اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-26

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ5؍مئی 2023 بطرز سوال وجواب

حقیقی مومن کی یہی نشانی ہے کہ اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر اور نصائح پر عمل کرے


ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی بھی اصلاح کریں اور دنیا کی اصلاح کی بھی کوشش کریں


سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ا لعزیزنے خطبہ کے شروع میں کون سی آیت کی تلاوت فرمائی؟
جواب: حضور انور نے خطبہ کے شروع میں سورہ النحل کی آیت نمبر 91 کی تلاوت فرمائی اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ۝۰ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(النحل: 91) اللہ یقیناً عدل کا اور احسان کا اور غیر رشتہ داروں کو بھی قرابت والے شخص کی طرح جاننے اور اسی طرح مدددینے کا حکم دیتا ہے اور ہرقسم کی بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے روکتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم سمجھ جاؤ۔

سوال: ہماری خلق اللہ سے کیسی نیکی ہونی چاہئے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:تمہاری خلق اللہ سے ایسی نیکی ہو کہ اس میں تصنع اور بناوٹ ہر گز نہ ہو۔

سوال:حقیقی مومن کی کیا نشانی ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حقیقی مومن کی یہی نشانی ہے کہ اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر اور نصائح پر عمل کرے ۔

سوال: ہم نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے تو ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی بھی اصلاح کریں اور دنیا کی اصلاح کی بھی کوشش کریں۔

سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید کی تعلیمات کے متعلق کیا فرمایا؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :ایسی پاک تعلیم نہ ہم نے توریت میں دیکھی ہے اور نہ انجیل میں، ورق ورق کرکے ہم نے پڑھا ہے مگر ایسی پاک اور مکمل تعلیم کانام و نشان نہیں۔

سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خلق اللہ اور خلق العباد کی ادائیگی کے متعلق کیا فرمایا؟
جواب: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا کا تمہیں یہ حکم ہے کہ تم اس سے اور اس کی خلقت سے عدل کا معاملہ کرو۔ یعنی حق اللہ اور حق العباد بجا لاؤ اور اگر اس سے بڑھ کر ہو سکے تو نہ صرف عدل بلکہ احسان کرو یعنی فرائض سے زیادہ اور ایسے اخلاص سے خدا کی بندگی کرو کہ گویا تم اس کو دیکھتے ہو۔اور حقوق سے زیادہ لوگوں کے ساتھ مروّت و سلوک کرو اور اگر اس سے بڑھ کر ہو سکے تو ایسے بے علت و بے غرض خدا کی عبادت اور خلق اللہ کی خدمت بجا لاؤکہ جیسے کوئی قرابت کے جوش سے کرتا ہے۔

سوال: حقوق اللہ کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مزید کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: حق اللہ کے پہلو کی رو سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ انصاف کی پابندی سے خدا تعالیٰ کی اطاعت کر کیونکہ جس نے تجھے پیدا کیا اور تیری پرورش کی اور ہر وقت کر رہا ہے اس کا حق ہے کہ تو بھی اس کی اطاعت کرے۔اور اگر اس سے زیادہ تجھے بصیرت ہوتو نہ صرف رعایت ِحق سے بلکہ احسان کی پابندی سے اسکی اطاعت کرکیونکہ وہ محسن ہے اور اسکے احسان اس قدر ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتےاور ظاہر ہے کہ عدل کے درجہ سے بڑھ کر وہ درجہ ہے جس میں اطاعت کے وقت احسان بھی ملحوظ رہے اور چونکہ ہر وقت مطالعہ اور ملاحظہ احسان کا محسن کی شکل اور شمائل کو ہمیشہ نظر کے سامنے لے آتا ہے اس لئے احسان کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ ایسے طور سے عبادت کرے کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔

سوال: اللہ تعالیٰ سے عدل کیا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: اطاعت کا تعلق اللہ تعالیٰ سے رکھنا ہے اور اطاعت کا تعلق اس لیے رکھنا ہے کہ وہ ہمارا خالق ہے، وہ قائم ہے اور قائم رکھنے والا ہے۔ ر بوبیت اسکے ہاتھ میں ہے۔ وہ رب ہے، وہ پالنے والا ہے، ہماری ہر ایک ضرورت کو پورا کرنے والا ہے۔ اس لیے یہ حق اسی کا ہے کہ اس پر توکل کیا جائے، اس سے محبت کی جائے۔

سوال: بندوں کے حقوق کس طرح ادا کرنے چاہئے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: تم اپنے خالق کے ساتھ اس کی اطاعت میں عدل کا طریق مرعی رکھو ظالم نہ بنو۔پس جیساکہ درحقیقت بجز اس کے کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں۔ کوئی بھی محبت کے لائق نہیں۔ کوئی بھی توکل کے لائق نہیں کیونکہ بوجہ خالقیت اور قیومیت وربوبیت خاصہ کے ہر یک حق اسی کا ہے۔اِسی طرح تم بھی اسکے ساتھ کسی کو اسکی پرستش میں اوراسکی محبت میں اور اسکی ربوبیت میں شریک مت کرو۔ اگر تم نے اِس قدرکر لیاتو یہ عدل ہے جس کی رعایت تم پر فرض تھی۔پھر اگر اس پر ترقی کرنا چاہوتو احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اسکی عظمتوں کے ایسے قائل ہوجاؤ اور اسکے آگے اپنی پرستشوں میں ایسے متادّب بن جاؤ اور اسکی محبت میں ایسے کھوئے جاؤ کہ گویا تم نے اس کی عظمت اور جلال اوراسکے حسن لازوال کودیکھ لیا ہے۔بعد اسکے اِيْتَائِ ذِي الْقُرْبٰىا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہاری پرستش اور تمہاری محبت اور تمہاری فرمانبرداری سے بالکل تکلف اور تصنع دور ہو جائےاور تم اس کو ایسے جگری تعلق سے یاد کرو کہ جیسے مثلاً تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو اور تمہاری محبت اس سے ایسی ہوجائے کہ جیسے مثلاً بچہ اپنی پیاری ماں سے محبت رکھتا ہے۔

