سوال:حیرہ کس کا مرکز تھا اور اس کا حاکم کون تھا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: حِیْرَہ عیسائی عربوں کا قدیم مرکز تھا اور اس وقت حِیْرَہ کا حاکم ایک ایرانی تھا۔
سوال:حضرت خالد نے امغیشیا سے حیرہ کب کوچ کیا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:جنگ حِیْرَہ، ربیع الاول بارہ ہجری کے اوائل میں حضرت خالد ؓنے امغیشیا سے حِیْرَہ کی طرف کوچ کیا۔
سوال:حیرہ کے حاکم نے حضرت خالدرضی اللہ عنہ سے جنگ کی تیاریاں کب شروع کی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: حِیْرَہ کے حاکم کو اندازہ تھا کہ اب خالدؓ کی فوجوں کا رخ اسکی طرف ہو گا اس لیے اس نے حضرت خالدؓ سے جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں اور اس نے یہ اندازہ بھی کر لیا کہ خالدؓ ادھر آنے کیلئے دریائی راستہ اختیار کریں گے اور کشتیوں پر سوار ہو کر پہنچیں گے۔
سوال:حیرہ کے حاکم نے اپنے بیٹے کو کیا حکم دیا تھا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:اس نے اپنے بیٹے کو دریائے فرات کا پانی روکنے کا حکم دیا تا کہ خالد کی کشتیاں دلدل میں پھنس جائیں اور خود اسکے پیچھے چلا اور حِیْرَہ کے باہر اپنے لشکر کو ٹھہرایا۔
سوال:حضرت خالد ؓ جب امغیشیا سے روانہ ہوئے تو آپؓ کو کس قسم کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: جب حضرت خالدؓ امغیشیا سے روانہ ہوئے اور سامان اور مالِ غنیمت کے ساتھ فوج بھی کشتیوں میں سوار کر ا دی گئی تو پانی کی کمی کی وجہ سے کشتیاں زمین کے ساتھ لگنے کی وجہ سے حضرت خالد ؓکو بڑی پریشانی ہوئی۔
سوال:جب کشتیاں زمین کے ساتھ لگنے لگیں تو ملاحوں نے حضرت خالد ؓ سے کیا کہا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:ملاحوں نے کہا کہ اہل فارس نے فرات کا پانی اس طرف آنے سے روک کر نہروں کو کھول دیا ہے۔ تمام پانی دوسرے راستوں کی طرف بہ رہا ہے۔ جب تک نہریں بند نہ ہوں گی ہمارے پاس پانی نہیں آ سکتا۔
سوال:حضرت خالد جب سواریوں کے ساتھ ایک دستہ لیکر حاکم کے بیٹے کے پاس پہنچے تو کیا صورتحال عمل میں آئی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:اس پر حضرت خالد ؓفوراً سواروں کا ایک دستہ لے کر حاکم کے بیٹے کی طرف بڑھے۔ راستے میں دریائے عتیق کے کنارے پر لشکر کے ایک حصہ سے حضرت خالدؓکی مڈھ بھیڑ ہوئی۔ حضرت خالدؓ نے ان پر اچانک حملہ کر دیا جبکہ وہ بالکل غافل تھے۔ حضرت خالدؓنے ان سب کا خاتمہ کر دیا۔ پھر آگے بڑھے اور دیکھا کہ حاکم حِیْرَہ کا بیٹا دریا کا رخ پھیرنے کے کام کی نگرانی کر رہا ہے۔ انہوں نے اچانک اس پر حملہ کر کے اسکو اور اسکی فوج کو قتل کر دیا اور بند توڑ کر دریا میں دوبارہ پانی جاری کروا دیا اور پھر خود وہاں کھڑے ہو کر اس کام کی نگرانی کرتے رہے یہاں تک کہ کشتیوں نے دوبارہ سفر شروع کر دیا۔
سوال:حضرت خالد بن ولید ؓنے قلعوں کا محاصرہ کن طریقوں سے کیا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: حضرت خالد بن ولید ؓنے قلعوں کا محاصرہ مندرجہ ذیل طریقہ سے کیا۔ ضرار بن اَزور قصر ابیض کے محاصرہ کیلئے مقرر ہوئے۔ اس میں ایاس بن قُبیصہ طائی پناہ گزین تھا۔ ضرار بن خطاب قصر عدسیّین کے محاصرےکیلئے مقرر ہوئے۔ اس میں عدی بن عدی پناہ گزین تھا۔ ضرار بن مقرن قصر بنی مازن کے محاصرہ کیلئے مقرر ہوئے اس میں ابن أکّال پناہ گزین تھا۔ مثنیٰ بن حارثہ قصر ابن بُقیلہ کے محاصرہ کیلئے مقرر ہوئے اس میں عمرو بن عبدالمسیح پناہ گزین تھا۔
