اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-16

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ2؍جون 2023 بطرز سوال وجواب

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہی ہے جس نے صحابہؓ کو بے لوث قربانیوں کا جذبہ عطا فرمایا اور یہ جذبہ عطا فرما کر غازیوں اور شہیدوں

اور اللہ تعالیٰ کے پیاروں اور اللہ تعالیٰ کے ان سے راضی رہنے والوں میں شامل فرمایا اور جس کے نمونے ہم نے اپنی زندگیوں میں دیکھے

 

آنحضرتﷺ کی ذات ہماری زندگی کا محور ہے اور اسکے بغیر ہمارا دین، ہمارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی شریعت پر عمل بھی نہیں ہو سکتا

 

سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا صحابہ پر کیا اثر ہوا؟

جواب:حضور انور نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہی ہے جس نے صحابہؓ کو بے لوث قربانیوں کا جذبہ عطا فرمایا اور یہ جذبہ عطا فرما کر غازیوں اور شہیدوں اور اللہ تعالیٰ کے پیاروں اور اللہ تعالیٰ کے ان سے راضی رہنے والوں میں شامل فرمایا اور جس کے نمونے ہم نے اپنی زندگیوں میں دیکھے۔

سوال: جب آنحضرتﷺ مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے چلے آئے تو قریش نےمدینہ کے رئیس عبداللہ بن ابی اور اسکے ساتھیوں کے نام کیا خط لکھا؟

جواب: حضور انور نے فرمایا: جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے چلے آئے تو قریش نے مدینہ کے رئیس عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کے نام ایک دھمکی آمیز خط لکھاکہ تم نے ہمارے ساتھی کو پناہ دی ہے اور ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ضرور تم اس سے جنگ کرو یا اسے جلا وطن کر دو یا ہم سب متحد ہو کر تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمہارے جنگجوؤں کو قتل کر دیں گے اور تمہاری عورتوں کو اپنے ماتحت کر لیں گے۔ جب یہ خط عبداللہ بن ابی اور اس کے بت پرست ساتھیوں کو ملا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کیلئے اکٹھے ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع ملی تو آپؐ ان سے ملے اور فرمایا قریش نے جو دھمکی تمہیں دی ہے وہ تمہارے خیال میں بہت بڑی دھمکی ہے حالانکہ وہ تمہیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے جس قدر تم خود اپنے آپ کو نقصان پہنچا لو گے۔ تم چاہتے ہو کہ اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے جنگ کرو۔ کیونکہ ان میں سے بہت سے مسلمان ہو چکے تھے۔ جب یہود نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ باتیں سنیں تو وہ تو اِدھر اُدھر چلے گئے اور اس کو چھوڑ گئے۔

سوال:جب شروع شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو آپ کا کیا حال تھا؟

جواب: حضور انور نے فرمایا:’’حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب شروع شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو دشمن کے حملہ کے اندیشہ سے آپؐ راتوں کوجاگا کرتے تھے۔

سوال: مدینہ کے اندر کے حالات کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے نے کیا بیان فرمایا؟

جواب: مرزا بشیر احمد صاحب ؓلکھتے ہیں : مدینہ کے اندر یہ حالت تھی کہ ابھی تک ایک معتدبہ حصہ اوس وخزرج کاشرک پرقائم تھا اورگووہ بظاہر اپنے بھائی بندوں کے ساتھ تھے لیکن ان حالات میں ایک مشرک کاکیا اعتماد کیا جا سکتا تھا۔ پھر دوسرے نمبر پر منافقین تھے جو بظاہر اسلام لے آئے تھے مگر درپردہ وہ اسلام کے دشمن تھے اور مدینہ کے اندر ان کا وجود خطرناک احتمالات پیدا کرتا تھا۔ تیسرے درجہ پر یہود تھے جن کے ساتھ گو ایک معاہدہ ہو چکا تھا مگر ان یہود کے نزدیک معاہدہ کی کوئی قیمت نہ تھی۔ غرض اس طرح خود مدینہ کے اندر ایسا مواد موجود تھا جو مسلمانوں کے خلاف ایک مخفی ذخیرۂ بارود سے کم نہ تھا اور قبائل عرب کی ذرا سی چنگاری اس بارود کو آگ لگانے اور مسلمانانِ مدینہ کو بھک سے اڑا دینے کیلئے کافی تھی۔ اس نازک وقت میں جس سے زیادہ نازک وقت اسلام پر کبھی نہیں آیا آنحضرت ﷺ پرخدا کی وحی نازل ہوئی کہ اب تمہیں بھی ان کفار کے مقابلہ میں تلوار استعمال کرنی چاہئے جو تمہارے خلاف تلوار لے کر سراسر ظلم وتعدی سے میدان میں نکلے ہوئے ہیں اورجہاد بالسیف کااعلان ہو گیا۔

