اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-02

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ12؍مئی2023بطرز سوال وجواب

دنیا میں، تمام ممالک میں شوریٰ اس لیے منعقد کی جاتی ہے کہ

جہاں ہم اپنی عملی حالتوں کو درست کرنے کیلئے منصوبہ بندی کریں وہاں خدائے واحد کا پیغام پہنچانے کیلئے

اور دنیا کو امت واحدہ بنانے کیلئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے لانے کیلئے ایسی منصوبہ بندی کریں جو ایک انقلاب پیدا کرنے والی ہو


سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے شروع میں کون سی آیت کی تلاوت فرمائی؟
جواب: حضور انور نے خطبہ کے شروع میں سورہ آل عمران کی 160 آیت کی تلاوت فرمائی فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ۝۰ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۝۰۠ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۝۰ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ ترجمہ: پس اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تُو ان کیلئے نرم ہو گیا۔ اور اگر تُو تُندخُو (اور) سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گِرد سے دُور بھاگ جاتے۔ پس ان سے درگزر کر اور ان کیلئے بخشش کی دعا کر اور (ہر) اہم معاملہ میں ان سے مشورہ کر۔ پس جب تُو (کوئی) فیصلہ کر لے تو پھر اللہ ہی پر توکّل کر۔یقیناً اللہ توکّل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔

 

سوال: تمام ممالک میں شوریٰ کس لئے منعقد کی جاتی ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:دنیا میں، تمام ممالک میں شوریٰ اس لیے منعقد کی جاتی ہے کہ جہاں ہم اپنی عملی حالتوں کو درست کرنے کیلئے منصوبہ بندی کریں وہاں خدائے واحد کا پیغام پہنچانے کیلئے اور دنیا کو امت واحدہ بنانے کیلئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے لانے کیلئے ایسی منصوبہ بندی کریں جو ایک انقلاب پیدا کرنے والی ہو۔

 

سوال: آنحضرت ﷺکا مشورہ لینے کا کیا طریق تھا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو اپنے اصحاب سے مشورہ لینے والا نہیں پایا۔

 

سوال: خلیفۂ وقت کا مشورہ لینے کا کیا طریق ہے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:خلیفۂ وقت بھی اللہ تعالیٰ کے حکم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق دنیا میں پھیلی ہوئی جماعتوں سے وہاں کے حالات کے مطابق مشورے لیتا ہے۔

 

سوال:مشورہ دینے والوں کو کیا بات ہمیشہ مد نظر رکھنی چاہئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:مشورہ دینے والوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے مشورے نیک نیتی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کے مطابق ہونے چاہئیں۔ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ مجلس شوریٰ خلافت کا مددگار ادارہ ہے اور اس لحاظ سے جماعت میں خلافت کے بعد اس کی بہت اہمیت ہے ۔

 

سوال: جماعت میں کب انقلابی تبدیلی پیدا ہوگی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:اپنے عملی نمونے، لوگوں سے پیار محبت کا تعلق، ان کا درد دل میں رکھنا، ان کیلئے بھی اور اپنے لیے بھی دعا کرنا، خلیفۂ وقت کی اطاعت کے معیار کو بلند کرنا ہر عہدیدار اور ہر ممبر شوریٰ کا خاص امتیاز ہو گا تو تبھی ایک انقلابی تبدیلی مجموعی طور پر ہم جماعت میں پیدا ہوتی دیکھیں گے۔

 

سوال: رسول کریم ﷺ کا بعض معملات میں مشورہ لینا ہمیں کیا بتاتا ہے؟
جواب: حضور انور نےفرمایا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض معاملات میں مشورہ لینا حقیقت میں ہمیں صحیح راستے پر چلانے اور باہمی تعاون اور مشورےسے کام کرنے کی طرف راہنمائی کیلئے ہے اور امّت میں وحدت پیدا کرنے کیلئے ہے۔ حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ جب شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ کی آیت نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرچہ اللہ اور اس کا رسول اس سے مستغنی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے میری امّت کیلئے رحمت کا باعث بنایا ہے۔ پس ان میں سے جو مشورہ کرے گا وہ رشد و ہدایت سے محروم نہیں رہے گا اور جو مشورہ نہیں کرے گا وہ ذلت سے نہ بچ سکے گا۔

 

