جنگ بدر میں کفار کو شدید نقصان اور مومنوں کو جنگی لحاظ سے عظیم الشان فائدہ پہنچا
مومنوں کی مدد اور کفار پر رعب طاری کرنے کیلئے ملائکہ بھی دلوں پر نازل ہوئے بلکہ جنگِ بدر میں کئی کفار نے ملائکہ کو اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا
جنگِ بدر میں وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات کا دلنشین بیان
سوال: جنگ بدر کے دن ابوجہل نے کیا دعا کی تھی ؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:بدر کی لڑائی کے وقت میں ایک شخص مُسَمّٰی عمرو بن ہشام نے جسکا نام پیچھے سے ابوجہل مشہور ہوا جو کفار قریش کا سردار اور سرغنہ تھا ان الفاظ سے دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ مَنْ کَانَ مِنَّا اَفْسَدَ فِی الْقَوْمِ وَاَقْطَعَ لِلرَّحْمِ فَاَحِنْہُ الْیَوْمَ یعنی اے خدا! جو شخص ہم دونوں میں سے (اس لفظ سے مراد اپنے نفس اور آنحضرت ﷺ کو لیاتھا) تیری نگہ میں ایک مفسد آدمی ہے اور قوم میں پھوٹ ڈال رہا ہے اور باہمی تعلقات اور حقوق قومی کو کاٹ کر قطع رحم کا موجب ہو رہا ہے آج اس کو تو ہلاک کردے ۔
سوال: جنگ بدر کی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ نے کیا بیان کیا؟
جواب:حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اےفرماتے ہیں: میدان کارزار میں کشت و خون کا میدان گرم تھا۔ مسلمانوں کے سامنے ان سے سہ چند جماعت تھی جو ہر قسم کے سامان حرب سے آراستہ ہو کر اس عزم کے ساتھ میدان میں نکلی تھی کہ اسلام کا نام و نشان مٹا دیا جاوے اور مسلمان بیچارے تعداد میں تھوڑے، سامان میں تھوڑے، غربت اور بے وطنی کے صدمات کے مارے ہوئے ظاہری اسباب کے لحاظ سے اہل مکہ کے سامنے چند منٹوں کا شکار تھے مگر توحید اور رسالت کی محبت نے انہیں متوالا بنا رکھا تھا اور اس چیز نے جس سے زیادہ طاقتور دنیا میں کوئی چیز نہیں یعنی زندہ ایمان نے ان کے اندر ایک فوق العادت طاقت بھر دی تھی۔ وہ اس وقت میدان جنگ میں خدمت دین کا وہ نمونہ دکھا رہے تھے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہر اک شخص دوسرے سے بڑھ کر قدم مارتا تھا اور خدا کی راہ میں جان دینے کیلئے بے قرار نظر آتا تھا۔ حمزہؓ اور علیؓ اور زبیرؓنے دشمن کی صفوں کی صفیں کاٹ کر رکھ دیں۔
سوال: مسلمان کے پہلے شہید کون تھے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: مسلمانوں کے پہلے شہیدکے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓکے آزاد کردہ غلام حضرت مِھْجَعْ ؓکو ایک تیر کا ہدف بنایا گیا جس سے وہ شہید ہو گئے۔ یہ مسلمانوں کے پہلے شخص تھے جنہوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔
سوال:ابوجہل کا قتل کس طرح ہوا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:ابوجہل کے قتل کے بارے میںبخاری میں جو روایت آتی ہے اسکے مطابق حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓبیان کرتے ہیں کہ مَیں جنگِ بدر کے دن ایک صف میں کھڑا تھا۔ مَیں نے نگاہ پھیری تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے دائیں اور بائیں دو نوعمر نوجوان لڑکے ہیں جیسے ان کی اس موجودگی پر میں اپنے آپ کو امن میں نہیں سمجھتا تھا۔ انہوں نے کہا یہ نوجوان لڑکے یا بچے انہوں نے میری کیا حفاظت کرنی ہے۔ کہتے ہیں مَیں امن میں نہیں سمجھتا تھا۔ اتنے میں ان میں سے ایک نے چپکے سے جسکی خبر اسکے ساتھی کو نہ ہوئی مجھے پوچھا۔ چچا! مجھے ابوجہل تو دکھا دو۔ مَیں نے کہا میرے بھتیجے تجھے اس سے کیا کام؟ وہ کہنے لگا مَیں نے اللہ سے یہ عہد کیا ہے کہ اگر میں اسکودیکھ پاؤں تو اسے مار ڈالوں گا یا اسکے سامنے خود مارا جاؤں گا۔ پھر دوسرے نوجوان نے چپکے سے جس کی خبر اس کے ساتھی کو نہ ہوئی مجھ سے ایسے ہی پوچھا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓکہتے تھے کہ مجھے کبھی اتنی خوشی نہ ہوتی اگر مَیں ان کی جگہ دو مردوں کے درمیان ہوتا۔ ان کے اس جذبے کے باوجود بھی ان کو تسلی نہیں ہوئی پھر بھی چاہتے تھے کہ دو مضبوط آدمی میرے دائیں بائیں ہوتے۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے ان دونوں کو ابوجہل کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ وہ ہے۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں شکروں کی طرح اس پر جھپٹے اور اس کو مار ڈالا اور وہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے معاذ اور معوذ۔
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابوجہل کو فرعون سے بڑھ کر کیوں کہا؟