سوال:جہاد بالسیف کے متعلق سب سے پہلی آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کب نازل ہوئی؟

جواب: حضور انور نے فرمایا: جہاد بالسیف کے متعلق سب سے پہلی آیت آنحضرت ﷺ پر 12صفر سنہ2ھ مطابق 15؍ اگست سنہ623ء کو نازل ہوئی جبکہ آپؐکو مدینہ میں تشریف لائے قریباً ایک سال کا عرصہ گزرا تھا۔

سوال: رسول کریم ﷺ نے کفار کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لئے کون سی چار تدابیر اختیار کیں؟

جواب: حضور انور نے فرمایا:جہاد فرض ہونے کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کیلئے ابتداءً چار تدابیر اختیار کیں۔ چنانچہ ان تدابیر کا ذکر کرتے ہوئے بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے :اوّل آپؐ نے خود سفر کرکے آس پاس کے قبائل کے ساتھ باہمی امن وامان کے معاہدے کرنے شروع کئے تاکہ مدینہ کے اردگرد کاعلاقہ خطرہ سے محفوظ ہو جائے۔دوم آپؐ نے چھوٹی چھوٹی خبر رساں پارٹیاں مدینہ کے مختلف جہات میں روانہ کرنی شروع فرمائیں تاکہ آپؐ کوقریش اوران کے حلفاءکی حرکات وسکنات کاعلم ہوتا رہے اور قریش کوبھی یہ خیال رہے کہ مسلمان بے خبر نہیں ہیں اوراس طرح مدینہ اچانک حملوں کے خطرات سے محفوظ ہو جائے۔سوم ان پارٹیوں کے بھجوانے میں ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ تااس ذریعہ سے مکہ اوراس کے گردونواح کے کمزوراورغریب مسلمانوں کو مدینہ کے مسلمانوں میں آملنے کاموقع مل جاوے۔ چوتھی تدبیر آپؐ نے یہ اختیار فرمائی کہ آپؐ نے قریش کے ان تجارتی قافلوں کی روک تھام شروع فرما دی جو مکہ سے شام کی طرف آتے جاتے ہوئے مدینہ کے پاس سے گزرتے تھے۔

سوال: ہمارا ایمان اور عمل کب مکمل ہوگا؟

جواب: حضور انور نے فرمایا:آنحضرتﷺ کی ذات ہماری زندگی کا محور ہے اور اس کے بغیر ہمارا دین، ہمارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی شریعت پر عمل بھی نہیں ہو سکتا۔

سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کس طرح کی ہے؟

جواب: حضور انور نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ایسی ہے کہ اس کے بیان کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ایک وصف ایسا ہے کہ جس کا احاطہ کئی خطبات میں بھی نہیں کیا جا سکتا ۔

سوال: جب قریش نے دیکھا کہ اوس وخزرج مسلمانوں کی پناہ سے دستبردار نہیں ہوتے اور اندیشہ ہے کہ اسلام مدینہ میں جڑ نہ پکڑ جاوے تو انہوں نے کیا کیا؟

جواب:حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓسیرت خاتم النبیینؐ میں فرماتے ہیں: جب قریش نے دیکھا کہ اوس وخزرج مسلمانوں کی پناہ سے دستبردار نہیں ہوتے اور اندیشہ ہے کہ اسلام مدینہ میں جڑ نہ پکڑ جاوے تو انہوں نے دوسرے قبائل عرب کا دورہ کر کر کے ان کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا شروع کر دیا اور چونکہ بوجہ خانہ کعبہ کے متولی ہونے کے قریش کا سارے قبائل عرب پر ایک خاص اثر تھا اس لئے قریش کی انگیخت سے کئی قبائل مسلمانوں کے جانی دشمن بن گئے اورمدینہ کایہ حال ہو گیا کہ گویا اس کے چاروں طرف آگ ہی آگ ہے۔

سوال: جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو مدینہ میں انصار نے پناہ دی تو ان دنوں مسلمانوں کا کیا حال تھا؟

جواب: حضور انور نے فرمایا: ایک روایت میں ذکر ملتا ہے کہ حضرت ابی بن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب مدینہ میں تشریف لائے اور انصار نے انہیں پناہ دی تو تمام عرب ایک قوس کی مانند یعنی ایک جان ہو کر ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ چنانچہ ان دنوں مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ وہ راتوں کو بھی ہتھیار لگاکرسوتے تھے اور دن کو بھی ہتھیار لگائے پھرتے تھے اوروہ ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ دیکھیے ہم اس وقت تک بچتے بھی ہیں یا نہیں کہ ہمیں امن کی راتیں گزارنے کا موقع ملے گا اور اللہ کے سوا کسی کاڈر نہ رہے گا۔

…٭…٭…٭…