بخدا! ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گے جو جواب بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو دیا تھا کہ
جا تُو اور تیرا رب دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے بلکہ ہم یوں کہیں گے کہ
آپ اور آپ کا رب تشریف لے جائیے اور جنگ کیجیے ہم بھی آپؐکے ساتھ مل کر جنگ کریں گے
جنگ بدرکےحالات و واقعات اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ؓکی آپ ﷺسےمحبت اور اطاعت کا دلنشین بیان
سوال:جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ قریش کا لشکر تجارتی قافلے کے بچاؤ کیلئے بڑھا چلا آ رہا ہے تو آپؐنے کیا کیا؟
جواب: حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ قریش کا لشکر تجارتی قافلے کے بچاؤ کیلئے بڑھا چلا آ رہا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ طلب کیااور انہیں قریش کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھے اور بڑی خوبصورت گفتگو کی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھے انہوں نے بھی بڑے خوبصورت انداز میں گفتگو کی۔ پھر حضرت مقداد بن عمروؓ اٹھے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تشریف لے چلیے جدھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ بخدا! ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گے جو جواب بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو دیا تھا کہ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُوْنَ (المائدۃ: 25) جا تُو اور تیرا رب دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے بلکہ ہم یوں کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب تشریف لے جائیے اور جنگ کیجیے ہم بھی آپؐکے ساتھ مل کر جنگ کریں گے۔
سوال: برک الغماد کہاں پر واقعہ ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: ایک مصنف نے یہ لکھا ہے کہ برک الغماد مکےکے جنوب میں کم و بیش چار سو تیس کلو میٹر کے فاصلے پر عام شاہراہ سے ہٹ کر دور دراز مقام تھا جو سفر کی دوری اور مشکل کیلئے بطور محاورہ بولا جاتا تھا جیسا کہ اردو میں کوہ قاف کہتے ہیں جو دوری کے مفہوم کو واضح کرتا ہے۔
سوال: جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے ہی لشکر قریش کی اطلاع تھی تو آپ ﷺنے مدینہ میں ہی جنگ کے احتمال کا ذکر کیوں نہ فرما یا؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓفرماتے ہیں : صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حیران ہو کر عرض کیا۔ھَلَّا ذَکَرْتَ لَنَاالْقِتَالَ فَنَسْتَعِدَّ۔ یعنی یا رسول اللہ! اگر آپؐکو پہلے سے لشکر قریش کی اطلاع تھی تو آپؐنے ہم سے مدینہ میں ہی جنگ کے احتمال کا ذکر کیوں نہ فرما دیا کہ ہم کچھ تیاری تو کر کے نکلتے۔ مگر باوجود اس خبر اور اس مشورہ کے اور باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس خدائی بشارت کے کہ ان دو گروہوں میں سے کسی ایک پر مسلمانوں کو ضرور فتح حاصل ہو گی ابھی تک مسلمانوں کو معین طور پر یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ ان کا مقابلہ کس گروہ سے ہو گا اور وہ ان دونوں گروہوں میں سے کسی ایک گروہ کے ساتھ مٹھ بھیڑ ہو جانے کا امکان سمجھتے تھے اوروہ طبعاً کمزور گروہ یعنی قافلہ کے مقابلہ کے زیادہ خواہشمند تھے۔
سوال: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر ؓنے جب عربی بوڑھے سے قریش اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے متعلق دریافت کیا تو اس نے کیا کہا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:بدر کے میدان کے قریب نزول کرنے کے کچھ دیر بعد آپؐاور حضرت ابوبکرؓ سوار ہو کر نکلے یہاں تک کہ ایک عربی بوڑھے کے پاس جا کر رُک گئے اور اس سے قریش اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے ساتھیوں کے متعلق یہ بتائے بغیر دریافت کیا کہ آپ کون ہیں۔ بوڑھا کہنے لگا میں تمہیں تب بتاؤں گا جب تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم کس قبیلے سے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم ہمیں بتاؤ گے تو ہم بھی تمہیں اپنے متعلق آگاہ کر دیں گے، اپنے بارے میں بتا دیں گے۔ وہ کہنے لگا کہ کیا ادلے کا بدلہ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ بوڑھے نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آپ کے صحابہ فلاں فلاں دن روانہ ہو چکے ہیں۔ اگر مجھے بتانے والے نے سچ کہا تھا تو وہ آج فلاں مقام پر ہوں گے۔ اس نے اس جگہ کا نام لیا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تھے۔ پھر کہنے لگا مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ قریش فلاں دن روانہ ہوئے ہیں۔ اگر مجھے بتانے والے نے سچ کہا ہے تو وہ آج فلاں مقام پر ہوں گے۔ اس نے اس جگہ کا نام لیا جہاں قریش پہنچے تھے۔ دونوں باتیں اس نے صحیح بتائی ہیں۔
