جلسہ سالانہ کے موقع پر جس جذبے سے سب نے اپنے آپ کو خدمت کیلئے پیش کیا ہے اس جذبے کو قائم رکھتے ہوئے
جتنے دن بھی ڈیوٹیاں ہیں انہیں سرانجام دیں اور جہاں مہمانوں کی خدمت کرنے کا حق ادا کریں
وہاں یہ بات بھی نہ بھولیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا بھی حق ادا کرنا ہے، اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہے
اور اس ماحول سے ہر لمحہ فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ذات کو بھی پاک بنائے رکھنے کی کوشش کرنی ہے
جلسہ سالانہ کے حوالہ سے کارکنان ومہمانان کرام کو زرّیں نصائح وہدایات
سوال :حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کارکنان اور نگران کوکیا نصیحت فرمائی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے محنت، اعلیٰ اخلاق اور دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے ہر کارکن اور ہر نگران کو اپنا کام کرنا چاہئے اور جب یہ ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ بھی برکت عطا فرمائے گا۔ جس جذبے سے سب نے اپنے آپ کو خدمت کیلئے پیش کیا ہے اس جذبے کو قائم رکھتے ہوئے جتنے دن بھی ڈیوٹیاں ہیں انہیں سرانجام دیں اور جہاں مہمانوں کی خدمت کرنے کا حق ادا کریں وہاں یہ بات بھی نہ بھولیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا بھی حق ادا کرنا ہے، اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہے اور اس ماحول سے ہر لمحہ فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ذات کو بھی پاک بنائے رکھنے کی کوشش کرنی ہے۔
سوال : نیز حضور انور نے کارکنوں کو کیا نصیحت فرمائی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: جس جذبے سے سب نے اپنے آپ کو خدمت کیلئے پیش کیا ہے اس جذبے کو قائم رکھتے ہوئے جتنے دن بھی ڈیوٹیاں ہیں انہیں سرانجام دیں اور جہاں مہمانوں کی خدمت کرنے کا حق ادا کریں وہاں یہ بات بھی نہ بھولیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا بھی حق ادا کرنا ہے، اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہے اور اس ماحول سے ہر لمحہ فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ذات کو بھی پاک بنائے رکھنے کی کوشش کرنی ہے۔
سوال : شاملین جلسہ کو کس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:ہر شامل جلسہ کو اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ باتیں جو میں کہنے لگا ہوں یہ روایتاً کہہ رہا ہوں اور میں نے کہہ دیا اور آپ نے سن لیا۔ بس اتنا کافی ہے۔ نہیں،بلکہ اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال : جلسہ میں شامل ہونے کا کیا مقصد ہونا چاہئے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:اس جلسے میں شامل ہونے کا ہمارا ایک مقصد ہے اور وہ مقصد ہےاپنی روحانی اور علمی حالت کو بہتر کرنا، اخلاقی حالت کو بہتر کرنا،اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اپنے دل میں پیدا کرنا۔
سوال : حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کون سا واقعہ بیان کیا جس میں حضورؑنے دسترخوان کے ٹکرے کھاکر گزارہ کیا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ سفر پر تھے، کام میں مصروف تھے اس لیے آپ نے رات کا کھانا اس وقت نہیں کھایا جب کھانا serve کیا جا رہا تھا اور دوسرے مہمانوں کو کھلایا جا رہا تھا۔ کارکنوں نے رکھ دیا ہوگا اور بعد میں تھوڑی دیر بعد اٹھا بھی لیا ہو گا بغیر دیکھے کہ کھایا ہے کہ نہیں۔ انتظامیہ نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی کہ آپؑ نے کھانا نہیں کھایا اور اپنے کام میں آپؑمصروف ہیں۔ بہرحال رات گئے آپ علیہ السلام کو جب بھوک کا احساس ہوا تو آپؑ نے کھانے کے بارے میں پوچھا تو سب انتظامیہ کے ہاتھ پیر پھول گئے۔سب بڑے پریشان ہوئے کہ کھانا تو جتنے لوگ وہاں آئے ہوئے تھے اور کام والے تھے سب کھا چکے ہیں اور اب تو کچھ بھی نہیں بچا رات دیر ہو گئی تھی۔ بازار بھی بند تھے کہ کسی ہوٹل سے ہی منگوا لیا جاتا وہ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ بہرحال کسی طرح حضور علیہ السلام کو یہ علم ہوا کہ کھانا ختم ہو چکا ہے اور انتظام کرنے والے پریشان ہیں کہ فوری طور پر جلدی جلدی کھانا پکانے کا انتظام ہو۔ آپ علیہ السلام نے اس پر فرمایا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ دیکھو! دستر خوان پر کچھ بچے ہوئے روٹی کے ٹکڑے ہوں گے وہی لے آؤ۔ چنانچہ آپؑ نے ان ٹکڑوں میں سے ہی تھوڑا سا کھا لیا اور انتظام کرنے والوں کی تسلی کروائی۔
