اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-19

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ14؍اپریل2023بطرز سوال وجواب

قیامت کے دن میری شفاعت کے اعتبار سے لوگوں میں سے سب سے زیادہ خوش بخت وہ ہو گا
جس نے اپنے خالص دل یا اپنے خالص نفس کے ساتھ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار کیا ہو گا (الحدیث)


لیلۃ القدر تو حقیقت میں اس وقت ملتی ہے جب ہم اپنا سب کچھ اپنا ہر قول اور فعل اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق کرنے کیلئے تیار ہو جائیں
اورا س پر عمل کرنے والے ہوںاور پھر اسے مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں اور یہی وہ حقیقی نشانی ہے جو لیلۃ القدر کے پانے کی ہے (حضرت مسیح موعودؑ)


سوال: انسان کی ترقی کب ہوگی؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:یاد رکھو جب تک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ دل و جگر میں سرایت نہ کرے اور وجود کے ذرے ذرے پر اسلام کی روشنی اور حکومت نہ ہو کبھی ترقی نہ ہو گی۔

سوال: قیامت کے دن رسول کریمﷺ کی شفاعت کے اعتبار سے لوگوں میں سے سب سے زیادہ خوش بخت کون ہوگا؟
جواب: رسول کریم ﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن میری شفاعت کے اعتبار سے لوگوں میں سے سب سے زیادہ خوش بخت شخص وہ ہو گا جس نے اپنے خالص دل یا اپنے خالص نفس کے ساتھ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار کیا ہو گا ۔

سوال: کلمہ کے کیا معنی ہیں؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:کلمہ کے یہ معنی ہیں کہ انسان زبان سے اقرار کرتا ہے اور دل سے تصدیق کہ میرا معبود، محبوب اور مقصود خدا تعالیٰ کے سوا اَور کوئی نہیں۔

سوال:جو شخص اپنے بھائی کا حق مارتا ہے یا خیانت کرتا ہے یا دوسری قسم کی بدیوں سے باز نہیں آتا اسکے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا فرمایا؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:جو شخص اپنے بھائی کا حق مارتا ہے یا خیانت کرتاہے یا دوسری قسم کی بدیوں سے باز نہیں آتا، میں یقین نہیں کرتا کہ وہ توحید کا ماننے والا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ اس کو پاتے ہی انسان میں ایک خارق عادت تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔

سوال: انسان کے اندر تبدیلی کب پیدا ہوتی ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:تبدیلی اسی وقت ہوتی ہے اور اسی وقت وہ سچا موحد بنتا ہے جب یہ اندرونی بت تکبر، خود پسندی، ریا کاری، کینہ، عداوت، حسدو بخل، نفاق و بد عہدی وغیرہ کے دُور ہو جاویں، جب تک یہ بت اندر ہی ہیں اس وقت تک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنے میں کیونکر سچا ٹھہر سکتاہے۔

سوال:لیلۃ القدر کب حاصل ہوتی ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:لیلۃ القدر تو حقیقت میں اس وقت ملتی ہے جب ہم اپنا سب کچھ اپنا ہر قول اور فعل اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق کرنے کیلئے تیار ہو جائیں اورا س پر عمل کرنے والے ہوںاور پھر اسے مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں اور یہی وہ حقیقی نشانی ہے جو لیلۃ القدر کے پانے کی ہے… اصل نشانی یہ ہے کہ کیا انقلاب ہمارے دلوں میں پیدا ہوا

سوال: اللہ تعالیٰ نے کس شخص پر آگ حرام کر دی ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو آگ پر حرام کر دیا جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھا۔

سوال:اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کب اپنے فضلوں کا وارث بناتا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے اس کی توجہ چاہتے ہوئے، اسکی طرف جھکتے ہوئے، اپنی توجہ کو خالص اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہوئے انسان لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنتا ہے۔ اور جیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ آگ کو اللہ تعالیٰ نے اس پر حرام کر دیا۔

سوال: جتنے بھی انبیاء کرام دنیا میں مبعوث ہوئے انکا کیا مقصد رہاہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے اس وقت تک کہ نابود ہوجائے خدا کا قانونِ قدرت یہی ہے کہ وہ توحید کی ہمیشہ حمایت کرتا ہے۔ جتنے نبی اس نے بھیجے سب اسی لئے آئے تھے کہ تا انسانوں اور دوسری مخلوقوں کی پرستش دور کر کے خدا کی پرستش دنیا میں قائم کریں اور ان کی خدمت یہی تھی کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا مضمون زمین پر چمکے جیساکہ وہ آسمان پر چمکتا ہے۔ سو ان سب میں سے بڑا وہ ہے جس نے اس مضمون کو بہت چمکایا۔ جس نے پہلے باطل الہٰوں کی کمزوری ثابت کی۔

