اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-01-19

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ22؍جولائی2022بطرز سوال وجواببمنظوری سیّدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ راشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بابرکت دَور میں باغی مرتدین کے خلاف ہونے والی مہمات کا تذکرہ

سوال:حضور انور نے جنگ ذات السلاسل کی بابت کیا فرمایا؟


جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:یہ جنگ محرم الحرام 12؍ہجری میں ہوئی ۔ یہ جنگ تین ناموں سے معروف ہے۔ جنگِ ذات السلاسل، جنگِ کاظمہ اور جنگِ حَفِیر۔ اس جنگ کو ذاتُ السَّلَاسِل یعنی زنجیروں والی جنگ اس لیے کہا جاتا ہے کہ عربی میں سلسلۃ زنجیر کو کہتے ہیں جسکی جمع سلاسل ہے۔ کیونکہ اس جنگ میں ایرانی فوج نے اپنے آپکو ایک دوسرے کے ساتھ زنجیروں میں جکڑ لیا تھا تا کہ کوئی شخص جنگ سے بھاگنے نہ پائے۔ جنگِ ذات السلاسل کی اس روایت کو بعض مؤرخین تسلیم نہیں کرتے۔ یہ جنگ مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان کَاظِمَہ مقام کے قریب لڑی گئی تھی اسلئے اسے جنگِ کاظمہ کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔ کاظمہ بصرہ سے بحرین جاتے ہوئے بحرسیف البحر پر ایک بستی ہے۔


سوال:جنگِ ذات السلاسل کو حفیر کیوں کہا جاتا ہے؟


جواب:حضور انور نے فرمایا:حَفِیر علاقہ میں ہونے کی وجہ سے اس جنگ کو جنگِ حفیر بھی کہا جاتا ہے۔


سوال:مسلمانوں اور ایرانیوں کی طرف سے ذاتُ السَّلَاسِل جنگ کے سپہ سالار کون تھے؟


جواب:حضور انور نے فرمایا:مسلمانوں کی طرف سے اس جنگ کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولیدؓ تھے اور ایرانیوں کی جانب سے سپہ سالار کا نام ہُرمز تھا۔ مسلمانوں کے لشکر کی تعداد اٹھارہ ہزار تھی۔


سوال:عرب کے لوگ کسی شخص کی خباثت کا ذکر کرتے ہوئے ہرمز کا نام بطور ضرب المثل کیوں استعمال کرتے تھے؟


جواب:حضور انور نے فرمایا:عربوں میں اسکو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ وہ ان عربوں پر تمام سرحدی امراء سے زیادہ سختی اور ظلم کرتا تھا۔ عربوں کی نفرت اس حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ وہ کسی شخص کی خباثت کا ذکر کرتے ہوئے ہُرمُز کا نام بطور ضرب المثل لینے لگے تھے۔ چنانچہ کہتے تھے کہ فلاں شخص تو ہُرمُز سے بھی زیادہ خبیث ہے۔ فلاں ہُرمُز سے بھی زیادہ بدفطرت اور بدطینت ہے۔ فلاں شخص ہُرمُز سے بھی زیادہ احسان فراموش ہے۔


سوال:حضرت خالد بن ولید ؓنے یمامہ سے روانگی سے قبل ہُرمُز کو کیا خط لکھا تھا؟


جواب:حضور انور نے فرمایا: حضرت خالد بن ولید ؓنے ہُرمُز کو لکھا کہ اَمَّا بَعد! فرمانبرداری اختیار کر لو، تم محفوظ رہو گے یا اپنی اور اپنی قوم کیلئے حفاظت کی ضمانت حاصل کر لو اور جزیہ دینے کا اقرار کرو ورنہ تم بجز اپنے آپکے کسی اَور کو ملامت نہیں کر سکو گے۔ میں تمہارے مقابلے کیلئے ایسی قوم کو لایا ہوں جو موت کو یوں پسند کرتی ہے جیسے تم زندگی کو پسند کرتے ہو۔


