جنگ بدر سےواپسی سے قبل آنحضرت ﷺ اس گڑھے کے پاس تشریف لے گئے جس میں رؤسائے قریش دفن کئے گئے تھے
آپ نے ان میں سے ایک ایک کا نام لے کر پکارا اور فرمایا ھَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَکُمُ اللّٰہُ حَقًّا فَاِنِّیْ وَجَدْتُّ مَاوَعَدَنِیَ اللّٰہُ حَقًّا
یعنی کیا تم نے اس وعدہ کو حق پایاجو خدا نے میرے ذریعہ تم سے کیا تھا،یقیناً میں نے اس وعدے کو حق پالیا ہے جو خدا نے مجھ سے کیا تھا
سوال: جنگ بدر میں کتنے کفار مارے گئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: جنگ بدر میں ستر کفار مارے گئے جن میں سے بہت سے رؤسا اور سردار بھی تھے۔
سوال: رئوسائے قریش کی تدفین کے بارے میں کیا ذکر ملتا ہے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: رؤسائے قریش کی تدفین کے بارے میںاسطرح ذکر ملتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺکعبے کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ قریش کے چند افراد کے کہنے پر ان میں سے سب سے بدبخت نے نبی کریم ﷺکے کندھوں کے درمیان جانور کی بچہ دانی رکھ دی جبکہ آپؐسجدے میں تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کی حالت میں ہی رہے اور وہ لوگ ہنستے رہے۔ حضرت فاطمہ علیہا السلام کو کسی نے بتایا۔ وہ چھوٹی لڑکی تھیں، دوڑتی ہوئی آئیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کی حالت میں رہے یہاں تک کہ انہوں نے اسکو آپؐکے اوپر سے ہٹا دیا حضرت فاطمہؓ نے ان لوگوں کو برا بھلا کہا۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ چکے تو آپؐنے دعا کی۔ اے اللہ! تُو قریش کی گرفت کر۔ اے اللہ!تُو قریش کی گرفت کر۔ اے اللہ!تُو قریش کی گرفت کر۔پھرآپؐنے نام لیے اے اللہ! عمرو بن ہشام اور عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ اور امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید پر گرفت کر۔ حضرت عبداللہ ؓکہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں نے خود انکو بدر کے دن گرے ہوئے دیکھا یعنی ان لوگوں کو جنکے نام آنحضرتﷺ نے لیے تھے۔ پھر ان کو بدر کے گڑھے میں گھسیٹ کر پھینکاگیا۔ پھررسول اللہﷺ نے فرمایا کہ گڑھے والے لعنت کے نیچے ہیں۔
سوال: کفار کے سب مقتولوں کو جب گڑھے میں ڈالا تو امیہ بن خلف کو کیوں نہیں اس میں ڈالا؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جنگ کے بعد حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کفار کے سب مقتولوں کو گڑھے میں ڈال دو۔ چنانچہ سب کو ڈال دیا گیا سوائے امیہ بن خلف کے۔ اسکی لاش اپنی زرہ میں پھول گئی تھی۔ جب اس کو اٹھانا چاہا تو اس کا گوشت گرنے لگا اس وجہ سے اس کو اسی جگہ مٹی اور پتھر ڈال کر ڈھانک دیا گیا۔
سوال: آنحضرت ﷺ نے جب حضرت ابوحذیفہ ؓ سے ناگواری کی وجہ پوچھی تو انہوں نےکیا فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:آنحضورﷺ نے حضرت ابوحذیفہؓ جو عتبہ کے بیٹے تھے کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھ لیے۔ یہ مسلمان ہو گئے تھے، باپ کافر تھا۔ آپؐنے فرمایا: اے ابوحذیفہ! شاید تمہارے دل میں تمہارے باپ کے بارے میں کچھ گمان گزرا ہے۔ انہوں نے عرض کی نہیں یارسول اللہؐ! مجھے نہ تو باپ کے بارے میں شک ہے نہ اسکے قتل کے بارے میں شک ہے لیکن میں جانتا تھا کہ میرا باپ صائب الرائے اور حلیم اور معزز انسان تھا۔ مجھے امید تھی کہ یہ امور یعنی یہ باتیں جو اس نے دیکھیں، اچھی باتیں تھیں، اسے اسلام کی طرف لے جائیں گی۔ جب میں نے اسکا انجام دیکھا تو مجھے اس کا کفر یاد آگیا حالانکہ مجھے اسکے اسلام لانے کی امید تھی۔ اس بات نے مجھے غمزدہ کر دیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یعنی ابوحذیفہ ؓکو دعائے خیر دی اور بھلائی کے کلمات کہے۔