سوال: ہمیں اپنی نیکیاں کس طرح بجا لانی چاہئے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:اگر کوئی تمہارے ساتھ برا کرتا ہے تو اس سے نیکی کرو یہ احسان ہے۔ اور اسکی آزار کی عوض میں تُو اس کو راحت پہنچاوے۔ اور مروّت اور احسان کے طور پر دستگیری کرے۔ پھر بعد اسکے اِيْتَائِ ذِي الْقُرْبٰىکا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو جس قدر اپنے بھائی سے نیکی کرے یاجس قدر بنی نوع کی خیر خواہی بجا لاوے اس سے کوئی اَور کسی قسم کا احسان منظور نہ ہو۔

سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اطاعت کرنے والوں کی کتنی اقسام بیان فرمائی ہیں؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے درحقیقت تین قسم پر منقسم ہیں۔ اوّل وہ لوگ جو بباعث محجوبیت اور رویت اسباب کے احسان الٰہی کا اچھی طرح ملاحظہ نہیں کرتے۔اور نہ وہ جوش ان میں پیدا ہوتا ہےجو احسان کی عظمتوں پر نظر ڈال کر پیدا ہوا کرتا ہے اور نہ وہ محبت ان میں حرکت کرتی ہے جو محسن کی عنایات عظیمہ کا تصور کر کے جنبش میں آیا کرتی ہے۔بلکہ صرف ایک اجمالی نظر سے خدا تعالیٰ کے حقوق خالقیت وغیرہ کو تسلیم کرلیتے ہیںاور احسانِ الٰہی کی ان تفصیلات کو جن پر ایک باریک نظر ڈالنا اس حقیقی محسن کو نظر کے سامنے لے آتا ہے ہرگز مشاہدہ نہیں کرتے…ایک اور مرتبہ انسان کی معرفت کا ہے اور وہ یہ ہے کہ …انسان کی نظر رویت اسباب سے بالکل پاک اور منزہ ہوکر خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ہاتھ کو دیکھ لیتی ہےاور اس مرتبہ پر انسان اسباب کے حجابوں سے بالکل باہر آجاتا ہے اور یہ مقولہ کہ مثلاً میری اپنی ہی آبپاشی سے میری کھیتی ہوئی اور یا میرے اپنے ہی بازو سے یہ کامیابی مجھے ہوئی یا زید کی مہربانی سے فلاں مطلب میرا پورا ہوا اور بکر کی خبر گیری سے میں تباہی سے بچ گیا یہ تمام باتیں ہیچ اور باطل معلوم ہونے لگتی ہیںاور ایک ہی ہستی اور ایک ہی قدرت اور ایک ہی محسن اور ایک ہی ہاتھ نظر آتا ہے۔ تب انسان ایک صاف نظر سے جس کے ساتھ ایک ذرہ شرک فی الاسباب کی گردو غبار نہیں خدا تعالیٰ کے احسانوں کو دیکھتا ہے… اس درجہ کے بعد ایک اَور درجہ ہے جس کا نام اِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰى ہے اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب انسان ایک مدت تک احساناتِ الٰہی کو بلا شرکتِ اسباب دیکھتا رہے۔

سوال: خدا ہم سے کیا چاہتا ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا ہم سے کیا چاہتا ہےبس یہی کہ تم تمام نوع انسان سے عدل کے ساتھ پیش آیا کرو۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان سے بھی نیکی کرو جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں کیونکہ احسان میں ایک خودنمائی کا مادہ بھی مخفی ہوتا ہے اور احسان کرنے والا کبھی اپنے احسان کو جتلا بھی دیتا ہے لیکن وہ جو ماں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرتا ہے وہ کبھی خود نمائی نہیں کر سکتا۔ پس آخری درجہ نیکیوں کا طبعی جوش ہے جو ماں کی طرح ہو اور یہ آیت نہ صرف مخلوق کے متعلق ہے بلکہ خدا کے متعلق بھی ہے۔ خدا سے عدل یہ ہے کہ اسکی نعمتوں کو یاد کر کے اسکی فرمانبرداری کرنا اور خدا سے احسان یہ ہے کہ اسکی ذات پر ایسا یقین کر لینا کہ گویا اسکو دیکھ رہا ہے اور خدا سے اِيْتَائِ ذِي الْقُرْبٰىیہ ہے کہ اسکی عبادت نہ تو بہشت کے طمع سے ہو اور نہ دوزخ کے خوف سے۔ بلکہ اگر فرض کیا جائے کہ نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے تب بھی جوش محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے۔

…٭…٭…٭…