سوال:جب حضرت خالد ؓکا خط ہُرمُز کے پاس پہنچا تو کیا ہوا؟


جواب:حضور انور نے فرمایا:جب حضرت خالد ؓکا خط ہُرمُز کے پاس پہنچا تو اس نے اردشیر شاہ ِکسریٰ کو اسکی اطلاع دی اور اپنی فوجیں جمع کیں اور ایک تیز رَو دستے کو لے کر فوراً حضرت خالد ؓکے مقابلے کیلئے کاظمہ پہنچا اورمگر اس نے حضرت خالد بن ولید ؓکو وہاں نہ پایا اور اسکو یہ اطلاع ملی کہ مسلمانوں کا لشکر حَفِیر میں جمع ہو رہا ہے۔ اس لیے پلٹ کر حفیر کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں پہنچتے ہی اپنی فوج کی صف آرائی کی۔ ہُرمُز نے اپنے دائیں بائیں دو بھائیوں کو مقرر کیا۔ ان میں سے ایک کا نام قُبَاذْ اور دوسرے کا نام اَنُوْشَجَانَ تھا۔ ایرانیوں نے اپنے آپ کو زنجیروں میں جکڑ لیا تھا۔


سوال:جب حضرت خالد ؓکو ہُرمُز کے حفیر پہنچنے کی اطلاع ملی تو آپؓ کہاں گئے؟


جواب:حضور انور نے فرمایا:جب حضرت خالد ؓکو ہُرمُز کے حفیر پہنچنے کی اطلاع ملی تو آپ اپنے لشکر کو لے کر کاظمہ کی طرف مڑ گئے۔


سوال:جب ہرمز کو پتا چلا کہ حضرت خالد کاظمہ میں پڑائو کئے ہوئے ہیں تو اس نے کیا کیا؟


جواب:حضور انور نے فرمایا:ہُرمُزفوراً کاظمہ کی طرف روانہ ہوا اور وہاں پڑاؤ کیا۔ ہُرمُز اور اس کے لشکر نے صف آرائی کی اور پانی پر ان کا قبضہ تھا۔


سوال:ہرمز نے حضرت خالدؓکیلئے کیا سازش تیار کی تھی؟


جواب:حضور انور نے فرمایا: ہرمُز نے حضرت خالدؓ کیلئے ایک سازش تیار کی۔ اس نے اپنے دفاعی دستے سے کہا کہ مَیں حضرت خالد ؓکو مبارزت کی دعوت دیتا ہوں اور اس دوران کہ مَیں ان کو اپنے ساتھ مصروف رکھوں گا تم لوگ اچانک چپکے سے حضرت خالد ؓپر حملہ کر دینا۔


سوال:ہرمز کا قتل حضرت خالدؓ نےکس طرح کیاتھا؟


جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت خالد ؓاور ہُرمُزدونوں میں مقابلہ ہوا۔ دونوں طرف سے وار ہونے لگے۔ اس پر ہُرمُز کے دفاعی دستے نے خیانت سے کام لیتے ہوئے حضرت خالد ؓپر حملہ کر دیا اور انہیں گھیرے میں لے لیا۔ اسکے باوجود حضرت خالد ؓنے ہُرمُز کا کام تمام کر دیا۔


سوال:حضرت قَعْقَاعْ بن عَمروؓ نے جب ایرانیوں کی یہ خیانت دیکھی تو کیا کیا؟


جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت قَعْقَاعْ بن عَمروؓ نے جیسے ہی ایرانیوں کی یہ خیانت دیکھی تو ہُرمُز کے دفاعی دستے پر حملہ کر دیا اور انہیں گھیرے میں لے کر موت کی نیند سلا دیا۔ ایرانیوں کو شکستِ فاش ہوئی اور وہ بھاگ گئے۔ بھاگنے والوں میں قُبَاذْ اور اَنُوْشَجَانَ بھی تھے۔


سوال:حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی وہ کون سی پالیسی تھی جو جنگ ذات السلاسل میں مسلمانوں کی فتح کا باعث ہوئی؟