سوال: جنگ بدر میں آنحضرت ﷺ نے جو معجزات دکھائے ان میں سے کون سے معجزہ کا حضور انور نے ذکر فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:اس جنگ میں آنحضورﷺ کے معجزات کا ذکربھی ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ سیرت کی کتاب میں یوں ملتا ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ عُکَاشَہ بن مِحْصَنؓبدر کے دن اپنی تلوار کے ساتھ لڑائی کرتے رہے یہاں تک کہ وہ ان کے ہاتھ میں ٹوٹ گئی۔ وہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے ایک لکڑی ان کو عنایت کی اور فرمایا اے عکاشہ! تم اس سے کافروں کے ساتھ جنگ کرو۔ عکاشہ نے اس کو ہاتھ میں لے کر لہرایا تو وہ لکڑی آپؓکے ہاتھ میں تلوار بن گئی جو کافی لمبی تھی جس کا لوہا بہت سخت تھا اور اسکی رنگت سفید تھی۔ آپؓاسکے ساتھ جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرما دی۔ راوی کہتا ہے اس تلوار کا نام عون تھا۔ بعد کی جنگوں میں بھی وہ اس تلوار کے ساتھ دادِ شجاعت دیتے رہے یہاں تک کہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ جنگ میں انہوں نے شہادت پائی۔
سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فدیہ لینے کا فیصلہ فرمایا تھا وہ کس کی منشاء تھی؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: حقیقت یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فدیہ لینے کا فیصلہ جو فرمایا تھا وہ الٰہی منشا کے عین مطابق تھا۔
سوال: قریش مکہ میں سے کچھ اپنے مقتولین کیلئے نوحہ کر رہے تھے تو دوسروں نے انہیں کیا کہا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: قریش مکہ میں سے کچھ نے اپنے مقتولین پر نوحہ کیا تو دوسروں نے ان سے کہا ایسا نہ کروکیونکہ محمد ﷺ اور انکے اصحابؓکو یہ خبر پہنچے گی تو وہ تمہاری اس حالت پر خوش ہوں گے اور اپنے قیدیوں کی رہائی کیلئےکسی کو نہ بھیجو یہاں تک کہ تم انکے بارے میں خوب غور و فکر کر لو۔ نہ نوحہ کرنا ہے، نہ اپنے قیدیوں کو چھڑانے کیلئے کوئی کوشش کرنی ہے تا کہ محمد ﷺاور آپؐکے اصحابؓ فدیہ کے معاملے میں تم پر سختی نہ کریں۔
سوال: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گڑھے کے پاس تشریف لے گئے جس میں رؤسائے قریش دفن کئے گئے تھے کیا کہا؟
جواب: حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جنگ بدر سےواپسی سے قبل آپؐاس گڑھے کے پاس تشریف لے گئے جس میں رؤسائے قریش دفن کئے گئے تھے اور پھر ان میں سے ایک ایک کا نام لے کر پکارا اور فرمایا ھَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَکُمُ اللّٰہُ حَقًّا فَاِنِّیْ وَجَدْتُّ مَاوَعَدَنِیَ اللّٰہُ حَقًّا یعنی ’’کیا تم نے اس وعدہ کو حق پایاجو خدا نے میرے ذریعہ تم سے کیا تھا۔ تحقیق میں نے اس وعدے کو حق پالیا ہے جو خدا نے مجھ سے کیا تھا۔ نیز فرمایا: یَا اَھلَ الْقَلِیْبِ بِئْسَ عَشِیْرَۃِ النَّبِّیِ کُنْتُمْ لِنَبِیِّکُمْ کَذَّبْتُمُوْنِیْ وَصَدَقَنِیَ النَّاسُ وَاَخْرَجْتُمُوْنِیْ وَآوَانِیَ النَّاسُ وَقَاتَلْتُمُوْنِیْ وَنَصَرَنِیَ النَّاسُ یعنی ’’اے گڑھے میں پڑے ہوئے لوگو! تم اپنے نبی کے بہت بُرے رشتہ دار بنے۔ تم نے مجھے جھٹلایا اور دوسرے لوگوں نے میری تصدیق کی۔ تم نے مجھے میرے وطن سے نکالا اوردوسروں نے مجھے پناہ دی۔ تم نے میرے خلاف جنگ کی اور دوسروں نے میری مدد کی۔‘‘ حضرت عمرؓنے عرض کیا۔ یارسول اللہؐ! وہ اب مردہ ہیں وہ کیا سنیں گے۔ آپؐنے فرمایامیری یہ بات وہ تم سے بھی بہتر سن رہے ہیں۔یعنی وہ اس عالم میں پہنچ چکے ہیں جہاں ساری حقیقت آشکارا ہوجاتی ہے اورکوئی پردہ نہیں رہتا۔
سوال: جنگ بدر میں آنحضرت ﷺکے لعاب دہن اور دستِ اقدس کا کیا ذکر ملتا ہے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصراہ العزیزنے فرمایا: حضرت قتادہؓسے روایت ہے کہ غزوۂ بدر کے روز ان کی آنکھ پر ضرب لگی ان کی آنکھ ان کے رخسار پر بہ نکلی یعنی ڈیلا نکل کے باہر آ گیا۔ انہوں نے اسے نیچے پھینک دینے کا ارادہ کیا۔ صحابہؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں دریافت کیا تو آپﷺ نے فرمایا نہیں ایسا نہیں کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت قتادہ ؓکو اپنے پاس بلایا اور اپنی ہتھیلی پر ان کی آنکھ رکھی پھر اسے اس کی جگہ پر رکھ دیا یعنی واپس آنکھ میں ڈیلا ڈال دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں یاد تک نہ رہا کہ ان کی کسی آنکھ کو تکلیف پہنچی تھی۔ پھر آنکھ ایسی جڑی، ٹھیک ہوئی ہے کہ ان کو احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ آنکھ وہ تھی جو نکلی تھی بلکہ یہ آنکھ دوسری آنکھ سے زیادہ خوبصورت لگتی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبور ہوکر محض خود حفاظتی میں تلوار اٹھائی ہے۔
…٭…٭…٭…