اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-26

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ28؍اپریل2023بطرز سوال وجواب

 

مستقل مزاجی سے اپنے اندرونے کی صفائی کرنا اصل صبر ہے اور جو ایسے لوگ ہوں پھر اللہ تعالیٰ ان کی مدد کیلئے ایسی جگہوں سے آتا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا


سچی توبہ تو اس بیج کی طرح ہے جو عمدہ زمین میں بویا گیا ہے اور اپنے وقت پر پھل لاتا ہے


سوال: جماعت کی ترقی کب ممکن ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:صبر انبیاء کی جماعتوں کے اہم ترین اور اوّلین فرائض میں سے ہے جس کے بغیر کوئی جماعت ترقی نہیں کر سکتی اور نہ دنیا کو اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کر سکتی ہے۔


سوال: اصل صبر کس کوکہتے ہیں ؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:مستقل مزاجی سے اپنے اندرونے کی صفائی کرنا اصل صبر ہے اور جو ایسے لوگ ہوں پھر اللہ تعالیٰ ان کی مدد کیلئے ایسی جگہوں سے آتا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔


سوال: کیسا صبر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچنے والا ہوتا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ صبر کسی کمزوری کی وجہ سے نہ ہو ،کسی دنیاوی خوف کی وجہ سے نہ ہو بلکہ صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے ہو تو پھر ہی وہ حقیقی صبر ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچتا ہے۔


سوال: حضرت مصلح موعود ؓ نے صبر کے متعلق کیا فرمایا؟
جواب:حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صبر کو ایک انتہائی اہم چیز قرار دیا اور فرمایا کہ یہ انبیاء کی جماعتوں کے اہم ترین اور اوّلین فرائض میں سے ہے جس کے بغیر کوئی جماعت ترقی نہیں کر سکتی اورنہ دنیا کو اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کر سکتی ۔صبر دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک صبر یہ ہے کہ انسان کو کسی ردّعمل کی طاقت ہو اور پھر وہ صبر دکھائے اور دوسرے اس وقت کا صبر ہے جب اس کو مقابلے کی طاقت ہی نہ ہو۔ وہ صبر ہے مجبوری کا صبر۔


سوال: نیز حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے صبر کے متعلق کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صبر کے ضمن میں ایک یہ وضاحت بھی فرمائی کہ یہ یاد رکھو کہ تمہارے عمل سے صبر اور بےغیرتی میں فرق واضح نظر آنا چاہیے۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنی ضرورت کیلئے کسی شخص سے رقم مانگنے جائے اور دوسرا شخص اُسے برا بھلا کہے اور بے حیا کہے اور بے شرم کہے، بہت بے عزتی کرے اور مانگنے والا ہنس کر اس کی بات کو ٹال دے اور خیال کرے کہ اس وقت میں ضرورت مند ہوں اس لیے مجھے اس کی گالیاں بھی سن لینی چاہئیں تو یہ بے حیائی اور بے غیرتی ہے لیکن کبھی قومی اور مذہبی اغراض کیلئے صبر کرنا پڑتا ہے، خاموش بھی رہنا پڑتا ہے اور یہ صبر نفسانی اغراض کیلئے نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ حقیقی صبر ہے اور بےغیرتی نہیں ہے مثلاً کسی ایسی جگہ پر جہاں اس کے بدلہ لینے کی وجہ سے اس کی قوم پر کوئی مصیبت آتی ہے وہاں اگر وہ حملہ کرتا ہے اور صبر نہیں کرتا تو اسے بیوقوف کہیں گے کیونکہ اس طرح وہ اپنی قوم کو نقصان پہنچاتا ہے۔ پس جب وہ اپنی قوم کے نفع کیلئے بدلہ نہیں لیتا یا دنیا کو نقصان سے محفوظ رکھنے کیلئے صبر کرتا ہے تو اس کا یہ صبر،صبر کہلائے گا۔


سوال: صبر کے کتنے معنی ہیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:صبر کے تین معنی ہیں۔نمبر ایک یہ کہ گناہ سے بچنا اور اپنے نفس کو اس سے روکنا۔ دوسر ایہ کہ نیک اعمال پر استقلال سے قائم رہنا اور تیسرے معنی یہ ہیں کہ جزع فزع سے بچنا۔ یہی معنی عموماً اردو میں لیے جاتے ہیں۔