سوال: ایک مخالف کے اعتراض پر کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کہنے سے گناہ دُور ہو جاتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا فرمایا؟
جواب:ایک مخالف کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’آپ کا یہ کہنا کہ حضرت مقدس نبوی کی تعلیم یہ ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کہنے سے گناہ دُور ہو جاتے ہیں۔ یہ بالکل سچ ہے اور یہی واقعی حقیقت ہےکہ جو محض خدا کو واحد لا شریک جانتا ہے اور ایمان لاتا ہے کہ محمد مصطفیٰ ﷺ کو اسی قادر یکتا نے بھیجا ہے تو بے شک اگر اس کلمہ پر اس کا خاتمہ ہو تو نجات پا جائے گا آسمانوں کے نیچے کسی کی خودکشی سے نجات نہیں ہرگز نہیں۔اور اس سے زیادہ کون اس سے زیادہ کون پاگل ہوگا کہ ایسا خیال بھی کرے۔مگر خدا کو واحد لا شریک سمجھنا اور ایسا مہربان خیال کرنا کہ اس نے نہایت رحم کرکے دنیا کو ضلالت سے چھڑانے کیلئے اپنا رسول بھیجا جسکا نام محمد مصطفیٰﷺ ہے یہ ایک ایسا اعتقاد ہے کہ اس پر یقین کرنے سے روح کی تاریکی دُور ہوتی ہے اور نفسانیت دُور ہوکر اسکی جگہ توحید لے لیتی ہے۔ آخر توحید کا زبردست جوش تمام دل پر محیط ہوکر اسی جہان میں بہشتی زندگی شروع ہوجاتی ہے۔

سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی کیا وضاحت کرتے ہیں؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام دیئے ہیں۔ بعض ان میں سے ایسے ہیں کہ ان کی بجاآوری ہر ایک کو میسر نہیں ہے۔ مثلاً حج۔ یہ اس آدمی پر فرض ہے جسے استطاعت ہو۔پھر راستہ میں امن ہو۔پیچھے جو متعلقین ہیں ان کے گزارہ کا بھی معقول انتظام ہواور اسی قسم کی ضروری شرائط پوری ہوں تو حج کر سکتا ہے۔ ایسا ہی زکوٰۃ ہے۔ یہ وہی دے سکتا ہے جو صاحبِ نصاب ہو۔ایسا ہی نماز میں بھی تغیرات ہو جاتے ہیں۔لیکن ایک بات ہے جس میں کوئی تغیر نہیں اور وہ ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔

سوال: کس طرح ہمیں کلمہ طیبہ پر عمل کرنا چاہئے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :میں کئی بار ظاہر کر چکا ہوں کہ تمہیں صرف اتنے پر خوش نہیں ہونا چاہئے کہ ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے قائل ہیں۔ جو لوگ قرآن پڑھتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صرف زبانی قِیْل و قَال سے کبھی راضی نہیں ہوتا اور نہ نری زبانی باتوں سے کوئی خوبی انسان کے اندر پیدا ہوسکتی ہے جب تک عملی حالت درست نہ ہو۔جب تک عملی حالت درست نہ ہو کچھ بھی نہیں بنتا۔ یہودیوں پر بھی ایک زمانہ ایسا آیا تھا کہ ان میں نری زبان درازی ہی رہ اور انہوں نے صرف زبانوں کی باتوں پر ہی کفایت کر لی تھی۔ زبان سے تو وہ بہت کچھ کہتے تھے مگر دل میں طرح طرح کے گندے خیالات اور زہریلے مواد بھرے ہوتے تھے۔ یہی وجہ تھی جو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر طرح طرح کے عذاب نازل کئے اور ان کو مختلف مصیبتوں میں ڈالا اور ذلیل کیا یہاں تک کہ انہیں سؤر اور بندر بنایا اب غور کا مقام ہے۔ کیا وہ تورات کو نہیں مانتے تھے؟ وہ ضرور مانتے تھے اور نبیوں کے بھی ماننے والے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اتنی ہی بات کو پسند نہ کیا کہ وہ نرے زبان سے ماننے والے ہوں اور ان کے دل زبان سے متفق نہ ہوں۔خوب یادرکھنا چاہئے اگر کوئی شخص زبان سے کہتا ہے کہ میں خدا کو وَحْدَہٗ لَاشَرِیْک مانتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں۔ اور ایسا ہی اور ایمانی امور کا قائل ہوں لیکن اگر یہ اقرار صرف زبان ہی تک ہے اور دل معترف نہیں تو یہ زبانی باتیں ہوں گی۔اور نجات اس سے نہیں مل سکے گی جب تک انسان کا دل ایمان نہ لائے۔ اور اس کا ایمان لانایہی ہوگا کہ وہ عملی حالت میں ان امور کو ظاہر کردے اُس وقت تک کوئی بات بنتی نہیں۔

سوال: ہماری بیعت کس طرح کی ہونی چاہئے؟
جواب:حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی۔ ایسی بیعت سے حصہ دار ہونا مشکل ہوتا ہے۔ اسی وقت حصہ دار ہو گا جب اپنے وجود کو ترک کر کے بالکل محبت اور اخلاص کے ساتھ اسکے ساتھ ہو جاوے۔

…٭…٭…٭…