سوال: جنگ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا دعا کی تھی؟
جواب: جنگ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی کہ: اَللّٰھُمَّ اَنْجِزْ لِیْ مَا وَعَدْتَّنِیْ۔ اَللّٰھُمَّ اٰتِ مَا وَعَدْتَّنِیْ۔ اَللّٰھُمَّ اِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصَابَةَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِی الْاَرْضِ یعنی اے اللہ! جو تُو نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے اُسے پورا فرما۔ اے اللہ! جو تُو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ مجھے عطا فرما۔اَے اللہ اگر تو نے مسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک کردیا تو زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائیگی۔
سوال: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے اموال جمع کرنے کیلئے کس کو عامل مقرر کیا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے اموال جمع کرنے کیلئے سواد بن غزیّہؓ کو عامل مقرر کیا۔
سوال: جنگ بدر میں مسلمانوں کے لشکر کے کھڑے ہونے کی کیا ترتیب تھی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: قدرتِ الٰہی کاعجیب تماشہ ہے کہ اسوقت لشکرکے کھڑے ہونے کی ترتیب ایسی تھی کہ اسلامی لشکر،قریش کو اصلی تعداد سے زیادہ بلکہ دوگنا نظرآتا تھا۔ جس کی وجہ سے کفار مرعوب ہوئے جاتے تھے اور دوسری طرف قریش کا لشکر مسلمانوں کو انکی اصلی تعداد سے کم نظر آتا تھا۔ جسکے نتیجےمیں مسلمانوں کے دل بڑھے ہوئے تھے۔
سوال: حضرت سواد بن غزوہؓ نے کس بہانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ کو بوسہ دیا؟
جواب:حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓنے سیرت خاتم النبیینؐمیں لکھا ہے کہ: رمضان سنہ2ھ کی سترہ تاریخ اور جمعہ کا دن تھا اورعیسوی حساب سے14؍مارچ 624ءتھی۔ صبح اٹھ کر سب سے پہلے نماز ادا کی گئی اور پرستارانِ احدیت کھلے میدان میں خدائے واحد کے حضور سربسجود ہوئے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد پرایک خطبہ فرمایا اور پھر جب ذرا روشنی ہوئی تو آپؐنے ایک تیر کے اشارہ سے مسلمانوں کی صفوں کودرست کرنا شروع کیا۔ ایک صحابی سوادؓ نامی صف سے کچھ آگے نکلا کھڑا تھا۔ آپؐنے اسے تیر کے اشارہ سے پیچھے ہٹنے کو کہا مگر اتفاق سے آپؐکے تیر کی لکڑی اس کے سینہ پر جا لگی۔ اس نے جرأت کے انداز سے عرض کیا۔ ’’یارسول اللہؐ! آپؐ کوخدا نے حق وانصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے مگر آپؐنے مجھے ناحق تیر مارا ہے۔ واللہ! مَیں تو اس کا بدلہ لوں گا۔‘‘ صحابہؓ انگشت بدنداں تھے’’حیران پریشان تھے ‘‘کہ سوادؓ کوکیا ہوگیا ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ ’’اچھا سواد تم بھی مجھے تیر مار لو۔‘‘ اور آپؐ نے اپنے سینہ سے کپڑا اٹھا دیا۔ سواد نے فرطِ محبت سے آگے بڑھ کر آپؐکاسینہ چوم لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’سواد! یہ تمہیں کیا سوجھی۔‘‘ اس نے رِقّت بھری آواز میں عرض کیا۔’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! دشمن سامنے ہے کچھ خبر نہیں کہ یہاں سے بچ کر جانا ملتا ہے یا نہیں۔ مَیں نے چاہا کہ شہادت سے پہلے آپؐ کے جسم مبارک سے اپنا جسم چھوجاؤں۔‘‘
سوال: رسول کریم اللہ علیہ وسلم کی وفات کا جب وقت قریب آیا توآپؐ نے صحابہؓسے کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپؐ نے اپنے صحابہؓ کو جمع کیا اور فرمایا: دیکھو! مَیں بھی انسان ہوں جیسے تم انسان ہو ممکن ہے مجھ سے تمہارے حقوق کے متعلق کبھی کوئی غلطی ہو گئی ہو اور میں نے تم میں سے کسی کو نقصان پہنچایا ہو اب بجائے اِس کے کہ میں خدا تعالیٰ کے سامنے ایسے رنگ میں پیش ہوں کہ تم مدعی بنو، مَیں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اگر تم میں سے کسی کو مجھ سے کوئی نقصان پہنچا ہو تو وہ اِسی دنیا میں مجھ سے اپنے نقصان کی تلافی کرا لے۔
سوال:جنگِ بدر میں صحابہ ؓکا شعار یا نعرہ کیا تھا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: اس بارے میں آتا ہے کہ حضرت عُروہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ جنگ والے دن مہاجرین کا شعار یَا بَنِیْ عَبْدِالرَّحْمٰن تھا اور قبیلہ خزرج کا شعار یَا بَنِیْ عَبْدِ اللّٰہ تھا اور قبیلہ اوس کا شعار یَا بَنِیْ عُبَیْدِ اللّٰہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھڑسواروں کو خَیْل اللّٰہ کا نام دیا۔