سوال:رسول کریم ﷺ کے زمانے میں مشورے لینے کیلئے کون سے تین طریق تھے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:عموماً مشورہ لینے کیلئے تین طریق ہمیں نظر آتے ہیں۔ ایک یہ طریق تھا کہ جب مشورے کے قابل کوئی معاملہ ہوتا تو ایک شخص اعلان کرتا کہ لوگ جمع ہو جائیں اور لوگ جمع ہو جاتے اور پھر جو رائے ہوتی، جو مشورہ ہوتا اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفاء فیصلہ کر دیتے کہ ان مشوروں کے بعد ہمارا یہ فیصلہ ہے، اس طرح اس پر عمل ہو گا۔دوسرا طریق یہ تھا کہ جن لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مشورے کا اہل سمجھتے انہیں بلا لیتے اور عمومی طور پر سب کو نہ بلایا جاتا اور پھر ان چند لوگوں کی مجلس سے مشورہ لیا جاتا۔ تیسرا طریق یہ تھا کہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے کہ دو آدمی بھی اکٹھے جمع نہیں ہونے چاہئیں وہاں آپؐ علیحدہ علیحدہ بلا کر مشورہ لیتے۔ پہلے ایک کو بلا کر مشورہ لیتے پھر دوسرے کو بلا کر مشورہ لیا جاتا۔

 

سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کن معاملات میں صحابہ کرام سے مشورے لیا کرتے تھے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو بہت سے معاملات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست راہنمائی ملتی تھی لیکن خاص طور پر ان معاملات میں آپؐضرور صحابہ کرام سے مشورہ طلب فرماتے تھے جہاں اللہ تعالیٰ کا کوئی واضح حکم نہ ہوتا تھا۔
سوال: ہمارے چندوں کی آمد کی کیسے رنگ میں منصوبہ بندی ہونی چاہئے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ہمارے چندوں کی آمد کی ایسے احسن رنگ میں منصوبہ بندی ہونی چاہئے جس سے ہم کم سے کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ اشاعت دین اور تبلیغ کے کام کو سرانجام دے سکیں ۔

 

سوال: شوریٰ کے ممبران کس بات کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: شوریٰ کے ممبران کو یہ ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ ہر احمدی کا خلافت سے وفا اور اطاعت کا عہد ہے تو اس کیلئے سب سے اعلیٰ نمونہ عہدیداران اور شوریٰ کے ممبران کو دکھانا چاہئے کیونکہ آپ اس ادارے کے ممبر بنائے گئے ہیں جو نظامِ خلافت اور نظامِ جماعت کا مددگار ادارہ ہے۔ مشورہ دینے والوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے مشورے نیک نیتی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کے مطابق ہونے چاہئیں۔

 

سوال: صحابہ کرام کس طرح مشورہ دیا کرتے تھے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:صحابہؓ کا نمونہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مشورہ دیتے تھے تو پھر اپنی صلاحیتوں اور تجربے کے مطابق تقویٰ پر چلتے ہوئے مشورہ دیا کرتے تھے۔

 

سوال: کن لوگوں سے مشورہ کرنا چاہئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت تو یہاں تک وضاحت کرتی ہے، آپؓ نے فرمایا کہ شَاوِرُوْا الْفُقَہَاءَ وَالْعَابِدِیْن یعنی سمجھدار اور عبادت گزار لوگوں سے مشورہ کرو ہر ایک سے نہیں۔ پس یہ معیار ہے نمائندگان کا۔

 

سوال: لوگوں نے نمائندگان کو کس لئے چنا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: نمائندگان کو لوگوں نے اس لیے چنا ہے کہ وہ نمائندگی کا اور امانت کا حق ادا کریں۔

 

سوال: اگر تقویٰ سے کام لیتے ہوئے ہر نمائندہ اور ہر عہدیدار شوریٰ کی منظور شدہ تجاویز پر عمل کرنے اور کروانے کی کوشش کرے تو اس کے نتیجہ میں کیا ہوگا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:اگر تقویٰ سے کام لیتے ہوئے ہر نمائندہ اور ہر عہدیدار شوریٰ کی منظور شدہ تجاویز پر عمل کرنے اور کروانے کی کوشش کرے تو پھر کبھی یہ صورت پیدا نہ ہو کہ وہ تجویز دوبارہ اگلے سال یا دو تین سال بعد پیش ہونے کیلئے آ جائے۔

 

سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقویٰ پر چلنے کی نصیحت کرتے ہوئے احباب کو کیا فرماتے ہیں؟
جواب: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تقویٰ پر چلنے کی نصیحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّیُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ ۔وَیَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ یعنی اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کیلئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا۔ وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قویٰ اور حواس میں آ جائے گا۔ تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا اور تمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہو گا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہو گا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی۔ غرض جتنی تمہاری راہیں تمہارے قویٰ کی راہیں تمہارے حواسکی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے۔‘‘

…٭…٭…٭…