جواب:حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ابو جہل کو فرعون کہا گیا ہے۔مگر میرے نزدیک وہ تو فرعون سے بڑھ کر ہے۔ فرعون نے تو آخر کہا اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْ اِسْرَاءِیْل(یونس: 91)کہ مَیں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں مگر وہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں۔مگر یہ آخر تک ایمان نہ لایا۔ مکہ میں سارا فساد اسی کا تھا اور بڑا متکبر اور خود پسند،عظمت اور شرف کو چاہنے والا تھا۔
سوال: جنگ بدر میں فرشتوں کے نزول کے بارے میں کیا بیان ہوا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: جنگ بدر میں فرشتوں کا نزول اسکے بارے میں لکھا ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّيْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰئِكَةِ مُرْدِفِيْنَجب تم اپنے ربّ سے فریاد کر رہے تھے اس نے تمہاری التجا کو قبول کر لیا اس وعدے کے ساتھ کہ میں ضرور ایک ہزار قطار در قطار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔غزوۂ بدر میں نزولِ ملائکہ کی تصدیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے روز فرمایا یہ جبرئیل ہیں۔ انہوں نے اپنے گھوڑے کی لگام کو پکڑا ہوا ہے اور جنگی آلات سے آراستہ ہیں۔ سیرت ابنِ ہشام میں متعدد صحابہ کی روایات بدر کے دن فرشتوں کے نزول پر دلالت کرتی تھیں۔
سوال:جنگ بدر میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں پر کس طرح اپنی تائید و نصرت فرمائی؟
جواب: حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : جنگ بدر میں خدا تعالیٰ نے بادلوں میں سے ہی اپنا چہرہ ظاہر کیا یعنی ابھی جنگ شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ بارش ہوئی جس سے کفار کو شدید نقصان اور مومنوں کو جنگی لحاظ سے عظیم الشان فائدہ پہنچا اور پھر مومنوں کی مدد اور کفار پر رعب طاری کرنے کیلئے ملائکہ بھی دلوں پر نازل ہوئے بلکہ جنگِ بدر میں کئی کفار نے ملائکہ کو اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا اور قُضِیَ الْاَمْرُ کے ماتحت عرب کے سردار چن چن کر مارے گئے۔
سوال: حضرت سعد ؓکا کفار کے خلاف کس طرح کا جذبہ تھا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت سعدؓ کا کفار کے خلاف شدید جذبہ کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ آخر کار جب دشمن نے شکست کھا کر ہتھیار پھینک دیے اور صحابہؓ انکو گرفتار کرنے لگے تو آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ حضرت سعدؓ کے چہرے پر اس منظر سے ناگواری کے آثار ہیں یعنی مسلمانوں کے اس عمل کو وہ ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔ آپﷺ نے حضرت سعدؓ سے فرمایا اے سعد! ایسا لگتا ہے کہ تم قوم کی اس حرکت کو یعنی مشرکوں کو گرفتار کرنے کو ناپسند کر رہے ہو۔ انہوں نے عرض کیا بیشک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مشرکوں کے ساتھ ہماری یہ پہلی اور کامیاب جنگ ہے۔ لہٰذا اس میں میرے نزدیک مشرکوں کو زندہ رکھنے کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ قتل کر دینا بہترہے۔
سوال: جنگ بدر میں کتنے مسلمان شہید ہوئے اور کتنے کا فرمارے گئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: اس میں چودہ مسلمان شہید ہوئے۔ چھ مہاجرین میں سے اور آٹھ انصار میں سے لیکن مشرکین کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید کیے گئے جو عموماً قائد اور سردار اور بڑے بڑے سربرآوردہ حضرات تھے۔
سوال: جو جو مسلمان اس جنگ میں شہید ہوئے ان کے اسماء کیا تھے؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: مہاجر جو تھے ان میں عُبَیدہ بن حَارِث بن مُطَّلِب، عُمَیر بن ابی وقاص، ذُوالشِّمَالَین یعنی عمیر بن عبد عمرو، عاقل بن بُکَیر، مِہْجَعمولیٰ عمر بن خطاب، صَفْوَان بن بَیْضَاء۔ اور انصار میں سے سعد بن خَیْثَمہ، مبشر بن عبدالمنذِر، یزید بن حارِث، عُمیر بن حُمَام، رافع بن مُعَلّٰی، حَارِثہ بن سُرَاقہ۔
سوال: مشرکین میں چند اہم نام کیا ہیں جو اس جنگ میں مارے گئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:مشرکین کے مقتولین جو تھے وہ ستر مشرکین تھے جو ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر قریش کے سردار تھے۔ چند اہم اور نامور مقتولین کے نام یہ ہیں۔ حنظلہ بن ابوسفیان، حارث بن حَضْرَمی، عامربن حضرمی، عبیدہ بن سعید بن عاص، عاص بن سعید بن عاص، عُقْبَہ بن ابی مُعَیط، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ بن ربیعہ، حارث بن عامر، ابوالبختری عاص بن ہِشام، نضر بن حارث، عاص بن ہِشام ، عاص بن ہشام کا نام دو دفعہ ہے یا دو شخص ہیں۔ ابوالعاص بن قیس، امیہ بن خَلَف، ابوجہل جس کا نام عَمرو بن ہشام تھا۔ ان میں سے اکثریت ان کی تھی جو مکےمیں مسلمانوں سمیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دیا کرتے تھے۔
…٭…٭…٭…