جواب:حضور انور نے فرمایا: جنگِ ذات السلاسل میں مسلمانوں کی فتح کی ایک بڑی وجہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ پالیسی بھی تھی جو انہوں نے عراق کے کاشتکاروں کے بارے میں وضع کی تھی اور جس پر خالدؓ نے سختی سے عمل کیا تھا، اس پالیسی کے تحت انہوں نے کاشتکاروں سے مطلق تعرض نہ کیاجہاں جہاں وہ آباد تھے انہیں وہیں رہنے دیا اور جزیہ کی معمولی رقم کے سوا اَور کسی قسم کا تاوان یا ٹیکس ان سے وصول نہ کیا۔


سوال:اس جنگ میں کیا کیا مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا؟


جواب:حضور انور نے فرمایا:جنگ کے اختتام پر ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر زنجیریں بھی تھیں۔ ان کا وزن ایک ہزار رَطَلْ تھا یعنی زنجیروں کا تقریبا ًتین سو پچہتر کلو۔جو مالِ غنیمت حضرت ابوبکرؓ کی طرف بھیجا گیا اس میں ہُرمُز کی ایک ٹوپی بھی تھی جس کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی اور وہ جواہرات سے مرصّع تھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ ٹوپی حضرت خالد بن ولیدؓکو عطا فرما دی تھی۔ حضرت خالدؓنے فتح کی خوشخبری، مال غنیمت میں سے خُمُس اور ایک ہاتھی مدینہ روانہ کیا اور ہر طرف اسلامی لشکر کی فتح کا اعلان کر دیا ۔


سوال:حضور انور نے جنگ اُبُلَّہْ کی بابت کیا فرمایا؟


جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جنگ اُبُلَّہْ کا ذکر ہے جو بارہ ہجری میں لڑی گئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد ؓکو ہدایت کی تھی کہ وہ عراق میں جنگ کا آغاز اُبُلَّہ سے کریں جو خلیج فارس پر ایک سرحدی مقام تھا۔ ہندوستان اور سندھ کو جو تجارتی قافلے عراق سے آتے تھے سب سے پہلے اُبُلَّہ میں قیام کرتے تھے۔


سوال:معرکہ ذَاتُ السَّلَاسِل میں شامل ہونے والے سوار اور پیدل کوکتنا حصہ دیاگیا؟


جواب:حضور انور نے فرمایا:معرکہ ذَاتُ السَّلَاسِل میں جنگ میں شامل ہونے والے سوار کو ایک ہزار درہم کا حصہ دیا گیا اور پیدل کو اسکا ایک تہائی دیا گیا۔


سوال:جنگ کاظمہ دوررَس نتائج کی حامل کس طرح ثابت ہوئی؟


جواب:حضور انور نے فرمایا: جنگ کَاظِمَہ دوررَس نتائج کی حامل ثابت ہوئی۔ اس لڑائی نے مسلمانوں کی آنکھیں کھول دیں اور انہوں نے دیکھ لیا کہ وہ ایرانی جن کی سطوت کا شہرہ ایک عرصہ سے سننے میں آ رہا تھا اپنی پوری طاقت کے باوجود ان کی معمولی فوج کے مقابلے میں بھی نہ ٹھہر سکے۔ اس جنگ میں مالِ غنیمت کی جو مقدار ان کے ہاتھ لگی اس کا وہ تصور بھی نہ کر سکتے تھے۔


سوال:جنگ اُبُلّہ کی فتح کے بعد عام رعایا کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟


جواب:حضور انور نے فرمایا:اس فتح کے بعد عام رعایا سے بے حد نرمی کا سلوک کیا گیا۔ کاشتکاروں اور ان تمام لوگوں کو بغیر کسی قسم کی تکلیف پہنچائے جزیہ کی ادائیگی پر آمادہ کر دیا گیا اور انہیں ان کی زمینوں اور جگہوں پر برقرار رکھا گیا۔ ان ابتدائی امور سے فراغت حاصل کر کے حضرت خالد ؓنے مفتوحہ علاقے کے نظم و نسق کی طرف توجہ کی۔