سوال: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صبر کے متعلق کیا بیان فرمایا ہے؟
جواب: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ وَ اِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِيْنَ اور صبر اور دعا کے ذریعہ سے اللہ سے مدد مانگو اور بےشک فروتنی اختیار کرنے والوں کے سوا دوسروں کیلئے یہ امر مشکل ہے۔ جو اللہ کا خوف رکھنے والے ہوں، عاجزی دکھانے والے ہوں وہی ایسے صبر کا مظاہرہ کر سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے والا ہو۔


سوال: اگر کوئی مخالفت میں ذاتی مفاد اور دل کے کینوں اور بغضوں کی وجہ سے بڑھا ہوا ہے تو اس کے ساتھ کیا ہوگا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:اگر کوئی مخالفت میں ذاتی مفاد اور دل کے کینوں اور بغضوں کی وجہ سے بڑھا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ خود اس سے انتقام لے گا بشرطیکہ ہم صبر کے ساتھ دعا سے بھی کام لیں۔


سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام صبر کے متعلق کیا بیان فرماتے ہیں؟
جواب:جماعت کو صبر کی تلقین فرماتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:صبر بڑا جوہر ہے۔ جو شخص صبر کرنے والا ہوتا ہے اور غصے سے بھر کر نہیں بولتا اس کی تقریر اپنی نہیں ہوتی بلکہ خداتعالیٰ اس سے تقریر کراتا ہے۔ جماعت کو چاہئے کہ صبر سے کام لے اور مخالفین کی سختی پر سختی نہ کرے اور گالیوں کے عوض میں گالی نہ دے۔ جو شخص ہمارا مکذب ہے اس پر لازم نہیں کہ وہ ادب کے ساتھ بولے۔


سوال: جماعت کی حالت کا نقشہ کھینچے اور نئے آنے والوں کی مشکلات اور اس پر صبر کی تلقین کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا فرمایا؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :ہماری جماعت کیلئے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے۔ چنانچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو معاً دوست رشتہ دار اور برادری الگ ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بھائی بہن بھی دشمن ہو جاتے ہیں۔ السلام علیکم تک کے روادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنا نہیں چاہتے۔ اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ تم انبیاء و رسل سے زیادہ نہیں ہو۔ ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئیں اور یہ اسی لیے آتی ہیں کہ خد تعالیٰ پر ایمان قوی ہواور پاک تبدیلی کا موقعہ ملے۔ دعاؤں میں لگے رہو۔


سوال: ہمارا دنیا میں غالب آنے والا ہتھیار کیا ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت، خدا تعالیٰ کی عظمت کو مدنظررکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں۔نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے جب نماز پڑھوتو اس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو۔ اور ہرایک بدی سے خواہ وہ حقوق الٰہی کے متعلق ہو خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو بچو۔


سوال: سچی توبہ کس طرح کی ہوتی ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: سچی توبہ ہے اس بیج کی طرح ہے جو عمدہ زمین میں بویا گیا ہے اور اپنے وقت پر پھل لاتا ہے۔


سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صبر و استقلال کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کیا بیان فرماتے ہیں؟
جواب:حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور گاڑی میں بیٹھے جا رہے تھے کہ شہر کے بدمعاش آپؑپر پتھر پھینکتے جاتے تھے جو آپؑکی گاڑی پر آ کر لگتے تھے۔ گھوڑا گاڑی تھی، بند تھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماتھے پر بل تک نہ پڑتا تھا جو کچھ یہ کررہے تھے۔ کھڑکی توڑ کےبعض پتھر اندربھی آ جاتے تھے اور جو صبر تھا آپؑکا، اسی کا اثر تھا کہ انہی لوگوں میں سے سینکڑوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آ کر داخل ہو جاتے تھے۔ پس یہ اخلاق ہمیں آج بھی دکھانے ہوں گے۔


سوال: حضور انور نے خطبہ کے آخر میں جماعت کو کیا نصیحت فرمائی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حکمت سے ہم نے اپنے کام کو بھی جاری رکھنا ہے۔ بہت سے کام حکمت سے ہوسکتے ہیں۔ اس لیے حکمت اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہر احمدی اپنی اس ذمہ داری کو سمجھ لے تو بہت سے مسائل کا حل ہمارے رویّوں اور دعاؤں سے نکل سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صبر عطا فرمائے اور دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا کے حصول کیلئے ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

…٭…٭…٭…