھی فروخت کرتے ہیں۔ اس سے تبلیغی رابطوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ایک دن مجھے تیس کلو میٹر دور سے ایک غیر از جماعت شخص کا فون آیا کہ وہ قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ خریدنا چاہتے ہیں۔ معلم صاحب نے بتایا کہ قرآن کریم تو ان کے قریب کے علاقے سے بھی مل سکتے ہیں لیکن اس شخص نے کہا کہ مجھے جماعت کے ترجمےاور تفسیر کا طریق بہت پسند ہے۔ ٹھیک ہے اَوروں نے (ترجمے) کیے ہیں لیکن جو جماعتی طریقِ ترجمہ ہے وہی مجھے پسند ہے کیونکہ عقل اسکو قبول کرتی ہے۔ میں یہی ترجمہ لینا چاہتا ہوں۔


سوال: حضور انور نے ایک دوست جالیموس صاحب کمپیوٹر انجینئر جب جماعتی بک سٹال میں آئے تو انکی کیا کیفیت تھی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: جورھاٹ بک فیئر کے موقع پر ایک دوستJalimaus صاحب آئے۔ یہ موصوف کمپیوٹرانجینئر ہیں۔ اسٹال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر اور جماعتی کتب دیکھنے لگے۔ کچھ دیر بعد موصوف نے ڈیوٹی پر موجود مبلغ سے نم آنکھوں سے مخاطب ہو کر کہا میں آج اگر بطور مسلمان آپ کے سامنے کھڑا ہوں تو صرف جماعت احمدیہ کی وجہ سے۔ جماعت کا یہ مجھ پر بڑا احسان ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ کیا آپ احمدی ہیں اور جماعت نے آپ پر کیا احسان کیا ہے؟ تو اس پر اس نے جواب دیا کہ میں احمدی تو نہیں ہوں لیکن میں مذہب سے دور ہوتے ہوتے دہریہ ہو گیا تھا مگر میرے گھر میں والد صاحب کے پاس جماعت احمدیہ کی کچھ پرانی کتب پڑی ہوئی تھیں جو کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ؑکی لکھی ہوئی تھیں۔ ان کتب کا میں نے مطالعہ کیا۔ ان کتب میں حضرت مرزا صاحب نے خدا تعالیٰ کے بارے میں جو دلائل پیش کیے تھے ان دلائل نے میری آنکھیں کھول دیں۔ میں لاجواب ہو گیا اور میرا ہستی باری تعالیٰ پر ایمان قائم ہو گیا۔ اس طرح دہریہ لوگ بھی جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے اپنے ایمان کو دوبارہ قائم کرتے ہیں۔ پھر کہنے لگا کہ اب میں جماعت احمدیہ کی ویب سائٹ کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ جماعت احمدیہ اسلام کی تائید میں جو دلائل پیش کرتی ہے اس سے میرا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور میرے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ جماعت احمدیہ کی وجہ سے میں آج مسلمان ہوں۔

…٭…٭…