سوال:جنگ ابلہ کے معاملات سے فارغ ہونے کے بعد حضرت خالد بن ولید کس کی جستجو میں لگ گئے؟


جواب:حضور انور نے فرمایا:اس جنگ کے بعد کے معاملات سے فارغ ہونے کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓدشمن کی نقل و حرکت کی خبروں کی جستجو میں لگ گئے۔تا کہ دیکھیں دشمن کی کیا موومنٹ ہے۔ وہ دوبارہ اسلام کے خلاف اکٹھے تو نہیں ہو رہے؟


سوال:حضور انور نے جنگ ولجہ کی بابت کیا فرمایا؟


جواب:حضور انور نے فرمایا: جنگِ وَلَجَہ صفر بارہ ہجری میں ہوئی۔ وَلَجَہ کَسْکَر کے قریب خشکی کا علاقہ ہے۔ جنگ مَذار میں ایرانیوں کو جس شرمناک شکست کا سامان کرنا پڑا کہ اس میں ان کے بڑے بڑے سردار بھی مارے گئے تھے۔


سوال:ایرانیوں کی شرمناک شکست پر ایرانی شہنشاہ نے کیا منصوبہ بندی کی؟


جواب:حضور انور نےفرمایا: اس پر ایرانی شہنشاہ نے ایک اَور حکمت عملی طے کرتے ہوئے اَور زیادہ تیاری کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ چنانچہ ایرانی حکومت نے عراق میں بسنے والے عیسائیوں کے ایک بہت بڑے قبیلہ بَکْر بن وَائِل کے سرکردہ لوگوں کو دربارِ ایران میں بلایا اور ان کو مسلمانوں کے ساتھ لڑنے پر آمادہ کر کے ایک لشکر ترتیب دیا اور اس لشکر کی قیادت ایک مشہور شہسوار اَنْدَرْزَغَرْ کے ہاتھ میں دی اور یہ لشکر وَلَجَہ کی طرف روانہ ہو گیا۔


سوال:جب خالد بن ولید کو فارسی فوج کے وجد میں جمع ہونے کی خبر ملی تو آپؓ نے کیا کیا؟


جواب:حضور انور نے فرمایا:جب حضرت خالد بن ولید ؓکو فارسی فوج کے وَلَجہ میں جمع ہونے کی خبر ملی اس وقت آپؓ بصرہ کے قریب تھے۔ آپؓنے مناسب سمجھا کہ فارسی فوج پر تین جہات سے حملہ کریں تاکہ ان کی جمعیت منتشر ہو جائے اور اس طرح اچانک حملے سے فارسی فوج پریشانی کا شکار ہو جائے۔


سوال:اَمْغِیْشِیَا کی فتح کے بارے میں کیا بیان ہوا ہے؟


جواب:حضور انور نے فرمایا:جب حضرت خالد ؓاُلَّیْس کی فتح سے فارغ ہو گئے تو آپ نے تیاری کی اور اَمْغِیْشِیَا آئے مگر آپؓ کے آنے سے قبل ہی وہاں کے باشندے جلدی سے بستی چھوڑ کر بھاگ گئے اور سَوَادْ میں منتشر ہو گئے۔ عراق میں وہ بستیاں جن کو مسلمانوں نے حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں فتح کیا تو وہاں کھیتوں میں سرسبزی کی وجہ سے اسے سَوَاد کا نام دیا گیا۔ حضرت خالد ؓنے اَمْغِیْشِیَا اور اسکے قرب و جوار میں جو کچھ بھی تھا اسے منہدم کرنے کا حکم دیا۔ اَمْغِیْشِیَا حِیْرَہ کے برابر کا شہر تھا۔


سوال:مسلمانوں کو اَمْغِیْشِیَا سےکس قدر مال غنیمت حاصل ہوا؟


جواب:حضور انور نے فرمایا:مسلمانوں کو اَمْغِیْشِیَا سے اس قدر مال غنیمت حاصل ہوا کہ ذات السلاسل سے لے کر اب تک کسی جنگ میں حاصل نہیں ہوا تھا۔ ٭٭٭