سوال : میزبان اور مہمانوں کو اپنے فرائض کس طرح سرانجام دینے چاہئے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میزبان کا یہ فرض ہے کہ حتی المقدور مہمان کو آرام پہنچائے اور مہمانوں کو بھی معمولی تکلیفوں کوبرداشت کرنے کا بہترین اجر اللہ تعالیٰ عطا فرمائے۔
سوال : حضرت مسیح موعود علیہ السلا م نے جلسےکے حوالے سے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی جو تلقین فرمائی اسکا معیار کیا ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے۔ اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چارپائی پر قبضہ کرتا ہوں تاوہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چارپائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں۔ اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں اس کے مقابل پر امن سے سو رہوں اور اس کیلئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے۔
سوال : سچے مومن کی کیا نشانیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہیں؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:کوئی سچا مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو جب تک وہ اپنے تئیں ہریک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری مشیختیںدور نہ ہوجائیں۔ خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہوکر اور جھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے۔
سوال : اپنے پر اپنے بھائی کو ترجیع دینا کیسا ہے؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اپنے پر اپنے بھائی کو ترجیح دینا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ بہت مجاہدے کا کام ہے۔ اس لیے فرمایا کہ اسکا تعلق ایمان سے ہے۔ اسکا ایمان ہی درست نہیں جس میں قربانی کا اور دوسرے کا حق ادا کرنے کا یہ مادہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ بڑے انعاموں کا مستحق معمولی باتوں پر نہیں بنا دیتا بلکہ اسے ہی بے انتہا نوازتا ہے جو مجاہدے میں بڑھا ہوا ہو۔ حقوق العباد کا ادا کرنا بہت مشکل کام ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حقوق اللہ تو بعض دفعہ ادا ہو جاتے ہیں لیکن حقوق العباد کی ادائیگی بہت مشکل کام ہے۔
سوال : اگر کوئی سختی سے پیش آئے تو آپ کو کیا کرنا چاہئے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: کوئی سخت الفاظ میں بولے اور میرا رویہّ بھی ویسا ہی ہو تو مجھ پر افسوس ہے۔چاہئے تو یہ کہ بجائے اس کے کہ مَیں اس سے سختی سے پیش آؤں میں اس کیلئے دعا کروں۔
سوال : روحانی بیماریوں سے بچنے کیلئے کیا کرنا چاہئے؟
جواب:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: روحانی بیماریوں سے بچنے کیلئے دوسروں کے عیب نکالنے سے بچنا ہو گا۔ اپنے دل کو دوسروں کیلئے نرم کرنا ہو گا۔ ہر قسم کا تکبر اپنے اندر سے نکالنا ہو گا۔
سوال :جلسے پر جو لوگ معمولی باتوں پر اپنے جذبات کو کنٹرول نہیں کر سکتے اس بابت حضور انور نے کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:بعض دفعہ معمولی باتوں پر بھی رنجشیں پیدا ہو جاتی ہیں اور ایسا ماحول بن جاتا ہے کہ ایک دوسرے کو برابھلا کہنے لگتے ہیں بلکہ ہاتھا پائی تک نوبت آجاتی ہے۔ اگر یہ ماحول پیدا کرنا ہے اور جذبات پر کنٹرول نہیں رکھنا تو بہتر ہے کہ وہ انسان جلسہ پر نہ آئے اور اسی طرح ڈیوٹی والے اگر کنٹرول نہیں کر سکتے تو وہ ڈیوٹی نہ دیں۔
سوال : ہمیںمحض کس کی خاطر نیکی کو بجا لاناچاہئے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:نیکی کو محض اس لئے کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ خوش ہو اور اسکی رضا حاصل ہو اور اسکے حکم کی تعمیل ہو ۔قطع نظر اسکے کہ اس پر ثواب ہو یا نہ ہو۔ ایمان تب ہی کامل ہوتا ہے جبکہ یہ وسوسہ اور وہم درمیان سے اٹھ جاوے۔
…٭…٭…٭…