سوال:حضرت خالدرضی اللہ عنہ نے اپنے امراءکے نام کیا فرمان جاری فرمایا؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: حضرت خالد ؓنے اپنے امراء کے نام یہ فرمان جاری کیا کہ وہ پہلے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو ان کے اسلام کو مان لیں اور اگر وہ انکار کریں تو انہیں ایک دن کی مہلت دیں اور انہیں حکم دیا کہ دشمن کو موقع نہ دیں بلکہ ان سے قتال کریں اور مسلمانوں کو دشمن سے قتال کرنے سے نہ روکیں۔
سوال:وہ کیا معاہدہ تھا جو مسلمانوں اور اہل حیرہ کے درمیان ہوا تھا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت خالد ؓنے اہلِ حِیْرَہ اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والا معاہدہ لکھا جو یہ تھا۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ یہ وہ معاہدہ ہے جو خالد بن ولید نے عدی بن عدی، عمرو بن عدی، عمرو بن عبدالمسیح، ایاس بن قَبیصہ اورحِیری بن اکّال سے کیا ہے۔ یہ اہل حِیْرَہ کے سردار ہیں اور حِیْرَہ والے اس معاہدے پر راضی ہیں اور انہوں نے اس کا انہیں حکم دیا ان سے ایک لاکھ نوے ہزار درہم پر معاہدہ کیا ہے جو ہر سال ان سے ان کی حفاظت کے عوض وصول کیا جائے گا۔
یعنی مقامی لوگوں کی حفاظت کیلئے یہ جزیہ لگایا کہ جو دنیاوی مال و متاع ان کے قبضہ میں ہے خواہ وہ راہب ہوں یا پادری لیکن جن کے پاس کچھ نہیں، دنیا سے الگ ہیں، اس کو چھوڑ چکے ہیں، یہ معاہدہ ان کی حفاظت کی شرط پر ہے۔ اور اگر وہ ان کی حفاظت کا انتظام نہ کر سکیں تو ان پر کوئی جزیہ نہیں یہاں تک کہ وہ یعنی حاکم ان کی حفاظت کا انتظام کرے۔ اگر انہوں نے اپنے کسی فعل یا قول کے ذریعہ سے غداری کی تو یہ معاہدہ فسخ ہو جائے گا۔
سوال:حیرہ کی فتح کے بعد حضرت خالد ؓ نے کتنی رکعت نماز پڑھائی اور نماز سے فارغ ہونےکے بعد لوگوں سے کیا کہا ؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:جب حِیْرَہ فتح ہو گیا تو حضرت خالد ؓنے نماز فتح پڑھی جس میں آٹھ رکعات ایک سلام سے ادا کیں۔ یعنی اکٹھی آٹھ رکعات پڑھیں۔ اس سے فارغ ہو کر آئے تو کہا جنگ موتہ میں جب میں نے لڑائی کی تھی تو اس وقت میرے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹی تھیں۔ میں نے کبھی کسی قوم سے جنگ نہیں کی جیسی اس قوم سے جنگ کی ہے جو اہل فارس میں سے ہیں اور میں نے اہل فارس میں سے کسی سے جنگ نہیں کی جیسی اہل اُلَیس سے کی۔
سوال:حاکم کو جب معلوم ہوا کہ اردشیر مر گیا ہے تو اس نے کیا کیا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:جب حاکم کو معلوم ہو گیا کہ اردشیر مر گیا ہے اور خود اسکا بیٹا بھی جنگ میں مارا جا چکا ہے تو وہ بغیر لڑے دریائے فرات عبور کر کے بھاگ گیا لیکن حاکم کے بھاگ جانے کے باوجود اہل حِیْرَہ نے ہمت نہیں ہاری اور وہ قلعہ بند ہو گئے۔ یہاں چار قلعے تھے اور چاروں قلعوں میں محصور ہو کر لڑائی کی تیاری کرنے لگے۔