سوال: عربی بوڑھے نے جب آپ ﷺ اور ابوبکررضی اللہ عنہ سے پوچھا کے آپ کون ہیں تو اس پر رسول اللہ ﷺنے کیا فرمایا؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: عربی بوڑھے شخص نے جب آپؐ اور ابوبکرؓسے پوچھا کے آپ کون ہیں تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم پانی سے ہیں۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے پلٹ آئے۔
سوال: رسول کریمﷺ نے جو عربی بوڑھے کو کہا ہم پانی سے ہیں اس کی مصنفین نے کیا تشریحات کی ہیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: مؤرخین نے یہ سوال اٹھایا کہ بظاہر لگتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسبِ وعدہ درست جواب نہیں دیا۔ اس کا جواب مصنفین دیتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو غلط جواب نہیں دیا۔ ہاں آپ نے اس کو جواب اس ذو معنی انداز میں دیا ہے کہ جھوٹ بھی نہیں اور اس خطرناک جنگی صورتحال میں معین جگہ کا پتہ بھی نہیں دیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا تھا کہ ہم پانی سے ہیں تو اس سے مراد وہ قرآنی ارشاد تھا کہ ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے بنایا ہے۔ یہ ایک سیرت نگار نے لکھا ہے۔ یہ ابوبکر جابر الجزائری ہیں۔ایک کہتے ہیں کہ عرب کا طریق یہ تھا کہ جہاں لوگ رہتے تھے وہاں کا پتہ پانی یعنی چشمہ وغیرہ کا نام لے کر بتایا کرتے تھے کہ ہم فلاں پانی یا فلاں علاقے کے پانی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ علامہ برہان حلبی ہیں انہوں نے یہ لکھا ہے۔ اس میں ایک توجیہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے اسی پانی یعنی چشمے کا ہی بتایا ہو جس کے قریب آپ کا قیام تھا جیسا کہ اس بوڑھے نے بتایا تھا لیکن اشارہ اس رنگ میں فرمایا ہو کہ وہ بوڑھا عراق کی سمت سمجھا ہو اور بدر کا وہ چشمہ اور عراق کی سمت ایک ہی طرف ہو۔ بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے۔
سوال: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ھٰذَا مَکَّۃُ قَدْ اَلْقَتْ اِلَیْکُمْ اَفْلَاذَ کَبِدِھَا کہ مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہارے آگے نکال کر ڈال دیے ہیںاسکے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم .اے نے کیا فرمایا؟
جواب:انور نے فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓنے اس پر نوٹ لکھا ہے کہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:ھٰذَا مَکَّۃُ قَدْ اَلْقَتْ اِلَیْکُمْ اَفْلَاذَ کَبِدِھَا۔ ‘‘یعنی لومکہ نے تمہارے سامنے اپنے جگر گوشے نکال کرڈال دیے ہیں ’’یہ نہایت دانشمندانہ اورحکیمانہ الفاظ تھے جو آپؐکی زبان مبارک سے بے ساختہ طورپر نکلے کیونکہ بجائے اس کے کہ قریش کے اتنے نامور رؤسا ءکاذکر آنے سے کمزور طبیعت مسلمان بے دل ہوتے ان الفاظ نے ان کی قوت متخیلہ کو اس طرف مائل کر دیا ‘‘انہوں نے ان کی سوچ کو اس طرف مائل کر دیا’’کہ گویا ان سردارانِ قریش کو تو خدا نے مسلمانوں کا شکار بننے کے لئے بھیجا ہے۔‘‘
سوال: حضرت ابوبکر ؓکی بہادری اور دلیری کے متعلق حضرت مصلح موعود ؓنے کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضرت مصلح موعودؓفرماتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ صحابہؓ میں سب سے زیادہ بہادر اور دلیر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور پھر انہوں نے کہا کہ جنگ بدر میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ایک علیحدہ چبوترہ بنایا گیا تو اس وقت سوال پیدا ہوا کہ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا کام کس کے سپرد کیا جائے۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فوراً ننگی تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اس انتہائی خطرہ کے موقعہ پر نہایت دلیری کے ساتھ آپؐکی حفاظت کا فرض سرانجام دیا۔
…٭…٭…