سوال: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ کے متعلق کیا ہدایات تھیں؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ کے متعلق ہدایات جو تھیں ان کی مزید تفصیل اس طرح بیان ہوئی ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوں کو سیدھا کر لیا تو صحابہؓ سے فرمایا جب تک مَیں تمہیں حکم نہ دوں تم حملہ نہ کرنا اور اگر دشمن تم سے قریب آجائے تو ان کو تیر اندازی کر کے پیچھے دھکیلنا کیونکہ فاصلے سے تیر اندازی اکثر اوقات بیکار ثابت ہوتی ہے اور تیر ضائع ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح تلواریں بھی اس وقت تک نہ سونتنا جب تک دشمن بالکل قریب نہ آ جائے۔اسی طرح آپ نے ایک خطبہ میں جہاد کی ترغیب دی اور صبر کی تلقین فرمائی۔ نیز فرمایا مصیبت کے وقت صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ پریشانیاں دُور فرماتا ہے اور غموں سے نجات عطا فرماتا ہے۔
سوال: جنگ کے دوران کن لوگوں کورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کرنے سے روکا ؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ بدر کے دن اپنے اصحابؓسے فرمایا تھا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ بنو ہاشم اور کچھ دوسرے لوگ قریش کے ساتھ مجبوراً آئے ہیں۔ خوشی سے نہیں آئے۔ وہ ہم سے لڑنا نہیں چاہتے۔ پس تم میں سے جو کوئی بنو ہاشم کے کسی آدمی سے ملے تو وہ اس کو قتل نہ کرے اور جو ابوالبختری سے ملے وہ اس کو قتل نہ کرے اور جو عباس بن عبدالمطلب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں ان سے ملے تو وہ ان کو بھی قتل نہ کرے کیونکہ یہ لوگ مجبوراً قریش کے ساتھ آئے ہیں۔
سوال: جنگ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کون سی آیت نازل ہوئی؟
جواب: جنگ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی : اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّيْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ(الانفال: 10) جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اس نے تمہاری التجا کو قبول کر لیا اس وعدے کے ساتھ کہ مَیں ضرور ایک ہزار قطار در قطار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔
سوال: توکّل کسے کہتے ہیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقام پر صحابہؓ کی ایک ترتیب قائم کی۔ ان کو اپنی اپنی جگہوں پر کھڑا کیا۔ انہیں نصیحتیں کیں کہ یوں لڑنا ہے اور اس کے بعد ایک عرشہ پر بیٹھ کر دعائیں کرنے لگ گئے۔ یہ نہیں کیا کہ صحابہؓ کو مدینہ میں چھوڑ جاتے اور آپ اکیلے وہاں بیٹھ کر دعائیں کرنے لگ جاتے۔ بلکہ پہلے آپؐصحابہؓ کو لے کر مقامِ جنگ پر پہنچے پھر ان کو ترتیب دی اور ان کو نصیحتیں فرمائیں۔ اسکے بعدعرشہ پر بیٹھ گئے اور دعائیں کرنی شروع کر دیں۔ یہ توکل ہے جو اختیار کرنا چاہئے۔
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جنگ بدر کے بارے کیا ذکر فرمایا؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن شریف میں بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں پر فتح پانے کا وعدہ دیا گیا تھا مگر جب بدر کی لڑائی شروع ہوئی جو اسلام کی پہلی لڑائی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رونا اور دعا کرنا شروع کیا اور دعا کرتے کرتے یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے اَللّٰھُمَّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ أَبَدًا۔ یعنی اے میرے خدا! اگر آج تُو نے اس جماعت کو (جو صرف تین سو تیرہ آدمی تھے) ہلاک کر دیا تو پھر قیامت تک کوئی تیری بندگی نہیں کرے گا۔ ان الفاظ کو جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے سنا تو عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اس قدر بےقرار کیوں ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے تو آپ کو پختہ وعدہ دے رکھا ہے کہ مَیں فتح دوں گا۔ آپؐنے فرمایا کہ یہ سچ ہے مگر اسکی بے نیازی پر میری نظر ہے یعنی کسی وعدہ کا پورا کرنا خدا تعالیٰ پر حق واجب نہیں ہے۔
…٭…٭…٭…