سوال:حیرہ کی فتح کی اہمیت کی بابت حضور انوراہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:فتح حِیْرَہ عظیم جنگی اہمیت کی حامل ثابت ہوئی۔ اس سے مسلمانوں کی نگاہ میں فتح فارس کی امیدیں بڑھ گئیں کیونکہ عراق اور فارسی سلطنت کے لئے جغرافیائی اور ادبی حیثیت سے اس شہر کی بڑی اہمیت تھی۔ اس کو اسلامی فوج کے سپہ سالار اعظم نے اپنا مرکز اور صدر مقام قرار دیا جہاں سے اسلامی افواج کو ہجوم و دفاع اور نظم و امداد کے احکام جاری کیے جاتے تھے اور قیدیوں کے امور کے نظم و ضبط سے متعلق تدبیر و سیاست کا مرکز بنایا اور وہاں سے حضرت خالدؓ نے خراج اور جزیہ کو وصول کرنے کیلئے مختلف صوبوں پر عامل مقرر کیے اور اس طرح سرحدوں پر امراء مقرر کیے تا کہ دشمن سے حفاظت ہو سکے اور خود یہاں ٹھہر کر نظام امن و استقرار بحال کرنے میں لگ گئے۔ آپ کی خبریں جاگیرداروں اور سرداروں کو ملیں۔ وہ آپؓسے مصالحت کیلئے آگے بڑھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ فتح پا رہے ہیں تو انہوں نے مصالحت کر لی۔ سواد عراق اور اسکے اطراف میں کوئی باقی نہ رہا جس نے مسلمانوں کے ساتھ مصالحت یا معاہدہ نہ کر لیا ہو۔
سوال: حضرت خالد کتنے سالوں تک حیرہ میں مقیم رہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت خالدؓ ایک سال تک حِیْرَہ میں مقیم رہے اور شام کی طرف روانگی سے قبل اسکے بالائی اور زیریں علاقوں میں دورے کرتے رہے اور اہل فارس بادشاہ بناتے رہے اور معزول کرتے رہے۔
سوال:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ انبار یا ذات العیون کی بابت کیا فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: جنگ انبار یا ذات العیون جو بارہ ہجری میں ہوئی۔ ایرانی فوج حِیْرَہ کے بالکل قریب انبار اور عین التمر میں خیمہ زن ہو چکی تھی۔ انبار کی وجہ تسمیہ میں لکھا ہے کہ عربی زبان میں انبار غلہ و سامان رکھنے کی کوٹھڑی کو کہتے ہیں اور اس شہر کو انبار اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہاں کھانے پینے کی چیزیں بکثرت موجود تھیں۔ عین التمر انبار کے قریب کوفہ کے مغرب میں واقع ایک شہر ہے۔
سوال:جنگ انبار میں حضرت خالد نے خندق پار کرنے کیلئے کیا تدبیر کی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت خالد بن ولید ؓاپنی فوج کے کچھ کمزور اور نڈھال اونٹ لے کر خندق کے تنگ ترین مقام پر آئے۔ پھر اونٹوں کو ذبح کر کے اس خندق میںڈال دیا جس سے وہ بھر گئی اور ان جانوروں سے ایک پل بن گیا۔ اب مسلمان اور مشرکین خندق میں ایک دوسرے کے سامنے تھے۔ یہ دیکھ کر دشمن پسپا ہو کر قلعہ بند ہو گیا۔
سوال:اہل دومہ کو جب حضرت خالد ؓ کے آنے کی اطلاع ملی تو کیا ہوا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:اہل دومہ کو حضرت خالدؓ کے آنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنے حلیف قبائل سے مدد طلب کی۔ یہ قبائل اپنے ساتھ کئی اَور قبائل کو ملا کر دومۃ الجندل پہنچے اور انکی تعداد اس وقت سے کئی گنا زیادہ تھی جب ایک سال قبل حضرت عیاضؓ ان کی سرکوبی کیلئے پہنچے تھے۔ دومۃ الجندل کی فوج دو بڑے حصوںمیں منقسم تھی۔